Mohar Singh Meena
راجستھان میں یکم مارچ کو ہندو تنظیموں نے پانچ طالبات کے مبینہ ریپ اور بلیک میلنگ کے خلاف اجمیر میں ہڑتال کی کال دی تھی۔
بازار، سکول، کالج اور تمام ادارے سنیچر کی صبح بند رہے اور اس ہڑتال کو تجارتی تنظیموں کی بھی حمایت حاصل ہے۔
اس سے قبل 28 فروری کو ہندو تنظیموں نے اجمیر ڈویژن کے کشن گڑھ، بھیلواڑہ اور بیور اضلاع میں ایک ریلی کا اہتمام کیا تھا۔
دراصل اجمیر ڈویژن کے بیور ضلع کے وجے نگر پولیس سٹیشن میں 16 فروری کو تین ایف آئی آر درج کی گئی تھیں۔ ان ایف آئی آرز میں کئی سنگین الزامات لگائے گئے تھے، جیسے کہ پانچ نابالغ سکول کی لڑکیوں کو بلیک میل کرنا اور ریپ کرنا اور ان پر مذہب تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا۔
مقامی پولیس نے اس معاملے میں ایک سابق کونسلر سمیت 12 افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں سے تین نوعمر لڑکے ہیں۔
Ravindra Singhپولیس کا کیا موقف ہے؟
مقامی عدالت کے حکم کے بعد آٹھ ملزمان کو جیل بھیج دیا گیا تھا جبکہ سابق کونسلر حکیم قریشی کو ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
تمام نوعمر بچے اصلاحی سینٹر میں ہیں لیکن ہندو تنظیموں کی اس واقعے کے خلاف احتجاجی سرگرمیاں مسلسل بڑھ رہی ہے۔
وجے نگر تھانے کے انچارج کرن سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’تین ایف آئی آرز 16 تاریخ کو درج کی گئیں۔ پانچ نوعمر متاثرین سامنے آئے ہیں جو ایک ہی سکول کے طالب علم ہیں۔‘
لڑکی کے اہل خانہ کی شکایت پر پولیس نے ایف آئی آرز درج کی ہے۔
اس معاملے میں تفتیشی افسر ڈپٹی ایس پی سجن سنگھ نے کہا ہے کہ ’ہم نے 12 لوگوں کو گرفتار کیا ہے، جن میں سے تین ناعمر لڑکوں کو عدالت کے حکم پر اصلاح سینٹر بھیج دیا گیا ہے۔ ایک ملزم سابق کونسلر حکیم قریشی کا ریمانڈ لیا گیا ہے اور باقی آٹھ ملزمان کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔
تحقیقات میں اب تک کتنے متاثرین سامنے آئے ہیں اور کیا ان کی تعداد بڑھ سکتی ہے؟ اس سوال پر سجن سنگھ کا کہنا تھا کہ ’پانچ متاثرین نے اپنے اہلِخانہ کے ساتھ تھانے میں رپورٹ درج کروائی ہے، اب تک کی تحقیقات میں متاثرین کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔‘
تاہم متاثرین کے بیانات کی بنیاد پر انھوں نے تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے بلیک میلنگ اور تبدیلی کے لیے دباؤ ڈالنے کے الزامات کی تصدیق کی ہے۔
Ravindra Singhگورنر نے کہا ’یہ اب نہیں چلے گا‘
ریاست کی حکمران اور اپوزیشن پارٹیاں اس سنگین مسئلے پر خاموش نظر آتی ہیں۔ اس معاملے پر وزیر اعلیٰ بھجن لال شرما کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
سابق وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے 18 فروری کو سوشل میڈیا پر میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ’کیا بی جے پی کے دور حکومت میں لڑکیاں عدم تحفظ کی وجہ سے گھر سے نکلنا بند کر دیں گی؟‘
تاہم راجستھان کے گورنر ہری بھاؤ باگڈے نے 23 فروری کو جھنجھنو ضلع کے نوال گڑھ میں ایک پرائیویٹ سکول کے پروگرام کے سٹیج سے اس معاملے پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کئی طالبات کا تعلق ہندو تنظیموں سے ہے اس لیے انھیں نشانہ بنایا گیا۔
سوال پوچھتے ہوئے گورنر نے کہا کہ ’وہ لڑکیاں ایک ہندو تنظیم سے وابستہ تھیں، اسی لیے آپ انھیں نشانہ بنا رہے ہیں، یہ نہیں چلے گا، اب یہ نہیں چلے گا۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں۔‘
Mohar Singh Meenaکیس کیسے سامنے آیا؟
ڈپٹی ایس پی اور اس معاملے کے تفتیشی افسر سجن سنگھ کا کہنا ہے کہ ’یہ معاملہ صرف متاثرہ خاندان کی طرف سے درج ایف آئی آر سے سامنے آیا ہے۔'
ایک متاثرہ لڑکی کے والد نے پولیس کو بتایا کہ ’15 فروری کو ان کی نوعمر بیٹی گھر میں پڑھ رہی تھی، جب میں اچانک اس کے کمرے میں گیا تو وہ ملزم سے فون پر بات کر رہی تھی، مجھے دیکھ کر اس نے گھبرا کر فون کاٹ دیا۔
’کال منقطع ہونے کے بعد لقمان نے مسلسل 15 سے 20 کالیں کیں۔ میں نے فون اٹھایا اور اپنی بیٹی سے بات کرنے کو کہا۔ اس نے میری بیٹی کو گالیاں دیں اور دھمکی دی کہ اگر اس نے فوری طور پر اس سے ملاقات نہ کی تو وہ تصاویر اور ویڈیوز وائرل کر دے گا۔‘
پولیس کے مطابق ’باپ نے اپنی خوفزدہ بیٹی کو اس جگہ بھیجا جہاں لقمان نے اسے بلایا تھا اور پھر اس کا پیچھا کیا، اس کے بعد وہ اپنی بیٹی کو بچا کر گھر لے آئے اور اس سے پوچھ گچھ کی تو واقعہ سامنے آیا۔‘
متاثرہ لڑکی کے والد نے اپنی بیٹی سے موصول ہونے والی معلومات کی بنیاد پر دعویٰ کیا ہے کہ ’لقمان اسے ہوٹلوں اور کیفے میں جانے پر مجبور کرتا تھا اور اس کا جنسی استحصال کرتا تھا۔ وہ اسے جنسی استحصال کے لیے اپنے دوستوں سے ملنے پر بھی مجبور کرتا تھا۔‘
متاثرہ لڑکی کے والد نے پولیس کو بتایا کہ ’جب ہماری بیٹی نے واقعے کے بارے میں بتایا تو ہم نے اس کے دوستوں کے اہلِخانہ سے رابطہ کیا اور معلوم کیا کہ ان کی بیٹیوں کے ساتھ بھی ریپ کے ایسے ہی واقعات پیش آئے ہیں یا نہیں۔‘
سکالرشپ کا جھانسہ دے کر نوجوان لڑکیوں کا ریپ: ’مصنوعی ذہانت کے ذریعے خاتون کی آواز میں کال کی گئی‘’بیوی کے ساتھ زبردستی غیر فطری جنسی تعلق قائم کرنا ریپ نہیں‘: انڈین ہائیکورٹ کا قید کی سزا پانے والے شوہر کو بری کرنے کا حکمانڈیا: اجتماعی ریپ کی شکایت درج کروانے والی لڑکی سے تھانیدار کا مبینہ ریپانڈیا میں دلت طالبہ کو ’پانچ سال میں 64 آدمیوں نے گینگ ریپ کیا‘، 28 ملزمان گرفتارملزمان کے اہل خانہ کا ردعمل
اس معاملے میں ملزمان کے اہل خانہ سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ دوسری طرف وجئے نگر میونسپلٹی نے ملزمان کے مکانات کو غیر قانونی تعمیر قرار دیتے ہوئے ملزم کے اہل خانہ کو نوٹس جاری کیا ہے۔
اگر مقررہ مدت میں کاغذات جمع نہ کرائے گئے تو ان کے مکانات گرانے کی کارروائی کی جائے گی۔
یہ معلومات ایڈووکیٹ سید سعادت علی نے دی جنھوں نے نوٹس کے خلاف ملزم کے اہل خانہ کی جانب سے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ’ایف آئی آر 16 تاریخ کو درج کی گئی تھی لیکن ہمیں ابھی تک ایف آئی آر کی کاپی نہیں دی گئی، ہم ایس پی کی پریس کانفرنس کی بنیاد پر آگے بڑھ رہے ہیں، الزامات ہیں کہ انھیں کیفے لے جایا گیا لیکن کیفے کے مالک کو گرفتار نہیں کیا گیا، اسی دوران گرفتار ملزمان کے رشتہ داروں کے مکانات کو مسمار کرنے کے نوٹس جاری کیے گئے ہیں اور کاغذات جمع کیے جا رہے ہیں۔‘
Mohar Singh Meenaہندو تنظیموں کا احتجاج جاری ہے
جب سے یہ معاملہ سامنے آیا ہے ہندو تنظیمیں اجمیر ڈویژن اور دیگر علاقوں میں احتجاج کر رہی ہیں۔
پولیس انتظامیہ کو ایک میمورنڈم کے ذریعے مجرموں کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اجمیر کی عدالت میں سماعت کے دوران وکلا نے پولیس کی حفاظت میں لائے گئے ملزمان کی پٹائی بھی کی۔
ویدی مہیلا جاگرکتہ سنستھان نے چیف منسٹر بھجن لال شرما کو ایک میمورنڈم پیش کیا ہے جس میں اس کیس کی فاسٹ ٹریک کورٹ میں سماعت اور طالبات کی کونسلنگ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
انسٹیٹیوٹ کی نائب صدر شوبھا گوتم کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس قوانین ہیں لیکن ان پر صحیح طریقے سے عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔
’قانون کو اس طرح نافذ کیا جانا چاہیے کہ ایسے مجرموں میں خوف پیدا ہو۔ مجرموں کو ایسی سزا دی جائے جس سے دیگر مجرموں کو پیغام جائے تاکہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔‘
وپرا سینا کے قومی سربراہ سنیل تیواری کا دعویٰ ہے کہ متاثرین کی تعداد صرف پانچ نہیں بلکہ کئی اور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ابھی بھی بہت سی اور بھی مظلوم لڑکیاں ہیں جو خوف اور عزت کی وجہ سے آگے نہیں آ رہی ہیں۔‘
وشو ہندو پریشد کے قومی ترجمان امیتوش پاریک نے اس واقعہ میں قصورواروں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
درحقیقت تین دہائی قبل اجمیر میں بلیک میل ریپ کیس میں گینگ ریپ کا ایک معاملہ سامنے آیا تھا جس میں لوگوں نے سکول کالج کی لڑکیوں سے دوستی کی اور پھر ان کی فحش تصاویر اور ویڈیو بنا کر انھیں بلیک میل کیا۔
بیور میں سکول کے نابالغ طالب علموں کو بلیک میل کرنے کا ایسا ہی معاملہ سامنے آیا ہے۔ اس لیے اسے بھی اجمیر بلیک میل کیس کی طرح دیکھا جا رہا ہے۔
انڈیا میں دلت طالبہ کو ’پانچ سال میں 64 آدمیوں نے گینگ ریپ کیا‘، 28 ملزمان گرفتارانڈیا کے مقدس شہر میں ’سڑک کنارے ریپ کو روکنے کی بجائے ویڈیو بنائی گئی‘’بیوی کے ساتھ زبردستی غیر فطری جنسی تعلق قائم کرنا ریپ نہیں‘: انڈین ہائیکورٹ کا قید کی سزا پانے والے شوہر کو بری کرنے کا حکمانڈیا میں بیویوں کے ریپ پر مردوں کو سخت سزائیں دینے کی مخالفت کیوں؟انڈیا: اجتماعی ریپ کی شکایت درج کروانے والی لڑکی سے تھانیدار کا مبینہ ریپسکالرشپ کا جھانسہ دے کر نوجوان لڑکیوں کا ریپ: ’مصنوعی ذہانت کے ذریعے خاتون کی آواز میں کال کی گئی‘