لاہور پولیس نے تین کمپنیوں میں کروڑوں کی چوری کا سراغ کیسے لگایا؟

اردو نیوز  |  Apr 10, 2025

’وہ ایل پی جی کی اس کمپنی میں ایک دہائی سے بھی زیادہ وقت سے ملازم تھا اور اب کئی برس سے وہ مینیجر کے عہدے پر فائز تھا۔ بظاہر انتہائی ذمہ دار تھا۔ جب کمپنی کے مالک نے مسلسل دوسرے سال کی رپورٹ میں کروڑوں روپے کی بے ضابطگی دیکھی تو اس نے بات ٹال دی۔ لیکن مالک کو اندازہ ہو چکا تھا کہ کچھ بڑی گڑبڑ ہے۔ مالک نے بغیر کسی کو بتائے ماڈل ٹاؤن تھانے میں ایک درخواست دی کیونکہ اس وقت تک 40 کروڑ روپے غائب ہو چکے تھے۔‘

یہ کہانی لاہور میں ماڈل ٹاؤن ڈویژن آرگنائزڈ کرائم برانچ کے ڈی ایس پی چوہدری فیصل شریف سنا رہے تھے جنہوں نے چند ہفتوں میں تین مختلف کمپنیوں میں ہونے والی 24 کروڑ روپے کی رقم واگزار کروائی ہے۔ وہ اس تفتیشی ٹیم کو لیڈ کر رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ تین مختلف مقدمے تھے اور اتفاق سے ایک ہی وقت میں درج ہوئے تھے۔

مقدمات کا پس منظر

لاہور کی ایک ایل پی جی کمپنی کے تقریباً 40 کروڑ روپے غائب ہو چکے تھے جن کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ کمپنی کے اپنے ریکارڈز کے مطابق یہ رقم مارکیٹ میں ’نیچے‘ لگی ہوئی تھی جس کی ریکوری مشکل تھی۔ آئی پی سی نامی اس ایل پی جی کی کمپنی کے مالک امتیاز وڑائچ نے بالآخر اس رقم کی ریکوری کے لیے پولیس کو درخواست دے دی۔ ابتدائی معلومات کی جانچ کرتے ہوئے یہ کیس آرگنائزڈ کرائم برانچ کے سپرد کر دیا گیا۔

دوسری کہانی اس ٹیکسٹائل مل کی ہے جو واقع تو لاہور کے مضافات میں ہے لیکن اس کا تیار شدہ کپڑا دنیا کے بہترین برانڈز کو جا رہا تھا۔

کمپفرٹ نامی اس ٹیکسٹائل مل کا مسئلہ یہ تھا کہ اس کا کروڑوں روپے کا کپڑا پچھلے چھ سے سات برس میں مسلسل ایک ہی طریقے سے چوری ہو رہا تھا لیکن کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ واردات کون کر رہا ہے۔

اس کمپنی نے پولیس سے رجوع کیا اور یہ معاملہ بھی مارچ کے مہینے میں آرگنائزڈ کرائم کو ہی بھیج دیا گیا۔

لاہور کے اقبال ٹاؤن میں واقع ایک سولر انورٹر کمپنی کو بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ درپیش تھا۔

ان کی سولر کی پلیٹیں اور انورٹرز چوری ہو رہے تھے اور کروڑوں روپے کا مال غائب ہو چکا تھا لیکن کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ چوری کون کر رہا ہے۔

ایک کمپنی کے مینیجر نے اپنے دو بیٹوں کے نام پر الگ سے ایل پی جی کمپنی رجسٹرڈ کروا رکھی تھی (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)پولیس سے رجوع کیا گیا تو معاملے کی سنجیدگی کو بھانپتے ہوئے یہ کیس بھی آرگنائزڈ کرائم کی اسی تفتیشی ٹیم کے حوالے کر دیا گیا جو مارچ کے مہینے میں اسی طرح کے دو اور کیسز کی بڑے پیمانے پر تفتیش کر رہی تھی۔

کروڑوں کی کارپوریٹ چوریاں کیسے پکڑی گئیں؟

پہلے آتے ہیں ایل پی جی کمپنی کے 40 کروڑ روپے کی چوری کی طرف۔ کمپنی کے مالک امتیاز وڑائچ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں یہ تو شبہ تھا کہ گڑبڑ ہو رہی ہے اور کمپنی کے اندر سے ہی ہو رہی ہے لیکن جس طرح سے پولیس نے اس کی کھوج لگائی، اس طرح سے ہمیں اندازہ نہیں تھا۔‘

پولیس نے کیس کو سمجھنے کے بعد روایتی طریقہ استعمال کرتے ہوئے سب سے پہلے ’شریف النفس‘ دکھائی دینے والے کمپنی کے مینیجر طلعت بٹ سے پوچھ گچھ کی شروعات کی۔

ڈی ایس پی فیصل چوہدری بتاتے ہیں کہ ’مینیجر اتنے یقین سے بات کر رہا تھا جیسے اسے کچھ پتا ہی نہ ہو۔ لیکن پہلی ملاقات میں ہی ہمیں اس پر شک ہو گیا اور ہم نے مینیجر کو حراست میں لینے کا فیصلہ کر لیا۔ جیسے ہی ہم اسے تھانے لے کر آئے، اس نے خود ہی سب کچھ بتانا شروع کر دیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں زیادہ تگ و دو نہیں کرنا پڑی۔ طلعت بٹ نے اپنے دو بیٹوں کے نام پر الگ سے ایل پی جی کمپنی رجسٹرڈ کروا رکھی تھی اور بڑے پیمانے پر ایل پی جی مارکیٹ میں اسی کمپنی کے ذریعے الگ سے بیچ رہا تھا۔‘

ڈی ایس پی فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ ’کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اتنی چالاکی سے جعلی خریداروں کا جال بنا ہوا تھا اور اس کے بیٹوں کے پاس اس وقت 15 کروڑ روپے کا کیش اکھٹا ہو چکا تھا جبکہ اصل کمپنی کے 40 کروڑ روپے ڈوب چکے تھے۔ ہم نے وہ سارا کیش ریکور کیا باقی کے پیسے بھی جلد ریکور ہوں گے۔ مینیجر اور اس کے دونوں بیٹے اس وقت جیل میں ہیں۔‘

ٹیکسٹائل کمپنی میں ہونے والی چوری کا سراغ لگانے میں بھی پولیس کو چند دن لگے۔

فیصل چوہدری کہتے ہیں کہ ’کیس کی جزئیات سمجھتے ہی ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ کپڑے کی چوری میں گیٹ پاس چیک کرنے والے سکیورٹی گارڈز میں سے کوئی لازمی ملوث ہو گا۔ چند دن کی ریکی سے ہم ایک سکیورٹی گارڈز تک پہنچ گئے اور پھر یہ کیس بھی گھنٹوں میں حل ہو گیا۔‘

چوری میں ملوث تمام ملزمان اس وقت جیلوں میں ہیں (فائل فوٹو:ویڈیو گریپ)انہوں نے مزید بتایا کہ ’کمپنی کے اپنے ملازم ملوث تھے، ہم نے وہ گودام پکڑا جس میں کپڑا بھرا ہوا تھا جو مقامی مارکیٹ میں سستے داموں بیچا جا رہا تھا جبکہ 9 کروڑ روپے کا کیش بھی برآمد ہوا۔ اب ہم چھان بین کر رہے ہیں کہ یہ افراد اب تک کتنا کپڑا چوری کر چکے تھے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ چھ سال سے چوری ہو رہی تھی۔‘

لاہور کے علاقے اقبال ٹاؤن میں سولر سسٹمز چوری کر کے افغانستان بھیجے جا رہے تھے۔

ڈی ایس پی فیصل چوہدری کہتے ہیں کہ ’یہ ایک بہت بڑا گینگ تھا جس میں کراس بارڈر لوگ بھی ملوث تھے۔ اس میں بھی کمپنی کے اپنے لوگ ملوث تھے، ہم نے نہ صرف سولر سسٹمز پکڑے بلکہ کیش بھی برآمد کیا۔ یہ مجموعی طور پر 24 کروڑ روپے کی رقم تھی جو تین مقدمات کے درمیان برآمد ہوئی۔‘

’میرے خیال میں لاہور پولیس کی تفتیش کی تاریخ میں اتنی بڑی رقم کبھی بھی ایک ہی وقت میں ریکور نہیں ہوئی۔‘

مذکورہ تمام ملزمان اس وقت جیلوں میں ہیں اور پولیس مقدمات کا چالان تیار کرنے میں مصروف ہے۔ جس کے بعد عدالت جرائم کی سزاؤں کا تعین کرے گی۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More