’میں نے یہاں 50 برس گزارے ہیں‘ ، افغانوں کی واپسی سست روی کا شکار کیوں؟

اردو نیوز  |  Apr 15, 2025

’میں نے پاکستان میں اپنی زندگی کے 50 برس گزارے ہیں۔ یہیں شادی ہوئی اور میرے بچے بھی اسی ملک میں پیدا ہوئے۔ میرے خاندان کے 10 افراد یہاں دفن ہیں۔ اس وجہ سے اب ہمیں واپس جانے کا جی نہیں چاہتا۔‘

یہ الفاظ ہیں پشاور میں مقیم ایک افغان شہری اکبر خان کے جو کئی دہائیوں سے یہاں پنا ریسٹورنٹ چلا رہے ہیں۔

اکبر خان کے سر پر بھی پاکستان سے واپسی کی تلوار لٹک رہی ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے ان افغانوں کو واپس اپنے وطن جانے کا حکم دیا گیا ہے جو یہاں حکومت کے بقول غیرقانونی طور پر مقیم ہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان شہریوں کی واپسی کی حکومتی ڈیڈلائن رواں ماہ کے آغاز میں ہی ختم ہو چکی تھی اور اس وقت متعدد افغان خاندانوں کی واپسی کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں کریک ڈاؤن جاری ہے۔

رواں برس کے دوران لگ بھگ 30 لاکھ افغانوں کی واپسی متوقع ہے جن میں سے لگ بھگ ایک تہائی پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں رہتے ہیں۔

یہ اعداد و شمار صرف ان افغانوں کے ہیں جن کے پاس افغان سیٹیزن کارڈ یا پروف آف رجسٹریشن موجود ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس قسم کی دستاویزات کے بغیر کتنے افغان پاکستان میں رہائش پذیر ہیں۔

وفاقی حکومت کے برعکس صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت افغانوں کو بے دخل کرنے کے معاملے میں کسی قدر تذبذب کا شکار ہے۔

افغانستان کے ساتھ صوبہ خیبر پختونخوا کے صدیوں پرانے نسلی، لسانی اور ثقافتی رشتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)دوسری جانب دشوار گزار پہاڑی سرحدی علاقہ، ملک میں عسکری گروہوں کی سرگرمیاں اور فرقہ وارانہ لڑائیاں مرکزی حکومت کی غیرملکیوں بالخصوص افغانوں کو نکالنے کی مہم کے لیے چیلنج بن رہی ہیں۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کنفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز کے مینیجنگ ڈائریکٹر عبداللہ خان کا کہنا ہے کہ ’افغانوں کو مکمل طور پر بے دخل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ سرحدی باڑ نصب ہونے کے باوجود غیرقانونی راستوں یا نظام کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر پھر واپس آ جاتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’سرحد پر کئی گاؤں ایسے ہیں جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان منقسم ہیں۔ اور گزشتہ تین چار دہائیوں سے آر پار کے افراد مسلسل آ جا رہے ہیں۔‘

دوسرا پہلو یہ ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا چونکہ افغانستان کے ساتھ متصل ہے اور اس کے افغانستان کے ساتھ صدیوں پرانے نسلی، لسانی اور ثقافتی رشتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ افغانوں کی فطری منزل بن جاتا ہے۔

اسی وجہ سے سنہ 1980 کے بعد سے افغانوں کی بہت بڑی تعداد خیبر پختونخوا میں مقیم ہے۔ ایسے افغان بھی کم نہیں ہیں جن کے پاکستانی شہریوں کے ساتھ ازدواجی بندھن قائم ہیں۔

عبداللہ خان نے اے پی کو بتایا گو کہ صوبائی حکومت افغانوں کی بے دخلی کے لیے مرکزی حکومت سے تعاون کر رہی ہے لیکن اس پالیسی پر عمل درآمد مجموعی طور پر سست روی کا شکار ہے۔

حکومت پر انسانی حقوق کی تنظیموں، امدادی ایجنسیوں اور افغان طالبان کی حکومت کا دباؤ بھی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے بتایا کہ ’مقامی (صوبائی) حکومت کئی وجوہات کی بناء پر افغانوں کے ساتھ ہمدردی رکھتی ہے۔ ان کی روایات اور ثقافت ایک جیسے ہیں اور جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان بھی اپنے دور حکومت میں افغان پناہ گزینوں کے ساتھ زور زبردستی کے رویے کی مسلسل مخالفت کرتے رہے ہیں۔‘

تجزیہ کار عبداللہ خان کے مطابق اسلام آباد، راولپنڈی سمیت پنجاب اور سندھ کے مختلف شہروں میں اٖفغان پناہ گزینوں کے خلاف چھاپے تو مارے جا رہے ہیں لیکن ان کی بے دخلی کے عمل میں سست روی کی ایک وجہ ’زیادہ جارحانہ عمل درآمد‘ کی کمی ہے۔

ان کے مطابق اس پالیسی پر عمل درآمد کی رفتار کم ہونے کہ ایک وجہ حکومت پر انسانی حقوق کی تنظیموں، امدادی ایجنسیوں اور افغان طالبان کی حکومت کا دباؤ بھی ہے۔

تاہم اس کے باوجود بھی اپریل کے اوائل سے اب تک لگ بھگ 35 ہزار افغان پناہ گزین پاکستان چھوڑ کر طورخم بارڑ کے راستے واپس جا چکے ہیں۔ یہ سنہ 2023 میں حکومت کی ڈیڈلائن کے بعد واپس جانے والے افغانوں کی نسبت بہت کم تعداد ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More