رمضان نے بھی ہمارا کیا بگاڑ لیا

بی بی سی اردو  |  Mar 30, 2025

چار پانچ برس کی عمر تک مجھے بس یہی معلوم تھا کہ بچوں کا روزہ بڑوں سے الگ ہوتا ہے۔ بچے ایک افطار دوپہر میں اور ایک شام میں بڑوں کے ساتھ کر سکتے ہیں اور جب پیاس لگے تو پانی بھی پی سکتے ہیں۔ اس طرح کے روزے کو معلوم نہیں کیوں اٹ پٹا روزہ کہتے تھے۔

البتہ یہ تلقین ضرور ہوتی تھی کہ سال کے گیارہ مہینوں میں بالعموم اور رمضان میں بالخصوص غصہ، ضد، گالم گلوچ، جھگڑا، حرص اور بے زبان جانوروں کو تنگ کرنا حرام ہے اور ان حرکتوں کا گناہ عام دنوں سے دس گنا زیادہ ہوتا ہے۔

مگر جب ہم سات آٹھ برس کے ہوئے تو والدین اور آس پاس کے بڑوں پر شک ہونے لگاکہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔ آخر ہمیں کیوں دو افطاریوںوالا روزہ رکھوایا جاتا ہے اور خود کیوں ایک افطاری والا روزہرکھتے ہیں اور پانی بھی نہیں پیتے۔

چنانچہ ایک روز میں نے خود ہی فیصلہ کر لیا اور گھر والوں پر سہہ پہر چار بجے یہ بم پھوڑا کہ آج ہم نے آپ والا روزہ رکھ لیا ہے۔ کسی خوشامد اور دھمکی کا اثر لینے سے بھی انکار کر دیا۔ چنانچہ ابا بادلِ نخواستہ پہلی بار عصر کی باجماعت نماز کے لیے ساتھ لے کر گئے اور واپسی پر تازہ پھولوں کا ہار بھی خریدا ( تب تک کاغذی پھولوں کا رواج نہیں آیا تھا)۔

اس شام کی افطار میں ہم اکیلے وی آئی پی تھے جس نے ہار پہنا ہوا تھا۔ ابا فوٹو گرافر تھے تو انھوں نے تصویریں بھی کھینچیں۔ پہلی بار میں نے خود کو بڑا بڑا سا محسوس کیا۔ مگر ساتھ ہی پابند بھی کر دیا گیا کہ آئندہبڑوں کو بتائے بغیر روزہ نہیں رکھنا۔ جس عمر میں روزہ فرض ہو جائے گا خود بخود رکھوا دیا جائے گا۔

Getty Images

اس واقعہ کو نصف صدی بیت چکی۔ ان پچاس برسوں میں سحری اور افطاری اور تروایح کے معنی بدلتے گئے۔ سحری ہر گھر کا نجی معاملہ تھا۔ کس نے کیا کھایا یا نہیں کھایا۔ اس کے بارے میں نہ کوئی سوال نہ کوئی تاکا جھانکی۔

افطار میں سوائے کھجور، بیسن یا روح افزا کچھ بھی باہر سے نہیں آتا تھا۔ ہر شے گھر میں آنے والے ماہوار راشن میں سے تیار ہوتی تھی اور روزہ کھلنے سے آدھا گھنٹہپہلے آس پاس کے مستحقین اور ہمسائیوںکے ہاں خوان پوش سے ڈھک کے پہنچائی جاتی تھی۔

افطاری کے لوازمات ہی کھانا بھی تصور کیے جاتے تھے۔ افطار ڈنر کاالگ سےتصور نہیں تھا۔ اجتماعی افطار صرف مسجد میں ہوتی تھی جہاں محلے بھر سے کچھ نہ کچھ بھیجا جاتا تھا۔

تراویح رمضان کا چاند نظر آتے ہی شروع ہو جاتی اور شوال کے چاند کا اعلان ہوتے ہی مکمل ہو جاتی۔ تروایح پڑھانے والے مولوی صاحب کو کوئی جوڑا دیتا، کوئی ہار پہنا دیتا اور کوئی خاموشی سے نذرانہ تھما دیتا۔ مولوی صاحب سب کو دعائیں اور عید کے چاند کی مبارکباد دیتے ہوئے گلے ملتے اور رمضان کی رخصتی کا ذکر کرتے ہوئے تھوڑے سے گلوگیر بھی ہو جاتے۔

افطار دسترخوان پر جلیبیاں، امرتی، سویّاں اور میٹھے مشروبات: رمضان میں میٹھے سے ہاتھ کیوں نہیں رکتادنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں کے مخصوص پکوان جن کے بغیر افطار ادھورا لگتا ہےپاڑہ چنار کے راستے کی بندش: ’زندگی میں پہلا رمضان جس میں افطار کے لیے کھجور تک دستیاب نہیں‘دلی کی جامع مسجد میں روزانہ افطار اور محبتیں بانٹنے والی ہندو لڑکی

نصف صدی میں یہ روحانی ماحول کب ایک کمرشل انڈسٹریل طبقاتی روپ دھارتا چلا گیا، پتہ بھی نہیں چلا۔ کرکٹ ٹیسٹ سے ون ڈے اور پھر بیس اور دس اوورز سیریز کی طرح انتیس تیس روزہ تراویح کی روایت پندرہ روزہ، ہفت روزہ اور پھر تین دن کی ایکسپریس تروایح میں بدلتے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ گویا خدا بھی خوش رہے اور کاروبار پر بھی آنچ نہ آئے۔ آخر دنیا کمانے کا بھی تو یہی سیزن ہے۔

افطار کا خالص گھریلو تجربہ سیاسی افطار جھمگھٹوںسے ہوتا ہوا کارپوریٹ اجتماعات کے راستے جانے کب ریستورانوں کے افطار ڈنرز کے ہاتھوں ہائی جیک ہو کے ریٹ کارڈز کی اشتہار بازی اور طرح طرح کی درجنوں ڈشوں کی رال ٹپک اشتہا کے پلِ صراط سے گذر کے اسٹیٹس کی گود میں جا بیٹھا۔

اگر آپ کو آج کا بھگدڑی سماجدیکھنا ہو تو کسی بھی رستوران یا افطار پارٹی میں جانے کا تجربہ کر لیں۔ اذان سے نصف گھنٹہ پہلے ہی ہر میز پر افطار پکوانوں سے بھری پلیٹوں کی شکل میں چھوٹے چھوٹے ہمالیہ نمودار ہونے لگتے ہیں۔

Getty Images

ان میں سے آدھے نذرِ شکم ہو جاتے ہیں اور آدھے پلیٹ میں ہی رہ جاتے ہیں۔ خوردنی لپاڈکی کا اصل دور ذرا دیر بعد شروع ہوتا ہے۔ افطار بوفے کے جس کونے پر سب سے زیادہ ہجوم ہو سمجھ لیجیے کہ وہاں بار بی کیو موجود ہے۔

مجھے ذاتی طور پر افطار و سحری پر گھر سے باہر جانا ہرگز پسند نہیں مگر تین دن قبل ایک مہربان نے بصد اصرارایک مشہور ریستوران میں افطار پر مدعو کیا۔ وہاں پہنچ کر روزہ کشائی سے زیادہ چشم کشائی ہو گئی۔

گنجائش سے زائد مدعوئین جن میں اکثریت معززینِ سیاست و کاروبار و نوکر شاہی و میڈیا کی تھی۔ یہ ہجوم ’ہمالیائی افطار‘ کے بعد آہستہ آہستہ دوبارہبوفے ڈنرکی ڈشوں سے سجی میزوں کے گرد منڈلاتے ہوئے کچھ دیر تو احتراماً صبرِ رمضان میں مبتلا رہا ہے مگر کب تک؟کچھ اتاولوں نے بالاخر ہلہ بول ہی دیا۔

چشمِ فلک نے بھی دیکھاکہ از قسمِ روسٹ، چکن تکے اور چرغے ہوا میں اڑ رہے ہیں اور کیچ کیے جا رے ہیں۔ ویٹرز خالی قابوں کو بھرنے کے لیے پراتوں میں جو تازہ گرماگرمباری بی کیو رسد لا رہے ہیں وہ میز تک پہنچنے سے پہلے آدھے راستے میں ہی لٹ لٹاکر پلیٹوں میں اتر رہی ہے۔

لگ بھگ پونے گھنٹے بعد فاتحینِ افطاری چھٹنے لگے۔ ان میں سے اکثر معززینِ کرام شوفر بردار گاڑیوں میںکڑکڑاتا لٹھا سوٹ سنبھالتے ہوئے بیٹھ رہے ہیں اور ان کے مسلح و غیر مسلح محافظ بھی شکرے بنے گول گول دیدے تیزی سے گھما رہےہیں۔

میں نے اپنے میزبانکے ماتھے پر جب پسینہ دیکھا تو یہ سوچ کر کچھ قرار آ گیاکہ کوئی تو ہے جس کے ماتھے پر عرقِ انفعال باقی ہے۔

رمضان کی حرص کش تعلیمات کا مزید حشر دیکھنا ہو تو احترام رمضان کے نام پر جمائے گئے ٹی وی شوز میں کھچا کھچ بھرے شرکاِ عام کا انہماک و حشردیکھ لیجیے۔ ان سے کیا کیا کہہاور کروا کر ایک سرکسی ماحول میں تحائف بانٹے جاتے ہیں۔

مگرکچھ بھی تو قابلِ حیرت نہیں۔ جب فرد، سماج اور ریاست سمیت سب کے سب عدم تحفظ سے کشید ہونے والے عدم اعتماد میں اندر تک مبتلا ہوں تو وہ نفسانفسی کی شکل میں باہر آ کر ہر رنگ میں اپنا رنگ تو دکھائے گا۔ رمضان آیا اور چلا بھی گیا۔ ہمارا اس کی روایات و تعلیماتنے کیا بگاڑ لیا۔ پھر آ جائے گا اگلے برس۔

افطار دسترخوان پر جلیبیاں، امرتی، سویّاں اور میٹھے مشروبات: رمضان میں میٹھے سے ہاتھ کیوں نہیں رکتادنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں کے مخصوص پکوان جن کے بغیر افطار ادھورا لگتا ہےدلی کی جامع مسجد میں روزانہ افطار اور محبتیں بانٹنے والی ہندو لڑکی رمضان المبارک: برطانیہ کے گرجوں، میوزیم اور سٹیڈیم کے اندر افطاری میں غیر مسلم بھی شریک ہوئےرمضان اور لینٹ: مسیحی برادری اور مسلمانوں کے روزوں میں کیا فرق ہے؟رمضان میں خود کو مذہبی، جسمانی اور مالی طور پر کیسے منظم کیا جائے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More