ایم آئی فائیو کا ’شدت پسند‘ ایجنٹ اور عدالتوں میں غلط بیانی: بی بی سی نے برطانوی خفیہ ادارے کا جھوٹ کیسے بے نقاب کیا؟

بی بی سی اردو  |  Feb 13, 2025

BBC

جاسوس جھوٹ بولتے ہیں لیکن ان کا مقصد پکڑے جانا بالکل نہیں ہوتا۔

دسمبر میں ایک جمعے کی صبح برطانوی خفیہ ادارے ایم آئی فائیو کے تین وکیل بی بی سی کے لندن میں واقع ہیڈکوارٹر کے ایک کمرے میں براجمان تھے۔ ان کی میز کی دوسری طرف میں اور بی بی سی کے وکیل موجود تھے۔

اس کمرے میں ایم آئی فائیو کا کوئی افسر موجود نہیں تھا کیونکہ ہم نے اس میٹنگ کو خفیہ رکھنے کی ان کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

ایک دوسرے کی طرف مسکراہٹیں اچھالنے کے بعد ہم کام کی بات کی طرف آ گئے اور ہم نے ایم آئی فائیو کے وکیلوں کو ثبوت فراہم کرنا شروع کیے کہ خفیہ ایجنسی نے عدالت میں جھوٹے ثبوت پیش کیے ہیں۔

یہ میٹنگ اس لیے ہو رہی تھی کہ میں نومبر میں ایم آئی فائیو کو بتا چکا تھا کہ میں ایک خبر دینے جا رہا ہوں کہ ایجنسی نے جھوٹ بولا اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ اس پر تبصرہ کریں۔

اپنے ردِ عمل میں ایم آئی فائیو نے جارحانہ انداز میں اصرار کیا کہ ان کی جانب سے پورا سچ ہی بولا گیا لیکن ایک بات انھیں نہیں معلوم تھی کہ میرے پاس ان کے خلاف ناقابلِ تردید ثبوت موجود تھے۔

خفیہ ایجنسی کی جانب سے جھوٹے ثبوت پیش کرنے کا معاملہ اہم اس لیے تھا کیونکہ اس سے یہ خدشات پیدا ہوتے ہیں کہ عدالتوں میں ایم آئی فائیو کے فراہم کردہ ثبوتوں پر کتنا انحصار کیا جا سکتا ہے۔ عدالتوں میں ایم آئی فائیو کی بات کو بڑا وزن دیا جاتا ہے۔

خفیہ ادارے کا پہلا جھوٹ سنہ 2022 میں اس وقت سامنے آیا جب حکومت ایک خبر کو رُکوانے کے لیے بی بی سی کو ہائی کورٹ میں لے گئی۔ یہ خبر دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے ایک شدت پسند فرد کے خلاف تھی جو ایم آئی فائیو کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔

یہاں ایجنٹ سے مراد ہے وہ فرد ہے جس کا کام مخبری کرنا ہوتا ہے اور اسے اس کام کے لیے رقم بھی ملتی ہے۔

سابق اٹارنی جنرل سویلا بریورمین اس خبر کو چھپنے سے روکنے میں ناکام رہیں تاہم وہ ایسا حکمنامہ لینے میں ضرور کامیاب ہو گئیں جس کے تحت ہم اس ’ایجنٹ‘ کی شناخت ظاہر کرنے سے قاصر رہے۔ انھوں نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ شناخت ظاہر کرنے سے اس شخص کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے اور اسی سبب اسے ’ایکس‘ کا نام دیا گیا۔

ہم نے یہ دلائل دیے تھے کہ اس شخص کی شناخت ظاہر کی جانی چاہیے تاکہ دیگر خواتین ایسے پُرتشدد شخص سے بچ کر رہ سکیں۔

’ایکس‘ نے ایم آئی فائیو میں اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے بیتھ (فرضی نام) نامی اپنی سابقہ پارٹنر کو خوفزدہ کیا۔ ’ایکس‘ نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ جنسی طور پر بھی ان پر تشدد کرتا تھا اور ان کی اس خاتون کو قتل کی دھمکی دینے اور ان پر چھرے سے حملہ کرنے کی ویڈیو بھی موجود تھی۔

قانونی کارروائی کے دوران ایم آئی فائیو نے کہا تھا کہ وہ ’ایکس‘ کے ایجنٹ ہونے کی تردید یا تصدیق (این سی این ڈی) نہیں کر سکتے۔ این سی این ڈی دراصل ایم آئی فائیو کی ایک دیرینہ پالیسی ہے جس کے تحت وہ اپنے ایجنٹس کے ساتھ تعلق کو خفیہ رکھتے ہیں۔

ان کا مؤقف ہے کہ اس پالیسی میں تبدیلی سے رازداری کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو کہ خواتین اور مرد ایجنٹس کی حفاظت کی ضامن ہے اور ایسا کرنے سے قومی سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

پھر عدالتی کارروائی کے دوران ایم آئی فائیو ڈپٹی ڈائریکٹر، جنھیں کورٹ میں ’اے‘ کا نام دیا گیا تھا، نے عدالت میں کچھ فون کالز کا ذکر کیا جن میں میرا نام بھی آیا۔

Reuters

اپنے بیان میں ’اے‘ نے کہا کہ میں نے ایک پچھلی تاریخ میں ایم آئی فائیو کے ایک نمائندے سے بات کی تھی۔ یہ بات اس وقت منظرِ عام پر آئی جب ایم آئی فائیو کو معلوم ہو چکا تھا کہ بی بی سی ایک تحقیقاتی خبر پر کام کر رہا ہے جس میں ’ایکس‘ کا بھی ذکر ہے۔

’اے‘ کا مزید کہنا تھا کہ گفتگو کے دوران مجھے (بی بی سی کے نمائندے کو) یہ شک ہو گیا تھا کہ ’ایکس‘ ایک سرکاری ایجنٹ ہے تاہم ایم آئی فائیو نے ان کے ایجنٹ ہونے کی ’تصدیق یا تردید‘ نہیں کی تھی۔

لیکن ’اے‘ نے وہاں ایک بات واضح نہیں کی کہ اس گفتگو کی شروعات ایم آئی فائیو نے کی تھی اور انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ایم آئی فائیو کو کیسے معلوم ہوا کہ بی بی سی ایسی کسی خبر پر کام کر رہا ہے۔

انھیں اس خبر کے بارے میں ’ایکس‘ نے بتایا تھا۔

میں نے اپنے مفصل جواب میں کہا تھا کہ ’اے‘ کی جانب سے بیان کردہ کہانی میرے اپنے بیان سے بہت مختلف ہے۔ تاہم میں نے اس پر مزید تفصیلی روشنی نہیں ڈالی کیونکہ مجھے ایسا کرنے سے ہمارے وکیلوں نے منع کر دیا تھا۔

بی بی سی کی ٹیم کو مقدمے کے کچھ دستاویزات تک رسائی تھی اور اس دوران کچھ سماعتیں اور ثبوت خفیہ بھی رکھے گئے تھے۔

ایک ایسی ہی خفیہ سماعت میں بی بی سی کے سکیورٹی کلیئرنس رکھنے والے وکیل موجود تھے جنھیں ایم آئی فائیو کے وکیلوں نے بتایا تھا کہ ایجنسی نے میرے ساتھ فون کالز کے دوران اپنی ’تردید یا تصدیق‘ نہ کرنے کی پالیسی کو برقرار رکھا تھا۔

تاہم مجھے علم تھا کہ ’اے‘ نے جو اپنے بیان میں کہا ہے وہ درست نہیں۔ مجھے معلوم تھا کہ ایم آئی فائیو نے اس وقت این سی این ڈی کی پالیسی برقرار نہیں رکھی تھی اور سچ پوچھیں تو مجھے یہ جھوٹ سخت بُرا لگا تھا۔

ہائی کورٹ نے ہمیں ’ایکس‘ کی شناخت ظاہر کرنے کی اجازت تو نہیں دی لیکن یہ ضرور کہا کہ ہم اپنی تحقیقاتی رپورٹ چھاپ سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’ایکس‘ نے بیتھ اور اپنی ایک اور سابقہ پارٹنر کا استحصال کیا اور وہ ایک خطرناک شدت پسند ہیں۔

اسی دوران بیتھ نے ایم آئی فائیو کے اپنے ساتھ کیے جانے والے سلوک پر انویٹیگیٹری پاورز ٹربیونل (آئی پی ٹی) میں باقاعدہ شکایت درج کروادی۔ آئی پی ٹی ایک آزاد عدالت ہے جس کے پاس انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے اختیارات موجود ہیں۔

اس عدالت میں بھی ایم آئی فائیو نے اپنا جھوٹ برقرار رکھا۔

BBC

آئی پی ٹی اکثر سماعتیں خفیہ طریقے سے کرتی ہے جہاں شکایت کنندہ، ان کے وکیل، صحافی یا عام لوگ موجود نہیں ہوتے اور وہاں ان ثبوتوں پر غور کیا جاتا ہے جن کا اثر قومی سلامتی پر پڑ سکتا ہے۔

آئی پی ٹی کے وکیلوں کا مقصد شکایت کنندہ افراد کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے لیکن سینٹر فور ویمنز جسٹس کی جانب سے بیٹھ کی نمائندگی کرنے والی کیٹ ایلس کہتی ہیں کہ یہ پورا نظام ہی مسائل کا شکار ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’آپ کو یہ جاننے کا بھی حق نہیں ہوتا کہ آپ کے بارے میں کیا بولا جا ریا ہے۔ ہو سکتا ہے وہاں ایسی بات بھی کی جا رہی ہو جس سے آپ اتفاق نہیں کر تے۔ شاید آپ کو جھوٹا قرار دیا جا رہا ہو لیکن آپ یہ جاننے کا حق بھی نہیں رکھتے۔‘

ایلس کہتی ہیں کہ بس آخر میں بیتھ کو یہی بتایا جائے گا کہ وہ مقدمہ جیتی ہیں یا ہاری ہیں۔

بیتھ نے آئی پی ٹی سے درخواست کی تھی کہ وہ اس کیس میں ایم آئی فائیو کو ’تصدیق یا تردید‘ نہ کرنے کی پالیسی سے دستبردار کروائے۔ ان کے وکیلوں نے کہا کہ دوسری صورت میں اس مقدمے کا بڑا حصہ خفیہ سماعتوں کی نظر ہو جائے گا۔

ان کا مؤقف تھا کہ ’ایکس‘ ایم آئی فائیو میں اپنے کردار کے بارے میں بیتھ کو پہلے ہی بتا چکے ہیں اور انھوں نے اس کا استعمال کرتے ہوئے بیتھ کو خوفزدہ بھی رکھا۔

تاہم ایم آئی فائیو کے وکیلوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ’پہلی مرتبہ‘ خفیہ ادارے کو مجبور کیا جائے گا کہ کسی تیسرے فریق کو بتائیں کہ کوئی فرد ان کا ایجنٹ ہے یا نہیں۔

گذشتہ موسمِ گرما میں آئی پی ٹی نے اس مقدمے کا فیصلہ بیتھ کے خلاف دیا تاہم عدالت نے اس بات کو ضرور تسلیم کیا کہ این سی این ڈی کی پالیسی کا اثر بیتھ کے مقدمے پر پڑا کیونکہ وہ خفیہ طور پر پیش کیے گئے ثبوتوں کا جواب دینے سے قاصر رہیں۔

آئی پی ٹی نے یہ بھی کہا کہ ایم آئی فائیو ’اس اور بی بی سی کے خلاف عدالتی کارروائی کے دوارن این سی این ڈی کی پالیسی کو برقرار رکھنے کے لیے تمام حدووں تک گئی۔‘

جب بیتھ نے تیسری عدالت میں آئی پی ٹی کے فیصلے پر نظرِثانی کی درخواست کی تو ایم آئی فائیو نے وہاں بھی اپنا جھوٹ دُوہرایا۔

اس وقت میں نے فیصلہ کر لیا کہ ایم آئی فائیو کے حوالے سے سچ سب کے سامنے آنا چاہیے۔ میں بیتھ سے پہلی مرتبہ اس وقت ملا تھا جب وہ ’ایکس‘ کی جانب سے کیے گئے استحصال کے سبب بیمار تھیں۔

میں جانتا تھا کہ انھیں کتنی تکلیف سہنی پڑی اور میں چاہتا تھا کہ ان کو انصاف ملے۔ اسی وقت میں نے بی بی سی کے وکیلوں کی ٹیم کے ساتھ مل کر اس حوالے سے حکمتِ عملی بنانا شروع کر دی۔

ایم آئی فائیو ایجنٹ، جس نے گرل فرینڈ کو ڈرانے کے لیے اپنے عہدے کا استعمال کیاوہ معروف صحافی جن کا 35 سال تک روسی خفیہ ایجنسی کے لیے جاسوسی کرنے کا راز اُن کی موت کے بعد فاش ہواانڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کیسے بنی اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟آئی ایس آئی کیسے کام کرتی ہے اور تنقید کی زد میں کیوں رہتی ہے؟ایم آئی فائیو کا بڑا جوا

سچ تو یہ ہے کہ میرے ساتھ فون پر متعدد بار گفتگو کے دوران ایم آئی فائیو کے ایک سینیئر افسر این سی این ڈی کی پالیسی سے دستبردار ہو چکے تھے اور مجھے یہ بتا چکے تھے کہ ’ایکس‘ ایک ایجنٹ ہیں اور میں ان سے ملاقات بھی کر سکتا ہوں۔ اس افسر نے کہا تھا کہ یہ معلومات مجھے بتانے کے لیے ان کے پاس قانونی اجازت موجود ہے۔

یہ فون کالز ایم آئی فائیو کی ان کوششوں کا نتیجہ تھیں، جس کا مقصد ہمیں ہماری تحقیقاتی سٹوری میں ’ایکس‘ کی بطور شدت پسند شناخت کو ظاہر نہ کرنے پر راضی کرنا تھا۔ یہ کالیں اس وقت آنا شروع ہوئی تھیں جب میں نے ’ایکس‘ کو ایک خط لکھا تھا جس میں ان کی شدت پسندی میں ملوث ہونے کی تفصیلات درج تھیں اور میں نے انھیں ان الزامات کا جواب دینے کا موقع بھی دیا تھا۔

میں نے گذشتہ برس نومبر میں بی بی سی کی قانونی ٹیم کے ساتھ مہنیوں پر محیط مشاورت کے بعد ایم آئی فائیو کو خط لکھا تھا کہ ہمارا ایک خبر کرنے کا ارادہ ہے جس میں بتایا جائے کہ ایجنسی نے عدالت میں جھوٹ بولا اور اس نے میرے ساتھ فون پر ہونے والی گفتگو میں این سی این ڈی سے دستبرداری کا مظاہرہ کیا۔

تاہم میں نے اس خط میں یہ نہیں لکھا تھا کہ میں اپنے دعوے ثابت کیسے کروں گا۔

اسی وقت بی بی سی کے وکیلوں نے نئے اٹارنی جنرل لارڈ ہرمر کو بھی خط لکھ کر مطلع کیا تھا کہ ہم عدالت سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ایم آئی فائیو کے گواہ کے بیان کو پبلک کیا جا سکے جس میں انھوں نے عدالت سے جھوٹ بولا تھا۔

25 نومبر کو حکومت کے ایک وکیل نے ایم آئی فائیو کی ایما پر ہمیں مطلع کیا کہ وہ ’گواہ اے کے عدالت میں دیے گئے بیان پر پوری طرح سے کھڑے ہیں۔‘

حکومتی وکیل کے خط میں کہا گیا تھا کہ خفیہ ایجنسی اپنے مؤقف پر قائم ہے کہ اور وہ کبھی ’این سی این ڈی کی پالیسی سے دستبردار‘ نہیں ہوئے۔

میں حکومت کے اس ردِ عمل پر حیران تھا۔ ایم آئی فائیو دراصل ایک جوا کھیل رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ میں اپنے دعوے کو ثابت نہیں کر پاؤں گا۔

یہ وہ جوا تھا جو کہ ایم آئی فائیو ہارنے والی تھی۔

ہم نے اس خط کے جواب میں ایم آئی فائیو کو ایک میٹنگ کے لیے مدعو کیا جس میں ہم انھیں وہ ثبوت دکھانا چاہتے تھے جسے درخواست کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔

پھر 13 دسمبر کو وہ میٹنگ ہوئی جس میں ایم آئی فائیو کے تین وکیل بی بی سی کے ہیڈکوارٹر میں ہمارے وکیلوں سے ملنے آئے۔

انھوں نے وہ متعلقہ مواد سُنا اور پڑھا جس میں ایم آئی فائیو کی طرف سے آنے والی پہلی کال کی تفصیلات درج تھیں، ایک ای میل جو میں نے ایم آئی فائیو کے افسر کو لکھی تھی اور اس کے اگلے دن دوسری فون کال کی ایک ریکارڈنگ۔

میں نے ایم آئی فائیو کی ٹیم کو ثبوت دکھائے۔ جب ہم نے انھیں 40 منٹ پر محیط ایک فون کال کی ریکارڈنگ سُنائی تو وہ شکست خوردہ نظر آئے کیونکہ انھیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ہمارے پاس موجود ثبوت مستند ہیں۔

BBCجب ایم آئی فائیو نے خود ہی ’ایکس‘ کے ایجنٹ ہونے کی تصدیق کردی

میرے ہاتھ سے لکھے نوٹ میں یہ بات واضح تھی کہ ایم آئی فائیو کی جانب سے مجھے کی جانے والی فون کال کا مقصد کیا تھا: مجھے یہ بتانا کہ ’ایکس‘ دراصل ایک ایجنٹ ہے۔

ایم آئی فائیو کے جس افسر نے مجھے کال کی تھی ان کا کہنا تھا کہ انھیں یہ معلومات دینے کی ’اجازت‘ ہے جو کہ ان کے مطابق عام طور پر ایک ’غیرقانونی‘ کام ہوتا ہے۔

یہ معلومات مجھے ایم آئی فائیو نے رضاکارانہ طور پر دی تھی اور یہ انھوں نے مجھے کسی سوال کے جواب میں نہیں بتایا تھا کیونکہ ’ایکس‘ کے ایجنٹ ہونے کے حوالے سے سوال نہ تو میں نے ایم آئی فائیو سے پوچھا تھا اور نہ ہی خود ’ایکس‘ سے۔

اس سے قبل میں نے کبھی ایم آئی فائیو کے کسی افسر سے بات نہیں کی تھی۔ نہ وہ میری کوئی سورس تھے اور نہ ہی دوست۔

مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دراصل ’ایکس‘ کو تحفظ دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ افسر ایم آئی فائیو کے ڈائریکٹر جنرل سر کین میکلم کے قریب رہ کر کام کرتے تھے اور ان کے مطابق ’ایکس‘ خود ایک شدت پسند نہیں تھے بلکہ وہ ایم آئی فائیو کو شدت پسندوں کے حوالے سے معلومات فراہم کرتے تھے۔

مجھے کی جانے والی فون کال کا مقصد میری خبر کو رُکوانا تھا کیونکہ ایم آئی فائیو کے مطابق میری معلومات درست نہیں تھی۔

مجھے اس وقت یہ تاثر ملا تھا کہ ایم آئی فائیو سمجھتی ہے کہ میں خبر نہ چھاپنے کی ان کی درخواست مان لوں گا۔ لیکن اس کے برعکس میں نے گفتگو کے دوران ایجنسی کے افسر کو دلائل دیے کہ میں ’ایکس‘ کو ایک شدت پسند ہی سمجھتا ہوں۔

میں نے ایم آئی فائیو کو یہ بھی بتایا کہ ’ایکس‘ ذاتی زندگی میں بھی ایک پُرتشدد شخصیت کا مالک ہے۔ میں نے انھیں یہ نہیں بتایا کہ مجھے ان معاملات کا کیسے علم ہوا اور نہ ہی میں نے اس تشدد سے متاثرہ کسی بھی شخص کا نام لیا۔

ان معاملات کا ذکر میں نے ’ایکس‘ کو لکھے گئے اپنے خط میں بھی نہیں کیا تھا اور میرا خیال ہے جب میں نے اس کا ذکر کیا تھا تو ایم آئی فائیو کے افسر کو بھی حیرانی ہوئی تھی۔

میں نے اس گفتگو کے دوران اپنے تحفظات کو بھی واضح کر دیا تھا کہ مجھے تشویش ہے کہ ایم آئی فائیو ایک ایسے شخص کو تحفظ دینے کی کوشش کر رہی ہے جو خواتین، بچوں اور عوام کے لیے ایک خطرہ ہے۔

اس گفتگو کے اختتام پر میں نے ایم آئی فائیو کے افسر کو بتا دیا تھا کہ میں ان کی درخواست پر غور کروں گا اور ادارے میں بھی اس معاملے پر گفتگو ہوگی۔

ایم آئی فائیو کے افسر نے کہا کہ وہ ’ایکس‘ کے حوالے سے میرے تحفظات پر تحقیقات کریں گے۔ انھوں نے مجھے یہ بھی کہا کہ میں اپنی موجود معلومات انھیں ای میل کے ذریعے بھیجوں۔

جو ای میل میں نے انھیں بھیجی اس میں لکھا تھا کہ ’متعلقہ فرد پر الزامات ہیں انھوں نے ایک برطانوی خاتون پر تشدد کیا اور ان کے ساتھ فراڈ کیا۔ یہ مبینہ تشدد دراصل اقدامِ قتل تک پہنچ گیا تھا۔‘

’اس شخص پر الزام ہے کہ وہ گھریلو اور جنسی تشدد میں ملوث ہے، بچوں سے جنسی تعلق رکھنے کے رجحان کا اظہار کرتا ہے اور اپنی زندگی میں موجود لوگوں کو ذہنی طور پر نقصان پہنچا سکتا ہے۔‘

اس ای میل میں ’اقدمِ قتل‘ سے مراد چھرے سے کیا گیا حملہ تھا۔ اس وقت بیتھ نے مجھے اس حملے کے بارے میں بتایا تھا لیکن میں نے اس کی ویڈیو نہیں دیکھی تھی۔ میں نے بعد میں یہ ویڈیو بھی حاصل کی کیونکہ مجھے بتایا گیا تھا کہ ایم آئی فائیو اس ثبوت کا مطالبہ کر سکتی ہے۔

Getty Imagesایکس ’حالیہ پُرتشدد سرگرمیوں میں ملوث نہیں‘

اگلے روز ایم آئی فائیو کے افسر نے مجھے فون کیا۔ میں نے بی بی سی کی ایڈیٹوریل پالیسی کے تحت فون پر ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ کیا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ یہ تمام بات چیت ریکارڈ پر آجائے۔ مجھے ایم آئی فائیو پر بھروسہ نہیں تھا۔

ریکارڈ کی گئی اس کال میں ایم آئی فائیو کے افسر نے دعویٰ کیا کہ ایجنسی نے ’بہت غور‘ کے ساتھ اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ ’ایکس‘ حالیہ دنوں میں پُرتشدد سرگرمیوں میں ملوث نہیں تاہم میری اپنی ریسرچ کے مطابق ایم آئی فائیو کا یہ جائرہ بالکل جھوٹ پر مبنی تھا کیونکہ ’ایکس‘ نے خاتون پر چھرے سے حملہ ایک برس پہلے ہی کیا تھا۔

ایم آئی فائیو کے افسر نے مجھے بتایا کہ ’ہمیں تشدد کی سرگرمیوں کے حوالے سے الزامات پر شکوک و شبہات ہیں۔‘

اس افسر کے مطابق ایم آئی فائیو کے لیے گئے جائزے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’متعلقہ فرد تشدد کی حالیہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’وہ دوٹوک انداز میں اس بات کو درست بھی قرار نہیں دے سکتے۔‘

اس فون کال کے دوران ایم آئی فائیو کے افسر نے یہ ضرور تسلیم کیا تھا کہ ’ایکس‘ ذہنی طور پر مستحکم نہیں اور وہ ماضی میں ’منشیات کے گروہوں کے ساتھ سرگرمیوں میں بھی ملوث رہے ہیں۔‘

ایم آئی فائیو نے ’ایکس‘ اور بیتھ کے درمیان تعلق کو ’پرابلمیٹک‘ قرار دیا اور کہا کہ خاتون ’دماغی صحت کے مسائل‘ سے دوچار ہیں۔

جب میں نے ’ایکس‘ سے رابطہ کیا تھا تو انھیں ان کی طرف سے آن لائن پلیٹ فارم پر لکھی گئی ایک پریشان کُن پوسٹ کا بھی حوالہ دیا تھا جس میں انھوں نے خواتین کے جنسی استحصال کی بات کی تھی۔ اس میں جو زبان استعمال کی گئی تھی اسے دُہرایا بھی نہیں جا سکتا۔

ایم آئی فائیو کے افسر کا کہنا تھا کہ جس وقت یہ پوسٹ لکھی گئی اس وقت ’ایکس‘ ایجنسی کےلیے کام نہیں کر رہے تھے۔

ایم آئی فائیو کے افسر نے اس بات کو تسلیم کیا کہ یہ پوسٹ ’ایک لائن کو کراس‘ کر رہی تھی لیکن وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر رہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر لکھی گئی یہ پوسٹ ایجنٹ کی اصل فطرت کو ظاہر کر رہی تھی کہ وہ ایک خطرناک عورت بیزار شخصیت ہیں۔

ایم آئی فائیو کے افسر کو زیادہ دلچسپی اس بات میں تھی کہ وہ یہ جان سکیں کہ ہم نے ایجنٹ ’ایکس‘ کی اصل شناخت کا کیسے پتا چلایا۔ میرے لیے یہ بات حیران کُن اس لیے تھی کہ ایک تو میں ایم آئی فائیو سے بات کر رہا تھا اور دوسری بات میں نے انھیں واضح کی یہ سب صحافت کے بنیادی اصولوں کے مطابق کام کرتے ہوئے کیا گیا۔

اس فون کال کے دوران میں نے ایم آئی فائیو کے افسر کو یہ بھی بتایا کہ ’ایکس‘ ایک ڈیٹنگ ویب سائٹ بھی اُسی نام سے استعمال کر رہے تھے جو نام وہ ایم آئی فائیو کے لیے کام کرنے کے دوران استعمال کرتے تھے۔

میں نے کہا کہ مجھے پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ ’ایکس‘ ایک مخبر ہیں۔ ایم آئی فائیو کے افسر نے یہ بات سُن کر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

تاہم انھوں نے پھر بھی مجھے ’ایکس‘ سے ملاقات اور ان کے بطور ایجنٹ کام کو سمجھنے کی دعوت دی۔ اس فون کے دوران دو مرتبہ انھوں نے مجھے یہ پیشکش کی تاہم میں نے ان باتوں کو نظرانداز کر دیا۔

مجھے اس وقت یہ تاثر ملا تھا کہ مجھے ایک ایجنٹ سے ملاقات کی پیشکش اس لیے کی جا رہی ہے تاکہ میں اپنے تحفظات کو بھول جائیں۔ میرے نزدیک یہ ایک نامناسب عمل تھا کیونکہ ’ایکس‘ ایک عورت بیزار، دوسروں کو تکلیف دے کر خوش ہونے والے، کم عمر افراد سے جنسی تعلق کی خواہش رکھنے والے اور تشدد کا رجحان رکھنے والی شخصیت تھے۔

ایم آئی فائیو کے وکیلوں سے دسمبر میں ہونے والی ملاقات کے پانچ روز بعد حکومت نے بی بی سی کو بتایا کہ ایم آئی فائیو کو لگتا ہے کہ ان کی جانب سے عدالت میں پیش کیے گئے ثبوت غلط ہو سکتے ہیں اور ’اہم بات یہ ہے کہ اس کو جلد از جلد درست کیا جائے۔‘

اس وقت بی بی سی نے فیصلہ کیا کہ حکومت اور عدالت کے پاس متعلقہ ثبوت ہیں، یہ یقینی بنانے کے لیے ہمیں عدالت میں ایک درخواست جمع کروانے کی ضرورت ہے کہ اس جھوٹی گواہی کو پبلک کیا جائے۔

بی بی سی نے یہ درخواست کرسمس کی شام کو عدالت میں دائر کی تھی۔ اس کے بعد ایم آئی فائیو نے اپنا مؤقف پہلے کی گئی بات کے مقابلے میں یکسر تبدیل کر لیا۔

عدالت میں جمع کروائے گئے نئے بیان میں ایم آئی فائیو کے ڈپٹی ڈائریکٹر ’اے‘ نے عدلت میں غلط ثبوت پیش کرنے پر ’مخلصانہ‘ معذرت کی۔

’اے‘ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اب یہ بات ظاہر ہو چکی ہے کہ (مجھ سے) گفتگو کے دوران ایم آئی فائیو نے این سی این ڈی کی پالیسی سے روگردانی کی تھی۔‘

تاہم اس وقت ایم آئی فائیو کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے یہ بات واضح نہیں کی کہ انھوں نے عدالت میں جھوٹے ثبوت کیوں دیے۔ ’اے‘ نے یہ بات بھی نہیں واضح کی کہ جس معلومات پر انھوں نے انحصار کیا وہ انھیں کس نے دی تھی۔

Getty Images

یہاں یہ بھی واضح نہیں کیا گیا تھا کہ مجھے ’ایکس‘ کے ایجنٹ ہونے کی تصدیق کس کی اجازت سے کی گئی تھی۔ ہمارے پاس موجود ثبوت اس طرف اشارہ کرنے ہیں کہ میری اور ایم آئی فائیو کے افسر کی فون پر ہونے والی گفتگو سے ایجنسی کے متعدد افسران بھی آگاہ تھے۔

دوسری جانب حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ جب بھی ایجنسی این سی این ڈی کی پالیسی سے روگردانی کرے گی اس سے قبل انھیں کیبنٹ آفس کو اس حوالے سے آگاہ کرنا ہوگا۔

اس کا مطلب یہی ہے کہ کیبنٹ آفس اور ایجنسی کا سرپرست محکمہ وائٹ ہال ایجنٹ ’ایکس‘ کے حوالے سے این سی این ڈی پالیسی سے روگردانی کے عمل سے آگاہ تھے۔

گذشتہ بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں حکومت نے یہ بھی کہا کہ وزرا اور سِول سرونٹس سے ایجنسیوں کے ذاتی توعیت کے روزمرہ کے معاملات پر ہمیشہ مشاورت نہیں کی جاتی۔

ایم آئی فائیو اور حکومت دونوں نے ہی اس بات کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات شروع کر دی ہیں کہ ایجنسی نے عدالتوں سے جھوٹ کیوں بولا۔

تاہم اس بات پر بھی تحفظات ہیں کہ یہ تحقیقات کتنی شفاف ہوں گی۔

ایم آئی فائیو کی معذرت

حساس نوعیت کے معاملے پر ہونے والی انکوائریاں اور عدالتی سماعتیں خفیہ رکھی جاتی ہیں اور ان میں زندگی اور موت کے معاملات پر بھی گفتگو ہوتی ہے، ایسے حملے جو کہ ایم آئی فائیو روکنے میں ناکام رہی ہو۔

ایم آئی فائیو نے عدالتوں اور بی بی سی کو جھوٹے شواہد دینے پر ’معذرت کر لی ہے۔‘ قانونی جواب میں کہا گیا تھا کہ ’ایم آئی فائیو اس کی پوری ذمہ داری لیتی ہے۔‘

ایجنسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اپنی طرف سے پیش کیے گئے ثبوتوں کی اہمیت کو سمجھتی ہے اور ان کو سچا، مکمل اور مستند ہونا چاہیے۔

’ایکس‘ کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہونے والی بیتھ کے کیس کے ایم آئی فائیو پر دور رسد نتائج مرتب ہوں گے اور اب وہ یہ دیکھیں گے کہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے خطرہ سمجھے جانے والے ایجنٹس کو کیسے مینج کیا جائے۔

اس کیس سے پتا چلتا ہے کہ ایم آئی فائیو کو معلوم تھا کہ ’ایکس‘ کس قسم کی شخصیت تھے۔ ایم آئی فائیو کا اب خود کہنا ہے کہ آئی پی ٹی کی عدالت میں بیتھ کے کیس پر دوبارہ سماعت کی جائے۔

بیتھ اب ایک مرتبہ پھر عدالت کی طرف لوٹیں گی اس امید کے ساتھ کہ وہ سرکاری رازوں اور جھوٹ کے درمیان سچ تلاش کر پائیں گی۔

حاسد بیوی کی شکایت پر جاسوس کو نظر انداز کیاآئی ایس آئی کیسے کام کرتی ہے اور تنقید کی زد میں کیوں رہتی ہے؟آپریشن موسیٰ سے سلیمان تک: جب موساد کی خفیہ کارروائیوں سے ایتھوپیا کے یہودیوں کو اسرائیل منتقل کیا گیاآپریشن ’فائنل‘ سے ’ریتھ آف گاڈ‘ تک: اسرائیلی خفیہ ایجنسی کی کارروائیاں جنھوں نے دنیا کو حیران کیاایم آئی فائیو ایجنٹ، جس نے گرل فرینڈ کو ڈرانے کے لیے اپنے عہدے کا استعمال کیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More