عالمی منڈیوں کے بعد پاکستان سٹاک ایکسچینج بھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی کے اثرات کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔
رواں ہفتے کے آغاز پر آج پیر کے روز پاکستان سٹاک ایکسچینج میں شدید مندی کا رجحان دیکھا گیا جہاں بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس 6 ہزار 153 پوائنٹس کی بھاری گراوٹ کے بعد 1 لاکھ 12 ہزار 637 کی سطح پر آ گیا ہے۔ شدید مندی کے باعث سٹاک ایکسچینج میں عارضی طور پر ٹریڈنگ روک دی گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق اس مندی کی بنیادی وجہ امریکہ کی جانب سے ٹیرف میں اضافہ اور اس کے اثرات کا ایشیائی مالیاتی منڈیوں پر پڑنا ہے۔
امریکی تجارتی پالیسیوں میں سختی کے بعد دنیا بھر میں سرمایہ کاروں کا اعتماد متاثر ہوا ہے۔ جاپان کا نکی انڈیکس 6.5 فیصد، ہانگ کانگ کا ہینگ سینگ 8 فیصد اور آسٹریلیا کا ایس اینڈ پی انڈیکس 6 فیصد تک گر گیا ہے۔
جنوبی کوریا میں صورت حال اس قدر نازک ہو گئی ہے کہ ٹریڈنگ کو عارضی طور پر روکنا پڑا۔
معروف معاشی ماہر اور ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ نے سٹاک مارکیٹ کی گراوٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف سٹاک مارکیٹ کی تکنیکی مندی نہیں، بلکہ عالمی مالیاتی دباؤ، مہنگائی، اور غیر یقینی سیاسی حالات کا مجموعی اثر ہے۔
’پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک پر بین الاقوامی جھٹکے کا اثر فوری اور شدید ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی کرنسی، زرمبادلہ کے ذخائر اور مالیاتی پالیسیوں کو مزید مضبوط بنانا ہوگا تاکہ اس طرح کے صورتحال سے نمٹا جا سکے۔‘
مالیاتی امور کے ماہر عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ عالمی سٹاک مارکیٹ میں گراوٹ کے اثرات فوری طور پر پاکستان جیسے ابھرتی ہوئے مارکیٹوں پر منتقل ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں رسک ایورژن یعنی خطرے کو ٹالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ خطرے سے بچتے ہوئے مارکیٹ میں ٹریڈنگ کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ مقامی سرمایہ کار بھی بے یقینی کے باعث محتاط نظر آرہے ہیں جو مارکیٹ میں مزید مندی کا سبب بن رہا ہے۔
ابھی تک وزارت خزانہ یا سٹیٹ بینک کی طرف سے اس ہنگامی صورتحال پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔ ماہرین کا مطالبہ ہے کہ حکومت فوری طور پر ایک جامع معاشی پالیسی کا اعلان کرے تاکہ مارکیٹ کا اعتماد بحال ہو سکے۔