مسیحیوں کی مقدس کتاب ’بائبل‘ میں 17 مرتبہ جس خوراک کا ذکر ملتا ہے وہ صدیوں تک بحیرہ روم کے علاقے میں اُگائی جاتی رہی ہے۔ مگر پھر وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ لوگ اسے بھولتے گئے البتہ اب ایک کسان اس ’سپر فوڈ‘ کی دوبارہ کاشت کر رہے ہیں تاکہ یہ پھر سے ہماری خوراک کا حصہ بن سکے۔
لیکن اس کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ہمیں اٹلی کے شہر سسلی جانا پڑے گا جہاں کے پہاڑوں پر آج کل موسم گرم مرطوب ہے۔
درختوں کے جھنڈ میں جھینگر کی آوازیں گونج رہی ہیں۔ اسی دوران جولیو جیلارڈی نامی کسان ہمیں ایک درخت کی شاخ دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’آپ صحیح وقت پر آئے ہیں، یہ ہے مشہور من (یعنی من و سلویٰ جو خدا کی جانب سے بنی اسرائیل کو کھلایا گیا)۔‘
ہر درخت کی چھال پر من (عربی میں اَلْمَنُّ) کی موٹی سفید دھاریں دکھائی دے رہی ہیں۔
من سفید رنگ کا قدرتی رس ہوتا ہے جو درخت کی چھال سے نکلتا ہے۔ یہ صحت کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے اور بائبل میں بھی اس کا کئی بار ذکر آیا ہے۔ صدیوں پہلے لوگ اسے مٹھاس کے حصول اور دوا کے طور پر اس کا استعمال کرتے تھے۔
پرانے وقتوں یہ رس ’من‘ پورے بحیرہ روم میں درختوں کی چھال چھیل کر نکالا جاتا تھا لیکن پچھلے 80 برسوں میں شہروں اور فیکٹریوں کے بڑھنے کی وجہ سے یہ روایت دم توڑتی گئی۔
لیکن پچھلے 30 سالوں سے جولیو اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ بائبل میں درج اس ’سُپر فوڈ‘ من کو خوراک کا حصہ بنایا جائے۔ اور ان کی کوششوں کی بدولت آج شیف اور بیکریوں میں کام کرنے والے اسقدرتی رس کو نئی نئی ترکیبوں میں استعمال کر رہے ہیں۔
چاہے آپ نے کبھی من چکھا نہ ہو مگر آپ نے اس کا نام ضرور سُنا ہو گا۔
من و سلویٰ وہ کھانا تھا جس کا ذکر مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن میں بھی بنی اسرائیل پر خدا کی ایک خاص نعمت کے طور پر آیا ہے۔
حضرت موسیٰ جب بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلا کر صحرائے سینا میں لائے اور وہ وہاں بھٹک رہے تھے تو بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے شکایت کی کہ وہ ہر روز ایک ہی قسم کا کھانا کھا کھا کر تنگ آ گئے ہیں تب خدا نے ان پر ’من و سلویٰ‘ نازل فرمایا تاکہ ان کی جسمانی و روحانی ضروریات پوری ہو سکیں۔
بائبل میں بھی اسی واقعے کا ذکر ملتا ہے۔
بائبل کی دوسری کتاب ایکسوڈس (خروج) میں من کو ’ایک برف کی طرح باریک اور سفید تہہ‘ جیسے کھانے کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو زمین پر بچھی ہوتی تھی۔
ماہرین اب تک اس بات پر متفق نہیں ہو سکے کہ بائبل میں جس چیز کا ذکر کیا گیا وہ اصل میں کیا تھی، لیکن صدیوں سے بحیرہ روم کے علاقے میں ’ایش ٹری‘ نامی درختوں کی چھال سے جو سفید، شہد جیسا اور پرت دار مادہ حاصل کیا جاتا ہے، اسے بھی من پکارا جاتا ہے۔
سسلی کے میڈونی پہاڑوں میں جہاں 40 ہزار ہیکٹر پر محیط ’میڈونی نیشنل پارک‘ واقع ہے، یہاں من حاصل کرنے کا عمل کم از کم نویں صدی سے جاری ہے۔ اُس وقت اس علاقے پر عربوں کی حکمرانی تھی۔
نشاۃ ثانیہ کے دور میں سسلی کے کسان یہ میٹھا رس (جس کا ذائقہ گنے کی مٹھاس جیسا ہوتا ہے لیکن اس میں ہلکی بادام جیسی خوشبو بھی ہوتی ہے) نکالتے اور اسے بحیرہ روم کے مختلف تاجروں کو فروخت کرتے تھے۔ یہ تجارت اتنی منافع بخش تھی کہ 16ویں صدی میں نیپلز کی حکومت نے اس پر ٹیکس لگا دیا تھا۔
’ایک کلو پنیر کی قیمت ساڑھے تین لاکھ روپے‘: گدھی کے دودھ سے تیار یہ پنیر اتنا مہنگا کیوں؟’میٹ انٹولرینس‘: کیا یہ ممکن ہے کہ ہمارا معدہ گوشت کو ہضم کرنا بھول جائے؟ہلدی، ادرک، کافی، لیموں: کیا چند مخصوص غذاؤں کا استعمال کر کے وزن کم کیا جا سکتا ہےروٹی ’دو وقت کی‘ لیکن کھانے کے اوقات تین: دن میں کتنی بار کھائیں اور کتنی دیر بھوکے رہیں
دوسری عالمی جنگ تک منا کی کاشت بہت سے سسلی خاندانوں کے لیے روزگار کا ذریعہ تھی۔ سنہ 1936 کی ایک پرانی ویڈیو میں مقامی کسان من اکٹھا کرتے دکھائی دیتے ہیں جو اُس وقت ادویات بنانے والی کمپنیوں کو فروخت کیا جاتا تھا۔ ان کمپنیوں کو اس سے ’مینٹول‘ نکالنے میں مدد ملتی تھی۔ یہ ایک قسم کی شکر ہے جو بطورِ مٹھاس اور بعض اوقات جسم سے پانی خارج کرنے والی دوا (diuretic) کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔
1950 کی دہائی میں سائنسدانوں نے مینٹول کو لیبارٹری میں تیار کرنا سیکھ لیا اور اس کے بعد کے برسوں میں منا نکالنے کا روایتی طریقہ تقریباً ختم ہو گیا۔
سنہ 1985 میں جب جولیو جیلارڈی 15 سال بعد اپنے آبائی گاؤں پولینا واپس لوٹے تو انھیں محسوس ہوا کہ ان کی ثقافت کا ایک اہم حصہ ختم ہونے کے قریب ہے۔ وہ کہتے ہیں ’میرے بچپن میں ہر کوئی جانتا تھا کہ من کیسے نکالا جاتا ہے۔ لیکن جب میں واپس آیا تو ایسے کسان 100 سے بھی کم رہ گئے تھے جو یہ کام کر سکتے ہوں۔‘
پولینا ایک قدیم چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں صرف تین ہزار کے قریب لوگ رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ چونا کے پتھر کے پہاڑوں کو تراش کر یہ قصبہ بنایا گیا ہو۔
جولیو جیلارڈی نے بچپن میں گرمیوں کے موسم میں اپنے والدین سے من نکالنا سیکھا تھا۔ وہ بتاتے ہیں ’منا نکالنے کا کام پورے خاندان کا ہوتا تھا۔‘ مرد ہاتھ سے بنی چھوٹی درانتی جیسے اوزاروں کی مد سے درخت کی چھال پر باریک کٹ لگاتے، عورتیں خشک کیکٹس کے پتوں کی مدد سے رس اکٹھا کرتیں اور بچے اس چپچپے رس کو کون جیسی ایک خاص شکل میں ڈھالتے جسے ’کینولی‘ کہا جاتا کیونکہ یہ سسلی کے مقامی میٹھے کی طرح دکھائی دیتا تھا۔
جیلارڈی کے مطابق من نکالنے کا سب سے مشکل حصہ یہ معلوم کرنا ہے کہ درخت کی چھال کب کاٹنی ہے۔ ’ایش ٹری‘ نامی درخت پورا سال رس بناتے ہیں لیکن وہ صرف سال کے سب سے گرم دنوں میں اتنا رس پیدا کرتے ہیں کہ اسے اکٹھا کیا جا سکے۔‘
جیلارڈی کہتے ہیں کہ اگر آپ چھال جلدی کاٹ دیں تو درخت من بنانا ہی بند کر دیتا ہے۔ وہ وضاحت کرتے ہیں ’درخت کو کب کاٹنا ہے یہ جاننے کے لیے ایک خاص مہارت چاہیے جو مشاہدے اور تجربے سے آتی ہے۔‘
ان کے بقول ’آپ کو ہر پودے کو ’سُننا‘ پڑتا ہے۔‘
مثال کے طور پر اگر درخت کے پتے گہرے سبز سے ہلکے سبز ہو جائیں اور ان پر زرد دھبے نظر آنے لگیں تو یہ ایک اشارہ ہے کہ اب درخت من نکالنے کے لیے تیار ہے۔
اسی طرح اگر درخت کی جڑوں کے اردگرد زمین میں دراڑیں پڑنے لگیں تو یہ بھی ایک علامت ہوتی ہے کیونکہ ایسے وقت میں پودا خشک سالی سے بچنے کے لیے اضافی رس پیدا کرتا ہے۔
جب کسانوں کو لگے کہ درخت تیار ہے تو وہ اس کی چھال پر ایک ہلکا سا کٹ لگاتے ہیں اور درخت کے ردِعمل کو دیکھتے ہیں۔ اگر درخت پرانا ہو تو تھوڑا سا سفید رس باہر آتا ہے، پھر کسان آہستہ آہستہ گہرے کٹ لگاتے ہیں اور درخت سے من جڑوں کی طرف بہنے لگتا ہے۔
جیلارڈی کہتے ہیں ’من نکالنے کا ہنر کوئی ایسی چیز نہیں جو آپ کتاب سے سیکھ سکیں۔ اگر ہم نے یہ ہنر اگلی نسلوں کو نہ سکھایا تو ہماری صدیوں پرانی یہ قیمتی روایت ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی۔‘
پولینا واپس آنے کے کچھ ہی مہینوں بعد جولیو جیلارڈی نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ من نکالنے کی دم توڑتی روایت کو دوبارہ زندہ کریں گے۔ شروع میں مقامی کسان ان کے منصوبے سے بالکل متاثر نہیں ہوئے۔
وہ ہنستے ہوئے ہمیں بتاتے ہیں ’میرے دوستوں نے کہا میں پاگل ہو گیا ہوں، ان کے خیال میں من کا دور ختم ہو چکا تھا۔‘
لیکن جیلارڈی نے ہار نہیں مانی۔ وہ مہینوں تک اس کے بارے میں سب کچھ سیکھتے رہے۔ انھوں نے بزرگ کسانوں کے ساتھ وقت گزارا تاکہ من نکالنے کی باریکیاں سیکھ سکیں اور وہ پالرمو کی پبلک لائبریری بھی گئے تاکہ اس پر مزید تحقیق کر سکیں۔
وہ کہتے ہیں ’مجھے پتا تھا کہ منا یہاں مٹھاس، جلد کو نرم کرنے اور جسم سے پانی نکالنے والی دوا کے طور پر استعمال ہوتا ہے‘ لیکن وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ یہ فوڈ پوائزننگ، جلدی بیماریوں، جوڑوں کے درد اور نزلہ زکام جیسے مسائل میں بھی فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
وقت کے ساتھ جیلارڈی کو یہ بھی سمجھ آیا کہ منا نے مقامی ثقافت اور جغرافیہ کو کس طرح متاثر کیا ہے۔ مثلاً گاؤں کے قریب کی ایک پہاڑی جس پر ایک مشہور عبادت گاہ واقع ہے اس کا نام ’جبل من‘ رکھا گیا ہے جو عربی الفاظ ’جبل‘ (پہاڑ) اور ’من‘ سے مل کر بنا ہے۔
اسی طرح مقامی زبان میں ایک کہاوت کا ترجعہ کچھ یوں بنتا ہے ’شہد اور منا کھا کر گزارا کرنا‘ جس کا مطلب ہے ایک آسودہ اور خوشحال زندگی گزارنا۔
سنہ 1986 میں جیلارڈی نے قریبی ریزورٹ میں آنے والے سیاحوں میں من سے متعلق معلوماتی پمفلٹ بانٹنے شروع کیے۔ وہ یاد کرتے ہیں ’سیاح منا کی شفا بخش خصوصیات اور مقامی ثقافت پر اس کے اثرات سے بہت متاثر ہوتے تھے۔‘
پھر 1990 کی دہائی میں وہ غیر ملکی سیاحوں کو من نکالنے کا عمل دکھانے کے لیے خصوصی ٹور کروانے لگے۔ وہ فخر سے کہتے ہیں ’لوگ اب اسے ہمارا مقامی سپر فوڈ سمجھنے لگے ہیں۔‘
من میں مینِٹول پایا جاتا ہے جو ایک قدرتی طور پر میٹھا کرسٹل نما مرکب ہے۔ اس کے ساتھ اس میں پوٹاشیئم، میگنیشیئم اور کیلشیئم جیسے اہم منرلز بھی ہوتے ہیں۔
یونیورسٹی آف پالرمو کی نباتات کی پروفیسر ویوین سپادارو کے مطابق یہ گاڑھا سفید رس قدرتی غذائی کے سپلیمنٹ کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ جسم میں خاص طور پر پوٹاشیئم جیسے معدنیات کی کمی کو پورا کیا جا سکے اور یہ کئی ادویات بنانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’من کو قبض، کھانسی، گلے کی خراش اور جلد کے زخموں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے کیونکہ اس میں سوزش کم کرنے اور آرام پہنچانے والی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔‘
سپادارو یہ بھی کہتی ہیں کہ چونکہ من کا گلیسیمک انڈیکس کم ہے (گلیسیمک انڈیکس وہ پیمانہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ کوئی غذا خون میں گلوکوز کی سطح کو کتنی تیزی سے بڑھاتی ہے)، اس لیے مخصوص اقسام کا منا ذیابیطس کے مریضوں اور کم کیلوریز والی ڈائٹ پر رہنے والوں کے لیے بطور میٹھا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جس وقت جیلارڈی سیاحوں کو من نکالنے کے ٹورز کروا رہے تھے تب انھوں نے اسے حاصل کرنے کا ایک نیا، زیادہ مؤثر طریقہ ایجاد کیا جس میں درخت کی چھال یا کیڑوں سے آلودگی کا خطرہ کم تھا۔
انھوں نے ایک تکنیک تیار کی جسے ’کلین من‘ کا نام دیا: اس میں درخت پر ایک چھوٹا ایلومینیم کا نالی نما پائپ لگایا جاتا ہے جس میں درخت سے بہنے والا منا نکلتا ہے۔ اس طریقے سے ان کی منا کی پیداوار تقریباً دگنا ہو گئی۔
آنے والے برسوں میں جیلارڈی نے یہ من بیکریوں اور پیسٹری بنانے والے شیفز کو بیچنا شروع کر دی جنھوں نے اسے کینولی، ویفرز، فلیکس اور چاکلیٹس جیسی چیزوں میں شامل کیا۔
ساتھ ہی انھوں نے دواخانوں کو بھی من فروخت کیا جہاں اسے قبض کشا، منرل سپلیمنٹس اور جلد کی مصنوعات بنانے کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ حالیہ برسوں میں فرانسیسی سکن کیئر برانڈز بائیو تھرم اور ویس روچر نے بھی منا کو اپنی موئسچرائزر مصنوعات میں شامل کیا ہے۔
سال 2002 میں بین الاقوامی ادارے سلو فوڈ نے میڈونی کے پہاڑوں سے حاصل ہونے والے من کو ’محفوظ خوراک‘ قرار دیا۔ 2000 کی دہائی کے وسط تک منا مقامی شیفز اور مٹھائی بنانے والوں میں بہت مقبول ہو چکا تھا۔
جوزیپے زِنگالیس جو قریبی گاؤں کاسٹیلبونو کے ریستوران میں شیف ہیں، بتاتے ہیں کہ میں نے من اور بادام سے فروٹ کیک (پینڈولچے) بنانا شروع کیا لیکن پھر مجھے اندازہ ہوا کہ منا نمکین کھانوں کے ساتھ بھی بہت اچھا ذائقہ دیتا ہے۔
ان کے ریستوران میں من سے بنے کئی منفرد پکوان ملتے ہیں۔
اسی قصبے کے ایک اور ریستوران میں شیف پیپے کیرولو اور ان کی بیٹی فرانچیسکا منا کو پیس کر اپنی مقبول ڈش میں اس کا استعمال کرتے ہیں۔
فرانچیسکا کہتی ہیں ’اہم بات یہ ہے کہ من کو سمجھداری سے استعمال کیا جائے۔ تھوڑا سا منا بھنے گوشت کے ذائقے کو ایک اچھا توازن دیتا ہے لیکن اگر زیادہ ڈالیں تو کھانا حد سے زیادہ میٹھا ہو جاتا ہے۔‘
من میں سب سے زیادہ دلچسپی پیسٹری شیفس کو ہے۔
نکولا فیاسکونارو اٹلی کے معروف پیسٹری ماسٹرز میں سے ایک ہیں۔ وہ ایک خاص پینیٹون تیار کرتے ہیں جو کرسمس پر کھایا جانے والا روایتی اٹالین فروٹ کیک ہے۔ یہ کیک چاکلیٹ اور جمے ہوئے منا کے ساتھ بنایا جاتا ہے۔
مشہور شیف ڈیوِدے اولدانی (جن کا ریستوران میلان کے قریب ہے) نے 2014 سے 2016 تک اپنے مینو میں چاکلیٹ میں ڈوبے ہوئے منا سٹکس بھی شامل کیے تھے۔
آج کل میڈونی کے اس سفید خزانے جسے اکثر ’سفید سونا‘ بھی کہا جاتا ہے، کی قیمت 200 یورو فی کلوگرام تک جا پہنچی ہے اور یہ چینی کے بغیر بنے بیکری آئٹمز جیسے مفنز اور بسکوٹی میں استعمال ہو رہا ہے۔
سنہ 2015 میں جیلارڈی اور دوسرے کسانوں نے مل کر منا تنظیم بنائی تاکہ منا کی مصنوعات کو فروغ دیا جا سکے اور نوجوان کسانوں کو منا نکالنے کی طرف راغب کیا جا سکے۔
زیادہ تر شیف اب اسی تنظیم سے منا خریدتے ہیں۔
ماریو چچرو، جو منا تنظیم کا حصہ ہیں، کہتے ہیں کہ ’میں بچپن سے منا کے بارے میں سنتا آیا ہوں لیکن کبھی اسے نکالنے کا طریقہ نہیں سیکھا۔‘
کاسٹیلبونو میں پیدا ہونے والے ماریو نے کئی سال تک دنیا کے مختلف ممالک میں بطور شیف کام کیا اور پھر واپس میڈونی آ گئے۔
اپنی تربیت کے دوران ماریو نے مہینوں جیلارڈی سمیت کئی بزرگ کسانوں کے ساتھ وقت گزارا۔ وہ کہتے ہیں: ’جولیو (جیلارڈی) نے مجھے منا نکالنے کے کئی طریقے سکھائے لیکن اصل چیز جو میں نے ان سے سیکھی وہ منا کی کاشت کا جنون تھا۔‘
آج ماریو کاسٹیلبونو کے قریب واقع اپنی زمین پر ایش ٹری کے 200 درخت سنبھالتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ مزید نوجوان بھی منا نکالنے کا یہ ہنر سیکھیں گے۔
نوجوان کسانوں کو نٹاکالووری (سسلی کی زبان میں اس کا مطلب ہے ’درخت کی چھال کاٹنے والا‘) کا پیشہ اپناتے دیکھ کر جیلارڈی کو سب سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’منا نکالنے کا ہنر سیکھنے والا ہر نوجوان ایک صدیوں پرانی روایت کو زندہ رکھنے میں مددگار ہے۔‘
’میٹ انٹولرینس‘: کیا یہ ممکن ہے کہ ہمارا معدہ گوشت کو ہضم کرنا بھول جائے؟’ایک کلو پنیر کی قیمت ساڑھے تین لاکھ روپے‘: گدھی کے دودھ سے تیار یہ پنیر اتنا مہنگا کیوں؟ہلدی، ادرک، کافی، لیموں: کیا چند مخصوص غذاؤں کا استعمال کر کے وزن کم کیا جا سکتا ہےروٹی ’دو وقت کی‘ لیکن کھانے کے اوقات تین: دن میں کتنی بار کھائیں اور کتنی دیر بھوکے رہیںلوو کیک: کرسمس پر بنایا جانے والا لذیذ کیک جس کا ذائقہ ’کسی اپنے کو گلے لگانے جیسا ہے‘