Reutersحماس کی قید سے رہائی پانے والی اسرائیلی خواتین
غزہ میں حماس کی قید سے رہائی پانے والی چار نوجوان اسرائیلی خواتین یرغمالیوں کے والدین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ کس طرح قید کے دوران اُن کی بیٹیوں کے ساتھ بدسلوکی کی گئی، مسلح افراد کی جانب سے انھیں ڈرایا دھمکایا گیا، بھوکا رکھا گیا اور کھانا پکانے اور صفائی کرنے پر مجبور کیا گیا۔
رہائی پانے والی اسرائیلی خواتین کے والدین نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کس طرح یرغمالیوں کو زیر زمین سرنگوں اور عمارتوں میں رکھا گیا، جسمانی تشدد ہوتے دکھایا گیا اور حماس کی پراپیگنڈے ویڈیوز میں حصہ لینے پر مجبور کیا گیا، ایسی ہی ایک پراپیگنڈا ویڈیو میں ایک لڑکی کو اپنے مرنے کی اداکاری کرنے پر بھی مجبور کیا گیا۔
والدین نے بی بی سی کو بتایا کہ دورانِ قید اُن کی بیٹیوں کو ایک دوسرے کے دکھ درد سُننے، ڈرائنگ کرنے اور ڈائری لکھنے سے حوصلہ ملا۔
یاد رہے کہ رہائی کے بعد سے کسی بھی اسرائیلی یرغمالی خاتون نے میڈیا کو کوئی انٹرویو نہیں دیا ہے اور ان کے والدین کا کہنا ہے کہ اُن کی بیٹیوں نے دوران قید جو کچھ برداشت کیا اس کی مکمل تفصیلات ابھی سامنے آنا باقی ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ ایسی تفصیلات بھی ہیں جن پر بات نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس سے غزہ میں موجود مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
جن چار خواتین کے والدین نے بی بی سی سے بات کی ان میں سے تین خواتین فوجی تھیں جنہیں حماس نے 7 اکتوبر 2023کو غزہ کے قریب نہال اوز فوجی اڈے سے اغوا کیا تھا۔
ان خواتین کے والدین کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں کی خوراک تک رسائی اور مرد محافظوں کی جانب سے ان کے ساتھ قید کے 15 ماہ کے دوران روا رکھا گیا سلوک، مختلف عرصے میں مختلف رہا۔ ان 15 ماہ کے دوران انھیں ایسے مختلف مقامات کے درمیان منتقل کیا جاتا رہا جہاں براہ راست سورج کی روشنی بہت کم نظر آتی تھی۔
اسرائیلی فوجی اڈے ’ناحل عوز‘ سے اغوا کی گئی 20 سالہ آگم برجر کے والد نے بتایا کہ 15 ماہ کے دوران ’اسے جن جن مقامات پر رکھا گیا اُن میں بہت فرق تھا۔ کبھی یہ ایک اچھی حالت کی زیر زمین سرنگ ہوتی، اور کبھی یہ بہت خراب سرنگ ہوتی۔ کبھی کسی بہتر گھر میں اور کبھی انتہائی برے گھر میں۔‘
’کچھ جگہوں پر اچھا کھانا ملتا تھا، کچھ جگہوں پر بہت خراب۔ ۔۔۔ انھوں نے صرف زندہ رہنے کی کوشش کی۔‘
اورلی گلبوا کی بیٹی ڈینیلا کو بھی ’ناحل عوز‘ نامی فوجی اڈے سے اغوا کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا ’انھیں (اور ان کے اغوا کاروں کو) ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا پڑتا تھا کیوںکہ وہ وہاں ایک جنگ زدہ علاقے میں تھے۔ وہاں رہنا بہت خطرناک تھا۔‘
جب ڈینیلا نے گذشتہ ہفتے تین مرد اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے مناظر دیکھے، جو اپنی رہائی کے وقت کافی کمزور نظر آ رہے تھے، تو انھوں نے اپنی والدہ سے کہا ’اگر مجھے دو ماہ پہلے رہا کر دیا جاتا تو شاید میں بھی ان کی طرح نظر آتی (یعنی اتنی ہی کمزور ہوتی)۔‘
ڈینیلا کی والدہ اورلی گلبوا نے دعویٰ کیا کہ اُن کی بیٹی دوران قید ’پتلی ہو گئی تھی اور قید کے دوراناس کا بہت زیادہ وزن کم ہوا تھا لیکن رہائی سے قبل کے آخری دو ماہ میں انھیں وزن بڑھانے کے لیے کافی مقدار کھانا دیا گیا۔‘
دیگر والدین نے بھی بی بی سی کے سامنے دعویٰ کیا کہ رہا ہونے والی ان کی بیٹیوں کے وزن میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
میراف لیشم گونن کی بیٹی کو حماسکے جنگجو نووا میوزک فیسٹیول سے اغوا کر کے ساتھ لے گئے تھے۔
میراف کی 24 سالہ بیٹی رومی کو جنوری میں جنگ بندی کے نفاذ کے بعد پہلے ہفتے میں رہا کیا گیا تھا۔ رومی کی والدہ کا کہنا ہے کہ ’ان کا 20 فیصد تک وزن کم ہوا تھا۔‘
وحدۃ الظل: غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت پر مامور حماس کا پراسرار دستہفون کال، حماس کی حکمت عملی اور خصوصی ہیلی کاپٹر: اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا آپریشن جس میں ’کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے‘اسرائیلی فوجیوں کی رہائی کی تقریب: مسکراتی خواتین، گفٹ بیگز اور حماس کا اسرائیل کو ’خاموش پیغام‘حماس کا ’خفیہ یونٹ‘ اور وہ ’ایلیٹ اسرائیلی ہتھیار‘ جو یرغمالیوں کی رہائی کے دوران القسام بریگیڈ کے ہاتھوں میں نظر آیا
گلبوا کہتی ہیں کہ ان کے لیے سب سے مشکل چیز جو انھوں نے برداشت کی وہ اُس ویڈیو کو دیکھنا تھا جس میں ایسا ظاہر کیا گیا تھا کہ بظاہر اُن کی بیٹی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ ان کے بقول ان کی بیٹی کو اغوا کرنے والوں نے اُن پر پاؤڈر چھڑک دیا تھا تاکہ ایسا لگے کہ وہ پلاسٹر سے ڈھکی ہوئی ہیں اور جیسے وہ کسی اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہو گئی ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ جس کسی نے بھی یہ ویڈیو دیکھی، اس نے اس پر یقین کر لیا ہو گا۔ لیکن میں خود سے کہتی رہی کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔‘
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے غیر معمولی حملے کے بعد شروع ہوئی تھی۔ حماس کے اس حملے میں تقریباً 1200 افراد کو ہلاک ہوئے تھے جبکہ 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جانب سے کیے گئے جوابی حملوں میں اب تک غزہ میں 48 ہزار 230 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ غزہ کی تقریبا دو تہائی عمارتیں فضائی حملوں کے نتیجے میں تباہ ہو چکی ہیں۔
رواں برس 19 جنوری سے شروع ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے تحت اب تک 16 اسرائیلی اور پانچ تھائی یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکی ہے جبکہ یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل میں قید 600 سے زائد فلسطینی قیدی رہا کیے جا چکے ہیں۔
برجر کا دعویٰ ہے کہ اُن کی بیٹی اگم کو اُن کے اغوا کاروں نے دھمکیاں دیں اور قید کے دوران جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’کبھی کبھی وہ دوسری خواتین یرغمالیوں کو اُن کی آنکھوں کے سامنے تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔‘
برجر کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی نے انھیں بتایا کہ کس طرح مسلح افراد ان پر مسلسل نظر رکھے ہوئے تھے اور ’ہر وقت اپنی بندوقوں اور دستی بموں سے کھیلتے رہتے تھے۔‘
ان کا دعویٰ ہے کہ مرد اغوا کاروں نے خواتین کے ساتھ ’تضحیک آمیز‘ رویہ روا رکھا، جس میں اُن سے صفائی کروانا اور کھانا تیار کرنے پر مجبور کرنا بھی شامل تھا۔
Reutersڈینییلا گلبوا 5 فروری کو رہائی کے بعد اسرائیل پہنچی تھیں
’یہ سب اسے پریشان کر رہا تھا۔ وہ ایک ایسی لڑکی ہے کہ اگر وہ کچھ کہنا چاہتی ہے تو وہ اسے کہہ دے گی۔وہ شرماتی نہیں ہے اور کبھی کبھار وہ انھیں (اغوا کاروں کو) بتا دیتی تھی کہ وہ اُن کے بارے میں اور اُن کے برتاؤ کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ کس طرح اُن کی بیٹی کو مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑا، جب اگم نے سبت کے دن، یعنی یہودیوں کے آرام کے دن، کوئی بھی کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ مگر بعدازاں اغواکاروں نے ان کی بیٹی کے اس مطالبے کو منظور کر لیا۔
انھیں اونچی آواز میں بولنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔
برجر کہتے ہیں ’جب اگم اسرائیل واپس آئیں تو وہ ہر وقت بولنا چاہتی تھیں۔۔۔ رہائی کے ایک ہی دن بعد اُن کی آواز بیٹھ گئی کیونکہ وہ بہت زیادہ بولی تھیں۔‘
یونی لیوی، جن کی بیٹی 20 سالہ ناما کو بھی ناحل عوز فوجی اڈے سے اغوا کیا گیا تھا، کہتے ہیں کہ انھیں کبھی کبھار ایسے مقامات پر رکھا جاتا تھا جہاں ٹی وی یا ریڈیو چل رہا ہوتا تھا۔
قید کے دوران ایک بار ناما نے اپنے والد کو کسی اسرائیلی ٹی وی چینل پر بات کرتے ہوئے دیکھا۔ ’اسچیز نے اسے بہت امید اور حوصلہ دیا کہ کوئی بھی اسے نہیں بھولے گا، اور ہم اسے اس جہنم سے نکالنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ناما کے لیے حماس کا اسرائیلی فوجی اڈے پر حملہ ’قید سے کہیں زیادہ تکلیف دہ تھا۔‘
یونی لیوی کا کہنا ہے کہ ’اس وقت ہمارے خیال میں یہ اس کے لیے زندگی کا سب سے المناک دن ہے۔‘
اس دن کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ناما اور دیگر خواتین فوجی خون آلود کپڑوں میںفوجی اڈے کے ایک کمرے میں مسلح افراد سے گھرے ہوئی ہیں جس کے بعد انھیں زبردستی گاڑی میں بٹھا کر غزہ لے جایا گیا۔
جن تین خواتین فوجیوں کے والدین نے بی بی سی سے بات کی، وہ ان پانچ خواتین فوجیوں میں شامل ہیں جنھیں جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں رہا کر دیا گیا ہے۔
ان خواتین کا تعلق اسرائیلی فوج کے اُس یونٹ سے تھا جس کی ذمہ داری غزہ کی سرحد پر نظر رکھنا اور کسی بھی مشکوک چیز یا کارروائی دیکھ کر اسے رپورٹ کرنا تھا۔
اس یونٹ سے تعلق رکھنے والی خواتین حماس کے سات اکتوبر کے حملے سے کئی ماہ قبل سے افسران کو متنبہ کر رہی تھیں کہ سرحد پر حماس کی مشکوک کارروائیاں جاری ہیں، تاہم اس انتباہ پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
سات اکتوبر کے حملے سے کچھ دن پہلے اسی فوجی اڈے، ناحل عوز‘ پر کام کرنے والی ڈینیلا چھٹی پر گھر گئی تھیں۔ انھوں نے اس وقت اپنی والدہ کو بتایا تھا کہ ’ماں جب میں چھٹی کے بعد واپس جاؤں گی، تو جنگ ہو گی۔‘
Reutersرومی گونن کے رہائی کے مناظر
گلبوا کہتی ہیں کہ ’میں نے نہیں سوچا تھا کہ یہ ایسی جنگ ہو گی اور میری بیٹی کو یرغمال بنا لیا جائے گا۔‘
گلبوا اور بی بی سی سے بات کرنے والے دو دیگر خواتین کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والوں میں شامل ہیں۔ یعنی اس واقعے کے تحقیقات کے خواتین اہلکاروں کے انتباہ پر توجہ کیوں نہ دی گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹیاں غزہ میں اب بھی موجود لوگوں کے حالات کے بارے میں فکرمند ہیں اور انھوں نے جنگ بندی جاری رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔
دریں اثنا لیشم گونن کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی جان رہی ہیں کہ ان کی بیٹی رومی کے ساتھ کیا ہوا۔ انھیں نووا میوزک فیسٹیول میں گولی ماری گئی تھی اور ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کا مناسب علاج نہیں کیا گیا تھا۔ ’ان کا زخمکھلا تھا جہاں سے ہڈی دکھائی دے رہی تھی۔‘
Reutersناما لیوی رہائی کے بعد اپنے اہلخانہ کی بانہوں میں
والدین نے یہ بھی بتایا کہ کس طرح اُن کی بیٹیوں نے قید میں ہر دن گزارنے کے طریقے تلاش کیے تھے۔۔۔ یعنی ڈرائنگ کرنا، اپنی یاداشتیں لکھنا یا ایک دوسرے کے ساتھ کہانیاں شیئر کرنا۔
برجر کہتے ہیں کہ ’وہ ہر روز زیادہ سے زیادہ لکھتی تھیں کہ کیا ہو رہا ہے، وہ کہاں جا رہے ہیں، محافظ کون تھے اور اس طرح کی دوسری باتیں۔ قید کے دوران نوجوان خواتین نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی اپنی خواہشات کا اظہار کیا کہ رہائی کے بعد گھر پہنچنے پر وہ کیاکرنا چاہتی تھیں، جیسے بال کٹوانا اور سوشی کھانا وغیرہ۔‘
ڈینیلا نے قید کے دوران ’آزادی‘ کے لفظ کے ساتھ ایک تتلی بنائی تھی وہ اب انھوں نے یہی تتلی بازو پر ٹیٹو کروا لی ہے۔
یہ آزاد ہونے والے اسرائیلی خواتین اب زندگی کی جانب لوٹ رہی ہیں اور اُن کے اہلخانہ کا کہنا ہے کہ وہ دھیرے دھیرے صحت یاب ہو رہی ہیں۔
لیوی کہتے ہیں کہ اپنی بیٹی ناما کے ساتھ دوبارہ ملنے کا لمحہ اب دھندلا گیا ہے، لیکن وہ جذبات انھیں یاد ہیں۔ ’احساس یہ تھا کہ۔۔۔ میں اب تمہارا خیال رکھوں گا اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ڈیڈی یہاں ہیں۔ اب بس اور پھر خاموشی ہو گئی۔‘
اضافی رپورٹنگ: ناؤمی شربیل بال
وہ گاؤں جو اسرائیل نے 200 مرتبہ تباہ کیا مگر آج بھی آباد ہےفون کال، حماس کی حکمت عملی اور خصوصی ہیلی کاپٹر: اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا آپریشن جس میں ’کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے‘وحدۃ الظل: غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت پر مامور حماس کا پراسرار دستہحماس کا ’خفیہ یونٹ‘ اور وہ ’ایلیٹ اسرائیلی ہتھیار‘ جو یرغمالیوں کی رہائی کے دوران القسام بریگیڈ کے ہاتھوں میں نظر آیافون کال، حماس کی حکمت عملی اور خصوصی ہیلی کاپٹر: اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا آپریشن جس میں ’کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے‘اسرائیلی یرغمالی خواتین کی رہائی کے مناظر 15 ماہ کی جنگ کے بعد حماس کے بارے میں کیا بتاتے ہیں؟