پاکستان کے نجی چینلز سے اینکرز ’آف ایئر‘: ’عمران خان دور میں جو سکھایا گیا، اس پر اب شہباز شریف حکومت عمل پیرا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Mar 05, 2025

تین مارچ بروز سوموار کو جب پاکستان کے نجی چینل اے آر وائی نیوز پر پرائم ٹائم پروگرام ’آف دا ریکارڈ‘ نشر ہوا تو اس میں روایت کے برعکس پروگرام اینکر کاشف عباسی نہیں بلکہ چینل کے ایک اور اینکر اشفاق ستی سکرین پر نظر آئے۔

صرف یہ ہی نہیں بلکہ پروگرام کے اختتام پر ’آف دا ریکارڈ‘ کے 21 جنوری کے پروگرام پر معذرت بھی کی گئی اور کاشف عباسی کے بیان سے لاتعلقی کا اعلان کیا گیا۔

اشفاق ستی نے کہا کہ ’گذشتہ پروگرام جو 21 جنوری 2025 کو نشر ہوا، جس میں میزبان نے پروگرام کے ابتدا میں اپنی ذاتی حیثیت سے رائے پیش کی، جس کا ادارے سے کوئی تعلق نہیں، اس کے باوجود اگر کسی کی دل آزادری ہوئی ہے تو ادارہ اس پر معذرت خوا ہے۔‘

واضح رہے کہ فروری کے مہینے میں یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ کاشف عباسی کو آف ایئر کر دیا گیا ہے تاہم اس کی وجوہات کے حوالے سے ابھی قیاس آرائیاں جاری ہی تھیں کہ سوموار کے روز اے آر وائی کیجانب سے کاشف عباسی کے بیان سے اظہار لاتعلقی بھی کر دیا گیا۔

صرف کاشف عباسی ہی نہیں بلکہ سنو نیوز کے اینکر حبیب اکرم اور سما ٹی وی سے منسلک سینیئر صحافی طلعت حسین کے حوالے سے بھی یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ انھیں بھی آف ایئر کر دیا گیا ہے۔

بی بی سی نے اس حوالے سے ان تینوں صحافیوں سے بات کر کے حقیقت جاننے کی کوشش کی۔

اس کے علاوہ بی بی سی نے ماہرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش بھی کی کہ پاکستان میں صحافیوں کو سینسر کرنے یا پروگرام اینکرز کو آف ایئر کرنے کے پیچھے کیا وجوہات کار فرما ہوتی ہیں؟

’مجھے آف ایئر نہیں کیا گیا، ذاتی وجوہات کی بنیاد پر سکرین پر نہیں آ رہا‘

طلعت حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ انھیں آف ایئر نہیں کیا گیا بلکہ وہ ذاتی وجوہات کی بنیاد پر پروگرام نہیں کر رہے۔

اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ماحول ایسا بنا ہوا ہے کہ لوگ اس بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہیں، بعض لوگوں نے کہہ دیا کہ مجھے سینسر کر دیا گیا، میرا سکرین سے غائب ہونا اور دوسرے لوگوں کا سکرین سے ہٹ جانا، ایک محض اتفاق ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’میں آف ایئر بنیادی طور پر ذاتی وجوہات کی بنا پر ہوں۔ اب ماحول ایسا بنا ہوا ہے کہ آپ اس ملک کے اندر وقتی طور پر بیمار بھی نہیں ہو سکتے اور اگر ہو جائیں تو لوگ کہیں گے کہ آپ آف ایئر ہو گئے۔‘

’میرے لیے یہ کہنا بہت آسان تھا کہ میں واقعتاً آف ایئر ہوا ہوں، اس سے جلدی شہرت مل جاتی ہے، بی بی سی آپ کا انٹرویو کر لیتا ہے اور آپ خوا مخوا کے ہیرو بن جاتے ہیں۔‘

انھوں نے بارہا اصرار کیا کہ ’میرا آف ایئر ہونا ذاتی وجوہات کی بنیاد پر ہے اور جوں ہی یہ وجوہات ختم ہوئیں میں واپس آ جاؤں گا۔‘

جب طلعت حسین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ سما کی سکرین سے ہی واپس آئیں گے یا کسی اور پلیٹ فارم سے تو انھوں نے کہا کہ ’میں سما ٹی وی سے ہی واپس آؤں گا۔‘

دوسری جانب سنو نیوز سے آف ایئر ہونے والے اینکر حبیب اکرم نے بی بی سی سے گفتگو میں اس بات کی تصدیق تو کی کہ وہ آف ایئر ہیں تاہم انھوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات دینے سے انکار کیا۔

بی بی سی نے اس حوالے سے سنو نیوز کی انتظامیہ سے بھی مؤقف جاننے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

بی بی سی نے کاشف عباسی سے بھی بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان سے بات نہیں ہو سکی تاہم اے آر وائی کی جانب سے 21 جنوری کے پروگرام سے معذرت کر لی اور کاشف عباسی کے بیان سے رائے سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔

واضح رہے کہ 21 جنوری کو اپنے پروگرام میں کاشف عباسی نے پاکستان کے موجودہ حکمران اتحاد پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ طاقت کی سیاست نے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔

انھوں نے کہا تھا کہ ملک میں آئین کا قتل کیا گیا اور اسے دفنا دیا گیا اور سب کا اس میں ہاتھ ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’ہم ایک بدقسمت قوم ہیں جہاں سیاسی فائدے کے لیے رازداری اور عزت کے تقدس کو بھی پامال کیا گیا۔‘

کاشف عباسی نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاسی مقاصد کے لیے خواتین اور بچوں کو ان کے گھروں سے اغوا کرنا معمول بن گیا ہے۔

پاکستان میں ٹی وی ریٹنگ سسٹم کیا ہے اور اس کا کسی ٹی وی چینل کی آمدن سے کیا تعلق ہوتا ہے؟کیا ٹی وی چینلز ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں؟ٹی وی پر کون آئے گا، کیا پیمرا یہ فیصلہ کر سکتا ہے؟ابصار عالم کیس میں مبینہ حملہ آور گرفتار، مگر ماسٹر مائنڈ کون ہے؟Getty Images’عمران خان دور میں جو سکھایا گیا، اس پر اب شہباز شریف حکومت عمل پیرا ہے‘

پاکستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی صحافی کو سینسر یا آف ایئر کیا گیا ہو بلکہ ماضی میں بھی اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔

عمران خان کے دور حکومت میں آف ایئر ہونے والے جیو نیوز کے اینکر حامد میر نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی ادارے جب براہ راست کارروائی نہیں کر سکتے تو وہ آپ کو آف ایئر کروا دیتے ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان (ریاستی اداروں) کو تو چاہیے کہ وہ پیمرا کے ذریعے کارروائی کریں۔

’اگر میں نے یا کاشف عباسی نے کوئی غلط کام کیا ہے تو پیمرا ایک ادرہ ہے، جس کا کام ہے کہ وہ کارروائی کرے، تو ریاستی ادارے جب پیمرا کے ذریعے کارروائی کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر وہ (ٹی وی چینل) انتظامیہ پر دباؤ ڈالتے ہیں اور انتظامیہ کے ذریعے آف ایئر کروا دیتے ہیں۔‘

انھوں نے اپنی اور اپنے چینل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’جب عمران خان وزیراعظم تھے تو جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کو نیب نے 35 برس پرانے مقدمے میں بلا کر بند کر دیا۔ وہ آٹھ نو ماہ بند رہے، عدالتیں کچھ بھی نہ کر سکیں، پھر اسی عرصے میں مجھے نو ماہ کے لیے آف ایئر کیا گیا، ہم عدالتوں میں جاتے تھے، کھڑے ہوتے تھے، عدالت کچھ نہیں کر سکتی تھی۔‘

حامد میر نے مزید کہا کہ ’عمران خان کے دور میں جو سکھایا گیا کہ میڈیا کو کیسے ہینڈل کرنا ہے، اس پر اب شہباز شریف کی حکومت عمل پیرا ہے۔ یہ اسی راستے پر چل رہے ہیں۔‘

انھوں نے یہ سوال بھی کیا کہ پیکا قانون کو آخر کون لایا؟ حامد میر نے کہا کہ عمران خان نے پیکا آرڈیننس کو صدارتی ریفرنس کے طور پر نافذ کیا تھا۔

’میں نے اسے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، اس میں ہمیں عدالت سے ریلیف تو مل گئی لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک عجیب و غریب کام کیا کہ اٹارنی جنرل سے 15 دن میں رپورٹ مانگی اور اگلی سماعت کے لیے دو ماہ کی تاریخ ڈال دی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو عدالتوں سے بھی ریلیف نہیں ملے گا، تو پھر چینل انتظامیہ یہ کرے گی کہ جس کے بارے میں دباؤ آئے گا کہ اسے آف ایئر کریں، تو اسے آف ایئر کر دیا جائے گا۔‘

حامد میر نے کہا کہ ’جس ملک میں جمہوریت ہی نہ ہو، جہاں آئین و قانون کو کوئی مانتا ہی نہ ہو، جہاں عدلیہ بے بس ہو، تو وہاں اگر کوئی چینل کی مینجمینٹ کو کہے کہ کسی بندے کو آف ایئر کرو ورنہ ہم تمہارے اشتہار بند کر دیں گے، تو وہ ایسا ہی کریں گے۔‘

Getty Images’اب صحافیوں کو نہیں بلکہ میڈیا مالکان کو بلیک میل کیا جاتا ہے‘

اس وقت پاکستان کے ایک اخبار سے منسلک اور ماضی میں خود بھی آف ایئر ہونے والے ایک سینیئر صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے اس بارے میں بات کی۔

انھوں نے کہا کہ ’کچھ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ آئینے میں جو شکل نظر آ رہی ہے وہ درست نہیں تو آئینہ گڑبڑ کر رہا ہے، اس لیے آئینے کو توڑ دو۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ہمیشہ ایسا ہی رہا، میڈیا پر دباؤ ہمیشہ ہی رہا، کچھ ہم عادی ہوتے جا رہے ہیں اور کچھ دباؤ ڈالنے والوں کا صبر کم ہوتا جا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’الیکٹرانک میڈیا میں زیادہ تر مالکان وہ ہیں، جن کے اپنے کاروباری خدشات پیں۔ اب بلیک میلنگ یا دباؤ براہ راست صحافیوں پر نہیں رہا بلکہ اب مالکان کو ان کے کاروبار کے حوالے سے بلیک میل کیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ان مالکان نے سرکاری اداوں کی جانب سے دباؤ کے بعد میڈیا کی آڑ لینے کی کوشش کی کہ اس کی وجہ سے ان کے کاروبار پر دباؤ نہیں آئے گا لیکن اب صورتحال الٹ ہو گئی ہے اور اب میڈیا کی وجہ سے ان کے کاروبار پر پریشر آ رہا۔‘

’عمران خان کے دور میں مقتدر حلقوں سے فون آتے تھے‘

سینیئر اینکر عاصمہ شیرازی اس بارے میں اپنی رائے دیتی ہیں کہ یہ چینلز پر منحصر ہوتا ہے کہ ان پر کتنا دباؤ آتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ کچھ چینلز میں مالکان یا انتظامیہ کی جانب سے گائیڈ لائنز آتی ہیں لیکن ہر چینل میں ایسا نہیں ہوتا۔

’جیسے میرے چینل کی جانب سے واضح گائیڈ لائن ہے کہ کسی پر الزام نہیں لگانا، بہتان تراشی نہیں کرنی، یا ایسا الزام نہیں لگانا جسے آپ ثابت نہ کر سکیں۔ پرائم ٹائم میں آنے والے صحافی خود اس بات کا بڑا دھیان رکھتے ہیں کہ ان کی اپنی ایڈیٹوریل لائن کیا ہے، وہ کس چیز پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کس چیز کو زیادہ زیر بحث لانا چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’پچھلے دور میں مجھ پر بھی بہت دباؤ آیا اور مجھے آف ایئر کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ایسا میرے پروگرام نہیں بلکہ میرے کالم کی وجہ سے ہوا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے وہ وقت بھی دیکھ رکھا ہے جب لائیو پروگرام کے دوران ہمیں دھمکیوں کے فون آ جاتے تھے کہ اس موضوع پر بات کیوں ہو رہی ہے۔ عمران خان کے دور میں تو مقتدر حلقوں سے فون آتے تھے۔‘

عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ’صحافی جانتا ہے کہ اس نے کیسے بات کرنی ہے اور وہ اپنی بات کو کہہ بھی جاتا ہے، با مقصد تنقید پر تو کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ جیسے الیکشن کے بعد ہم سب نے اس کی ساکھ کے بارے میں بات کی اور سوال اٹھائے۔‘

نیشنل پریس کلب کی سیکرٹری نئیر علی سے جب صحافیوں پر دباؤ اور پابندیوں کے حوالے سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا صحافتی تنظیمیں ہمیشہ سے ایسے تمام اقدامات کی مذمت کرتی آئی ہیں جن کے ذریعے صحافیوں کی سٹوریز کو روکا جاتا ہے یا ان کو آف ایئر کر کے آزادئ اظہار رائے پر قدغن لگائی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ میڈیا مالکان کو چاہیے کہ وہ کسی قسم کے دباؤ آئے بغیر ایسے تمام صحافیوں کو ان کے عہدوں پر بحال کریں۔

صحافی حامد میر کو ’چھٹی‘ پر بھیجنے کا معاملہ، پی ایف یو جے کی مذمتآئی ایس آئی کا اسد طور پر حملے سے لاتعلقی کا اظہار، وزیر داخلہ مجرمان تک پہنچنے کے لیے پرامیدپاکستان میں ٹی وی ریٹنگ سسٹم کیا ہے اور اس کا کسی ٹی وی چینل کی آمدن سے کیا تعلق ہوتا ہے؟کیا ٹی وی چینلز ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں؟ابصار عالم کیس میں مبینہ حملہ آور گرفتار، مگر ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ٹی وی پر کون آئے گا، کیا پیمرا یہ فیصلہ کر سکتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More