سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کئی ماہ سے ایک متنازع موضوع رہی ہے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اس ضمن میں جاری کیے گئے فیصلے کے بعد سے اس بارے میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے پیر کو سماعت کے بعد عمران خان سے ہفتے میں دو روز کی ملاقات کی بحالی اس شرط پر کی گئی تھی کہ سلمان اکرم راجہ یہ ضمانت دیں کہ عمران خان سے ملاقات کے بعد جیل کے حدود کے باہر ہونے والی میڈیا ٹاک نہیں کی جائے گی۔
عدالتی فیصلے کے مطابق سلمان اکرم راجہ کی جانب سے عدالت کو یقین دہانی کروائی گئی ہے جس کے بعد اب سے عمران خان سے ہفتے میں دو روز ملاقاتوں کی بحالی کے علاوہ سلمان اکرم راجہ کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی کی جانب سے ملاقات کے لیے نامزد افراد کے نام جیل انتظامیہ کو دیے جائیں گے۔
اس عدالتی فیصلے کے آنے کے بعد سے سوشل میڈیا پر اکثر صارفین کی جانب سے اس بارے میں موجود ابہام کے بارے میں بات کی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی دور میں وفاقی وزیر رہنے والے فواد چوہدری اور ان کے بھائی اور عمران خان کی لیگل ٹیم کا حصہ رہنے والے فیصل چوہدری کی جانب سے خاص طور پر تنقید کی گئی ہے اور اس فیصلے کو ’عمران خان کی آواز کو خاموش کرنے کے مترادف‘ قرار دیا گیا ہے۔
ان کا مؤقف یہ ہے کہ سلمان اکرم راجہ کی جانب سے دی گئی ضمانت کے بعد عمران خان کی بات پر جیل سے باہر کہیں بھی میڈیا میں بحث نہیں ہو سکے گی تاہم سلمان اکرم راجہ اس مؤقف کو ’پراپیگینڈا‘ قرار دیتے ہوئے اس کی تردید کر رہے ہیں۔
آئیے جانتے ہیں کہ یہ معاملہ ہے کیا ہے اور اس حوالے سے عدالتی فیصلہ کیا کہتا ہے؟
Getty Imagesعدالتی فیصلے میں کیا کہا گیا ہے؟
اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس محمد اعظم پر مشتمل لارجر بینچ نے سلمان اکرم راجہ کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی تھی اور اس ضمن میں فیصلہ 24 مارچ کو سنایا گیا تھا، اور تحریری فیصلہ بدھ کے روز سامنے آیا ہے۔
پیر کو سماعت کے دوران اڈیالہ جیل کے سپرانٹینڈنٹ کے وکیل نوید ملک نے اعتراض اٹھایا تھا کہ 'یہ (پی ٹی آئی کے وکلا و رہنما) جیل ملاقاتوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔'
اس پر قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے استفسار کیا کہ 'جیل ملاقات کے بعد میڈیا ٹاک کی کیا ضرورت ہے؟ یہ ملاقات کر کے چلے جائیں، ان سے انڈر ٹیکنگ لے لیتے ہیں کہ جیل ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو نہ کریں۔'
قائم مقام چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'ایک چھوٹا سا معاملہ ہے ایک دن کے بجائے یہ دو دن ملنا چاہتے ہیں آپ سوچ لیجیے۔' اس پر وکیل نوید ملک نے کہا کہ 'اگر یہ یقین دہانی کروائیں کہ باہر آ کر سیاسی گفتگو نہ کریں گے تو ہفتے میں دو دن ملاقات کروا دیتے ہیں۔'
اس پر قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ 'سلمان اکرم راجا کہہ رہے ہیں کہ ملاقات کے بعد اڈیالہ کے باہر سیاسی گفتگو نہیں ہو گی، ملاقات کریں اور جائیں، باہر نکل کر شو بنانے کی کیا ضرورت ہے۔'
عدالت کے تحریری فیصلے پر نظر دوڑائی جائے تو اس میں بتایا گیا ہے کہ اس بارے میں 'سلمان اکرم راجہ جو اس وقت عدالت میں موجود ہیں نے یہ انڈرٹیکنگ دی ہے کہ ملاقات میں ہونے والی گفتگوں کے حوالے سے جیل کے احاطے کے باہر میڈیا ٹاک نہیں کی جائے گی۔'
فیصلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سپرانٹینڈنٹ جیل کی جانب سے جو رپورٹ جمع کروائی گئی تھی اس کے مطابق پاکستان پرزن رولز 1978کے رول 265 کے مطابق ملاقاتوں کے دوران سیاسی گفتگو کی اجازت نہیں ہے تاہم ملاقاتیوں کی جانب سے قیدی سے ملنے کے بعد الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے بارے میں بے بنیاد پراپیگینڈا کیا جاتا ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق سپرانٹینڈنٹ جیل کے وکیل نے یہ بھی بتایا کہ سکیورٹی وجوہات کے باعث ہفتے میں دو ملاقاتوں کے بجائے ایک دن میں دو علیحدہ ملاقاتیں کروا دی جاتی ہیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق اب سے منگل اور جمعرات کی ملاقاتوں کو بحال کیا جاتا ہے اور ان ملاقاتوں میں شریک ہونے والے افراد کے نام سلمان اکرم راجہ، بیرسٹر گوہر اور نعیم پنجوتھہ کی تین رکنی کمیٹی کی جانب سے دیے جائیں گے۔
حکومتی دستاویزات کے مطابق اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کیسی ہے؟اڈیالہ جیل سے بنی گالہ تک: سب جیل کیا ہوتی ہے اور کیا بشریٰ بی بی کو خلاف قانون یہ سہولت فراہم کی گئی ہے؟احتجاج، مذاکرات اور جیل سے لکھے گئے خطوط: پاکستان میں عام انتخابات کے ایک سال بعد تحریک انصاف کہاں کھڑی ہے؟امریکہ میں عمران خان کی رہائی اور پاکستان کے آرمی چیف پر پابندی سے متعلق بل پیش: ’پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ میں کیا ہے؟سلمان اکرم راجہ کا مؤقف کیا ہے؟
پاکستان تحریکِ انصاف کے سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ سے جب بی بی سی کی جانب سے اس بارے میں مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
تاہم اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک صارف نے سوال پوچھا تو ان کی جانب سے اس بارے میں وضاحت دی گئی ہے۔
24 مارچ کو ایک صارف محمد اعجاز نے سوال کیا کہ 'سر جی آپ نے عمران خان کا آئینی حق ان طاقتوروں کے سامنے سرنڈر کر دیا۔۔۔ اس طرح تو مارشل لا میں بھی نہیں ہوتا کہ کوئی قیدی اپنا مؤقف باہر بیان نہ کر سکے۔'
اس پر سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ 'کس نے کہا کہ خان صاحب کا مؤقف بیان نہیں ہو سکتا؟ صرف یہ کہا گیا ہے کہ رفقا جیل کے گیٹ پر پریس کانفرنس نہ کریں۔ اور جہاں مرضی کریں۔ بہنیں اور وکلا تو بات کرتے ہی ہیں۔'
24 مارچ کو ایک ہی ایک علیحدہ پوسٹ میں سلمان اکرم راجہ نے لکھا کہ ' اڈیالہ جیل کے باہر فوری گفتگو ضروری ہے یا عمران خان صاحب سے ان ملاقاتوں کی بحالی جو اکتوبر سے نہیں ہو پائیں؟ بیانیہ فوری ردِعمل نہیں۔
'سینیٹ اور قومی اسمبلی موجود ہیں۔ پریس کانفرنس کہیں اور ہو یا ٹی وی پر مکالمہ، سب ممکن ہیں۔ ہم مثالی ماحول میں نہیں جی رہے۔ بہنوں پر یہ قدغن نہیں۔'
اسی روز ایک اور پوسٹ میں سلمان اکرم راجہ نے یہ بھی کہا کہ 'خاندان اور وکلا کے علاوہ خان صاحب سے تمام ملاقاتوں کو ایک سازش کے تحت بند کیا گیا۔ آج اس سازش کو بڑا دھچکا لگا ہے۔
’سازش میں کون کون شامل تھا مجھے معلوم ہے۔ آئین اور قانون کے تقاضے کیا ہیں، یہ بھی واضح ہے۔ سازشی آج افسردہ ہیں۔ مجھ پر ان کا حملہ بنتا ہے۔‘
ان کا ایک پوسٹ میں یہ بھی کہنا تھا کہ 'ہر ہفتے خان صاحب کی بہنیں اور بی بی صاحبہ کی بیٹیاں ملتی ہیں۔
'اب وکلا کے علاوہ خان صاحب کے نامزد رفقا ملیں گے۔ بہنوں، خاندان کے افراد اور وکلا کی ملاقاتیں حسب سبق ہوتی رہیں گی۔ ان ملاقاتوں کے بعد فوری گفتگو پر کوئی قدغن نہیں۔ آئین اظہار کا حق بھی دیتا ہے اور معلومات حاصل کرنے کا بھی۔'
آج ان کی جانب سے ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ’اسلام آباد ہائیکورٹ کا آرڈر سب تسلی سے پڑھیں۔ میری عمران خان صاحب سے کل عدالت میں ہوئی گفتگو کے حوالے سے تفصیلی بات ہو چکی ہے۔
’اس موضوع پر چند دن بعد گفتگو کریں گے۔ احباب حوصلہ رکھیں۔ جب تک رضائے الہی ہے میں یہیں ہوں۔ عمران خان کی آواز ملک کی سب سے بڑی سیاسی حقیقت ہے اور رہے گی۔‘
’یہ مجموعی طور پر عمران خان کی بات باہر آ کر نہ کرنے پر پابندی ہرگز نہیں ہے‘
اس حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے قانونی ماہر عبدالمعیز جعفری کا کہنا تھا کہ ’اس فیصلے سے اگر کوئی یہ اخذ کر رہا ہے کہ عمران خان سے کی گئی بات سرے سے باہر آ کر نہیں کہی جا سکے گی تو یہ بیوقوفی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’فیصلہ میں جیل کے احاطہ کے باہر میڈیا ٹاک نہ کرنے کی بات کی گئی ہے جس کے حوالے سلمان اکرم راجہ نے ضمانت دی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ جیل سپرانٹینڈنٹ کی جانب سے اس حوالے سے یہ کہا گیا ہے کہ جیل کے باہر سکیورٹی خدشات کے باعث یہ میڈیا ٹاکس نہ کروائی جائیں اور دوسرا یہ کہ ان میڈیا ٹاکس میں اداروں پر تنقید کی جاتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ مجموعی طور پر ان کی بات باہر آ کر نہ کرنے پر پابندی ہرگز نہیں ہے اور ایسا کرنا ممکن بھی نہیں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس بارے میں جو شرائط طے کی گئی ہیں ان کے مطابق آئندہ ملاقاتوں کی اجازت دی گئی ہے اور اس میں جیل کے باہر میڈیا ٹاکس نہ کرنے کی ضمانت سلمان اکرم راجہ نے دی ہے لیکن عدالت نے کہیں یہ نہیں کہا کہ اس بار میں کہیں اور بھی بات نہیں کی جا سکتی۔‘
امریکہ میں عمران خان کی رہائی اور پاکستان کے آرمی چیف پر پابندی سے متعلق بل پیش: ’پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ‘ میں کیا ہے؟احتجاج، مذاکرات اور جیل سے لکھے گئے خطوط: پاکستان میں عام انتخابات کے ایک سال بعد تحریک انصاف کہاں کھڑی ہے؟’شہباز شریف نے بہت دیر کر دی‘: مذاکرات ختم کرنے کے بعد تحریک انصاف کی حکمتِ عملی کیا ہو گی؟’عمران خان سے متعلق ٹرمپ کے تاثرات نہیں جانتا‘:پاکستان میں اپنے بیانات سے ہلچل مچانے والے امریکی جینٹری بیچ کون ہیں؟190 ملین پاؤنڈ کیس کے فیصلے سے قبل سزاؤں کی ’بریکنگ نیوز‘: ’یہ بھی المیہ ہے کہ عدالتی فیصلوں کا علم صحافیوں کو پہلے ہو جاتا ہے‘حکومتی دستاویزات کے مطابق اڈیالہ جیل میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی زندگی کیسی ہے؟