BBC
بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد ملک میں مختلف اوقات میں مختلف ناموں سے کئی نئی سیاسی جماعتیں بنیں۔ ان میں سے کچھ اب بھی موجود ہیں تاہم کُچھ وقت کے ساتھ ساتھ ملکی سیاسی منظر نامے سے غائب ہو گئیں۔
ان میں سے کچھ سیاسی جماعتیں دائیں بازو کی ہیں اور کچھ بائیں بازو کی۔ کچھ جماعتیں قوم پرستی کا نعرہ لگاتی رہی ہیں جبکہ دیگر سیکولر یا مذہبی نظریات کے ساتھ آگے بڑھی ہیں۔
آزادی کے بعد بننے والی نئی جماعتوں میں بی این پی یعنی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔ یہ وہ سیاسی جماعت تھی جس نے یکطرفہ طور پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اقتدار میں آئی۔
تاہم بی این پی کے علاوہ جاتیہ پارٹی بھی یکطرفہ طور پر ہی انتخابات میں کامیاب ہوئی مگر وہ انتخابات مشکوک تھے کیونکہ اُن میں مُلک کی سیاسی جماعتوں کی قابل ذکر تعداد نے حصہ نہیں لیا تھا۔
تاہم یہ بھی سچ ہے کہ قومی پارٹی کچھ حلقوں میں اپنا ووٹ بینک بنانے میں کامیاب رہی ہے۔
اس کے علاوہ جو نئی جماعتیں تشکیل دی گئیں ان میں سے کوئی بھی انتخابی عمل سے فائدہ اُٹھا کر اقتدار میں نہیں آسکی اور نہ ہی انھوں نے ملک بھر میں کوئی مضبوط تنظیمی پوزیشن قائم کی۔
بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت گرنے کے بعد اُن کی پارٹی کے رہنما کہاں روپوش ہوئے؟’دھان منڈی 32‘: شیخ مجیب الرحمٰن کا وہ گھر جسے ’فاشزم کی زیارت گاہ‘ قرار دے کر گرا دیا گیابنگلہ دیش کا شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ: کیا یہ دلی اور ڈھاکہ کے درمیان نئے تنازع کی شروعات ہیں؟پاکستان، بنگلہ دیش تعلقات: شیخ حسینہ مخالف تحریک کو جنم دینے والی ڈھاکہ یونیورسٹی میں پاکستانی تعلیم حاصل کر سکیں گے
نتیجتاً ملک کی سیاست وسیع پیمانے پر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی: عوامی لیگ اور بی این پی۔
اب ملک میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمہ اور عبوری حکومت میں شامل رہنماؤں کا کہنا ہے کہ فروری کے تیسرے ہفتے میں ایک نیا ’سٹوڈنٹ گروپ‘ بننے جا رہا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس نئی سیاسی جماعت یا سٹوڈنٹ گروپ کا نظریہ کیا ہوگا؟
کیا قیادت میں صرف نوجوان ہوں گے یا تجربہ کار لوگوں اور سیاسی شخصیات کو بھی اس میں جگہ ملے گی؟
اور سب سے اہم یہ کہ مذہب کے بارے میں اس نئی پارٹی کی سوچ اور موقف کیا ہوگا؟
’ہم مساوات، انصاف اور گُڈ گورننس کے گرد ایک اعتدال پسند جماعت بنیں گے‘
نئے سٹوڈنٹ گروپ کی تشکیل کی نگرانی نیشنل سٹیزن کمیٹی اور امتیازی سلوک کے خلاف طلبہ تحریک کے رہنما کر رہے ہیں۔
وہ چاہتے ہیں کہ نیا سٹوڈنٹ گروپ بنگلہ دیش میں بائیں بازو یا دائیں بازو کے سیاسی رجحانات سے آزاد ہو۔ جسے وہ اعتدال پسند پوزیشن کہتے ہیں۔
نیشنل سٹیزن کمیٹی کے ممبر سکریٹری اختر حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم بائیں بازو اور دائیں بازو کی سیاست سے آزاد ہو کر مرکزی سیاست کی بات کر رہے ہیں۔ ہم بنگلہ دیش کے معاملے پر متحد رہنا چاہتے ہیں۔ ہم اسلاموفوبیا یا بنیاد پرست اسلامی یا بنیاد پرست ہندوتوا کی سیاست میں نہیں پڑنا چاہتے۔
اس معاملے میں پارٹی کوئی نظریہ پیش نہیں کرنا چاہتی، چاہے وہ قوم پرست ہو، سیکولر ہو یا مذہبی۔
BBC
تو آخر پارٹی کن نظریات یا مقاصد کے بارے میں بات کر رہی ہے؟
نیشنل سٹیزن کمیٹی کے ممبر سکریٹری اختر حسین کا کہنا ہے کہ ’ہم یہاں مساوات، انصاف اور گڈ گورننس کی بات کر رہے ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں کہ جنھیں ہم اجاگر کرنا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہماری توجہ کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم کس طرح ایک معاہدے کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ہم دائیں طرف نہیں جھکیں گے اور نہ ہی بائیں جانب۔ ہم مساوات، انصاف اور اچھی حکمرانی کے ارد گرد ایک اعتدال پسند جماعت بنیں گے تاکہ ہم ہر قسم کے لوگوں کو گلے لگا سکیں اور مل کر آگے بڑھ سکیں ایک ایسی راہ پر کہ جس پر قل کر بنگلہ دیش ترقی کرے۔‘
بنگلہ دیش کی سیاسی جماعتوں میں بنگالی یا بنگلہ دیشی قوم پرست سیاست کے ساتھ ساتھ سیکولر یا مذہبی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔
خاص طور پر ایک مسلم اکثریتی ملک میں مذہبی شناخت اکثر پارٹی پروپیگنڈے اور حکمتِ عملی میں اہم ہو جاتی ہے۔
تاہم اس معاملے میں طلبہ کا ممکنہ نیا گروپ سیکولر یا مذہبی ایسی کسی بھی شناخت کو اپنانا نہیں چاہتا۔
نیشنل سٹیزن کمیٹی کی ترجمان سمانتھا شرمین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم حقوق، ذمہ داری اور سمجھوتے کی سیاست کو آگے لائیں گے تاکہ یہاں کوئی مخصوص رائے یا مذہب اہم نہ ہو۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’صرف بنگلہ دیش‘ کے لوگوں کے حقوق اور ریاست کی تشکیل کا کام یہاں اہم ہوگا۔ ’یہاں کسی بھی مذہب، کسی بھی رائے، کسی بھی نظریے کے لوگ آزادانہ طور پر اپنے متعلقہ مذاہب پر آزادی سے عمل کریں گے۔‘
بنگلہ دیش کے طلبہ اردوغان، عمران خان اور کیجریوال سے متاثر
نظریہ جو بھی ہو اس بات کا اندازہ لگانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ نئی سٹوڈنٹ پارٹی کتنی مقبول ہوگی۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ گذشتہ 40 سالوں میں ملک میں کوئی بھی نو تشکیل شدہ پارٹی انتخابی میدان میں اتنا فائدہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔
لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کم وقت میں نئی سیاسی جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اور بنگلہ دیش کے طلبہ کی نظریں انھی سیاسی شخصیات کی طرف ہیں۔
Getty Images
ان میں ترکی کے رجب طیب اردوغان کی اے کے پارٹی، پاکستان میں عمران خان کی تحریک انصاف اور انڈیا میں اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی نے خاص طور پر عالمی توجہ حاصل کی ہے۔
طلبہ کامیابی کے ’منتر‘ کی تلاش میں ان تینوں نئی جماعتوں کے پروگرامز، تنظیمی ڈھانچے وغیرہ کا باغور مطالعہ کر رہے ہیں۔ مثلاً وہ اس حوالے سے غور کر رہے ہیں کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ہوتے ہوئے تیسرے قوت کیسے بنے اور عوام میں انھیں مقبولیت کیسے حاصل ہوئی۔
جب اس بارے میں نوجوانوں سے پوچھا گیا تو نیشنل سٹیزن کمیٹی کے جوائنٹ کنوینر علی احسن جنید نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس معاملے پر کام کر رہے ہیں اور بات چیت بھی جاری ہے کہ یہ جماعتیں لوگوں میں کیسے مقبول ہوئیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’ہم اس بات کا مطالعہ کر رہے ہیں کہ یہ سیاسی جماعتوں اصل میں لوگوں تک کیسے پہنچیں، لوگوں کے مسائل اور اُن کے جذبات کو سمجھنے کے لیے انھوں نے کس طرح کی حکمت عملی اپنائی اور ان کا آئینی ڈھانچہ کیسا ہے۔‘
Getty Images
نیشنل سٹیزن کمیٹی کے جوائنٹ کنوینر علی احسن جنید نے کہا کہ ’ہم یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس خطے کے نوجوان سیاست کو سمجھنے اور اس کے بعد میز پر کس نئے نظریے اور پروگرام کے ساتھ آئے۔ جسے اس ملک کے لوگوں نے قبول کیا ہے اور انھیں سیاسی طور پر حکومت کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہاں آپ دیکھیں گے کہ اردوغان کی پارٹی انصاف پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ اس کا نام جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی ہے۔ ہم بھی یہی کہہ رہے ہیں۔‘
علی احسن جنید کہتے ہیں کہ ’ہم بھی تو انصاف کی اور گڈ گورننس کی بات کر رہے ہیں۔ دوسری جانب انڈیا کی عام آدمی پارٹی نے اندرون و بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کیا ہے۔ اس نے بدعنوانی کے خلاف بھرپور کارروائیاں کی ہیں۔ ہم یہ سب باتیں اور سیاسی نکات باغور دیکھ رہے ہیں۔‘
BBCلیکن اہم ذمہ داری کس کے پاس ہوں گی؟
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس نئی سیاسی جماعت یا قوت میں سب سے اوپر کون ہوگا۔ ایسی افواہیں بھی بنگلہ دیش کے سیاسی منظر نامہ پر گردش کر رہی ہیں کہ اس وقت عبوری حکومت میں شامل مشیر ’ناہید اسلام‘ یہ عہدہ خود سنبھال سکتے ہیں۔ اس صورت میں وہ مشیر کی حیثیت سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔
تاہم جس کو بھی اعلیٰ عہدہ ملے گا یہ یقینی ہے کہ وہ اس تحریک کی قیادت کرنے والے نوجوانوں میں سے ایک ہوگا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس نئی سیاسی جماعت میں صرف نوجوان ہی اہم عہدوں پر نظر آئیں گے یا پھر تجربہ کار افراد کے لیے بھی کوئی جگہ ہوگی؟
سٹوڈنٹ موومنٹ کے کوآرڈینیٹر ابو بکر مظفر کہتے ہیں کہ ’اگرچہ اس معاملے میں نوجوانوں کی اکثریت ہوگی لیکن تجربہ کار افراد کو پارٹی قیادت کی مختلف سطحوں پر جگہ دی جا سکتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے بزرگ شہری بھی ہیں جو سیاست میں ہمارے ساتھ شامل ہونے کے لئے تیار ہیں۔ ہم کمیونٹی پر مبنی اور سول سوسائٹی پر مبنی مختلف لوگوں کو بھی لانے کے عمل میں ہیں جو طویل عرصے سے سیاست میں ہیں یا ایسے لوگوں کو ہماری نئی سیاسی پارٹی میں شامل کر رہے ہیں۔‘
ابو بکر مظفر نے کہا کہ ’بالکل اسی طرح جیسے ہمارے مشاورتی پینل میں نوجوان اور بزرگ شامل ہوں گے۔ پارٹی کی دیگر کمیٹیوں میں بزرگوں کے ساتھ ساتھ نوجوان بھی ہوں گے۔‘
اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو طلبہ کا نیا گروپ فروری کے تیسرے ہفتے میں پہنچ جائے گا۔ تاہم چیف ایڈوائزر کا کہنا تھا کہ نیا گروپ ایک ایسے وقت میں آ رہا ہے جب آئندہ دسمبر تک قومی انتخابات ہو سکتے ہیں۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو نئی پارٹی کو بہت جلد انتخابات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس صورت میں اگرچہ اس بارے میں شکوک و شبہات موجود ہیں کہ آیا بنگلہ دیش کی یہ نئی جماعت ابتدائی طور پر ملک کے تمام پارلیمانی حلقوں میں امیدوار کھڑے کرے گی یا اس میں اس بات کی صلاحیت ہے بھی کہ نہیں۔ لیکن ممکنہ نئی پارٹی سے وابستہ افراد اب تمام حلقوں میں انتخابات میں حصہ لینے کی بات کر رہے ہیں۔
سٹیزن کمیٹی کے رہنماؤں کو یقین ہے کہ وہ اپنے سیاسی سفر میں بغاوت کی حامی جماعتوں کو اپنے ساتھ پائیں گے۔ تاہم وہ فی الحال کسی اتحاد کا حصہ بننے یا ووٹنگ سے پہلے انتخابی اتحاد بنانے کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔
کیونکہ وہ اپنے بل بوتے پر ایک بڑی سیاسی جماعت بننا چاہتے ہیں۔
کیا شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں؟پڑوس میں بدلتی حکومتیں جو انڈیا کی خارجہ پالیسی کے لیے چیلنجز پیدا کر رہی ہیںپاکستان، بنگلہ دیش تعلقات: شیخ حسینہ مخالف تحریک کو جنم دینے والی ڈھاکہ یونیورسٹی میں پاکستانی تعلیم حاصل کر سکیں گےبنگلہ دیش کا شیخ حسینہ کی حوالگی کا مطالبہ: کیا یہ دلی اور ڈھاکہ کے درمیان نئے تنازع کی شروعات ہیں؟’دھان منڈی 32‘: شیخ مجیب الرحمٰن کا وہ گھر جسے ’فاشزم کی زیارت گاہ‘ قرار دے کر گرا دیا گیابنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت گرنے کے بعد اُن کی پارٹی کے رہنما کہاں روپوش ہوئے؟