سائبر کرائمز میں خوفناک اضافہ ، 5 سال کے دوران 18 لاکھ خواتین نشانہ بن گئیں

ہم نیوز  |  Mar 14, 2025

اسلام آباد ( زاہد گشکوری، مجاہدحسین، ابوبکرخان ) ہم انویسٹی گیٹس کی ٹیم سائبر کرائم اور اس سے جڑے اعداد و شمارکے حوالے سے پریشان کن، حیران کن اورچشم کشا حقائق سامنے آئی ہے۔

سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے پانچ سال میں پاکستان میں 18 لاکھ خواتین ٹرولز کا نشانہ بنیں ، پانچ برس میں 4 اداروں کو 27  لاکھ سے زائد ڈیجٹل کرائم سے متعلق شکایات درج کرائی گئیں۔

حکام کے مطابق ان شکایات کا اسی فیصد حصہ خواتین اور بچوں سے جڑی شکایات پر مشتمل ہے ، 18  لاکھ شکایات صرف خواتین نے پی ٹی اے، ایف آئی اے، پولیس اوروفاقی محتسب کو جمع کرائیں ، ان شکایات پر8 ہزار سے زائد مقدمات درج ہوئے، گیارہ ہزار ملزمان کو گرفتار کیا گیا لیکن سزا صرف ساڑھے تین فیصد یعنی 225 ملزمان کو ہوئی۔

فیک نیوز پھیلانے پر 5 سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا ، سائبر کرائم ترمیمی بل کا مسودہ تیار

ڈیجٹل کرائم سے تحفظ کیلیے کی جانے والی نئی قانون سازی سے جڑی بحث اورسوشل میڈیا پرخطرناک حد تک بڑھتے جرائم نے ریاست کیلیے کئی نئے چیلنج پیدا کر دیے ہیں۔ ہم انویسٹی گیٹس کی تحقیقات کے مطابق لاکھوں درخواست گزار خواتین کے بارے میں کسی ادارے کے پاس کسی قسم کے کوائف یا ریکارڈ موجود نہیں جنہیں سائبر کرائمز کے اس سیلاب میں اذیت اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اور جب ہمت کرکے اُنہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف رجوع کیا تو 96 فیصد متاثرہ خواتین کو کسی قسم کا انصاف نہ مل سکا۔

بات صرف عام ملازمت پیشہ یا گھریلو خواتین کی ہراسمنٹ تک ہی محدود نہیں بلکہ کچھ عرصہ پہلے متحدہ عرب امارات کے امیر پاکستان کے سرکاری دورے پر آئے تو سائبر وارئیرز نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اور معزز مہمان کے ہینڈ شیک کو ڈیپ فیک اور اے آئی ٹیکنالوجی کی مدد سے ایڈیٹ کرکے وائرل کر دیا۔ متحدہ عرب امارات کی طرف سے اس گھنائونے عمل پر باقاعدہ احتجاج کیا گیا۔

سوشل میڈیا پربڑھتے جرائم نے جہاں معاشی اور اخلاقی پستیوں کونمایاں کیا ہے وہیں ہزاروں لوگوں کے ساتھ پچھلے پانچ سال میں سات سو ارب  کا فراڈ  بھی ہوا ہے۔ سینکڑوں لوگوں کی ذاتی زندگیاں تباہ ہوئیں اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ہم انویسٹی گیٹس کے ہاتھ لگنے والی سرکاری دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے سائبر کرائم ونگ کو 2020 سے 2024 کے درمیان 639,000 سے زیادہ شکایات موصول ہوئیں۔

ایف آئی اے سائبر کرائم نے چھ ماہ میں دس ہزار انکوائریوں میں نو سو ملزمان کو پکڑا

ان شکایات میں زیادہ ترخواتین کو آن لائن ہراساں کرنا، فراڈ، مذہبی منافرت، توہین رسالت، توہین مذاہب اوران جیسے کئی دوسرے جرائم شامل ہیں۔مجموعی شکایات میں سے 414,260 کی تصدیق کی گئی جس کے نتیجے میں 73,825 انکوائریاں ہوئیں اور 5,713 مقدمات عدالت میں دائر ہوئے۔ اس عرصے کے دوران 7,020 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا، اور 222 افراد کو سزا ئیں سنائی گئیں۔

2020 میں 102,000 شکایات میں سے 98,882 کی تصدیق کی گئی جس کے نتیجے میں 9,112 انکوائریاں، 601 مقدمات، 625 گرفتاریاں اور 20 کو سزائیں سنائی گئیں۔ 2021 میں، 115,868 شکایات میں سے 80,803 کی تصدیق ، 15,766 انکوائریاں، 1,224 مقدمات، 1,306 گرفتاریاں، اور 38 کو سزائیں سنائی گئیں۔ 2022 میں، 145,667 شکایات میں سے 83,552 کی تصدیق ، 14,380 انکوائریاں، 1,469 مقدمات، 1,700 گرفتاریاں، اور 48 کو سزائیں سنائی گئیں۔

2023 میں، 152,136 شکایات میں سے، 82,396 کی تصدیق ، 18,012 انکوائریاں، 1,375 مقدمات، 2,007 گرفتاریاں، اور 92 کو سزائیں سنائی گئیں۔ 2024 میں 123,893 شکایات میں سے 68,627 کی تصدیق ، 16,555 انکوائریاں، 1,044 مقدمات، 1,382 گرفتاریاں اور 24 کو سزائیں سنائی گئیں۔ ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ سزا  نہ ملنے کی وجہ فریقین کی جانب سے ملزمان سے صلح کر لینا ہے، جس کی وجہ سے عدالتوں میں سزاؤں کا تناسب کم ہے۔

پی ٹی اے یومیہ  900 سے زائد غیر اخلاقی اور توہین آمیز پوسٹس بلاک کرنے کی درخواست کر رہا ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پانچ سال میں پی ٹی اے نے سوشل میڈیا ایپس کو ساڑھے چودہ  لاکھ پوسٹس ہٹانے کی درخواست کی ہے، پانچ  لاکھ سے زائد غیراخلاقی پوسٹس والے یوآر ایل کو بلاک کروایا کیا گیا۔

90 ہزار سے زائد توہین عدلیہ، ججز ، دو لاکھ سے زائد دفاعی اداروں کو نشانہ بنانے والے یو آر ایل کو بلاک کروایا گیا، دو لاکھ سے زائد اسلام مخالف پوسٹس والے پیچز ، فرقہ وارانہ اور نفرت انگیز تقریر والے پیجز، پچاس ہزار سے زائد یوٹیوب پوسٹس ، دو لاکھ ٹک ٹاک پوسٹس، تین لاکھ فیس بک پوسٹس، پچاس ہزار ایکس پوسٹس، چوبیس ہزار انسٹا گرام پوسٹ والے یوآر ایل کو ڈیلیٹ اور بلاک کروایا گیا۔

ہیکرز کی جانب سے مختلف براوزر ایکسٹینشنز پر سائبر حملوں کا انکشاف

ان حالات میں حکومت نے نیا پیکا قانون پاس کروایا ہے ، سائبر کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے اختیارات ختم کرتے ہوئے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی قائم کی جارہی ہے، سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو اچانک ایک تحقیقاتی ادارے کی موجودگی میں سائبر کرائم ونگ کو علیحدہ ادارہ بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا اس کی وجہ سوشل میڈیا کا بڑھتا استعمال اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آن لائن جرائم ہیں؟ دوسرا جتنی جلدی اور جس طریقے سے یہ نیا ادارہ قائم کیا گیا، اس نے بھی کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ایف آئی اے کا دائرہ کار سوشل میڈیا پر ہونے والے جرائم سے نمٹنے کے لیے وسیع نہیں تھا شاید اس لیے نیشنل کرائم ایجنسی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

2019 کے مقابلے میں پچھلے سال 70 فیصد  لوگوں نے مصنوعی ذہانت کا نقصان دہ استعمال ریکارڈ کیا گیا ہے۔ مصنوعی ذہانت نے دنیا کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے بالخصوص جب بات ڈیپ فیکس سے لاحق اخلاقی اور سلامتی کے خطرات کی ہو۔ڈیپ فیکس یا بنا اجازت لی گئی غیر اخلاقی تصاویر ڈیجیٹل طور پر بصری یا سمعی مواد کو تبدیل کرتی ہیں جن سے لوگوں کی جعلی تصاویر بنائی جاتی ہیں یا انہیں جعلی منظرناموں میں دکھایا جاتا ہے۔ یوں حقیقی اور مصنوعی تصاویر میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ڈیپ فیکس کا استعمال غلط معلومات پھیلانے کے لیے کیا جاتا ہے اور اکثر اس کا استعمال غلط مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے،

سائبر کرائم ونگ میں پچھلے تین سال میں تقریباً 51 ہزار شکایات ڈیپ فیک اور غیر اخلاقی تصاویر کے حوالے سے ہیں اور ان میں شکایت کنندہ خواتین زیادہ ہیں۔پاکستان میں مختلف ڈیجٹل رائٹس کی تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں ، ان کے نمائندوں کا یہ بتانا ہے کہ ڈیپ فیکس نے پاکستان میں خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور تعصب کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے جس نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے لیے نئے چیلنجز کھڑے کیے ہیں کہ وہ ان کے خلاف کیسے کارروائی کریں گے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More