Getty Images
’اِدھر دیکھو سامنے، اِدھر دیکھو، سامنے کرو اِسے۔‘
’اسے یونیورسل کر دو، اِدھر دیکھو، باہر کے ملکوں والے دیکھیں گے تو کیا کہیں گے ہمیں۔۔۔ وائرل، وائرل۔‘
یہ وہ الفاظ ہیں جو پاکستان میں سوشل میڈیا پر گذشتہ 24 گھنٹے سے وائرل ایک ویڈیو کے پس منظر میں سنائی دیتے ہیں۔
اس ویڈیو میں بہت سے مرد اور خواتین ملزمان کو فلمایا گیا ہے جبکہ ویڈیو ریکارڈ کرنے والے چہرہ چھپاتی خواتین کو بارہا تاکید کرتے ہیں کہ وہ اپنا چہرہ سامنے کریں یا اپنے چہرے کے سامنے سے بال ہٹائیں تاکہ ان کی شناخت ممکن ہو سکے۔
اس ویڈیو میں پولیس کی وردی میں ملبوس خواتین اہلکار بھی نظر آتی ہیں جو ان احکامات کو یقینی بنا رہی ہوتی ہیں کہ ہر خاتون کا چہرہ ویڈیو میں صاف نظر آئے۔
ویڈیو میں نظر آنے والے لگ بھگ ڈیڑھ درجن خواتین اور مردوں کے چہروں پر بے بسی نمایاں ہے اور اُن میں سے بیشتر، بالخصوص خواتین، پریشانی کے عالم میں چہرے چھپانے کی کوشش کرتی ہیں تاکہ ان کی ویڈیو نہ بنائی جا سکے۔
نہ تو یہ پولیس کی جانب سے کی جانے والی کسی شناخت پریڈ کا منظر ہے اور نہ ہی کسی پریس کانفرنس کا جس میں کسی بڑے جرم میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کی اطلاع دی جاتی ہے اور انھیں میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
دراصل یہ پنجاب کے ضلع قصور کے ایک فارم ہاؤس میں ہونے والی مبینہ ڈانس پارٹی پر پڑنے والے پولیس کے چھاپے کے بعد کے مناظر ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے اس مقام پر چھاپہ اُس وقت مارا جب مرد و خواتین مبینہ طور پر اونچی آواز میں بجنے والے گانوں پر ناچ رہے تھے۔
اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے حوالے سے قصور پولیس نے پنجاب حکومت کو اپنی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ ارسال کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک منظم پروگرام تھا جس کے ٹکٹ سوشل میڈیا کے ذریعے سے فروخت کیے گئے تھے جبکہ حکومت پنجاب کے مطابق اس واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو معطل کرنے کے بعد مزید تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
قصور پولیس میں ڈی پی او محمد عیسی خان کا کہنا ہے کہ اس تقریب میں ’ملی بھگت‘ کے الزام پر تھانے کے ایس ایچ او اور پولیس سکیورٹی اہلکار دونوں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ جبکہ موبائل سے مذکورہ ویڈیو بنانے اور اسے وائرل کرنے کے الزام میں تفتیشی افسر اور سب انسپکٹر کے خلاف مقدمہ درج کر کے انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ گرفتار ملزمان کی ویڈیو بنانا اور وائرل کرنا ’قانون کی خلاف ورزی تھی جس کے خلاف پولیس کا اپنا احتساب کا نظام حرکت میں آیا ہے اور اس پر کارروائی ہوئی ہے۔‘
’متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف پیکا ایکٹ اور پولیس سروسز رول کی خلاف ورزی پر مقدمہ درج کر کے ان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔‘
کیا واقعہ پیش آیا؟Getty Images
اس واقعے کا مقدمہ ضلع قصور کے تھانہ مصطفیٰ آباد میں پانچ اپریل کی رات گئے پولیس کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔
مقدمے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مخبر نے اطلاع دی کہ ایک فارم ہاوس پر کافی تعداد میں لڑکے اور لڑکیاں ڈانس پارٹی کا انعقاد کر رہے ہیں۔
ایف آئی آر کے مطابق جب پولیس نفری موقع پر پہنچی تو اونچی آواز میں ناچ گانا چل رہا تھا۔ پولیس نے مزید الزام عائد کیا کہ اس موقع پر شرکا شراب نوشی بھی کر رہے تھے۔ ’چھاپے کے دوران ڈانس پارٹی میں مصروف مرد و خواتین ادھر ادھر بکھرنے لگے، جن کو گھیرا ڈال کر قابو کیا گیا اور ان لوگوں سے ان کا نام پتا پوچھا گیا۔‘
مقدمے میں 35 مردوں جبکہ 25 خواتین کی شناخت ظاہر کرتے ہوئے انھیں گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ ملزمان کا تعلق صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخوا سے بھی ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق موقع سے شراب کی بوتلیں بھی برآمد ہوئی جبکہ شیشہ اور ساؤنڈ سسٹم بھی قبضے میں لیا گیا ہے۔ پولیس نے فارم ہاؤس میں موجود 25 کے قریب گاڑیاں بھی قبضے میں لی ہیں۔
پولیس کے مطابق ’اس پارٹی کے منتظم موقع سے فرار ہو گئے ہیں جن کی تلاش جاری ہے۔‘
ویڈیو میں کیا ہے؟
وائرل ہونے والی ویڈیو اسی فارم ہاؤس سے گرفتار ہونے والے مرد و خواتین کی ہے۔
اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مبینہ طور پر موبائل کیمرے سے ویڈیو بنانے والے گرفتار ہونے والی خواتین پر ایک، ایک کر کے فوکس کرتے ہیں۔
اس موقع پر پس منظر سے آوازیں سنائی دیتی ہیں جن میں خواتین کو کیمرے کی طرف دیکھنے کے لیے تاکید کی جا رہی ہوتی ہے۔
ویڈیو میں دکھائی دینے والی چند خواتین اپنے چہرے چھپانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن پھر ویڈیو میں ایک خاتون پولیس اہلکار دکھائی دیتی ہے جو چہرہ چھپانے والی خواتین کا ہاتھ پکڑ کر نیچے کرتی ہے۔ اس طرح ویڈیو میں ایک اور ہاتھ نظر آتا ہے جو ایک اور خاتون کے بالوں کو اس کے چہرے سے ہٹاتا ہے۔
’کزن کی شادی میں ڈانس کیا چند روز بعد فیس بُک پر اپنی ویڈیو دیکھ کر حیران رہ گئی‘کرتارپور میں ڈانس پارٹی کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟’حکومت صوبے میں فحاشی کے خلاف مہم چلا رہی ہے‘
پنجاب کے ضلع قصور میں مبینہ ڈانس پارٹی کے دوران گرفتار کیے جانے والے مرد وخواتین کی وائرل ویڈیو کے حوالے سے پنجاب حکومت کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے فی الفور اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے انکوائری کا حکم دیا ہے اور ابتدائی طور پر متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او اور محرر کو معطل کر دیا گیا ہے۔
اس سے قبل قصور پولیس نے اپنے آفیشل ’ایکس‘ اکاؤنٹ کے ذریعے دعویٰ کیا تھا کہ ’ضلعی پولیس کی طرف سے آفیشلی ایسی کوئی ویڈیو شیئر نہیں کی گئی۔ پولیس طے شدہ قواعد و ضوابط پر عمل پیرا ہے اور ہر شہری کی عزت نفس کو ملحوظ خاطر رکھتی ہے۔‘
تاہم اس کے ساتھ قصور پولیس کا مزید کہنا تھا کہ ڈی پی او قصور نے یہ ویڈیوز سامنے آنے کے بعد اس کیس کے تفتیشی افسر اور تھانے کے محرر کو معطل کر دیا ہے جبکہ مزید تفتیش جاری ہے۔
عظمیٰ بخاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت صوبےمیں فحاشی و عریانی کے خلاف مہم چلا رہی ہے مگر اس ضمن میں کسی کو بھی یہ اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی کہ وہ قانون سے بالاتر ہو کر کوئی اقدام اٹھائے۔
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ قصور ویڈیو واقعے میں جو بھی ملوث ہوا اس کو قانون کے مطابق سزا ملے گی۔
ترجمان پنجاب حکومت عظمی بخاری کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کی انکوائری ڈی پی او قصور خود کر رہے ہیں۔
ن کا مزید کہنا تھا کہ بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری پر سمجھوتہ ہرگز نہیں ہو گا تاہم صوبے میں کسی کو فخاشی و عریانی پھیلانے اور نازبیا حرکات کی بھی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
’ویڈیو دیکھی تو پاؤں تلے زمین نکل گئی‘
اس واقعے میں نامزد ایک خاتون کے اہلخانہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں چھ اپریل کو قصور کے تھانے سے اطلاع ملی تھی کہ اُن کی بہن کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ مذکورہ خاتون ٹک ٹاکر ہیں اور وہ یہ جانتے تھے کہ وہ کسی پروگرام کے سلسلے میں قصور گئی ہوئی ہیں۔
اس خاتون کے بھائی کا کہنا تھا کہ ’تھانے سے اطلاع ملنے کے کچھ ہی دیر بعد میں نے سوشل میڈیا پر ویڈیوز دیکھی تو میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔
’یہ کیا طریقہ اور کیسا قانون ہے؟ اول تو اُس نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے کیونکہ جہاں تک ہمیں معلوم ہے یہ سوشل میڈیا کے لوگوں کا کوئی فنکشن تھا۔ لیکن اگر کچھ غلط ہوا بھی ہے تو قانون کے مطابق سزا دیں، اس طرح سے بہن کی ویڈیو وائرل کرکے تو ہمیں تباہ کر دیا گیا ہے۔‘
Getty Imagesسوشل میڈیا پر ردعمل
پاکستان میں سوشل میڈیا پر بھی ان ویڈیوز کے وائرل ہونے کے بعد پرائیوسی اور نجی زندگی میں مداخلت کے حوالے سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
ایک سوشل میڈیا صارف ملک فخر نے استفسار کیا کہ ’پولیس جب کسی قاتل، ڈکیت، یا دہشتگرد کو گرفتار کرتی ہے تو ان کے چہرے چھپا کر انھیں میڈیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ مگر ان افراد کی یوں ویڈیو بنانے اور اسے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے کا مقصد؟‘
ماروی سرمد نے لکھا کہ ’اس ویڈیو میں کوئی عورت نیم برہنہ نہیں ہے۔ چاہے کچھ بھی ہو، پولیس نے ان کے چہروں کی ویڈیو بنانے اور اسے ریلیز کرنے کی اجازت کیوں دی؟ یہ شخصی آزادی اور پرائیویسی کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔‘
عاصمہ فاونڈیشن سے منسلک انسانی حقوق کی کارکن ندا علی ایڈووکیٹ نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کی ویڈیو اور تصاویر کو وائرل کرکے آئین پاکستان میں دی جانے والی شخصی آزادی اور پرائیویسی کے تحفظ کے قانون کی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان میں ملزمان اور یہاں تک کہ عدالتوں سے مجرم ثابت ہونے والوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں جن کا تحفظ کرنا پولیس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
’پولیس کسی کو سزا یا جزا نہیں دے سکتی ہے یہ کام عدالتوں کا ہے۔ پولیس کا ان کو مجرم بنا کر کیمرے کے سامنے کھڑے کرنا ہی ان کے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پتا نہیں اس کے کس کس کی زندگی اور خاندانوں پر بدترین اثرات مرتب ہوں گے، مگر بہتر حکمت عملی اور اس معاملے کی صاف و شفاف انکوائری کے بعد مزید ایسے واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔‘
’کزن کی شادی میں ڈانس کیا چند روز بعد فیس بُک پر اپنی ویڈیو دیکھ کر حیران رہ گئی‘کرتارپور میں ڈانس پارٹی کی وائرل ویڈیو کی حقیقت کیا ہے؟لاہور میں نجی گارڈ کی شہری پر تشدد، گاڑی پر فائرنگ کی وائرل ویڈیو: ’کرائے پر ویگو ڈالے اور گارڈز دینے کے کلچر کو گلیمرائز کیا جا رہا ہے‘