گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں بینکوں کے ذریعے گاڑیاں خریدنے کے رجحان میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ جہاں ماضی میں اقساط پر گاڑی حاصل کرنا متوسط طبقے کے لیے قدرے آسان ہوتا تھا لیکن آج گاڑیوں کی بڑھتی قیمتیں اور معاشی بے یقینی کے سبب یہ ایک خواب بن چکا ہے۔اگرچہ حالیہ مہینوں میں شرحِ سود گزشتہ سال کے مقابلے میں نصف تک کم ہو چکی ہے، لیکن معاشی بدحالی ، بینکوں کی سخت شرائط، اور قرض کی محدود حد نے شہریوں کے لیے آٹو فنانسنگ کو مشکل بنا دیا ہے۔اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2024 تک پاکستان میں بینکوں کی جانب سے فراہم کی جانے والی آٹو فنانسنگ کا مجموعی حجم تقریباً 235.45 ارب روپے تھا، جبکہ جون 2022 میں یہی حجم 368 ارب روپے تھا۔ اس کمی کی بنیادی وجوہات میں بلند شرحِ سود، گاڑیوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، سخت فنانسنگ شرائط اور درآمدی ٹیکسز شامل ہیں۔پالیسی رکاوٹیں اور فنانسنگ حد کی محدودیتآل پاکستان کار ڈیلرز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین اور آٹو سیکٹر کے ماہر میاں شعیب کے مطابق گاڑیوں کی فنانسنگ میں کمی کی ایک بڑی وجہ سٹیٹ بینک کی وہ پالیسی ہے جس کے تحت نجی بینک صرف 30 لاکھ روپے تک کی فنانسنگ فراہم کر سکتے ہیں۔’آج کے دور میں جب گاڑیوں کی قیمتیں 40 سے 80 لاکھ روپے یا اس سے بھی زیادہ تک جا پہنچی ہیں، اس حد کے اندر کوئی معیاری نئی گاڑی خریدنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک کو باقاعدہ خط لکھ کر مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس حد کو کم از کم 60 لاکھ روپے تک بڑھایا جائے تاکہ شہری موجودہ مہنگائی میں مناسب گاڑیاں خرید سکیں۔ ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر فنانسنگ حد نہ بڑھی تو آٹو فنانسنگ مزید کم ہو سکتی ہے جو اس صنعت کے لیے ایک اور دھچکا ہوگا۔پاکستان میں بینکوں کے ذریعے گاڑیاں خریدنے کے رجحان میں واضح کمی آئی ہے۔ فوٹو: روئٹرزقسطوں کی ادائیگی ایک بوجھمعروف آٹو تجزیہ کار میران سیگول کا کہنا ہے کہ پاکستان کی آٹو مارکیٹ اس وقت غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے۔ مہنگائی، روزمرہ اخراجات، اور ایندھن کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ نے گاڑی خریدنا متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے نہایت مشکل بنا دیا ہے۔ان کے مطابق آمدن میں اضافہ نہ ہونے کے باعث قسطوں کی ادائیگی ایک معاشی بوجھ بنتی جا رہی ہے، خاص طور پر اس وقت جب بجلی کے بل، راشن، سکول فیس اور دیگر گھریلو اخراجات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہوں۔محدود آپشنز، کمزور کوالٹیمیران سیگول کے مطابق کم آمدنی والے طبقے کے پاس آپشنز نہ ہونے کے برابر ہیں اور سوزوکی آلٹو ہی واحد قابلِ عمل انتخاب ہے، جس کی قیمت تو 23 لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے لیکن اس میں نہ جدید فیچرز ہیں اور نہ ہی سیفٹی کے تقاضے پورے کرتی ہے۔’اسی طرح سے نئی گاڑیوں کے ماڈلز مسلسل متعارف ہو رہے ہیں، مگر ان کی قیمتیں اور فیچرز عام صارف کی ضروریات یا مالی حیثیت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اکثر پاکستانی گھرانوں میں ایک سے زائد گاڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے، مگر دو گاڑیوں کی فنانسنگ کا تصور بھی اب ناقابلِ عمل ہو چکا ہے۔‘میران سیگول کا کہنا ہے کہ اس غیر یقینی اور مہنگائی سے بھرپور ماحول میں بیشتر خاندان اپنی موجودہ گاڑی کو 6 سے 8 سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک رکھنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ نئی گاڑی خریدنے کے بجائے وہ مرمت اور دیکھ بھال پر پیسے خرچ رہے ہیں۔بینکوں کی سخت شرائط کے باعث آٹو فنانسنگ کی سہولت حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پیپاکستان میں بینک سے گاڑی حاصل کرنے کا طریقہپاکستان میں کسی بھی موزوں بینک سے آٹو فنانسنگ سکیم کے ذریعے گاڑی خریدی جا سکتی ہے۔ یہ سکیم عام طور پر 1 سے 7 سال کی مدت پر مشتمل ہوتی ہے جبکہ صارفین کو 15 سے 30 فیصد تک ڈاؤن پیمنٹ ادا کرنا پڑتی ہے۔ درخواست گزار کو شناختی دستاویزات، آمدنی کا ثبوت، اور بینک سٹیٹمنٹ کے ساتھ درخواست دینا ہوتی ہے۔ منظوری کے بعد بینک گاڑی کی قیمت ادا کرتا ہے، گاڑی کی رجسٹریشن اپنے نام رکھتا ہے، اور صارف مقررہ اقساط ادا کرتا ہے۔ قسطوں کی تکمیل کے بعد گاڑی کی ملکیت صارف کے نام منتقل کر دی جاتی ہے۔