دولت اسلامیہ، طالبان اور امریکی ہتھیار: کیا افغانستان پاکستان اور امریکہ کو دوبارہ قریب لا سکتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Mar 08, 2025

Getty Images

پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان کا ایک مرکزی کردار رہا ہے۔ جنرل ضیا کی آمریت کے دوران سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جہاد کے نام پر لڑی جانے والی جنگ ہو یا پھر جنرل مشرف کے دور اقتدار میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں القاعدہ اور طالبان کے خلاف فراہم کی جانے والی مدد، پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات پر افغانستان میں پیش آنے والے واقعات کا سایہ رہا۔

اسی تاریخ سے جڑی ایک اور دلچسپ حقیقت یہ بھی رہی کہ 80 کی دہائی کے امریکی صدر ریگن ہوں یا پھر سنہ 2000 کے جارج بش، دونوں کا ہی تعلق امریکہ کی رپبلکن جماعت سے تھا جن کے ادوار میں ماہرین کے مطابق پاکستان فوج اور امریکی سکیورٹی کا تعلق قریبی تھا۔

دوسری جانب جنرل ضیا اور جنرل مشرف، دونوں ہی جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے کے باعث تنقید کا نشانہ بنے رہے تاہم انھیں امریکی حمایت اور امداد سٹریٹجک ضروریات کے باعث دستیاب رہی۔

ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے تاریخ ایک بار پھر خود کو دوہرا رہی ہے۔

آج پھر امریکہ میں رپبلیکن جماعت کے صدر ٹرمپ اقتدار میں ہیں تو پاکستان میں ایک کمزور جمہوری نظام حکومت رائج ہے جسے ملٹری اسٹیبشلمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔

جہاں جمہوری حکومت کو کمزور معیشت کا سامنا ہے وہیں اس وقت ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو بھی سیاسی و معاشی معاملات پر مبینہ مداخلت پر شدید تنقید برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔ ایسے میں ملک میں بڑھتی دہشت گردی کے واقعات، ہمسایہ ممالک سے بگڑتے تعلقات اور دیگر عوامل کے بیچ میں امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی تعریف کرنا حکومت و اسٹیبلشمنٹ کے لیے کسی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے کم نہیں ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے منگل کو کانگریس سے اپنے پہلے خطاب میں سنہ 2021 میں کابل ایئرپورٹ پر امریکی فوجیوں پر ہونے والے خودکش حملے کے ایک منصوبہ ساز کی گرفتاری میں مدد کرنے پر پاکستان کا شکریہ ادا کرنے کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔

یاد رہے کہ منگل کو محکمہ دفاع کے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی کے پارٹنر ادارے سی بی ایس نیوز کو بتایا تھا کہ شریف اللہ کو تقریباً دس روز قبل پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے ایک مشترکہ کارروائی میں گرفتار کیا تھا۔

واضح رہے کہ 26 اگست 2021 کو کابل ایئرپورٹ کے ایبے گیٹ جسے جنوبی دروازہ بھی کا جاتا ہے پر دو خودکش بمباروں اور مسلح افراد نے حملہ کیا تھا۔ اس وقت وہاں ملک چھوڑنے کی کوشش میں ہزاروں افغان باشندے بھی موجود تھے۔

اس حملے میں تقریباً 160 افغان شہری اور 13 امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ نے قبول کی تھی۔

Getty Images’جس طرح سے افغانستان میں شدت پسند تنظیمیں مضبوط ہوئی ہیں وہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایک طویل مدتی تعاون کی بنیاد فراہم کر سکتا ہے‘

اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صرف صدر ٹرمپ کے بیان تک محدود نہیں تھا بلکہ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے بھی 2021 میں کابل ائیرپورٹ حملے کے مرکزی ملزم شریف اللہ کی گرفتاری میں تعاون پر پاکستان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’جہاں تک پاکستان اور ہمارے تعلقات کا تعلق ہے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارا ایک مشترکہ مفاد ہے، اور شریف اللہ کی گرفتاری نے اس بات کو واضح کیا کہ انسدادِ دہشت گردی میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعاون انتہائی اہم ہے۔‘

جبکہ پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کے تعاون پر شکریہ ادا کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خطے میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کے کردار اور حمایت کو تسلیم کرنے اور سراہنے پر شکریہ ادا کرتے ہیں اور ہم علاقائی امن اور استحکام کے لیے امریکہ کے ساتھ قریبی شراکت داری جاری رکھیں گے۔‘

عالمی امور کے اور سکیورٹی ماہرین نے اس پیشرفت کو پاکستانی فوج اور امریکی انتظامیہ میں ایک بار پھر رابطے بحال ہونا قرار دیا ہے جبکہ پاکستان اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کی مشترکہ کارروائی کو پاکستان کی جانب سے اعتماد کی فضا بحال کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔

گذشتہ چند برسوں سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری رہنے کے بعد اس حالیہ پیش رفت کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو لے کر بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب صدر ٹرمپ افغانستان سے امریکی انخلا کو شرمناک قرار دیتے ہوئے اس دوران پیچھے رہ جانے والے امریکی اسلحے اور عسکری سازو سامان کو واپس لانے اور خطے میں بڑھتی شدت پسندی کی روک تھام پر بات کر رہے ہیں تو کیا ایسے میں پاکستان اس موقعے کا فائدہ اٹھا سکتا ہے؟

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ میں کہا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی کے معاملے پر گہرا تعاون اور مضبوط تعلق رہا ہے اور یہ ایک جاری سلسلہ ہے اور ایسا کچھ نہیں کہ کسی ایک واقعے سے یہ اثر انداز ہو۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کے افغانستان سے عسکری سازو سامان واپس لانے کے خیال کی ہم حمایت کرتے ہیں تاہم یہ افغانستان اور امریکہ کا آپسی معاملہ ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہماری تشویش یہ ہے کہ ان ہتھیاروں کو دہشت گرد پاکستان کے اندر اپنی شدت پسند کارروائیوں میں استعمال کرتے پائے گئے ہیں۔ ہم نے اس بارے میں پہلے بھی آواز اٹھائی تھی۔ اگر امریکہ ان ہتھیاروں کی واپسی کے لیے کوئی کوشش کرتا ہے تو یہ مجموعی علاقائی سلامتی کے لیے مددگار ثابت ہو گا۔‘

یاد رہے کہ حالیہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان 163 ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔

رپورٹ کے مطابق ملک میں دہشت گردی سے متعلق واقعات میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دہشت گردی کے حملوں کی تعداد 2023 میں 517 سے بڑھ کر 2024 میں 1,099 ہوئی۔ جبکہ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے میں سب سے زیادہ کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے کیں۔

اسیے میں جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بھی کشیدہ ہیں اور پاکستان متعدد بار طالبان حکومت سے یہ کہہ چکا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے جبکہ طالبان حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

ان حالات میں کیا ایک بار پھر امریکی ترجیحات، داعش کا بڑھتا خطرہ، افغانستان میں طالبان حکومت اور امریکی ہتھیاروں کی واپسی دونوں ممالک کو دوبارہ قریب لا سکتی ہیں؟

Getty Images’2021 میں امریکہ نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم اپنے نقصانات اور اخراجات کو کم کریں اور طالبان کے اقتدار میں آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘داعش، طالبان اور امریکی ہتھیار: کیا افغانستان پاکستان اور امریکہ کو دوبارہ قریب لا سکتا ہے؟

امریکہ میں تھنک ٹینک نیو لائنز انسٹٹیوٹ فار سٹریٹیجی اینڈ پالیسی کے سینیئر ڈائریکٹر کامران بخاری نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس انٹیلیجنس کارروائی کی ابھی بہت تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے درمیان یہ مشترکہ تعاون صرف اس ایک گرفتاری تک محدود ہے یا کچھ اور معاملات تک اس کو بڑھایا گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی دوبارہ بحالی کے کچھ پہلو ہیں جیسا کہ امریکہ کے لیے انسداد دہشت گردی کا معاملہ اب پہلے کی طرح اتنا اہم نہیں رہا۔ ماضی میں اس کی وجہ یہ تھی کہ امریکہ کو ایک خدشہ تھا کہ کہیں طالبان اقتدار میں نہ آ جائیں مگر جب 2021 میں امریکہ نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم اپنے نقصانات اور اخراجات کو کم کریں اور طالبان کے اقتدار میں آنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تو وہ انسداد دہشت گردی کی اہمیت کم ہو گئی۔

’مرشد، امریکی سفارتخانہ جل رہا ہے۔۔۔‘ کعبہ کا محاصرہ اور جنرل ضیا کا سائیکل پر راولپنڈی کا دورہپاکستان کو ملنے والی امریکی فوجی امداد جس نے انڈیا کو روسی ہتھیاروں کی جانب راغب کیافتنہ الخوارج: خوارج کون تھے اور تحریکِ طالبان پاکستان کو یہ نام دینے کا مقصد کیا ہے؟جمی کارٹر کا پاکستان کے جوہری پروگرام پر دباؤ اور ’مرجھائے تعلقات‘ سے اولین دوست بننے تک کا سفر’وہ زمانہ گیا جب دفاعی تعاون کے نام پر امریکہ سے پیسہ آتا تھا‘

کامران بخاری کہتے ہیں کہ اب عالمی حالات کے تناظر میں امریکی انتظامیہ میں ایک نیا نظریہ فروغ پا رہا ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں امریکہ کے فٹ پرنٹ کو کم کر کے اس خطے کے اہم سٹیک ہولڈرز کے ذریعے معاملات کو دیکھا جائے گا۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر پاکستان یہ توقع کر رہا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے معاملے کو لے کر اس کے امریکہ کے ساتھ پہلے جیسے تعلقات استوار ہو جائیں گے تو ایسا کچھ نہیں ہونے والا، جیسا ماضی میں ضیا دور یا مشرف دور انسداد دہشت گردی یا دفاعی تعاون کے نام پر امریکہ سے پیسہ آتا تھا اب وہ زمانہ جاتا رہا۔

ان کا کہنا ہے کہ مگر امریکی انتظامیہ میں یہ جو نیا نظریہ پروان چڑھ رہا ہے اگر پاکستان نے خود کو اس کے مطابق متعلقہ بنا لیا یا اس میں ضم کر لیا تو پھر کوئی صورت ہو سکتی ہے۔ مگر اس پر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔

کامران بخاری کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان میں شدت پسند تنظیموں کی مضبوط ہوتی جڑیں، امریکی اسلحہ کی موجودگی کے تناظر میں پاکستان کی امریکہ کے ساتھ قربت کا نظریاتی طور پر تو امکان ہو سکتا ہے مگر عملی طور پر کچھ پیچیدگیاں ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر امریکہ یہ سوچتا ہے کہ وہ افغانستان سے انخلا کے وقت پیچھے چھوڑے ہوئے اسلحے اور عسکری سازو سامان کو واپس لے تو وہ یہ جانتا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی طالبان حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہے اور اب پاکستان کا ان پر وہ اثر و رسوخ نہیں رہا ہے۔

کامران بخاری کے مطابق داعش خراسان کے معاملے میں امریکہ عمل دخل نہیں کرنا چاہتا اور یہ امریکہ کی ترجیحات میں بہت نیچے ہیں۔ البتہ ٹرمپ انتظامیہ خارجہ پالیسی پر قلیل مدتی اہداف حاصل کرنے کے لیے کچھ لو اور دو کا نظریہ رکھتی ہے تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستان امریکہ کی کچھ ایسی مدد کر دے تو مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید کوئی راہیں کھل سکیں مگر یہ ایک طویل سفر ہو گا۔

کامران بخاری نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں یہ عمومی رویہ ہے کہ امریکہ کی طرف سے کوئی بات آ جائے تو ہم اپنے میں ہوا بھر لیتے ہیں۔ اگر پاکستان امریکہ کے ساتھ طویل مدتی تعلقات کا خواہاں ہے تو اسے ماضی کے نظریہ سے باہر نکلنا ہو گا اور ٹرمپ کی کچھ لو اور دو کی پالیسی میں خود کو ضم کرنا ہو گا۔ یہاں پاکستان کو چین امریکہ تعلقات، یوکرین جنگ بندی میں اپنے ممکنہ کردار کو تلاش کرنا ہو گا۔‘

Getty Images’داعش کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی کی بھی خطے میں مقبولیت بڑھی ہے اور اب دوبارہ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے بھی اپنی حکمت عملی بدلی ہے‘’مضبوط ہوتی شدت پسند تنظیمیں پاکستان امریکہ تعاون کی بنیاد ہو سکتی ہیں‘

افغانستان میں ٹی ٹی پی اور داعش سمیت شدت پسندی کے معاملات کے ماہر ڈاکٹر خرم اقبال کا کہنا ہے کہ جس طرح سے افغانستان میں شدت پسند تنظیمیں مضبوط ہوئی ہیں وہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایک طویل مدتی تعاون کی بنیاد فراہم کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں امریکہ کے انخلا کے وقت وہاں رہ جانے والا امریکی اسلحہ بھی اہم ہے جو نہ صرف افغان طالبان کے پاس گیا بلکہ وہاں کی بلیک مارکیٹ میں فروخت ہوتا ہوا شدت پسند تنظیموں کے ہاتھ میں آیا ہے۔

واضح رہے صدر ٹرمپ اس بات کی جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ وہ افغانستان سے اپنا اسلحہ و دیگر سازو سامان واپس لینا چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر خرم کہتے ہیں کہ ’داعش کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی کی بھی خطے میں مقبولیت بڑھی ہے اور اب دوبارہ ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے بھی اپنی حکمت عملی بدلی ہے جس کے باعث یہ اب عالمی ایجنڈے میں ابھر کر آ رہی ہے اور اس صورتحال میں لگتا یہ ہی ہے کہ انسداد دہشت پر پاکستان اور امریکہ کا تعاون مضبوط ہوتا نظر آ رہا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’داعش کو روکنے میں ناکامی خطے کی سکیورٹی کے لیے فیصلہ کن ہو سکتی ہے اور جب طالبان نے افغانستان میں اقتدار پر قبضہ کیا تو یہ خیال کیا گیا تھا کہ وہ وہاں موجود داعش کے خلاف مؤثر کارروائی کریں گے۔ مگر گذشتہ دو برسوں کے دوران یہ دیکھا گیا ہے کہ طالبان حکومت افغانستان میں سرگرم عالمی شدت پسندوں تنظیموں کے خلاف یا تو مؤثر کارروائی کرنے کے قابل نہیں ہیں یا وہ ایسا کرنا نہیں چاہتے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اب جب افغانستان ایک بار پھر سے شدت پسند تنظیموں کا گڑھ بنتا جا رہا ہے تو یہ واضح ہے کہ امریکہ اور پاکستان انسداد دہشت گردی کے معاملے پر ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔‘

ان کے مطابق انسداد دہشت گردی وقت کے ساتھ ساتھ امریکہ کی ترجیحات میں نیچے چلی گئی تھی اور اب ایک بار پھر اس میں پاکستان کا کردار ادا کرنا ایک بہت اہم پیشرف ہے۔

ڈاکٹر خرم کہتے ہیں کہ ’جیسے جیسے شدت پسندی کے خطرات نہ صرف بڑھ رہے ہیں بلکہ داعش سے اس خطے میں مضبوط ہونے سے معاملات پیچیدہ ہو رہے ہیں تو امریکہ کو بھی احساس ہو رہا ہے کہ انسداد دہشت گردی کو اپنی عالمی ترجحیات میں دوبارہ شامل کرنا ہو گا اور ایسے میں پاکستان اپنے آپ کو اس صورتحال میں متعلقہ رکھ سکتا ہے۔‘

’پاکستان کو پہلے اپنے داخلی سیاسی و معاشی معاملات ٹھیک کرنا ہوں گے‘

واشنگٹن ڈی سی میں ساؤتھ ایشیا سنٹر کے ڈائریکٹر شجاع نواز نے بی بی سی سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے امریکہ کو افغانستان میں انسداد دہشت گردی اور نگرانی کی خدمات پیش کرنے کے لیے تیار رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے افغانستان سے اسلحہ اور عسکری سازو سامان واپس لینے کی خواہش سے دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تعاون کا امکان پیدا ہو سکتا ہے۔ مگر یہ ابھی واضح نہیں ہے کہ آیا امریکی رہنماؤں کی نظر میں وہ پاکستان کو چین کے کیمپ سے باہر دیکھتے ہیں کیونکہ بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کو اسی تناظر میں دیکھا تھا۔ اور فی الوقت اس پوزیشن میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔‘

’البتہ صدر ٹرمپ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے ماہر ہیں اور دونوں ممالک میں کچھ چھوٹی نوعیت کے معاہدے ہو سکتے ہیں۔‘

شجاع نواز کہتے ہیں کہ ’پاکستان اس وقت داخلی مالی و سیاسی مشکلات سے دوچار ہے اور اگر وہ اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور خطے اور عالمی سطح پر ایک اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے داخلی معاشی اور سیاسی معاملات کو درست کرنا ہو گا۔‘

’پاکستان کبھی غیر اہم نہیں رہا مگر امریکہ جو کہے گا ہم کریں گے‘

دفاعی امور کے ماہر اور سابق سیکرٹری دفاع لیفٹینٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بارے میں کہا کہ ’انٹیلیجنس کے معاملات میں جو چیزیں منظر عام پر ہوتی ہیں لازمی نہیں کہ وہ ہی پس پردہ ہو، پس پردہ بہت سے معاملات چل رہے ہوتے ہیں جنھیں ان بیانات کے شور میں ذہن میں رکھنا ہو گا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ (داعش) کا جہاں تک معاملہ ہے تو وہ پاکستان، امریکہ اور طالبان کے بھی دشمن ہیں۔ اب چونکہ داعش یا اس کے حامی دنیا بھر میں اپنا نیٹ ورک بڑھا رہے ہیں ایسے میں اس خطے میں امریکہ کو پاکستان کی ضرورت رہے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’افغانستان سے امریکہ کے انخلا کے بعد یہ سمجھا گیا تھا کہ پاکستان امریکہ کے لیے غیر اہم ہو گیا ہے مگر یہ بات صرف نظر کی گئی کہ چین، ایران، انڈیا اور افغانستان کے ساتھ سرحدیں ملنے کے باوجود پاکستان امریکہ کے لیے کیسے غیر اہم ہو سکتا ہے۔ پاکستان امریکہ کے لیے نہ کبھی غیر اہم تھا نہ ہے اور نہ ہی مستقبل میں ہو گا۔‘

انھوں نے تبصرہ کیا کہ پاکستان اس وقت اتنی معاشی اور سیاسی کمزوری کا شکار ہے کہ امریکہ جو کہے گا ہم کریں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’امریکہ اس بار پھر افغانستان میں بگرام میں اپنا اڈہ دوبارہ بنانے کی راہ ہموار کر رہا ہے اور اس ضمن میں ٹرمپ کے افغانستان کے انخلا سے متعلق بیانات اور وہاں چھوڑے گئے اسحلہ کو واپس لینے سے متعلق بیانات کو زیر غور رکھا جائے۔‘

سابق لیفٹینٹ جنرل نعیم خالد لودھی نے ’پاکستان کی ملٹری اسٹیبشلمنٹ کی امریکی حمایت سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکہ کی جانب سے پاکستانی خفیہ ایجنسی کے ساتھ مشترکہ کارروائی کرنے کے بعد اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بہت سیاسی فائدہ ہوا ہے اور شائد مالی فائدہ بھی جس کی ممکنہ طور پر تفصیلات کچھ عرصے میں سامنے آ جائیں گی۔‘

وہ تجزیہ کرتے ہیں کہ سول و ملٹری لیڈر شپ پاکستان کے مفاد کو سر فہرست رکھے گی اور تیسری چوتھی مرتبہ امریکہ کے اس گڑھے میں نہیں گرے گی۔

Getty Imagesٹرمپ کی ’کچھ لو کچھ دو‘ کی پالیسی اور ’ڈومور‘ کا ممکنہ مطالبہ

کیا امریکہ کچھ لو اور دو میں پاکستان کو پھر سے ’ڈُومور‘ پر مجبور کرے گا پر کامران بخاری تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہڈومور ماضی میں طالبان پر سختی کرنے کے تناظر میں تھا مگر طالبان کے حکومت میں ہونے سے یہ معاملہ تو ختم ہو گیا۔

’جبکہ چین کے ساتھ تعلقات کے تناظر میں پاکستان اس کے ساتھ کسی ایسے تعاون میں نہیں ہے جو امریکہ کو پریشان کرے۔ پاکستان چین کے ساتھ ایسا کوئی کام نہیں کر رہا جس سے امریکہ کے مفاد کو کوئی خطرہ ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’چین کا سی پیک منصوبہ بھی نہ ادھر ہے نہ ادھر ہے اور اس میں چین کا پیسہ بھی پھنسا ہوا ہے، پاکستان کی مالی مشکلات اتنی ہے کہ چین ایک حد تک ہی مدد کر سکتا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میرا نہیں خیال پاکستان اس وقت چین کے ساتھ کسی ایسے تعاون میں ہے جو امریکہ کو خطرہ محسوس ہو اور وہ پاکستان پر اس حوالے سے دباؤ ڈالے۔‘

اس بارے میں ڈاکٹر خرم اقبال کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے 15 برسوں کے تعلق میں ڈومور مطالبے کا دورانیہ بہت مختصر تھا۔

ان کے بقول ’صدر باراک اوباما کے دور میں ’ڈو مور منترا‘ تیزی سے فروغ پایا کیونکہ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ڈیموکریٹس کے نظریے اور پاکستان میں اختلاف پائے گئے مگر اب امریکہ کے لیے انسداد دہشت گردی کی ترجیحات پہلی کی طرح نہیں ہے اور یہ ان کی عالمی ترجیحات کا ایک حصہ ہے اس لیے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان پر اب ماضی کی طرح کا دباؤ نہیں ہو گا۔‘

فتنہ الخوارج: خوارج کون تھے اور تحریکِ طالبان پاکستان کو یہ نام دینے کا مقصد کیا ہے؟جمی کارٹر کا پاکستان کے جوہری پروگرام پر دباؤ اور ’مرجھائے تعلقات‘ سے اولین دوست بننے تک کا سفرپاکستان کو ملنے والی امریکی فوجی امداد جس نے انڈیا کو روسی ہتھیاروں کی جانب راغب کیا’مرشد، امریکی سفارتخانہ جل رہا ہے۔۔۔‘ کعبہ کا محاصرہ اور جنرل ضیا کا سائیکل پر راولپنڈی کا دورہجب ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ امریکہ وہ ہاتھی ہے جو نہ بھولتا ہے، نہ چھوڑتا ہےجب امریکہ نے سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے پاکستان کی فوجی و معاشی معاونت کیجب چین نے امریکہ سے کہا وہ بھٹو کو اپنے پاس رکھنے کو تیار ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More