کیا راجپوت راجہ رانا سانگا نے مغل بادشاہ بابر کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی تھی؟

بی بی سی اردو  |  Mar 26, 2025

Getty Imagesرانا سانگا کی تصویر کشی

انڈیا میں مغل سلطنت قصہ پارینہ ہو چکی ہے لیکن انڈین سیاست میں مغل سلاطین پہلے سے کہیں زیادہ حسب حال ہیں۔ کبھی اورنگزیب عالمگیر سرخیوں میں ہوتے ہیں تو کبھی ظہیر الدین محمد بابر شہ سرخیوں ہوتے ہیں۔

ابھی اورنگزیب کی قبر کھودنے کے بیان والا معاملہ سرد بھی نہیں ہوا تھا کہ بابر اور رانا سانگا کے حوالے سے ایک نیا تنازع سامنے آیا ہے۔

دراصل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما سنجیو بالیان کی جانب سے ایک ویڈیو کلپ شیئر کیا گیا ہے جس میں سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمان رام جی لال سُمن کو پارلیمنٹ میں رانا سانگا کو ’غدار‘ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

کلپ میں یہ وہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ’بی جے پی کہتی ہے کہ مسلمانوں میں بابر کا ڈی این اے ہے، ہندوستان کے مسلمان بابر کو نہیں مانتے، وہ (پیغمبر اسلام) اور صوفی بزرگوں کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں، بابر کو ہندوستان کون لایا تھا؟ رانا سانگا نے ابراہیم لودھی کو ہرانے کے لیے بابر کو بلایا تھا۔ اگر مسلمان بابر کی اولاد ہیں تو تم غدار رانا سانگا کی اولاد ہو۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم بابر کو تو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن، رانا سانگا پر تنقید نہیں کرتے۔‘

اس معاملے نے طول پکڑ لیا ہے اور سماجوادی پارٹی کے رہنما کو سنگھ پریوار کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے جب کہ انھیں سوشل میڈیا پر ٹرول کیا جا رہا ہے۔

انڈیا میں جاری اس سیاسی مناظرے سے قطع نظر ہم یہاں یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ رانا سانگا کون ہیں اور کیا انھوں نے واقعی بابر کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی تھی۔

ہم نے اس کے لیے کئی تاریخ دانوں سے رابطہ کیا اور تاریخ کے اوراق الٹنے کی کوشش کی تاکہ اس بیان پر روشنی پڑ سکے۔

رانا سانگا کون تھے؟

سنگرام سنگھ کو عرف عام میں رانا سانگا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہ راجہ رائے مل اور رانی رتن کنور کے ہاں پیدا ہوئے اور ان کے تیسرے بیٹے تھے۔

ان کی پیدائش کی اصل تاریخ تو معلوم نہیں لیکن کوائف سے بتایا جاتا ہے کہ وہ 1482 میں پیدا ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ حالات کے پیش نظر حکومت حاصل کرنے کے لیے انھیں اپنے بڑے بھائیوں کنور پرتھوی راج اور جگمل سے جنگ کرنی پڑی جس میں ان کی ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی۔

بہر حال اس کے بعد وہ 1509 میں میواڑ کے تخت کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اپنے عروج کے زمانے میں ان کی بادشاہت موجودہ پورے راجستھان، گجرات کے کچھ حصے تک پھیلی ہوئی تھی جبکہ مدھیہ پردیش کے کچھ حصے کے ساتھ ہریانہ اور اترپردیش کے کچھ علاقے پر بھی ان کی عملداری تھی۔

لیکن اس وقت کا راجپوتانہ زیادہ تر راجستھان اور تھوڑا سندھ اور تھوڑا گجرات کے حصے پر مشتمل تھا۔

رانا سانگا کی بہادری کی تعریف خود بادشاہ بابر نے بھی کی ہے جبکہ عام طور پر انھیں راجپوتوں کو متحد کرنے والے راجہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اور یہ کارنامہ انھوں نے اپنی سیاسی بصیرت اور رشتہ ازدواج کے ذریعے انجام دیا۔

کہا جاتا ہے کہ رانا سانگا نے کھانوا کے میدان پر بابر کے خلاف جنگ کے علاوہ کوئی بڑی جنگ نہیں لڑی البتہ انھوں نے دہلی سلطنت پر متمکن لودھی حکومت کے بعض علاقوں پر چھاپے مارے اور کامیاب رہے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے مالوہ اور گجرات کے بادشاہوں کو بھی شکست دی تھی۔

Getty Imagesبادشاہ ظہیرالدین بابر ہندوستان میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھیکیا رانا سانگا نے بابر کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی تھی؟

ہم نے یہ سوال کئی یونیورسٹی کے عہد وسطی کے ماہر تاریخ دانوں سے کیا تو انھوں نے دو ٹوک کہا کہ نہ صرف رانا سانگا نے بلکہ دولت خان لودھی نے بھی بابر کو دہلی کے سلطان ابراہیم لودھی کے خلاف حملے کی دعوت دی تھی۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر سید ندیم علی رضاوی نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تزک بابری کے وہ صفحات اگرچہ غائب ہیں جن میں عین ممکن ہے ان کے خطوط کا ذکر کیا ہو لیکن کھانوا (یا کنواہہ) کی جنگ میں جب رانا سانگا ان کے خلاف لشکر لے کر آئے تو انھوں نے کہا کہ 'دیکھو جس نے مجھے یہاں آنے کی دعوت دی تھی اب وہی میرے خلاف کھڑا ہے۔'

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کھانوا کی جنگ میں بابر کے مخالف نہ صرف رانا سانگا کی فوج تھی بلکہ حسن خان میواتی اور دیگر تقریباً دس ہندو مسلم راجے رجواڑوں کی فوجیں بھی تھیں جس میں گجرات کے بادشاہ بہادر شاہ کی بھی فوج تھی۔

پروفیسر ندیم علی نے کہا کہ اس کے علاوہ رانا سانگا نے ابراہیم لودھی کے بھائی سلطان محمود لودھی کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا بلکہ ان کے نام کے سکے بھی چلائے تھے۔

’ابراہیم لودھی کی پانی پت میں شکست کے بعد افغان اور راجپوت حکمرانوں نے انھیں دہلی کا اصل حقدار قرار دیا تھا۔ لیکن کھانوا کی جنگ میں شکست کے بعد سلطان محمود نے راہ فرار اختیار کر لیا۔‘

انھوں نے کہا کہ بابر نے اس پورے اتحاد کے لیے ’کافر‘ کا جو لفظ استعمال کیا ہے وہ دراصل دشمن اور مخالف کے لیے ہے نہ کہ غیر مسلم کے لیے۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ رانی جھانسی کے ساتھ ساتھ اب ہر مرنے والے محب وطن کو شہید کہا جاتا ہے جبکہ شہید کی اصطلاح خالص اسلامی ہے۔ اسی طرح آج آپ کو ہر یونیورسٹی میں ڈین مل جائیں گے لیکن یہاصطلاح خالص مسیحی ہے۔

سینٹر یونیورسٹی حیدرآباد میں تاریخ کے پروفیسر سنجے سوبودھ نے فون پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ رانا سانگا نے بابر کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دی تھی۔

انھوں نے یہ وضاحت کی کہ دہلی سلطنت پر جو بادشاہ متمکن ہوتا تھا اسے ہی کم از کم پورے شمالی ہندوستان کا اصل حکمراں تصور کیا جاتا تھا۔

Getty Images1526 میں ہونے والی پانی پت کی پہلی جنگ کا ایک منظر

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ آج کے ’نیشن سٹیٹ‘ نظریے کی طرح قرون وسطی میں سرحدیں نہیں ہوتی تھیں اس لیے اس زمانے میں اس طرح کا ’اندرونی‘ اور ’بیرونی‘ یا دیسی بدیسی کا کوئی تصور نہیں تھا۔

پروفیسر سنجے نے کہا کہ کسی راجہ نے ایک حصہ جیت لیا تو وہ اس کی سلطنت کا حصہ ہو گیا۔ چنانچہ خود رانا سانگا نے میوار کی سرحد کو بڑھا کر گجرات اور دلی تک پہنچا دیا۔

انھوں نے مزید کہا کہ اگر آپ دیکھیں تو ماضی میں راجہ اشوک کی سلطنت تو آج کے افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی تو پھر اس طرح کون اندرونی کون بیرونی حملہ آور ہو سکتا ہے۔ انھوں نے اس معاملے میں بیرونی حملے کے جدید تصور کو ہی سرے سے مسترد کر دیا۔

وہ رقاصہ جو مغل بادشاہ سے بھی زیادہ طاقتور حکمران بنیںہمایوں: اپنے بھائی کے قتل سے انکار کرنے والے مغل بادشاہ جن کی نرمی کا ان کے دشمنوں اور اپنوں نے ناجائز فائدہ اٹھایابادشاہ بابر کی لاڈلی بیٹی گلبدن بیگم جنھوں نے حرمین کے قیام کے دوران سلطنت عثمانیہ کے فرمان کو بھی ٹھکرا دیاکیا 111 سالہ بڑھیا کی کہانی نے بابر کو ہندوستان کی فتح کا خواب دکھایا؟

دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کی استاد اور تاریخی امور کی معروف بلاگر روچیکا شرما نے بی بی سی اردو سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف فارسی اور مغل ماخد بتاتے ہیں کہ رانا سانگا نے بابر کو خط لکھ کر ابراہیم لودھی کے خلاف لشکر کشی کی دعوت دی تھی۔

جبکہ دوسری طرف راجپوت ذرائع بتاتے ہیں کہ دولت خان لودھی نے بابر کو دعوت دی تھی اور بابر نے رانا سانگا سے دہلی پر لشکر کشی کرنے کے لیے مدد مانگی تھی۔ یہاں نکتہ یہ ہے کہ دونوں ہی صورتوں میں رانا سانگا ابراہیم لودھی کے خلاف بابر کے حلیف ٹھہرے۔

انھوں نے کہا کہ اگرچہ دولت خان لودھی یا رانا سانگا کے فوجیوں نے بابر کی فوج کے ساتھ پانی پت کی جنگ میں شرکت نہیں کی لیکن ان دونوں کی انھیں حمایت حاصل تو تھی ہے۔

لیکن پروفیسر ندیم علی نے کہا کہ تاریخ رشیدی میں بابر ایک رشتہ دار مرزا حیدر دغلت نے صاف طور پر لکھا ہے کہ رانا سانگا نے کئی خطوط لکھ کر بادشاہ بابر کو دہلی سلطنت کے خلاف لشکر کشی کی دعوت دی تھی۔

’بابر کو دعوت دینا اس زمانے کی سیاست تھی‘

پروفیسر سید ندیم اس بارے میں کہتے ہیں کہ 1526 پہلا موقع نہیں تھا جب بابر نے ہندوستان کا رخ کیا تھا۔ انھوں نے اس سے قبل کئی بار اس خطے کا رخ کیا، سورش کی اور واپس کابل چلے گئے۔

انھوں نے کہا کہ ظہیر الدین محمد بابر نے سنہ 1519 میں پنجاب کے ایک حصے پر قبضہ بھی کر لیا تھا لیکن پھر اسے کسی کے سپرد کر کے واپسی کی راہ لی تھی۔ لیکن جب اسے پنجاب کے حکمران اور ابراہیم لودھی کے رشتہ دار دولت خان لودھی اور رانا سانگا کی جانب سے حملے کی دعوت ملی تو انھوں نے اس موقعے کو غنیمت جانا اور دہلی کا قصد کیا جہاں ان کی لڑائی ابراہیم لودھی سے 1526 میں پانی پت کے میدان میں ہوئی اور اس میں ابراہیم لودھی کی موت کے ساتھ ہی لودھی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔

پروفیسر سنجے نے کہا کہ بابر نے عہد وسطی کی اور افغان مغل روایت کو توڑتے ہوئے ابراہیم لودھی کی تجہیز و تکفین کا انتظام کیا اور آج پانی پت میں اگر ان کا مقبرہ ہے تو یہ بابر کی ہی دین ہے۔ ان کے مطابق اس زمانے میں دشمن سے ہمدردی دکھانے کا رواج نہیں تھا۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس زمانے میں جس کی دلی پر حکومت ہوتی تھی دراصل وہی بڑا بادشاہ ہوتا تھا چنانچہ نہ صرف رانا سانگا کی دلی پر نگاہ تھی بلکہ دولت خان لودھی بھی دلی پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ان دونوں نے سوچا تھا کہ بابر کی فوج ابراہیم لودھی کو کمزور کر دے گی اور جب وہ واپس جائے گی تو یہ ان کے لیے لقمۂ تر ہوگا لیکن بساط اس وقت الٹی پڑ گئی جب بابر نے اپنے بہت سے امرا اور کمانڈروں کی خواہش کے برخلاف ہندوستان میں قیام کا فیصلہ کر لیا۔

ڈاکٹر روچیکا نے بتایا کہ معروف مورخ ستیش چندر نے اپنی کتاب 'میڈیول انڈیا' میں لکھا ہے کہ رانا سانگا کا یہ خیال تھا کہ بابر ابراہیم لودھی کو شکست دے کر اسے کمزور کر دے گا اور واپس چلا جائے گا تو دہلی کو شکست دینا ان کے لیے آسان ہو جائے گا لیکن جب بابر نے نہ جانے کا فیصلہ کیا تو وہ بابر کا مخالف ہو گیا اور اس نے بابر کے خلاف حملہ کر دیا۔

دوسری جانب پروفیسر سنجے بتاتے ہیں کہ رانا سانگا جیسے راجاؤں کے رہتے ہوئے بابر کے لیے دہلی کو برقرار رکھنا مشکل تھا اس لیے دلی کی اپنی سلطنت کو مستحکم کرنے کے لیے بابر کا رانا سانگا کو شکست دینا ضروری تھا۔

چنانچہ بابر اپنی خودنوشت تزک بابری میں لکھتے ہیں کہ ’جمادی اول کی نویں تاریخ کو دوشنبہ کے دن رانا سانگا سے لڑنے کے لیے آگرہ شہر سے روانہ ہوا۔ شہر سے نکل کر میدان میں پڑاؤ ڈالا، تین چار دن تک وہیں خیمے گڑے رہے تاکہ جو فوج ادھر ادھر تھی وہ یہیں آ کر مل جائے۔‘

’اس درمیان میں رانا سانگا نے بیانہ میں تباہی مچا دی اور لوگ وہاں سے پریشان ہو کر میرے پاس آنے لگے۔ میں نے لڑائی کی تیار کی۔ دشمن نے پہلے دستے کو کافی نقصان پہنچایا اور وہ پریشان ہو کر لوٹنے لگے۔ میں خود سوار ہو کر آگے بڑھا تو معلوم ہوا کہ دشمن نے پیش قدمی روک دی ہے۔‘

بابر نے لکھا کہ ’نجومی نے یہ بات پھیلا دی کہ اس وقت مریخ ستارہ مغرب میں ہے اور یہ بات منحوس ہے اس لیے شکست ہو گی۔ اس بات نے میری فوج کے دل ہلا دیے۔‘

بہر حال بعض مورخ اس جنگ کو بابر کے لیے پانی پت کی جنگ سے زیادہ مشکل اور موثر مانتے ہیں۔

مؤرخ روچیکا شرما کہتی ہیں کہ اس جنگ میں فتح سے بابر کی تقریبا پورے شمالی ہندوستان پر حکومت مستحکم ہو گئی۔

’اس موقع پر نہ صرف بابر نے شراب نوشی سے توبہ کی بلکہ یہ ارادہ بھی کیا کہ اگر انھیں رانا سانگا کے خلاف فتح نصیب ہوتی ہے تو وہ رعایا کو ہر قسم کا محصول معاف کر دیں گے اور اس کے متعلق انھوں نے فرمان بھی جاری کیا۔

بابر نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ ’دشمن کی زیادہ تعداد کی وجہ سے میری فوج میں بد دلی پھیل گئی، اس لیے میں نے پوری فوج کو ایک جگہ جمع کیا اور تقریر کی۔۔۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ میری تقریر کا بہت اچھا اثر ہوا، اس سے فوج میں جوش بھر گيا، لڑائی جم کر ہوئی اور آخر میری فتح ہوئی۔ یہ 933 ہجری 1527 عیسوی میں ہوئی، میں آگرے کی جانب بڑھا اور آگرے کے تخت پر بیٹھا۔'

کھانوا کی جنگ سے پہلے ہی رانا سانگا کسی ایک جنگ میں اپنا ایک ہاتھ گنوا بیٹھے تھے جبکہ بھائیوں کے ساتھ جنگ میں ان کی ایک آنکھ جاتی رہی تھی تاہم اس جنگ میں وہ بہت بے جگری سے لڑے اور زخموں سے چور انھیں بے ہوشی کی حالت میں میدان جنگ سے لے جایا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ علاج و معالجے کے بعد جب وہ رو بہ صحت ہوئے تو انھوں نے ایک بار پھر بابر کے خلاف لشکر کشی کا منصوبہ بنایا۔ ان کے امرا کو ان کا یہ فیصلہ منظور نہیں تھا کیونکہ وہ دوبارہ بابر کا سامنا کرنے کے متحمل نہیں تھے۔ چنانچہ ان کے اپنے ہی امرا نے انھیں زہر دے دیا اور اس طرح 20 مئی 1528 کو ان کی موت واقع ہو گئی۔

رانا سانگا کتنے بہادر تھے؟

اس سوال پر سید ندیم علی رضاوی نے کہا کہ ایسا کوئی راجہ یا جنرل نہیں گزرا ہے جس نے شکست کا منھ نہ دیکھا ہو۔ چنانچہ یہ کہنا کہ رانا سانگا کو کھانوا کی جنگ سے پہلے شکست نہیں ہوئی تھی محض کہانی ہے۔

ڈاکٹر روچیکا شرما نے بتایا کہ رانا سانگا نے راجپوتوں کو متحد کیا لیکن ان کی جنگی حکمت عملی راجپوتوں کی وہی پرانی چھاپے مارنے کی تھی جس کا انھیں فائدہ ہوتا تھا۔ یہی حکمت عملی پرتھوی راج چوہان دوسرے راجپوت راجاؤں کے خلاف اپنا چکے تھے اور یہی حکمت عملی شیوا جی نے اورنگزیب کے خلاف اپنا رکھی تھی۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں پانی پت کی پہلی جنگ کے بعد جب بیانہ کا علاقہ بابر کے قبضے میں آ گیا تو وہاں رانا سانگا کو قدرے کامیابی حاصل ہوئی جس کا ذکر خود بابر نے بھی کیا ہے۔

دوسری جانب پروفیسر سنجے کا کہنا ہے کہ اگر بابر کے ساتھ رانا سانگا کی جنگ نہیں ہوتی تو انھیں تاریخ بھلا چکی ہوتی کیونکہ اس طرح کے راجپوتوں میں بہت سے راجے گزرے ہیں۔ تاہم کہانیوں اور نظموں میں ان کی بہادری کے قصے ملتے ہیں۔

ہمایوں: اپنے بھائی کے قتل سے انکار کرنے والے مغل بادشاہ جن کی نرمی کا ان کے دشمنوں اور اپنوں نے ناجائز فائدہ اٹھایاکیا 111 سالہ بڑھیا کی کہانی نے بابر کو ہندوستان کی فتح کا خواب دکھایا؟اردو بیگی: مغل بادشاہ اور حرم کی خواتین محافظ جن سے اورنگزیب بھی ڈرتے تھےمغل بادشاہ اکبر جن کے آخری ایام اپنے ہی باغی بیٹے سے لڑتے ہوئے گزرے مغل بادشاہ اورنگزیب کی ’پونے تیرہ روپے‘ میں بنی قبر کے خلاف انڈیا میں احتجاج اور ہنگامے کیوں؟مغل بادشاہ اکبر کو راجستھان میں ’عظیم‘ کہنے سے کیوں روکا گیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More