بلوچستان حکومت نے صوبے میں امن و امان کی خراب صورتحال کے پیش نظر رات کے اوقات میں مسافر بسوں سمیت دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی، یہ اقدام بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافے کے بعد سامنے آیا ہے، جہاں رواں سال متعدد واقعات میں مسافروں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
گوادر، کچھی، ژوب، نوشکی اور موسیٰ خیل کے ڈپٹی کمشنرز نے رات کے اوقات میں سفر پر پابندی عائد کرتے ہوئے نوٹیفکیشن جاری کردیے ہیں۔ کوئٹہ انتظامیہ نے بھی شہر سے روانہ ہونے والی پبلک ٹرانسپورٹ کو رات کے وقت سڑکوں پر چلنے سے روک دیا ہے۔
28 مارچ کو جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں، گوادر کے ڈی سی حمود الرحمٰن نے کہا کہ مکران کوسٹل ہائی وے (این-10) پر تمام پبلک ٹرانسپورٹ کو رات کے وقت مزید احکامات تک کے لیے چلنے سے روک دیا گیا ہے۔
نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ مسافروں کی حفاظت کو مدنظر رکھتے ہوئے، انتظامیہ اور نجی ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن نے کراچی، گوادر اور کوئٹہ سے روانگی کے اوقات کار کو بھی محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ رات پڑنے سے پہلے اپنی منزل پر پہنچ جائیں۔
کراچی یا کوئٹہ سے گوادر جانے والی تمام ٹرانسپورٹ صبح 5 بجے سے 10 بجے کے درمیان روانہ ہوگی، جبکہ ساحلی شہر سے دونوں شہروں کے لیے روانہ ہونے والی ٹرانسپورٹ صبح 6 بجے سے دوپہر 1 بجے کے درمیان روانہ ہوگی۔
کچھی کے ڈی سی جہانزیب لانگو کی جانب سے جاری کردہ ایک ایسے ہی نوٹیفکیشن میں، تمام پبلک اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کو 28 مارچ سے مزید احکامات تک شام 5 بجے سے صبح 5 بجے کے درمیان کوئٹہ-سکھر شاہراہ (این-65) پر سفر نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، جس سے صوبے کا سندھ سے رات کے وقت رابطہ منقطع ہو جائے گا۔
نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ سبی سے کوئٹہ جانے والی گاڑیاں مقررہ اوقات میں سبی میں ناری ریور بینک پر روکی جائیں گی، جبکہ صوبائی دارالحکومت سے آنے والی گاڑیاں کول پور پر روکی جائیں گی۔
ژوب کے ڈی سی محبوب احمد کے ایک علیحدہ حکم نامے میں پبلک بسوں اور کوچوں کو این-50 نیشنل ہائی وے پر ژوب سے گزرنے سے منع کیا گیا ہے، جو کوئٹہ کو خیبرپختونخوا کے ڈیرہ اسماعیل خان سے ملاتی ہے۔
ٹرانسپورٹرز کو 27 مارچ سے مزید احکامات جاری ہونے تک شام 6 بجے سے صبح 6 بجے کے درمیان سفر نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
نوشکی کے ڈی سی امجد سومرو اور موسیٰ خیل کے ڈی سی جمعہ داد مندوخیل نے بھی اسی طرح کے نوٹیفکیشن جاری کیے ہیں، جس میں پبلک ٹرانسپورٹ کو شام 6 بجے سے صبح 6 بجے کے درمیان کوئٹہ-تفتان (این-40) اور ملتان-لورالائی (این-70) شاہراہوں پر چلنے سے منع کیا گیا ہے۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کے مطابق یکم جنوری سے اب تک مختلف وجوہات کی بنا پر قومی شاہراہیں 76 بار بند کی جا چکی ہیں۔
بلوچستان میں عسکریت پسندوں نے حال ہی میں اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے، اور کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) 2024 میں پاکستان میں دہشت گردی کی ایک اہم ذمے دار کے طور پر سامنے آئی ہے۔
حال ہی میں، مسلح افراد نے گوادر میں کوسٹل ہائی وے کو بلاک کر دیا اور کراچی جانے والی بس سے اتار کر 6 افراد کو ہلاک کر دیا، جن کا تعلق پنجاب سے تھا۔
اس مہینے کے اوائل میں جعفر ایکسپریس ٹرین کو ہائی جیک کر لیا گیا تھا، جس میں 18 سیکورٹی اہلکاروں سمیت 26 یرغمالی ہلاک ہو گئے تھے۔ آپریشن کے دوران مزید پانچ سیکورٹی اہلکار بھی شہید ہوئے۔
بلوچستان میں گذشتہ ماہ عسکریت پسندوں نے بولان میں کوئٹہ سکھر این 65 شاہراہ کو مختلف مقامات پر بلاک کردیا تھا اور بلوچستان کے پارلیمانی سیکرٹری میر لیاقت علی لہڑی کی سیکورٹی ٹیم سے ہتھیار چھین لیے تھے۔
اس سے قبل، پنجاب جانے والے 7 مسافروں کو بس سے اتار کر بلوچستان کے بارکھان ضلع میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
گزشتہ سال اگست میں، جب بی ایل اے نے صوبے بھر میں متعدد حملے کیے تھے، تو 23 مسافروں کو ٹرکوں اور بسوں سے اتار کر موسیٰ خیل ضع میں گولی مار دی گئی تھی۔
اسی طرح اپریل 2024 میں میں مسلح افراد نے نوشکی کے قریب کوئٹہ تفتان شاہراہ این 40 پر 9 افراد کو بس سے اتار کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔