امریکہ سے 80 ہزار کتابوں کا عطیہ چترال کے ’پرامن ماحول‘ کے لیے خطرہ قرار

اردو نیوز  |  Apr 18, 2025

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کے طالب علموں اور نوجوانوں کے لیے بیرون ملک سے ایک ایسا کنٹینر بھجوایا گیا ہے جس میں 80 ہزار سے زیادہ کتابیں موجود ہیں۔

کتابوں کا تحفہ بھجوانے والی خاتون وادی کیلاش کی معروف سماجی شخصیت لکشن بی بی ہیں جو ان دنوں امریکہ کی ریاست نیویارک میں مقیم ہیں۔

لکشن بی بی نے مختلف موضوعات پر مشتمل کتابوں کو چترال کے لیے عطیہ کیا جس کے لیے ان کو ایک عالمی ادارے نے تعاون فراہم کیا ہے۔ 

کیلاشی خاتون نے ایک ویڈیو پیغام میں ضلعی انتظامیہ چترال سے درخواست کی ہے کہ ’وہ مقامی سکولوں اور کالجز میں ان کتابوں کی دستیابی کو یقینی بنائیں تاکہ کتب بینی کے کلچر کو فروغ دیا جا سکے۔‘

لکشن بی بی اور ان کی ٹیم نے کتابوں کو پاکستان کے لیے روانہ کر دیا ہے جو کچھ ہی دنوں میں اپنی منزل تک پہنچ جائیں گی۔ 

امریکہ سے کتابوں کے پہنچنے سے قبل ہی چترال میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ ضلع کے بعض عمائدین کے خیال میں کتابوں کا عطیہ ایک خوش آئند اقدام ہے جس سے طلبہ بھرپور استفادہ کریں گے تاہم کچھ عوامی حلقوں کے نزدیک یہ کتابیں کسی خاص ایجنڈے کے تحت چترال کے بچوں کے لیے بھیجی جا رہی ہیں۔

بیرون ملک سے آنے والی کتابیں مقامی ثقافت کے لیے خطرہ کیسے؟

کیلاشی خاتون لکشن بی بی کی جانب سے عطیہ کردہ کتابوں پر جمعیت علمائے اسلام تحصیل لوئر چترال نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ نیویارک سے بھیجی گئی کتابیں چترالی ثقافت اور پُرامن ماحول کے خطرہ ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام کا کہنا ہے کہ ’کتابوں کے مواد کی چھان بین ضروری ہے۔ کتابیں علم کا ذریعہ ضرور ہیں مگر یہ اگر مذہب اور مقامی روایات کے خلاف ہوں تو معاشرے میں آگاہی کی بجائے بگاڑ پیدا کرتی ہیں۔‘

جے یو آئی لوئر چترال کے مطابق لکشن بی بی کو خود معلوم نہیں کہ ان کتابوں میں کس قسم کا مواد یا لٹریچر موجود ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نیویارک کے نصاب اور چترال کی مذہبی، ثقافتی اور معاشرتی روایات میں زمین اسمان کا فرق ہے چناں چہ ضلعی انتظامیہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور کتابوں کی چھان بین کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے۔‘ 

جمعیت علمائے اسلام لوئر چترال کے جنرل سیکریٹری محمد عمران خان نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بیرون ملک سے عطیہ شدہ کتابوں سے متعلق ڈپٹی کمشنر کو آگاہ کیا تھا جس میں ان کو بتایا گیا کہ کتابوں کے عطیے پر کسی کو اعتراض نہیں تاہم غیر نصابی کتابوں کی چھان بین ضروری ہے اور ایسا مواد ہرگز قابلِ قبول نہیں جو مذہب، تہذیب اور روایات کے منافی ہو۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’قومی نصاب کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان عطیہ کی گئی کتابوں کے مواد کو پرکھا جائے اور سنسر ہونے کے بعد ہی ان کو تقسیم کیا جائے۔‘ 

چترال کے مقامی مصنف قاضی عنایت جلیل نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سب سے پہلے تو کتابوں کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ ان میں کون سا لٹریچر موجود ہے اور ان کے موضوعات کیا ہیں اور یہ کس مقصد کے لیے بھیجی گئی ہیں۔‘

چترال کی کیلاش ویلی سے تعلق رکھنے والی لکشن بی بی گزشتہ 15 برسوں سے نیویارک میں مقیم ہیں۔ فوٹو: لکشن بی بی

ان کا کہنا ہے کہ ’کتب بینی کا دور قریباً آخری سانسیں لے رہا ہے اور نوجوان لیپ ٹاپ اور موبائل کی دنیا سے باہر نہیں نکلتے۔‘

قاضی عنایت جلیل کے مطابق ’ان کتابوں کا منفی یا مثبت پہلو اس قدر موثر نہیں ہوگا جتنا کے اس بارے میں خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یہ جائزہ لینا بھی اہم ہے کہ عطیہ شدہ کتابیں کسے عطیہ کی جارہی ہیں اور آیا یہ سکولوں کو دی جائیں گی یا کسی کالج یا مدرسے کو عطیہ کی جائیں گی۔‘ 

چترال کے مصنف قاضی عنایت جلیل کے مطابق غیرملکی مصنفین کی بیشتر کتابیں کیریئر ڈویپلمنٹ اور دیگر معلوماتی مواد پر مبنی ہوتی ہیں جن کے مطالعہ سے نوجوانوں کو فائدہ ہو سکتا ہے۔

لکشن بی بی کا ردعمل 

نیویارک میں مقیم کیلاشی خاتون لکشن بی بی نے کتابوں کو متنازع بنانے کے عمل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کتابیں ایک علمی خزانہ ہیں جو کہ میں اپنے علاقے کو بطور تحفہ دینا چاہتی ہوں، یہ تمام کتابیں نیویارک نصاب بورڈ سے منظور شدہ ہیں۔‘

ان کا مؤقف ہے کہ ان کتابوں سے مذہب اور ثقافت کو کوئی خطرہ نہیں بلکہ ان کو پڑھنے سے طالب علموں کو فائدہ ہوگا اور وہ معاشرے کے کارآمد شہری بن سکیں گے۔

لکشن بی بی کا کہنا ہے کہ ’میری درخواست پر غیرملکی ادارے نے کتابوں کا کنٹینر آبائی علاقے چترال کے لیے عطیہ کیا ہے۔ ان کتابوں کو پرائمری کے طالب علم سے لے کر کالج کی سطح تک کے طالب علم پڑھ سکتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کتابوں کو پڑھنے سے شعور آتا ہے، آگاہی پھیلتی ہے اور میرا مقصد بھی صرف علم کا فروغ ہی ہے۔‘

چترال کے ایک مقامی مذہبی سیاستدان نے کتابوں کے تحفے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ 

لکشن بی بی کون ہیں؟ 

چترال کی وادیٔ کیلاش کے گاوں رمبور سے تعلق رکھنے والی لکشن بی بی چترال کی چند متحرک خواتین سماجی ورکرز میں سے ایک ہیں۔

لکشن بی بی کو چترال کی خاتون پائلٹ بننے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انہوں نے اپنے علاقے کے لیے تعلیمی اور فلاحی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔

لکشن بی بی گزشتہ 15 برسوں سے نیویارک میں مقیم ہیں جو وہاں تعلیم مکمل کرنے کے بعد مختلف فلاحی اداروں کے ساتھ وابستہ رہی ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More