BBCراجیش کمار نے اپنی زیادہ تر بچت بینک سے نکال کر بازارِ حصص میں منتقل کردی تھی
دو سال پہلے، اپنے بینک کے مالیاتی مشیر کے مشورے پر، راجیش کمار نے اپنی عمر بھر کی بچت جس میں فکسڈ ڈیپازٹ بھی شامل تھے، بینک سے نکال کر میوچل فنڈز، سٹاکس اور بانڈز میں لگائی۔
یہ وہ وقت تھا جب انڈین بازارِ حصص میں تیزی کا دور تھا اور بہار سے تعلق رکھنے والے انجینیئر راجیش کمار ان لاکھوں شہریوں میں سے ایک تھے جنھوں نے پبلک ٹریڈ کمپنیوں میں کروڑوں کی سرمایہ کاری کی۔
چھ سال پہلے 14 میں سے صرف ایک انڈین گھرانے نے اپنی بچت سے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کی تھی اور اب، یہ شرح پانچ میں سے ایک گھر تک پہنچ چکی ہے۔
لیکن اب لہروں کا رخ بدل گیا ہے۔
غیرملکی سرمایہ کاروں کے سرمایہ نکالنے، بلند قدروں، کمزور آمدن اور عالمی سرمایے کی چین منتقلی کی وجہ سے چھ ماہ سے انڈین بازارِ حصص گراوٹ کا شکار ہے۔
ستمبر 2024 کے عروج کے بعد سے مارکیٹ کی قدر میں 900 ارب ڈالر کی کمی ہو چکی ہے۔ اگرچہ یہ کمی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ٹیرف کے نفاذ کے اعلانات سے پہلے شروع ہوئی تھی لیکن اب مزید تفصیلات سامنے آنے کے بعد یہ معاملہ بھی اس سے جڑ گیا۔
انڈیا کا بینچ مارک نفٹی 50 شیئر انڈیکس، جو ملک کی 50 سب سے بڑی عوامی سطح پر کاروبار کرنے والی کمپنیوں پر نظر رکھتا ہے، 29 برس میں خسارے کے سب سے طویل دور میں ہے اور مسلسل پانچ ماہ سے گر رہا ہے۔
یہ دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی منڈیوں میں سے ایک میں نمایاں مندی ہے۔ سٹاک بروکرز کا کہنا ہے کہ ان کے کاروبار میں ایک تہائی کمی آ چکی ہے۔
راجیش کمار کہتے ہیں کہ ’چھ ماہ سے زیادہ عرصے سے، میری سرمایہ کاری گھاٹے میں ہے۔ پچھلی دہائی میں سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لحاظ سے یہ میرا سب سے برا تجربہ ہے۔‘
55 سالہ راجیش اب بینک میں بہت کم رقم رکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنی زیادہ تر بچت بازارِ حصص میں منتقل کر دی تھی اور اب جبکہ جولائی 2025 میں انھیں میں اپنے بیٹے کے میڈیکل کالج کی فیس کے لیے 18 لاکھ روپے درکار ہیں، وہ پریشان ہیں کہ انھیں گھاٹے کا سودا کرنا پڑے گا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ایک بار جب بازار سنبھلتا ہے تو، میں کچھ رقم واپس بینک میں منتقل کرنے کا سوچ رہا ہوں۔‘
اس کی پریشانی متوسط طبقے کے ان لاکھوں انڈینز کی عکاسی کرتی ہے جو ایک مالیاتی انقلاب کے حصے کے طور پر چھوٹے بڑے شہروں سے بازارِ حصص کا حصہ بنے ہیں۔
ایسے سرمایہ کاروں کے لیے سرمایہ کاری کا آسان راستہ سسٹمیٹک انویسٹمنٹ پلانز (SIPs) ہیں، جہاں ماہانہ ایک مقررہ رقم جمع کروائی جاتی ہے۔
ایس آئی پی کے ذریعے سرمایہ کاری کرنے والے انڈینز کی تعداد اب دس کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے، جو پانچ سال پہلے کی قریباً ساڑھے تین کروڑ سے تقریباً تین گنا زیادہ ہے۔
بہت سے پہلی بار سرمایہ کاری کرنے والے، زیادہ منافع کے وعدے کے لالچ میں ایسا کرتے ہیں جبکہ انھیں اس سے جڑے خطرات سے متعلق محدود آگاہی ہوتی ہے۔
ان میں سے اکثر انسٹاگرام اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر سوشل میڈیا کے ’فن فلوئنسرز‘ کی لہر سے متاثر ہوتے ہیں، جن میں ماہرین اور شوقیہ طور پر مشورے دینے والے دونوں شامل ہیں۔
BBCترون سرکار نے گذشتہ برس مندی کے آغاز سے کچھ عرصہ قبل ہی اپنے ریٹائرمنٹ فنڈ سے سرمایہ کاری کی تھی
ترون سرکار سے ملیے جو ریٹائرڈ مارکیٹنگ مینیجر ہیں اور ان میں آپ کو انڈیا کے نئے سرمایہ کار کی جھلک ملتی ہے۔
جب ان کا پبلک پروویڈنٹ فنڈ - حکومت کی حمایت یافتہ ٹیکس فری سرمایہ کاری - پچھلے سال میچیور ہوا، تو انھوں نے اپنی ریٹائرمنٹ کے لیے رقم محفوظ بنانے کا راستہ تلاش کیا۔ سٹاک مارکیٹ میں ماضی میں ہونے والے نقصانات کی وجہ سے انھوں نے میوچل فنڈز کا رخ کیا اور اس مرتبہ انھوں نے ایک مشیر کی مدد بھی لی۔
’میں نے اپنی بچت کا 80 فیصد حصہ میوچل فنڈز میں ڈال دیا اور صرف 20 فیصد بینک میں رکھا۔ اب میرے مشیر نے مجھے خبردار کیا ہے کہ چھ ماہ تک اپنی سرمایہ کاری کو دیکھنا بھی نہیں ورنہ دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔‘
فی الحال ترون سرکار کو پوری طرح سے یقین نہیں کہ آیا اپنے ریٹائرمنٹ فنڈ کو سٹاک مارکیٹ میں منتقل کرنا درست فیصلہ تھا۔
’میں لاعلم بھی ہوں اور پراعتماد بھی‘، وہ صاف گوئی سے کہتے ہیں۔ ’میں نہیں جانتا کہ کیا ہو رہا ہے اور بازار اس طرح کیوں ردعمل دے رہا ہے مگر پھر بھی پراعتماد ہوں کیونکہ انسٹا گرام ’ماہرین‘ سرمایہ کاری کو کروڑوں کے حصول کے لیے ایک تیزی سے طے ہونے والا راستہ بتاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ میں جانتا ہوں کہ میں دھوکے اور بلندوبالا دعووں کے جال میں پھنس سکتا ہوں۔‘
انڈیا میں رقم کی ادائیگی کا سادہ نظام جو کاروبار کے ساتھ ساتھ فراڈ بھی آسان بنا رہا ہےانسانی بالوں کی اربوں ڈالر کی انڈسٹری: ’لوگ پھینک دیتے ہیں لیکن یہ تو سونا ہے‘’12 لاکھ آمدن پر کوئی ٹیکس نہیں‘: انڈیا میں مڈل کلاس کو دیا گیا ریلیف کتنا فائدہ مند ثابت ہوگا؟سونا اصلی ہے یا نقلی، پہچان کیسے کی جائے؟
ترون سرکار کا کہنا ہے کہ وہ ٹی وی شوز اور واٹس ایپ گروپس میں پرجوش چہ میگوئیوں کی وجہ سے بازارِ حصص کی طرف متوجہ ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ٹی وی اینکرز مارکیٹ پر بات کرتے ہیں اور میرے واٹس ایپ گروپ میں لوگ سٹاک مارکیٹ سے حاصل ہونے والے منافع کی شیخی بگھارتے ہیں۔‘
ترون جس وسیع و عریض اپارٹمنٹ کمپلیکس میں رہتے ہیں، وہاں مقیم نوجوان بھی سرمایہ کاری کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ درحقیقت، بیڈمنٹن کے میچ کے دوران، ایک نوجوان نے انھیں ٹیلی کام کے ایک سٹاک پر ٹپ دی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب آپ اپنے ارد گرد یہ سب سنتے ہیں، تو آپ سوچنے لگتے ہیں کہ کیوں نہ یہ داؤ کھیلا جائے؟ تو میں نے ایسا کیا، اور پھر بازار گر گیا۔‘
تاہم ترون سرکار پرامید ہیں۔ ’مجھے یقین ہے کہ بازار بحال ہو جائے گی اور میری سرمایہ کاری گھاٹے سے منافع میں واپس آ جائے گی۔‘
Reutersایس آئی پی کے ذریعے سرمایہ کاری کرنے والے انڈینز کی تعداد اب دس کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے
کچھ اور لوگ بھی ہیں جنھوں نے زیادہ خطرہ مول لیا اور پہلے ہی پیسہ کھو چکے ہیں۔ جلدی سے امیر ہونے والی ویڈیوز کے لالچ میں، مغربی انڈیا کے ایک چھوٹے سے صنعتی شہر کے اکاؤنٹنگ کلرک رمیش (فرضی نام) نے کووڈ کی وبا کے دنوں میں بازارِ حصص میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے رقم ادھار لی۔
یوٹیوب پر موجود انفلوئنسرز سے متاثر ہو کر انھوں نے پرخطر پینی سٹاکس اور ڈیریویٹو میں تجارت کی۔ 1,800 ڈالرسے زیادہ رقم کھونے کے بعد جو کہ ان کی سالانہ تنخواہ سے بھی زیادہ ہے، انھوں نے اپنا بروکریج اکاؤنٹ بند کر دیا اور دوبارہ اس بازار کا رخ نہ کرنے کی قسم کھائی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے یہ رقم ادھار لی تھی اور اب قرض دہندہ میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔‘
رمیش ان ایک کروڑ دس لاکھ انڈین شہریوں میں شامل ہیں جنھوں نے ریگولیٹرز کی مداخلت سے پہلے فیوچر اور آپشنز کی تجارت میں 20 ارب ڈالر کا مشترکہ نقصان کیا۔
مالیاتی مشیر سمیر دوشی کا کہنا ہے کہ ’یہ گراوٹ کووڈ کے دوران ہونے والے مارکیٹ کریش جیسا نہیں۔ اس وقت، ہمارے پاس ویکسین کی آمد کے ساتھ بحالی کا ایک واضح راستہ تھا لیکن ٹرمپ کے عنصر کے ساتھ غیریقینی صورتحال پیدا ہوئی۔ آسان بات یہ ہے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ آگے کیا ہو گا۔‘
ڈیجیٹل پلیٹ فارمز، کم لاگت بروکریجز اور حکومت کی طرف سے چلنے والے مالیاتی شمولیت کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے، سرمایہ کاری زیادہ قابل رسائی ہو گئی ہے۔ سمارٹ فونز اور صارف دوست ایپس نے سٹاک مارکیٹ تک رسائی کو آسان بنا دیا، جس سے روایتی اثاثوں کے متبادل کی تلاش میں ایک وسیع تر، کم عمر سرمایہ کار تیار ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف، بہت سے نئے انڈین سرمایہ کاروں کو حقیقت کے ادراک کی ضرورت ہے۔ مصنف اور مالیاتی ماہر تعلیم مونیکا ہالان کہتی ہیں کہ ’سٹاک مارکیٹ جوئے کا اڈہ نہیں۔ آپ کو اپنی توقعات کو لگام دینی چاہیے۔ ایکویٹی میں صرف اسی رقم سے سرمایہ کاری کریں جس کی آپ کو کم از کم سات سال تک ضرورت نہیں ہو گی۔ اگر آپ خطرہ مول لے رہے ہیں تو منفی پہلو کو سمجھیں کہ کیا میں اتنا نقصان برداشت کر سکتا ہوں؟‘
Getty Imagesمالیاتی ماہر تعلیم مونیکا ہالان کہتی ہیں سرمایہ کاروں کو اپنی توقعات کو لگام دینی چاہیے
انڈین سٹاک مارکیٹ میں آنے والی مندی ملک کے متوسط طبقے کے لیے اس سے بدتر وقت میں نشانہ نہیں بنا سکتی تھی۔ ملک میں معاشی ترقی کی رفتار سست پڑ رہی ہے، تنخواہیں جمود کا شکار ہیں، نجی سرمایہ کاری برسوں سے سست ہے اور ملازمتیں پیدا کرنے کی رفتار برقرار نہیں۔ ان چیلنجوں کے درمیان، سٹاک مارکیٹ میں آنے والی تیزی کے لالچ میں بہت سے نئے سرمایہ کار اب غیرمتوقع نقصانات سے دوچار ہیں۔
مالیاتی تجزیہ کار آنندیو چکرورتی کے مطابق ’عام اوقات میں، بچت کرنے والے قلیل مدتی دھچکے سہہ سکتے ہیں، کیونکہ ان کی مستقل آمدنی ہوتی ہے جو ان کی بچت میں اضافہ کرتی رہتی ہے‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اب، ہم متوسط طبقے کے لیے ایک بڑے معاشی بحران میں گھر چکے ہیں۔ ایک طرف، وائٹ کالر ملازمت کے مواقع کم ہو رہے ہیں اور تنخواہوں میں اضافہ کم ہے۔ دوسری طرف، متوسط طبقے کے گھرانوں کو درپیش حقیقی مہنگائی۔ حکومت کی مرتب کردہ اوسط خوردہ مہنگائی کے مقابلے میں حالیہ یادوں میں سب سے زیادہ ہے اور ایک ایسے وقت میں ایک متوسط طبقے کے گھرانے کے لیے سٹاک مارکیٹ کا بدلاؤ ایک تباہ کن چیز ہے۔‘
جے دیپ مراٹھے جیسے مالیاتی مشیروں کا خیال ہے کہ اگر یہ اتار چڑھاؤ مزید چھ سے آٹھ ماہ تک جاری رہا تو کچھ لوگ بازار سے پیسہ نکالنا شروع کر دیں گے اور اسے محفوظ بینک ڈپازٹس میں منتقل کر دیں گے۔
’ہم گاہکوں کو یہ بتانے میں بہت زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں کہ وہ اپنے پورٹ فولیوز کو ختم نہ کریں اور اسے ایک مستقل واقعے کے طور پر نہ دیکھیں۔‘
لیکن واضح طور پر، تمام امیدیں ختم نہیں ہوئی ہیں اور زیادہ تر کا خیال ہے کہ بازارِ حصص خود کو درست کر رہا ہے۔
بازارِ حصص کے ماہر اجے بگا کا کہنا ہے کہ فروری کے بعد سے غیرملکی سرمایہ کاروں کی حصص کی فروخت میں کمی آئی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں مندی ختم ہونے کے قریب ہے۔
مارکیٹ کریکشن کے بعد، سٹاک مارکیٹ کے بہت سے اشاریوں کی قدریں ان کی 10 سالہ اوسط سے کم ہوگئی ہیں، جس سے کچھ مہلت ملتی ہے۔
اجے بگا توقع کرتے ہیں کہ جی ڈی پی اور کارپوریٹ آمدنی میں بہتری آئے گی، جسے وفاقی بجٹ میں 12 ارب ڈالر کی انکم ٹیکس کی چھوٹ اور گرتی ہوئی شرح سود سے مدد ملے گی تاہم، جغرافیائی سیاسی خطرات، مشرق وسطیٰ اور یوکرین کے تنازعات اور ٹرمپ کے ٹیرف کے منصوبوں کی وجہ سے سرمایہ کار محتاط رہیں گے۔
آخر میں، مارکیٹ کی خرابی نئے سرمایہ کاروں کے لیے ایک مشکل سبق کے طور پر کام کر سکتی ہے۔
مونیکا ہالان کہتی ہیں کہ ’یہ اصلاح ان لوگوں کے لیے ایک انتہائی ضروری تنبیہ ہے جو صرف تین سال قبل مارکیٹ میں داخل ہوئے، 25 فیصد منافع سے لطف اندوز ہوئے جو معمول کی بات نہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ کو بازارِ حصص کی سمجھ نہیں تو بینک ڈیپازٹس اور سونے تک محدود رہیں۔ کم از کم چیزیں آپ کے کنٹرول میں رہیں گی۔‘
’12 لاکھ آمدن پر کوئی ٹیکس نہیں‘: انڈیا میں مڈل کلاس کو دیا گیا ریلیف کتنا فائدہ مند ثابت ہوگا؟’ایک کلو مکھانے کی قیمت ایک ہزار روپے‘: انڈیا کے نئے بجٹ میں اس ’سپر فوڈ‘ کا ذکر کیوں آیا؟وہ فراڈ جس میں ’منافع کا لالچ اور جعلی زیور‘ دے کر سبزی فروش سمیت ہزاروں افراد کے 200 کروڑ ہتھیا لیے گئے