بھگت سنگھ کے ساتھ پھانسی پانے والا ’خاموش ہیرو‘ سکھ دیو کون تھا؟

بی بی سی اردو  |  Mar 24, 2025

لالہ لاجپت رائے کی موت کے بعد آزادی پسندوں کا ایک اجلاس ہوا جس کی صدارت درگا بھابھی نے کی۔ وہ سب دنیا کو دکھانا چاہتے تھے کہ ہندوستان کے لوگ لاجپت رائے کی موت کو آسانی سے قبول نہیں کریں گے۔ اس میٹنگ میں بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو اور چندر شیکھر آزاد موجود تھے۔

درگا بھابھی نے اعلان کیا کہ لالہ لاجپت رائے کی موت کا بدلہ جیمز سکاٹ کو مار کر لیا جائے گا، جنھوں نے ان پر لاٹھی چارج کا حکم دیا تھا۔

کلدیپ نائر اپنی کتاب ’ود آؤٹ فیئر، دی لائف اینڈ ٹرائل آف بھگت سنگھ‘ میں لکھتے ہیں ’درگا بھابھی نے وہاں موجود ہر شخص سے پوچھا کہ یہ کام کون کرنا چاہے گا؟ اس پر سب نے ہاتھ اٹھائے۔‘

’سکھ دیو یہ کام خود کرنا چاہتے تھے، لیکن انھیں اس لیے منتخب نہیں کیا گیا کیونکہ وہ حکمت عملی کے چیف تھے۔ اس کے بعد سکھ دیو نے اس کام کے لیے بھگت سنگھ، راج گرو، چندر شیکھر آزاد اور جئے گوپال کا انتخاب کیا۔‘

نائر لکھتے ہیں ’سکھ دیو نے منصوبہ بنایا کہ بھگت سنگھ سکاٹ کو گولی ماردیں گے۔ جیسے ہی بھگت سنگھ کے نام کا اعلان ہوا، کمرے میں سرگوشیاں شروع ہونے لگیں کہ بھگت سنگھ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھ کر سکھ دیو شاید ان سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔‘

’یہ واضح تھا کہ سکاٹ کو گولی مارنا مشکل تھا، لیکن پھر پولیس کی حراست سے فرار ہونا اور بھی مشکل تھا۔‘

’سکھ دیو نے ان سرگوشیوں پر توجہ دیے بغیر پورے منصوبے پر فیصلہ کیا۔ راج گرو بھگت سنگھ کو کور فراہم کریں گے۔ آزاد انھیں وہاں سے بحفاظت نکالنے کے انچارج ہوں گے اور جئے گوپال جیمز سکاٹ کی شناخت کریں گے۔‘

پارٹی نے ان کا نام ’دیہاتی‘ رکھاGetty Imagesسکھ دیو نے فیصلہ کیا کہ بھگت سنگھ یہ سفر درگا دیوی کے شوہر کے طور پر کریں گے

جئے گوپال کی غلطی کی وجہ سے گولی سکاٹ کے بجائے سینڈرز کو لگی۔ سکھ دیو نے خود منصوبہ بنایا کہ بھگت سنگھ دہرادون ایکسپریس سے کلکتہ روانہ ہوں گے۔

سکھ دیو نے فیصلہ کیا کہ بھگت سنگھ یہ سفر درگا دیوی کے شوہر کے طور پر کریں گے۔ درگا دیوی اپنا نام بدل کر سجاتا رکھ لیں گی اور سفر کے دوران بھگت سنگھ کا نام رنجیت ہو گا۔

درگا بھابھی کا تین سالہ بیٹا سچن بھی ان کے ساتھ جائے گا۔ اس دوران راج گرو بھی ان کے ساتھ ہوں گے لیکن ٹرین کے دوسرے ڈبے میں نوکر کے طور پر۔

منصوبہ اتنا قطعی تھا کہ بھگت سنگھ کو کوئی پہچان نہ سکا اور وہ لاہور سے بحفاظت نکل آئے۔

سکھ دیو، 19 فروری 1907 کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے اور وہ پارٹی میں ’دیہاتی‘ کے نام سے جانے جاتے تھے۔

شیو ورما جو ان کے قریبی ساتھی تھے، اپنی کتاب ’ریمینسیز آف فیلو ریوولوشنریز‘ میں لکھتے ہیں ’میں نے ان کا نام سنا تھا لیکن ایک دن جب وہ کانپور کے کالج میں بغیر کسی پیشگی اطلاع کے بھگت سنگھ کا خط لے کر میرے کمرے میں آئے تو ان کے بارے میں میرے ذہن میں موجود تمام تصورات ختم ہو گئے۔‘

’میں نے سوچا تھا کہ ’دیہاتی‘ کوئی ایسا شخص ہو گا جو ناخواندہ یا کم تعلیم یافتہ ہو اور گاؤں میں رہتا ہو، لیکن میں نے انھیں ایک مضبوط ساخت کا آدمی پایا۔ وہ رنگت میں میلا اور خوبصورت گھنگریالے بالوں والا شخص تھا۔‘

’اس کی آنکھیں بہت نرم تھیں، وہ کچھ دن میرے کمرے میں رہا۔ اسی دوران بھگت سنگھ بھی ایک دن کے لیے وہاں آئے۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ ان کا اصل نام سکھ دیو ہے۔‘

مار کھانے کے باوجود چہرے پر مسکراہٹ

سکھ دیو کو ہر چھوٹی بات پر ہنسنے کی عادت تھی۔

ان کے ساتھ کوئی نہ ہنسے تب بھی وہ اکیلے ہی ہنستے رہتے۔ پھر وہ یکایک خاموش ہو جاتے، جیسے کسی نے ان کی ہنسی پر بریک لگا دی ہو۔

شیو ورما لکھتے ہیں ’لاہور جیل میں بھوک ہڑتال کے دوران ہم سب کو مارا پیٹا جا رہا تھا۔ ڈاکٹر ہم سب کو زبردستی دودھ پلانے کی کوشش کر رہے تھے۔‘

’جیل سپرنٹنڈنٹ نے سکھ دیو کا سیل کھولا۔ سیل کھلتے ہی وہ باہر بھاگے۔ دس دن سے بھوکا رہنے کے باوجود وہ اتنی تیزی سے بھاگے کہ انھیں پکڑنا مشکل ہوگیا۔‘

’جب انھیں بڑی مشکل سے پکڑا گیا تو انھوں نے کچھ پولیس والوں کو مارا پیٹا اور کچھ کو کاٹا۔ جیل کے عملے نے انھیں ڈاکٹر کے پاس بھیجنے سے پہلے بری طرح مارا۔ مارنے کے باوجود وہ مسکراتے رہے۔‘

ورما نے لکھا ہے ’جب پولیس والوں نے انھیں زبردستی لٹا کر دودھ پلانے کی کوشش کی تو انھوں نے اپنی ٹانگیں ہلانا شروع کر دیں۔‘

’جب انسپکٹر ان کے بالکل قریب آیا تو انھوں نے کسی طرح ٹانگ چھڑائی اور اسے اتنا زور سے مارا کہ وہ دو گز پیچھے گر گیا۔ اس دوران بھی سکھ دیو مسکراتے رہے۔‘

سکھ دیو کو گندے کپڑوں میں دیکھا گیا

سکھ دیو کو اکثر گندے کپڑوں میں دیکھا جاتا تھا۔ اس کا لباس ایک گندا علی پاجامہ اور اس کے اوپر اس سے بھی زیادہ گندا کھادی کرتا تھا۔

ان کے کُرتے کے سارے بٹن کھلے رہتے تھے اور کُرتا اکثر پھسل کر کندھوں پر آ جاتا تھا۔ انھوں نے اپنے سر پر سوداگروں کی طرح گول ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر تیل اور مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی۔

لیکن وہ مہنگے جوتے پہنتے تھے۔ انھیں یہ پسند نہیں تھا کہ کوئی ان کے طرز زندگی اور لباس پر تبصرہ کرے۔

ایم ایم جونیجا اپنی کتاب ’شہید سکھ دیو کی مستند سوانح عمری‘ میں لکھتے ہیں ’جب بھی کوئی ان کے کپڑوں پر تبصرہ کرتا تو وہ غصے میں آ جاتے اور کہتے ’میں یہاں شادی کرنے نہیں آیا، اگر آپ کو میرے کپڑے پسند نہیں ہیں تو آنکھیں بند کر لیں۔‘

’لیکن کبھی کبھی، پارٹی کے مفاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے وہ سفید دھوتی اور کُرتا پہنتے تھے اور ٹوپی نہیں پہنتے تھے۔‘

شیو ورما کو کپڑوں کا تحفہ

1928 میں شیو ورما کو امرتسر میں سکھ دیو کے ساتھ رہنے کا موقع ملا۔

شیو ورما لکھتے ہیں ’ان دنوں اپنے مہنگے جوتوں کے بجائے انھوں نے ایک موچی کے بنائے ہوئے عام جوتے پہننا شروع کر دیے تھے جنھیں وہ چپل کے طور پر استعمال کرتے تھے۔‘

’ہو سکتا ہے انھیں اپنے کپڑوں کی پرواہ نہ ہو، لیکن وہ اپنے دوستوں کو اچھے کپڑے پہنے دیکھ کر خوش ہوئے۔ ایک بار انھوں نے مجھے پنجابی پاجامہ، کرتہ، کوٹ، پگڑی اور جوتے خرید کر دیے۔‘

’سکھ دیو کے اصرار پر میں نے ان کے لائے ہوئے کپڑے پہن لیے۔ انھوں نے اپنے ہاتھوں سے میری پگڑی ٹھیک کی۔ پھر انھوں نے دور سے میری طرف دیکھا اور کہا، اب تم بالکل پنجابی لگ رہے ہو۔‘

’جب میں نے ان سے کہا کہ وہ اپنے کپڑے بھی بدل لیں تو انھوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے اپنا خادم سمجھیں۔‘

جب بھگت سنگھ نے پھانسی کے پھندے کو چوما اور موت کو گلے لگایا23 مارچ اور بھگت سنگھ: کیا آج بھی ان کے خیالات اتنے ہی اہم ہیں؟درگا بھابھی، جو انگریزوں کو چکمہ دینے کے لیے بھگت سنگھ کی اہلیہ بنیںچندر شیکھر آزاد: وہ ’ناقابل تسخیر‘ انقلابی جنھوں نے ہتھیار پھینکنے پر موت کو ترجیح دینائٹرک ایسڈ کے ساتھ ٹیٹو مٹانے کی کوشش

سکھ دیو کو چمیلی کے پھولوں کے ہار بہت پسند تھے۔ وہ اکثر اپنے گلے میں چمیلی کے پھولوں کا ہار پہنا کرتے تھے۔ انھیں بھنی ہوئی مکئی کھانے کا بھی بہت شوق تھا۔

وہ ایک وقت میں مکئی کے کئی ڈبے خریدتے تھے اور انھیں کھاتے ہوئے سڑک پر چل پڑتے۔

سکھ دیو نہ صرف ضدی تھے بلکہ تھوڑا سنکی بھی تھے۔ ایک بار انھوں نے اپنے صبر کا امتحان لینا چاہا۔

ایم ایم جونیجا لکھتے ہیں ’اپنی طالب علمی کے زمانے میں جب ان کا انقلابیوں سے کوئی تعلق نہیں تھا تو انھوں نے ’اوم‘ بنوایا اور بائیں ہاتھ پر ان کے نام کا ٹیٹو بنوایا۔‘

’ان کے روپوش ہونے کے دوران اس نشان کو استعمال کرتے ہوئے انھیں آسانی سے پکڑا جا سکتا تھا۔ ان دنوں آگرہ میں بم بنانے کے لیے نائٹرک ایسڈ رکھا جاتا تھا۔ انھوں نے کسی کو بتائے بغیر اپنے ٹیٹو پر اچھی خاصی مقدار میں نائٹرک ایسڈ ڈال دیا۔‘

’شام تک اس جگہ پر چھالے پڑ گئے اور ان کا ہاتھ سوج گیا، انھیں بخار بھی ہو گیا، لیکن انھوں نے کسی کو اس بارے میں نہیں بتایا۔‘

جونیجا لکھتے ہیں ’ان کے ساتھیوں کو اس بات کا علم اس وقت ہوا جب انھوں نے اگلے دن نہانے کے لیے اپنی قمیض اتاری۔‘

’جب چندر شیکھر آزاد اور بھگت سنگھ ان پر ناراض ہوئے تو انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، میں اپنے شناختی نشان کو مٹانے کی کوشش کر رہا تھا اور یہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کہ تیزاب کی وجہ سے کتنی جلن ہوتی ہے۔‘

اس دوران ان کے دوستوں نے انھیں چوٹ پر کوئی مرہم لگانے کے لیے راضی کرنے کی پوری کوشش کی لیکن انھوں نے کسی کی نہ سنی۔

ہاتھ پر موم بتی کا شعلہ اور مکھی نگلنے کی ضد

تیزاب ڈالنے کے باوجود ان کے نام کا کچھ حصہ مٹ گیا۔ ایک دن وہ درگا بھابھی کے گھر گئے۔

ان کے شوہر بھگوتی چرن ووہرا کہیں گئے ہوئے تھے۔ درگا بھابھی کچن میں کھانا بنا رہی تھیں۔ سکھ دیو بھاگوتی کے کمرے میں خاموش بیٹھے تھے۔

مالویندرجیت سنگھ بڑیچ درگا بھابھی کی سوانح عمری میں لکھتے ہیں ’جب کافی دیر تک کمرے سے کوئی آواز نہ آئی تو درگا بھابھی اپنے شوہر کے کمرے میں آئیں، جہاں وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ گئیں کہ سکھدیو میز پر جلتی ہوئی موم بتی کے شعلے کے سامنے ہاتھ باندھے بیٹھی تھے۔‘

’ان کے ہاتھ پر نام والی جگہ کی جلد جل رہی تھی۔ اس بار وہ اس ٹیٹو کو پوری طرح مٹانا چاہتے تھے۔ درگا بھابھی نے دوڑ کر موم بتی بجھا دی اور انھیں بری طرح ڈانٹا۔ سکھ دیو بس مسکرائے اور کچھ نہیں کہا۔‘

جیل میں اپنی بھوک ہڑتال کے دوران جب ڈاکٹروں نے ان کے پیٹ میں ربڑ کا پائپ ڈال کر زبردستی دودھ پلانے کی کوشش کی تو انھیںانتہائی شرمندگی محسوس ہوئی۔ وہ اپنے حلق میں انگلی ڈال کر قے کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ دو بار ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے، پھر ان کے گلے کو عادت پڑ گئی۔

پھر سنا کہ مکھی نگلنے سے قے ہو جاتی ہے۔ جیسے ہی ڈاکٹر انھیں زبردستی دودھ پلاتا، وہ مکھی پکڑ کر نگل جاتے لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔

بھگت سنگھ اور سکھ دیو کے درمیان تنازع

بھگت سنگھ سے سکھ دیو کا پیار کچھ زیادہ تھا۔ وہ جب بھی ملتے ایک دوسرے کو مضبوطی سے گلے لگاتے اور گھنٹوں باتیں کرتے۔

سکھ دیو مرکزی کمیٹی کی اس میٹنگ میں موجود نہیں تھے جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اسمبلی میں بم پھینکا جائے گا۔

بھگت سنگھ نے اصرار کیا کہ وہ خود بم پھینکیں گے لیکن مرکزی کمیٹی کے دیگر ارکان ان سے متفق نہیں تھے۔

اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ کام دوسرے لوگ کریں گے جب سکھ دیو کو دو تین دن بعد اس کا علم ہوا تو انھوں نے سخت مخالفت کی۔

شیو ورما لکھتے ہیں ’جب سکھ دیو سنٹرل کمیٹی کے دیگر اراکین کو اس کے لیے قائل نہ کر سکے، تو انھوں نے براہ راست بھگت سنگھ سے بات کی۔ انھوں نے بھگت سنگھ کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے۔‘

انھوں نے کہا ’تم مغرور ہو گئے ہو، تم نے سوچنا شروع کر دیا ہے کہ جماعت صرف تم پر منحصر ہے، تمہیں موت سے خوف آنے لگا ہے، تم بزدل ہو گئے ہو۔‘

’جب آپ سمجھتے ہیں کہ پارٹی کے نظریات کی آپ سے بہتر کوئی نمائندگی نہیں کر سکتا تو آپ نے مرکزی کمیٹی کو یہ فیصلہ کیوں کرنے دیا کہ اسمبلی میں کوئی اور بم پھینکے گا۔‘

سکھ دیو نے انقلابی پرمانند کے بارے میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ ذاتی طور پر ایک بزدل تھا اور اس لیے اپنی جان بچانے کے لیے، اس نے دوسروں کو آگے بھیجا۔

شیو ورما لکھتے ہیں انھوں نے بھگت سنگھ سے کہا ’ایک دن تمہارے بارے میں بھی یہی لکھا جائے گا۔‘

بھگت سنگھ کا انتخاب سکھ دیو کے مشورے پر ہوا تھا

جیسے جیسے بھگت سنگھ ان کی مخالفت کرتے رہے سکھ دیو کے الفاظ سخت ہوتے گئے۔

جب بھگت سنگھ نے کہا کہ ’تم میری توہین کر رہے ہو، تو سکھ دیو نے جواب دیا، 'میں صرف اپنے دوست کے لیے اپنا فرض ادا کر رہا ہوں۔‘

بھگت سنگھ کی درخواست پر ایک بار پھر مرکزی کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا۔ سکھ دیو بغیر ایک لفظ کہے اس میٹنگ میں بیٹھا رہے۔

بھگت سنگھ کے اصرار پر مرکزی کمیٹی نے اپنا فیصلہ بدل دیا اور اسمبلی میں بم پھینکنے کے لیے انھیں منتخب کر لیا گیا۔

سکھ دیو اسی شام بغیر کچھ کہے لاہور کے لیے روانہ ہو گئے۔

بعد میں درگا بھابھی نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ’جب سکھ دیو اگلے دن لاہور پہنچے تو ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ شاید وہ رو رہے تھے۔‘

’انھوں نے کسی سے بات نہیں کی، لیکن وہ اندر سے ہل گئے تھے۔ انھوں نے اپنے بہترین دوست سے کہا کہ وہ ان کے مقصد کو حاصل کرنے میں مدد کرے۔‘

’وہ جانتے تھے کہ گرفتار ہونے کے بعد بھگت سنگھ کا جیل سے زندہ باہر آنا تقریباً ناممکن تھا۔‘

بھگت سنگھ اور راج گرو پھانسی گھاٹ کی طرف چل پڑے

سکھ دیو کو بھی اس واقعے کے چند دن بعد گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان پر لاہور سازش کیس میں مقدمہ چلایا گیا اور بھگت سنگھ اور راج گرو کے ساتھ موت کی سزا سنائی گئی۔

ابتدائی طور پر یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ان تینوں کو 24 مارچ کو پھانسی دی جائے گی، لیکن پھر حکومت نے 12 گھنٹے پہلے 23 مارچ کو پھانسی دینے کا فیصلہ کیا۔

جب ان کے وکیل پران ناتھ مہتا ان سے ملنے آئے تو انھوں نے جیلر سے کیرم بورڈ واپس لینے کو کہا۔

بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ انھیں سیاسی قیدی بنا کر فائرنگ سکواڈ سے قتل کیا جائے اور مجرموں کی طرح سزائے موت نہ دی جائے۔ لیکن حکومت نے ان کی ایک نہ سنی۔

ستویندر سنگھ جاس اپنی کتاب ’دی ایگزیکیوشن آف بھگت سنگھ‘ میں لکھتے ہیں ’بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو ہاتھ میں پکڑے پھانسی گھاٹ کی طرف چل پڑے۔‘

’بھگت سنگھ درمیان میں تھے، سکھ دیو اس کے بائیں اور راج گرو دائیں طرف چل رہے تھے۔ سنتری ان سے آگے چل رہے تھے۔‘

’اچانک انھوں نے اپنا پسندیدہ آزادی کا گانا گانا شروع کر دیا ’دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت، میری مٹی سے بھی خوشبوئے وطن آئے گی۔‘‘

سکھ دیو کو پہلے پھانسی دی گئی

کلدیپ نائر لکھتے ہیں ’تینوں لوگوں کا ایک ایک کرکے وزن کیا گیا اور پھر انھیں آخری غسل کرنے کے لیے کہا گیا۔ اس کے بعد ان سب کو کالے کپڑوں میں ملبوس کیا گیا۔ ان کے چہرے نہیں ڈھانپے گئے تھے۔‘

’ان کے دونوں ہاتھ اور ٹانگیں بندھے ہوئے تھے۔ ان سب نے ان کے گلے میں رسی کو چوما۔ جلاد نے ان سے پوچھا کہ پہلے کس کو پھانسی دی جائے گی؟ سکھ دیو نے کہا کہ پہلے انھیں پھانسی دی جائے گی۔‘

ڈاکٹروں لیفٹیننٹ کرنل جے جے نیلسن اور این ایس سوڈھی نے ان کا معائنہ کیا اور تینوں کو مردہ قرار دیا۔

جیل کا ایک اہلکار ان بہادروں کی ہمت سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے ان کی لاشوں کی شناخت کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔ اسے اسی وقت معطل کر دیا گیا۔

شروع میں سب کی آخری رسومات جیل کے اندر ہی ادا کرنے کا منصوبہ تھا لیکن جیل کے باہر کھڑے ہزاروں لوگوں کی بھیڑ دیکھ کر حکومت کو یہ فیصلہ بدلنا پڑا۔

رات ہوتے ہی جیل کی پچھلی دیوار توڑ دی گئی اور ایک ٹرک اندر لا کر ان کی لاشیں نکالی گئیں۔

چندر شیکھر آزاد جنھیں برطانوی پولیس کبھی زندہ نہیں پکڑ سکی23 مارچ اور بھگت سنگھ: کیا آج بھی ان کے خیالات اتنے ہی اہم ہیں؟چندر شیکھر آزاد: وہ ’ناقابل تسخیر‘ انقلابی جنھوں نے ہتھیار پھینکنے پر موت کو ترجیح دیدرگا بھابھی، جو انگریزوں کو چکمہ دینے کے لیے بھگت سنگھ کی اہلیہ بنیںجب بھگت سنگھ نے پھانسی کے پھندے کو چوما اور موت کو گلے لگایاتحریکِ آزادی کے لیے جان دینے والے سب سے جوان مجاہد کی کہانی
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More