تجارتی جنگ: کیا صدر ٹرمپ کے ٹیرف منصوبے کا واحد مقصد چین کو نشانہ بنانا تھا؟

بی بی سی اردو  |  Apr 15, 2025

Getty Images

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹیرف منصوبے کی ابتدا کرتے ہوئے ابتدائی طور پر متعدد ایسے ممالک سے امریکہ آنے والی اشیا پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا جو کچھ عرصہ پہلے تک امریکہ کے قریبی تجارتی اتحادی تھے۔

ٹرمپ کے اِس ٹیرف منصوبے کی ابتدا یعنی ٹیکس کے نفاذ کا آغاز نو اپریل سے ہونا تھا۔ اور اِس کے نفاذ کے چند ہی گھنٹے بعد ٹرمپ کی جانب سے یہ چونکا دینے والا اعلان کیا گیا کہ اس منصوبے کو 90 روز کے لیے یعنی عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔

اور اس کے بعد صدر ٹرمپ نے اس تجارتی جنگ میں اپنی توجہ صرف ایک ملک پر مرکوز کر لی اور یہ ملک تھا چین۔

ٹرمپ کے اس اقدام نے کچھ تجزیہ کاروں کو یہ سوال پوچھنے پر مجبور کیا کہ کیا امریکہ کے نئے ٹیرف منصوبے کا واحد نشانہ چین ہی تھا؟

صدر ٹرمپ نے جب سے امریکہ کی صدارت کا عہدہ سنبھالا ہے تب سے ان کی توجہ کا بڑا محور و مرکز تجارت ہی ہے۔ وائٹ ہاؤس کا مکین بننے کے فوراً بعد ہی سے انھوں نے کئی ممالک پر بڑے پیمانے پر تجارتی ٹیکس لگانے کی بات شروع کر دی تھی۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ امریکہ کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک اُن کے ملک کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ ممالک اپنا سامان تجارت تو بڑی مقدار میں امریکہ کو فروخت کرتے ہیں مگر جب بات امریکی سامان کو خریدنے کی آتی ہے تو یہ دو قدم پیچھے ہیں۔ امریکی صدر کے مطابق اس تمام تر صورتحال کا نقصان امریکہ کی مقامی صنعتوں کو پہنچ رہا ہے اور یہ صورتحال امریکہ میں بیروزگاری کو جنم دے رہی ہے۔

Getty Images’ٹیرف منصوبے کا اصل مقصد چین کو سزا دینا اور اسے مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کرنا ہے‘

دو اپریل کو ٹرمپ کی جانب سے اب تک کے سب سے بڑے اور سب سے زیادہ متنازع ٹیرف کے نفاذ کے اعلان نے دنیا بھر میں تجارتی جنگ کی سی صورتحال پیدا کر دی اور اس کے نتیجے میں دنیا بھر کی بڑی سٹاک مارکیٹوں میں افراتفری اور ہنگامہ دیکھنے میں آیا اور عالمی معیشتوں کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا۔

اس کے بعد ٹرمپ نے چین کے علاوہ تمام دیگر ممالک کو 90 دن کے لیے عارضی ریلیف دینے کا اعلان کیا اور ٹیرف کا نفاذ 90 روز کے لیے معطل کر دیا۔ اس اقدام کا جواز وائٹ ہاؤس انتظامیہ کی جانب سے یہ پیش کیا گیا کہ درحقیقت یہ ٹرمپ کے اُس منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت پہلے ٹیرف عائد کیا جانا تھا اور اس کے بعد اسے عارضی طور پر معطل کر کے ہر ملک سے فرداً فرداً مذاکرات کرنے ہیں۔

لیکن دیگر ممالک کے برعکس چین کو یہ عارضی ریلیف نہیں دیا گیا، بلکہ ٹرمپ نے ٹیرف کی شرح کو بڑھا کر 145 فیصد تک کر دیا۔ اس کے بعد کچھ امریکی حکام نے کہا کہ اس کا اصل مقصد چین کو سزا دینا اور اسے مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کرنا ہے۔

تاہم ٹرمپ یہاں پر نہیں رُکے اور گذشتہ ہفتے کے اختتام پر یہ اعلان کیا گیا کہ چین سے امریکہ درآمد ہونے والی متعدد الیکٹرانک مصنوعات بشمول سمارٹ فونز، چپس اور کمپیوٹرز کو اس ٹیرف سے استثنیٰ حاصل ہو گا۔

امریکی وزیر خزانہ سکاٹ بیسنٹ نے صحافیوں کو بتایا: ’امریکہ کے تجارتی مسائل کی جڑ اصل میں چین ہے۔ درحقیقت چین پوری دنیا کے لیے ہی ایک مسئلہ ہے۔‘

تاہم، دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت یعنی چین کے ساتھ اس طرح کی رسہ کشی کرنے میں بہت سے خطرات بھی مضمر ہیں۔ کیونکہ کوئی وقت ضائع کیے بغیر چین نے اپنے خلاف ہونے والے ان اقدامات کا جواب امریکہ سے آنے والی اشیا پر 125 فیصد اضافی ٹیکس عائد کر کے دیا۔

ٹرمپ کا ’حیران کُن یوٹرن‘: آئی فونز کو 125 فیصد اضافی ٹیرف سے مستثنیٰ کرنا تجارتی جنگ میں امریکہ کی پسپائی ہے؟عالمی معیشت کی سب سے بڑی طاقت بننے کی دوڑ: کیا ٹرمپ کی ’ٹیرف جنگ‘ کا اصل ہدف صرف چین ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟ٹرمپ کا ’یوم آزادی‘ اور پاکستان سمیت 100 ممالک پر نئے ٹیرف کا اعلان جسے ’عالمی تجارتی نظام پر ایٹم بم گرانے جیسا عمل‘ قرار دیا گیاپاکستانی مصنوعات پر نیا امریکی ٹیرف: ٹرمپ کے فیصلے سے ملکی برآمدات پر کیا اثر پڑے گا؟

تاہم ٹرمپ جو کچھ کر رہے ہیں وہ اُن کے پیشرو براک اوباما کے دور اقتدار میں شروع کردہ پالیسی کو آگے بڑھانے جیسا نظر آتا ہے۔ براک اوباما کی اُس پالیسی کا مقصد چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور طاقت کو روکنے کی کوشش کرنا تھا اور اسی کے نتیجے میں امریکہ نے اپنی توجہ زیادہ سے زیادہ مشرقی ممالک کی طرف مبذول کر دی تھی۔

گذشتہ ہفتے پیش آنے والے واقعات پر بات کرتے ہوئے مصنف اور سیاسی تجزیہ کار ٹم مارشل نے بی بی سی کو بتایا کہ 'یہ ایک نیا دور ہے اور معیشت اس دور کا بنیادی ستون ہے۔ میرے خیال ہے کہ یہ سب چین کے بارے میں ہی ہے۔ برطانیہ اور یورپی ممالک کے لیے وقت کے ساتھ ساتھ ٹیرف میں تبدیلیاں ہو جائیں گی اور توجہ صرف چین پر مرکوز ہو گی۔‘

چین بھی پیچھے ہٹنے کے تیار نہیںGetty Imagesچین کی امریکہ کو برآمدات میں پچھلے دنوں کمی آئی ہے

جب سے ٹرمپ دوسری بار وائٹ ہاؤس میں بطور صدر آئے ہیں تب سے چین اور امریکہ کے درمیان تجارتی جنگ شدید ہوتی جا رہی ہے۔ پچھلے کچھ عرصے کے دوران اِن دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف ٹیرف اور جوابی ٹیرف عائد کرنے جیسے بہت سے اقدامات کیے ہیں۔

اپنے ایک بیان میں چین کی وزارت تجارت نے ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ ٹیرف کو ’محض نمبر گیم‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس نوعیت کے اقدامات کی کوئی عملی اہمیت نہیں ہے۔

وزارت نے مزید کہا کہ اگر امریکہ چین سے برآمد ہونے والی اشیا پر ٹیرف لگاتا رہے گا تو چین اب اسے نظر انداز کر دے گا۔

بی بی سی کے چائنا ایڈیٹر سٹیفن میکڈونیل کا کہنا ہے کہ ’چینی رہنماؤں نے بارہا ٹرمپ انتظامیہ کو ’دھونس جمانے والا‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اُن (ٹرمپ) سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔‘

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ نِنگ نے حال ہی میں سوشل میڈیا پر چیئرمین ماؤ کی تصاویر پوسٹ کیں جس میں کوریائی جنگ کا ایک کلپ بھی شامل تھا۔

اس کلپ میں ماؤ امریکہ کو کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں: ’یہ جنگ چاہے کتنی ہی دیر تک چلے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘

انھوں نے اپنا بیان بھی پوسٹ کیا جس میں انھوں نے کہا کہ ’ہم چینی لوگ ہیں، ہم اشتعال انگیزی سے نہیں ڈرتے، ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘

امریکی دباؤ پر چینی ردعملGetty Imagesچین دنیا بھر میں اپنے تجارتی شراکت دار بڑھانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے

چین سے امریکہ کو برآمد ہونے والی اشیا چین کی مجموعی جی ڈی پی کے لگ بھگ دو فیصد کے برابر ہیں۔

برطانیہ میں ’سٹی انڈیکس‘ سے منسلک سینیئر مارکیٹ تجزیہ کار فیونا کنکوٹا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چین امریکہ پر اپنی برآمدات کا انحصار کم کر رہا ہے۔ اب صرف 13 فیصد چینی برآمدات امریکہ جاتی ہیں۔ ٹرمپ کے پہلے دور میں یہ 26 فیصد تھیں۔‘

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین نے پہلے ہی ٹرمپ کی جانب سے محصولات میں اضافے کا اندازہ لگا لیا تھا۔

معروف اخبار ’دی اکانومسٹ‘ کے ایڈیٹر ڈیوڈ رینی نے حال ہی میں چین میں حکام اور سکالرز سے ملاقات کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’چین اس کے لیے کافی عرصے سے تیاری کر رہا تھا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ چینیوں نے ’امریکی کارروائی سے بچنے کے لیے ایک مختصر مدت کی دفاعی حکمت عملی تیار کی ہے لیکن وہ اس کا مستقل حل تلاش کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اپنی معیشت کو برآمدات پر زیادہ انحصار کرنے سے دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

امریکہ کے ساتھ اس تجارتی جنگ کے درمیان چینی صدر شی جن پنگ بھی نئے تجارتی شراکت دار بنانے پر کام کر رہے ہیں۔

چین ٹرمپ کے محصولات سے متاثرہ ممالک سے بھی متحد ہونے کی اپیل کر رہا ہے۔

11 اپریل کو سپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز کے ساتھ ملاقات کے دوران چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ چین اور یورپی یونین کو امریکی محصولات کا ’مل کر جواب دینے کے لیے‘ سامنے آنا چاہیے۔

چینی صدر رواں ماہ اُن ممالک کا بھی دورہ کر رہے ہیں جو ٹرمپ کے محصولات سے بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ان میں ویتنام، ملائیشیا اور کمبوڈیا جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔

چین کو کیا خطرہ ہے؟Getty Imagesچین کے لیے متبادل مارکیٹ کی تلاش میں بھی پریشانیاں مضمر ہیں

چین کے دوسرے ممالک سے رابطہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ انھیں خود پر یقین دلانا چاہتا ہے اور ان کی سپورٹ حاصل کرنا چاہتا ہے۔

چین کی طرف سے امریکی مارکیٹ کے بجائے دوسری منڈیوں کی تلاش بھی بہت سے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔

رینی نے کہا کہ اگر ایسے ممالک کے بازار چینی سامان سے بھر جاتے ہیں تو اس سے ان ممالک میں ملازمتوں اور مواقع کو نقصان پہنچے گا۔ اس سے چینی قیادت کے لیے ایک بار پھر سفارتی اور جغرافیائی سیاسی بحران پیدا ہو جائے گا۔

دوسرا مسئلہ مقامی مارکیٹ کا بھی ہو سکتا ہے۔ چین میں صارفین نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ اگر امریکی مصنوعات مزید مہنگی ہوئیں تو وہ مقامی برانڈز کی طرف چلے جائیں گے۔

چین کی معیشت کی حالت ایسی ہے کہ مہنگائی مسلسل کم ہو رہی ہے۔

افراط زر کی پیمائش کرنے کا ایک طریقہ مصنوعات کی قیمت کا اشاریہ ہوتا ہے۔ اس کے سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ مارچ میں چین میں یہ مسلسل دوسری بار گِرا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین کی اپنی مصنوعات کا ملکی سطح پر بھی مانگ میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

امریکی ماہر سیاسیات پروفیسر گراہم ایلیسن حال ہی میں چین سے واپس آئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ شی جن پنگ چین اور امریکہ کے درمیان اقتصادی جنگ کے خطرے سے آگاہ ہیں اور ’بُرے وقت‘ کے لیے تیار ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے جو شواہد دیکھے ہیں اُن سے کم از کم ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے تمام شعبوں میں تیاریاں کی ہیں۔‘

ٹرمپ کا ’حیران کُن یوٹرن‘: آئی فونز کو 125 فیصد اضافی ٹیرف سے مستثنیٰ کرنا تجارتی جنگ میں امریکہ کی پسپائی ہے؟پاکستانی مصنوعات پر نیا امریکی ٹیرف: ٹرمپ کے فیصلے سے ملکی برآمدات پر کیا اثر پڑے گا؟ٹرمپ، ٹیرف جنگ اور معاشی غیر یقینی: کیا اس وقت سونا ہی سب سے محفوظ سرمایہ کاری ہے؟ٹرمپ کی ’ٹیرف وار‘ جس سے انڈیا کو دیگر ملکوں کی نسبت ’زیادہ نقصان‘ کا خدشہ ہےعالمی معیشت کی سب سے بڑی طاقت بننے کی دوڑ: کیا ٹرمپ کی ’ٹیرف جنگ‘ کا اصل ہدف صرف چین ہے اور اس کا مقصد کیا ہے؟امریکی ٹیرف پر پریشان ہیں مگر جوابی اقدام کا ارادہ نہیں: پاکستانی وزیرِ خزانہ
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More