10 ہزار برس قبل معدوم ہونے والے قدیم بھیڑیوں کی دوبارہ پیدائش پر سائنسدانوں کے متضاد دعوے

بی بی سی اردو  |  Apr 08, 2025

سائنسدانوں نے 10 ہزار برس قبل معدوم ہو جانے والے ’ڈائر وولف‘ بھیڑیوں کی قدیم ڈی این اے، کلوننگ اور جینیاتی تبدیلی کی مدد سے دوبارہ پیدائش کا دعویٰ کیا ہے۔

امریکہ کی کولوسل بایئو سائنسز نامی کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ تین بھیڑے، جو ’ڈائر وولف‘ سے مماثلت رکھتے ہیں، امریکہ میں ایک نامعلوم مقام پر پرورش پا رہے ہیں۔

بھیڑیے کے ان بچوں کے نام ’رومولس، ریموس اور خلیسی‘ ہیں اور ان کی عمریں تین سے چھ ماہ کے درمیان ہیں۔

ان بھیڑیوں کے بال سفید اور جبڑے انتہائی مضبوط ہیں۔ کولوسل بایئو سائنسز کے مطابق اس وقت ان کا وزن تقریباً 80 پاؤنڈ ہے جو بالغ ہونے پر 140 پاؤنڈ تک پہنچ سکتا ہے۔

دس ہزار برس قبل معدوم ہو جانے والے ’ڈائر وولف‘ جسے آج کل کے ’گرے وولف‘ کے قریب سمجھا جاتا ہے، سے کئی گنا زیادہ بڑے ہوتے ہیں۔

لیکن بہت سے آزاد ماہرین کا ماننا ہے کہ اس پیشرفت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جلد ہی ہمیں ’ڈائر وولف‘ شمالی امریکہ میں گھاس کے میدانوں میں نظر آئیں گے۔

یاد رہے کہ ’ڈائر وولف‘ کبھی شمالی امریکہ میں ایک بڑا شکاری جانور تھا اور اس کا بڑا جسم اور قوت اس کی شناخت تھی۔

جینیاتی ایڈیٹنگ سے اب صرف مادہ چوزے پیدا کیے جا سکیں گےجینیاتی طور پر تبدیل شدہ 75 کروڑ مچھروں کی فوجانسانی جسم میں سؤر کے گردے کی پیوند کاری: ’یہ لاکھوں مریضوں کو ایک نئی زندگی دے سکتی ہے‘’سؤر کے اعضا کی انسانوں میں پیوندکاری ہزاروں زندگیاں بچا سکتی ہے‘13 ہزار برس پرانے دانت اور 72 ہزار سال پرانی کھوپڑی پر تحقیق

کولوسل بایئو سائنسز کے سائنسدانوں نے فوسل سے ملنے والے قدیم ڈی این اے کا مطالعہ کر کے ڈائر وولف کی خصوصیات کا پتہ لگایا۔

محققین نے ریاست اوہائیو سے ملنے والے 13 ہزار برس پرانے دانت جبکہ ایڈاہو سے ملنے والی 72 ہزار سال پرانی کھوپڑی پر تحقیق کر کے ’ڈائر وولف‘ کی خصوصیات کا پتہ لگایا۔

اس کے بعد سائنسدانوں نے ایک زندہ ’گرے وولف‘ کے خون کے خلیے لیے اور ان میں جینیاتی طور پر ترمیم کی۔

کولوسل کی چیف سائنسدان بیتھ شاپریوکے مطابق اس جینیاتی مواد کو ایک زندہ کتے کے بیضے کے خلیات میں منتقل کیا گیا، جس کے بعد اس جنین کو سروگیٹ کتوں میں منتقل کر دیا گیا اور 62 دن بعد جینیاتی طور پر تبدیل شدہ یہ بھیڑیے پیدا ہوئے۔

کولوسل بایئو سائنسز سے وابستہ سائنسدان میٹ جیمز کا کہنا ہے کہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ یہ بھیڑیے جمسانی طور پر تو ڈائر وولف سے مماثلت رکھتے ہیں لیکن یہ کبھی بھی بارہ سنگھے یا ہرن کو شکار کرنا نہیں سیکھ سکیں گے کیونکہ انھیں ایسا کرنے کے لیے اپنے آباؤ اجداد کو دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔‘

کولوسل بایئو سائنسز اس سے قبل بھی دیگر معدوم انواع سے مشابہہ جانور تیار کرنے کے منصوبوں کا اعلان کر چکی ہے، جیسے وولی ممیوتھ (ہاتھی کی ایک قسم) اور ڈوڈو پرندہ۔

’یہ دراصل جینیاتی طور پر تبدیل شدہ گرے وولف ہیں‘

آزاد ماہرین اس کولوسل بایئو سائنسز کے اس دعوے سے متفق نہیں کہ یہ بھیڑیے دراصل ڈائر وولف ہیں۔

یونیورسٹی ایٹ بوفیلو میں ماہر حیاتیات وینسٹ لینچ کہتے ہیں کہ ’آپ صرف یہ کر سکتے ہیں کہ کسی چیز کو کسی اور چیز کی طرح دکھائیں لیکن آپ معدوم ہو جانے والی انواع کو زندہ نہیں کر سکتے۔‘

نیوزی لینڈ کی یونیورسٹی آف اوٹاگو کے ماہر جنگلی حیات فلپ سیڈون کہتے ہیں کہ یہ جانور دراصل ’جینیاتی طور پر تبدیل شدہ گرے وولف ہیں۔‘

یونیورسٹی آف اوٹاگو کے ماہر جینیات ڈاکٹر نک رالینس اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ جس فوسل سے ڈائر وولف کا ڈی این اے حاصل کیا گیا، وہ اتنا قدیم ہے کہ حیاتیاتی طور پر اس کی کلوننگ ممکن نہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’قدیم ڈی این اے ایسے ہی ہے، جیسے اگر آپ تازہ ڈی این اے کو اوون میں 500 ڈگری پر رات بھر رکھیں اور وہ دھول کی صورت میں باہر نکلے۔‘

’آپ اسے دوبارہ ترتیب تو دے سکتے ہیں لیکن یہ اتنا اچھا نہیں کہ آپ اس کے ساتھ کچھ اور کر سکیں۔‘

ڈاکٹر نک نے مزید کہا کہ ’کولوسل نے گرے وولف تیار کیا ہے لیکن اس میں ڈائر وولف جیسی کچھ خصوصیات ہیں، جیسے بڑی کھوپڑی اور سفید بال۔‘

جینیاتی ایڈیٹنگ سے اب صرف مادہ چوزے پیدا کیے جا سکیں گےجینیاتی طور پر تبدیل شدہ 75 کروڑ مچھروں کی فوجملیریا کے خلاف مچھر ہی کیسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جا رہے ہیںکیچوؤں کی وہ خدمات جن کی انسان کو قدر نہیںامریکی شہری کو سؤر کا دل لگا دیا گیا، کارنامہ سرانجام دینے والی ٹیم میں پاکستانی ڈاکٹر بھی شامل
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More