’تن من نیل و نیل‘ کا آخری سین: ’ہجوم کے سامنے کوئی ہیرو نہیں ہوتا‘

بی بی سی اردو  |  Feb 17, 2025

’سکھوں کا پرانا گھر مقدس مقام کیسے ثابت ہوگا؟ بعد میں سب کو پتا چل ہی جانا ہے۔ جب تک پتا چلے گا تب تک ہجوم ہمارا کام کر چکا ہوگا۔‘

یہ ہجوم کے ہاتھوں قتل کا کوئی نیا واقعہ نہیں بلکہ پاکستانی ڈرامہ سیریل ’تن من نیل و نیل‘ کے آخری سین کا منظر ہے۔ ڈرامے کی اس آخری قسط میں کچھ ایسی منظر کشی کی گئی ہے جو معاشرے کا ایک بدنما رُخ ہے۔

اس ڈرامے کے کردار 'سونو'، 'رابی' اور 'مون' آنکھوں میں خوف لیے اپنی جان بچاتے تنگ گلیوں میں بھاگ رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت اگر سکرین پر مردان کے مشال خان، سیالکوٹ کے منیب اور مغیث، سری لنکن شہری پرینتھا کمارا اور دیگر کی تصاویر نہ بھی دکھائی جاتیں تو ہمیں یہی واقعات یاد آتے۔

اور ایسا ہم نہیں کہہ رہے بلکہ بہت سے سوشل میڈیا صارفین اس رائے کا اظہار کرتے نظر آئے۔

ریاض سیزن: سعودی فیشن شو میں ’شیشے کا کیوب‘ اور کعبہ سے مماثلت کا تنازع ’سیکس کے لیے خود کو دستیاب رکھیں‘: انڈیا کی وہ فلم انڈسٹری جہاں اداکاروں کو کام کے لیے ’سمجھوتہ‘ کرنا پڑتا ہےعرفی جاوید: ’سیکس سین کروانے کے لیے سیٹ پر میرے کپڑے زبردستی پھاڑ دیے گئے‘سیف علی خان: جب ’پراٹھے اور پانی کی بوتل کے لیے گوگل پے کی ادائیگی‘ سے پولیس مبینہ حملہ آور تک پہنچی

ایکس صارف ماریانہ نے لکھا 'کچھ کہانیاں انٹرٹینمنٹ سے بڑھ کر ہوتی ہیں اور ہمارے معاشرے کی عکاس ہوتی ہیں۔'

جبکہ ریما عمر نے ڈرامے کی پوری ٹیم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ 'جیسے ہی آپ کی پاکستانی ڈراموں سے امید ختم ہونے لگتی ہے تو تن من نیل و نیل جیسے ڈرامے سامنے آجاتے ہیں۔'

ساس بہو کی سازشوں سے بھرپور اور کئی قسطوں پر مشتمل ڈراموں سے تنگ ناظرین کے لیے یہ ڈرامہ اس لیے بھی منفرد تھا کیونکہ یہ صرف گیارہ قسطوں پر مشتمل تھا اور اس کا ہر کردار ہی معاشرے کی کسی نہ کسی رسم، رویے یا رواج کی نفی کرتا نظر آیا۔

جیسا کہ ایک صارف نے لکھا کہ اس میں مردوں کے ریپ، مرد کی انا اور اس انا کی وجہ سے انکار برداشت نہ کرنا، ہجوم کے ہاتھوں قتل، گھر والوں کی پسند سے کی گئی کھوکھلی شادی اور اپنی سیاست چمکانے کے لیے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے جیسے موضوعات کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔

ایک صارف نے اس ڈرامے میں دکھائی گئی ہجوم کی ذہنیت کو سراہتے ہوئے لکھا کہ صرف مصطفی آفریدی ہی اتنے بہادر ہے جو اس بات کو مانتے ہیں کہ ہجوم کے سامنے کوئی ہیرو نہیں ہوتا اور آپ کو اس سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

اور پھر جیسا کہ اس ڈرامے میں دکھایا گیا ہجوم کسی کا نہیں ہوتا، وہ اپنے پرائے میں فرق نہیں کرتا اور کب کوئی آ کر آپ کے اپنے کا گریبان پکڑ لے پتا نہیں چلتا۔

اگر آپ نے یہ ڈرامہ ابھی تک نہیں دیکھا تو 'سپوئلر' دینے پر میں آپ سے معافی چاہتی ہوں۔ لیکن یقین جانیے اس تحریر کو پڑھنے کے بعد بھی اگر آپ اس کی آخری قسط یا پورا ڈرامہ دیکھتے ہیں تو اس کے ہر سین کو اس قدر خوبصورتی سے فلم بند کیا گیا ہے کہ آپ اس کا انجام جانتے ہوئے بھی اس کو دیکھیں گے ضرور۔

مصطفیٰ آفریدی کے قلم نے بڑی مہارت سے مختلف کہانیوں کو ایسا بُنا ہے کہ اس ڈرامے کا ہر کردار ایک ایسی حقیقت کا آئینہ دار تھا جس سے ہم اکثر نظریں چراتے نظر آتے ہیں۔ جیسے ریپ پر چُپ رہنے پر مجبور کیا جانا، مظلوم کو انصاف دلوانے کا جھانسا دے کر استعمال کرنا یا ہجوم سے کسی بھی وقت کسی کے خلاف بھی احتجاج کروا لینا اور جب یہی ہجوم بے قابو ہو کر احتجاج کو اجتماعی قتل میں تبدیل کر دے تو ملال اور ملامت کے سوا کچھ نہ کرنا۔

مشال خان کے والد آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے جڑانوالہ واقعہ کے بہت سے متاثرین کو آج بھی وہ چھت نصیب نہیں ہوئی جو ان سے ایک ہجوم نے اس وقت چھین لی تھی جب توہین مذہب کے جھوٹے الزام میں پوری بستی کو آگ لگا دی گئی۔

بے ہنگم ہجوم آج بھی پاکستانی معاشرے میں پنپ رہے ہیں اور یہ کبھی بھی بھڑک سکتے ہیں۔ جیسا کہ اس ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ جب تک سچائی واضح ہوتی ہے، ہجوم اپنا کام کر چکا ہوتا ہے۔

عرفی جاوید: ’سیکس سین کروانے کے لیے سیٹ پر میرے کپڑے زبردستی پھاڑ دیے گئے‘سیف علی خان: جب ’پراٹھے اور پانی کی بوتل کے لیے گوگل پے کی ادائیگی‘ سے پولیس مبینہ حملہ آور تک پہنچی’سپر رچ اِن کوریا‘: نیٹ فلکس کے کورین شو کی انا کِم کو ’سب چھوڑ کر‘ پاکستان کیوں آنا پڑاریاض سیزن: سعودی فیشن شو میں ’شیشے کا کیوب‘ اور کعبہ سے مماثلت کا تنازع ’سیکس کے لیے خود کو دستیاب رکھیں‘: انڈیا کی وہ فلم انڈسٹری جہاں اداکاروں کو کام کے لیے ’سمجھوتہ‘ کرنا پڑتا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More