BBCایک انڈین دوا ساز کمپنی غیر لائسنس یافتہ، انتہائی نشہ آور ادویات تیار کر رہی ہے
بی بی سی آئی کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ ایک انڈین دوا ساز کمپنی غیر لائسنس یافتہ اور انتہائی نشہ آور ادویات تیار کر رہی ہے جنھیں ’اوپیوئڈز‘ بھی کہا جاتا ہے۔
تیاری کے بعد ان ادویات کو غیر قانونی طور پر مغربی افریقہ کو برآمد کیا جاتا ہے جہاں وہ گھانا، نائجیریا اور آئیوری کوسٹ جیسے ممالک میں صحت عامہ کے بڑے بحران کو جنم دے رہی ہے۔
ممبئی میں واقع ایویو فارماسیوٹیکلز نامی ادویات ساز کمپنی مختلف قسم کی گولیاں، مختلف برانڈز اور ناموں سے تیار کی جاتی ہیں اور ان کی پیکنگ ایسی ہوتی ہے کہ جس کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ جعلی ہیں اور ان میں کوئی نقصان دہ اجزا پائے جاتے ہیں یعنی ان پر شک کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔
تاہم ان تمام کی تمام ادویات میں خطرناک اور نقصان پہنچانے والے مرکب ہوتے ہیں ایک تو 'ٹیپنٹاڈول جو ایک طاقتور اوپیوڈ ہے اور دوسرا کیریسوپروڈول جو پٹھوں کو آرام دینے والا نشہ آور جزو ہے جس پر یورپ میں پابندی ہے۔
ان ادویات میں موجود اجزا کا یہ مجموعہ دنیا میں کہیں بھی استعمال کے لیے لائسنس یافتہ نہیں ہے اور سانس لینے میں دشواری اور دل کے دورے کا سبب بن سکتا ہے۔ تاہم اس کا زیادہ مقدار میں استعمال موت کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔ خطرات کے باوجود یہ اوپیوئڈز بہت سے مغربی افریقی ممالک میں سٹریٹ ڈرگز کے طور پر مقبول ہیں کیونکہ وہ بہت سستے اور وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں۔
بی بی سی ورلڈ سروس کو ان کے پیکٹ ملے ہیں جن پر انڈین دوا ساز کمپنی ایویو کا لوگو لگا ہوا ہے جو گھانا، نائجیریا اور آئیوریائی قصبوں اور شہروں کی سڑکوں پر فروخت کے لیے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
انڈین کمپنی کے کھانسی کے شربت کے مبینہ استعمال سے 66 بچوں کی ہلاکت، الرٹ جاریہیروئن: کھانسی کی دوا میں استعمال سے دنیا کے ’مقبول ترین نشے‘ تکانڈیا میں تیار کردہ ادویات پر سوال کیوں اٹھ رہے ہیں؟کینسر کا سبب بننے والی ادویات کی فروخت پر پابندی
انڈیا میں ایویو کی فیکٹری سے منشیات کا سراغ لگانے کے بعد بی بی سی نے فیکٹری کے اندر ایک خفیہ اہلکار کو بھیجا جو خود کو افریقی تاجر ظاہر کرتا ہے جو نائجیریا کو اوپیوئڈز یعنی درد کُش دوا فراہم کرنا چاہتا ہے۔ ایک خفیہ کیمرے کا استعمال کرتے ہوئے بی بی سی نے ایویو کے ایک اہلکار ونود شرما کو وہی خطرناک مصنوعات دکھاتے ہوئے فلمایا جو بی بی سی کو مغربی افریقہ میں ملی تھیں۔
خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی فوٹیج میں خفیہ اہلکار نے شرما کو بتایا کہ ان کا منصوبہ نائجیریا میں نوجوانوں کو اُن کی کمپنی کی جانب سے بنائی جانے والی یہ گولیاں فروخت کرنے کا ہے ’جو وہاں کے لوگوں کو بہت پسند ہے۔‘ شرما اُن کی یہ بات سُن کر زرہ برابر بھی ہچکچائے نہیں۔
انھوں نے جواب دیا کہ ’اگر صارفین بیک وقت دو یا تین گولیاں لیں تو وہ ’آرام‘ کرسکتے ہیں اور اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ وہ ان کے استعمال کے بعد خود کو ہوا میں اُڑتا پائیں گے (یعنی ان گولیوں سے نشہ ہوتا ہے)۔‘ اس مُلاقات کے آخر پر شرما کہتے ہیں ’یہ صحت کے لیے بہت نقصان دہ ہے مگر آجکل بس یہی کاروبار ہے۔‘
BBCایک خفیہ کیمرے کا استعمال کرتے ہوئے بی بی سی نے ایویو کے ایک اہلکار ونود شرما کو وہی خطرناک مصنوعات دکھاتے ہوئے فلمایا جو بی بی سی کو مغربی افریقہ میں ملی تھیں۔
یہ ایک ایسا کاروبار ہے جو مغربی افریقہ میں لاکھوں نوجوانوں کی صحت کو نقصان پہنچا رہا ہے اور ان کی صلاحیتوں کو تباہ کر رہا ہے۔
شمالی گھانا کے شہر تمالے میں اتنے نوجوان غیر قانونی اوپیوئڈز یا یہ نشہ آور درد کُش دوا لے رہے ہیں کہ شہر کے ایک سربراہ الحسن ماہم نے تقریباً 100 مقامی شہریوں پر مشتمل ایک رضاکارانہ ٹاسک فورس تشکیل دی ہے۔ جس کا مشن منشیات فروشوں پر چھاپے مارنا اور ان گولیوں کو فروخت ہونے سے روکنا ہے۔
الحسن ماہم کہتے ہیں کہ 'منشیات ان لوگوں کی زندگیوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے جو ان کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ یا یوں کہ لیں کہ خراب حالات میں یہ دوا جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ تملے کے ایک نشے کے عادی فرد نے اسے اور بھی آسان بنا دیا۔ انہوں نے کہا کہ منشیات نے 'ہماری زندگیاں برباد کر دی ہیں۔'
بی بی سی کی ٹیم نے ٹاسک فورس کا تعاقب موٹر سائیکلوں پر کیا۔ ٹاسک فورس نے منشیات کی خرید و فروخت سے متعلق ہونے والے ایک سودے کی خفیہ اطلاع ملنے پر تملے کے غریب ترین علاقوں میں سے ایک میں چھاپہ مارا۔ اس دوران راستے میں انھوں نے ایک مقامی نوجوان کو دیکھا کہ جس نے مقامی لوگوں کے مطابق اس دوا کا استعمال کر رکھا تھا۔
BBCبی بی سی نے افریقی مُلک گھانا میں ایک مقامی نوجوان نشے کی حالت میں سڑک کنارے بیٹھا دیکھا کہ جس نے اس دوا کا استعمال کر رکھا تھا۔
جب ڈیلر کو پکڑا گیا تو اس کے پاس ایک پلاسٹک بیگ تھا جس پر سبز لیبل والی گولیاں بڑی تعداد میں موجود تھیں۔ ان گولیوں کے پتوں پر انڈیا کی دوا ساز کمپنی 'ایویو فارماسیوٹیکل' کا مخصوص لوگو موجود تھا۔
یہ صرف تمل میں ہی نہیں ہے کہ ایو کی گولیاں لوگوں کی زندگیوں کے لیے جان لیوا مسائل کو جنم دے رہی ہیں۔ بی بی سی کو یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ایوو کی تیار کردہ اسی طرح کی مصنوعات گھانا میں بھی پولیس نے متعدد مقامات پر ضبط کی ہیں۔
ہمیں اس بات کے ثبوت بھی ملے ہیں کہ ایویو کی گولیاں نائجیریا اور آئیوری کوسٹ میں سرعام فروخت کے لیے دستیاب ہیں، جہاں نوعمر افراد انھیں الکحل انرجی ڈرنک میں ملا کر استعمال کرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے ان کو استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو سکے۔
عوامی طور پر دستیاب برآمدی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ایویو فارماسیوٹیکلز ویسٹ فن انٹرنیشنل نامی ایک معاون کمپنی کے ساتھ گھانا اور دیگر مغربی افریقی ممالک کو لاکھوں گولیاں بھیج رہا ہے۔
نائیجیریا جس کی آبادی 225 ملین افراد پر مشتمل ہے ان گولیوں کو سب سے بڑی مارکیٹ فراہم کرتا ہے۔ نائجیریا کے قومی ادارہ برائے شماریات کے مطابق یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ تقریباً 40 لاکھ نائجیریا کے شہری کسی نہ کسی قسم کے اوپیوئڈز یا یہ نشہ آور درد کُش دوا کا غلط استعمال کرتے ہیں۔
نائجیریا کی ڈرگ اینڈ لا انفورسمنٹ ایجنسی (این ڈی ایل ای اے) کے چیئرمین بریگیڈیئر جنرل محمد بوبا مروا نے بی بی سی کو بتایا کہ 'اوپیوئڈز ہمارے نوجوانوں، ہمارے خاندانوں اور نائجیریا کی ہر کمیونٹی کو تباہ کر رہی ہیں۔'
BBCجب ڈیلر کو پکڑا گیا تو اس کے پاس ایک پلاسٹک بیگ تھا جس پر سبز لیبل والی گولیاں بڑی تعداد میں موجود تھیں۔
سنہ 2018 میں بی بی سی افریقہ آئی کی جانب سے سڑکوں پر منشیات کے طور پر اوپیوئڈز یا یہ نشہ آور درد کُش دوا کی فروخت کے حوالے سے کی جانے والی تحقیقات کے بعد نائجیریا کے حکام نے ٹراماڈول نامی ایک بڑے پیمانے پر استعمال کی جانے والی اوپیوئڈز یا یہ نشہ آور درد کُش دوا پر قابو پانے کی کوشش کی تھی۔
حکومت نے بات واضح کر رکھی ہے کہ ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ٹرامڈول کی فروخت پر پابندی ہے۔ زیادہ سے زیادہ خوراک پر سخت پابندیاں عائد کیں اور غیر قانونی گولیوں کی درآمد پر کریک ڈاؤن کیا۔
اس کے ساتھ ہی انڈیا میں حکام نے بھی ٹرامڈول پر برآمدی قواعد و ضوابط کو مزید سخت کر دیا۔
اس کریک ڈاؤن کے کچھ ہی عرصے بعد ایویو فارماسیوٹیکلز نے ٹیپنٹاڈول پر مبنی ایک نئی گولی برآمد کرنا شروع کردی جو اس سے بھی زیادہ طاقتور اوپیوئڈ ہے۔
مغربی افریقی حکام نے متنبہ کیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اوپیوئڈ برآمد کنندگان ان نئی گولیوں کو ٹرامڈول کے متبادل کے طور پر اور کریک ڈاؤن سے بچنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔
ایویو فیکٹری میں ان گولیوں کے ڈبے ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہوئے تھے۔ جو تقریباً چھت سے اونچے تھے۔ ونود شرما نے اپنی میز پر ٹیپنٹاڈول، کیریسوپروڈول گولیوں کے ایک کے بعد ایک پیکٹ رکھے تھے جنھیں کمپنی کئی ناموں سے فروخت کرتی ہے۔ جن میں سب سے زیادہ مقبول ٹیفروڈول کے ساتھ ساتھ ٹیماکنگ اور سپر رائل 225 بھی شامل ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کی خفیہ ٹیم کو بتایا کہ ان کی فیکٹری میں کام کرنے والے 'سائنسدان' مختلف ادویات کو ملا کر ایک نئی پروڈکٹ بنا سکتے ہیں۔
ایویو کی نئی پروڈکٹ ٹرامڈول پہلے والی ادویات سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
انڈیا کے شہر بنگلورو میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر لکھنش شکلا کے مطابق ٹیپنٹاڈول 'اوپیوڈ کے اثرات فراہم کرتی ہے' جس کی وجہ سے گہری غنودگی یا نیند آنا بھی شامل ہے۔
انھوں نے وضاحت کی کہ 'اس دوا کے استعمال کے بعد نیند اس قدر گہری ہو سکتی ہے کہ اس میں سانس کے روک جانے کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے اور اس کے وجہ یہ ہے کہ اس دوا میں نشہ آور دوا یا مرکب کا استعمال خاصی مقدار میں کیا جایا ہے۔
یورپ میں کیریسوپروڈول پر پابندی عائد کر دی گئی ہے کیونکہ یہ نشہ آور ہے۔ یہ امریکہ میں استعمال کے لئے منظور شدہ ہے لیکن صرف تین ہفتوں تک کی مختصر مدت کے لئے۔ تاہم اس کے استعمال کے دوران اور بعد میں بھی اکثر مریضوں میں اضطراب، بے خوابی اور ہیلوسینیشن کی علامات شامل ہوتی ہے۔
BBCگھانا میں ایک ایسا گودام کہ جہاں ان ممنوعہ ادویات کی بڑی مقدار موجود تھی
ڈاکٹر شکلا کا کہنا ہے کہ جب ٹیپنٹاڈول کے ساتھ ملایا جاتا ہے تو یہ عام اوپیوئڈز کے مقابلے میں 'زیادہ شدید' ہوتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ اس امتزاج کی افادیت کے بارے میں کوئی کلینیکل ٹرائل نہیں جانتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ٹرامڈول کے برعکس جو محدود خوراک میں استعمال کے لئے قانونی ہے ٹیپنٹاڈول کیریسوپروڈول کاک ٹیل 'ایک امتزاج کی طرح نہیں لگتا ہے۔' یہ ایسی چیز نہیں ہے جسے ہمارے ملک میں استعمال کرنے کا لائسنس حاصل ہو۔
انڈیا میں دوا ساز کمپنیاں قانونی طور پر غیر لائسنس یافتہ ادویات تیار اور برآمد نہیں کر سکتیں جب تک کہ یہ ادویات درآمد کرنے والے ملک کے معیار پر پورا نہ اتریں۔ گھانا کی نیشنل ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی کے مطابق ایویو تافروڈول اور اسی طرح کی مصنوعات گھانا بھیجتا ہے جہاں ٹیپنٹاڈول اور کیریسوپروڈول کا یہ امتزاج غیر لائسنس یافتہ اور غیر قانونی ہے۔ تافرڈول کو گھانا بھیج کر ایویو انڈین قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
بی بی سی کی جانب سے ان الزامات سے متعلق ونود شرما اور ایویو فارماسیوٹیکل سے سوال ہوا مگر اس پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
انڈین ڈرگ ریگولیٹر سی ڈی ایس سی او نے ہمیں بتایا کہ حکومت عالمی صحت عامہ کے تئیں اپنی ذمہ داری کو تسلیم کرتی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لئے پرعزم ہے کہ انڈیا کے پاس ایک ذمہ دار اور مضبوط فارماسیوٹیکل ریگولیٹری سسٹم ہو۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ انڈیا سے دوسرے ممالک کو برآمدات کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے اور حال ہی میں نئے قوانین اور ضوابط پر سختی سے عمل درآمد کیا گیا ہے۔ اس نے درآمد کرنے والے ممالک سے بھی کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بناتے ہوئے انڈیا کی کوششوں کی حمایت کریں کہ ان کے پاس بھی اسی طرح کا مضبوط ریگولیٹری نظام ہے۔
سی ڈی ایس سی او نے کہا کہ انھوں نے اس معاملے کو مغربی افریقہ سمیت دیگر ممالک کے ساتھ اٹھایا ہے اور غلط کاموں کو روکنے کے لئے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ ریگولیٹر نے کہا کہ وہ بدعنوانی میں ملوث کسی بھی دواساز فرم کے خلاف فوری کارروائی کرے گا اور کسی کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔
BBCایویو وہ واحد انڈین کمپنی نہیں ہے جو غیر لائسنس شدہ اوپیوئڈز بناتی اور برآمد کرتی ہے۔
ایویو وہ واحد انڈین کمپنی نہیں ہے جو غیر لائسنس شدہ اوپیوئڈز بناتی اور برآمد کرتی ہے۔ عوامی طور پر دستیاب برآمدی اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دیگر فارما کمپنیاں اسی طرح کی مصنوعات تیار کرتی ہیں اور مختلف برانڈ والی ادویات مغربی افریقہ میں وسیع پیمانے پر دستیاب ہیں۔
یہ کمپنیاں انڈیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی دوا سازی کی صنعت کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔جو اعلیٰ معیار کی دوائیں بناتی ہے جس پر دنیا بھر میں لاکھوں لوگ انحصار کرتے ہیں اور ویکسین تیار کرتے ہیں جس سے لاکھوں زندگیاں بچائی گئی ہیں۔ اس صنعت کی برآمدات کی مالیت کم از کم 28 بلین ڈالر (22 بلین پاؤنڈ) سالانہ ہے۔
شرما کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے بی بی سی کے ایک خفیہ اہلکار جن کی شناخت ان کی حفاظت کے لیے پوشیدہ رکھی جا رہی ہے کہتے ہیں کہ 'نائجیریا کے صحافی 20 سال سے زیادہ عرصے سے اس اوپیوئڈ سے جُڑے بحران پر رپورٹنگ کر رہے ہیں لیکن آخر کار، مجھے افریقہ کے اوپیوئڈ بحران کی جڑ سمجھنے جانے والے ایک شخص سے آمنا سامنا کرنا پڑا۔ ان مردوں میں سے ایک جو اصل میں اسے بناتے ہیں اور اسے ہمارے باہر بھیجتے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ اس سے کیا نقصان ہو رہا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ انھیں اس کی پرواہ نہیں تھی۔۔۔'
گھانا کے شہر تمالے میں بی بی سی کی ٹیم نے مقامی ٹاسک فورس کا تعاقب کرتے ہوئے ایک آخری چھاپہ مارا جس میں ایویو کے تافروڈول کی تعداد اور بھی زیادہ تھی۔ اس شام وہ ایک مقامی پارک میں جمع ہوئے تاکہ ان کے قبضے میں لی گئی منشیات کو جلا سکیں۔
ان میں سے ایک رہنما زیکے کا کہنا تھا کہ 'ہم اسے اس مقام پر ایک کُھلے میدان میں اس لیے جلا رہےے ہیں کہ ہر کوئی دیکھ سکے۔' جب ان ادویات کے ڈبوں کو تیل چھڑک کر آگ لگائی جائے گی تو انھں فروخت کرنے والوں اور سپلائرز کو ایک اشارہ ملے گا وہ اس کام سے باز آجائیں ورنا جو ممنوعہ ادویات ہماری ہاتھ لگیں گیں اُنھیں جلا دیا جائے گا۔'
لیکن جب آگ کے شعلوں نے تفارڈول کے چند سو پیکٹوں اپنی لپیٹ میں تب بھی ہزاروں میل دور انڈیا میں ان ادویات کو تیار کرنے ، انھیں فروخت کرنے اور ان کے سپلائرز انھیں ادویات کو بیچ کرلاکھوں روپے کما رہے تھے۔
انڈین کمپنی کے کھانسی کے شربت کے مبینہ استعمال سے 66 بچوں کی ہلاکت، الرٹ جاریہیروئن: کھانسی کی دوا میں استعمال سے دنیا کے ’مقبول ترین نشے‘ تککینسر کا سبب بننے والی ادویات کی فروخت پر پابندیزندگی بچانے والی دوا جسے دنیا بھول گئی تھیانڈیا میں تیار کردہ ادویات پر سوال کیوں اٹھ رہے ہیں؟’کورونیل‘: یوگا گُرو رام دیو کی کمپنی کی ’کورونا دوا‘ کی حقیقت