Getty Imagesسلمان رشدی نے عدالت کو بتایا کہ دو سال قبل جب ان پر چاقو سے حملہ کیا گیا تو انھیں لگا تھا کہ وہ مرنے والے ہیں
برطانوی مصنف سلمان رشدی پر نیو یارک میں حملہ کرنے والے نوجوان ہادی ماطر کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران سلمان رشدی نے عدالت کو بتایا ہے کہ دو سال قبل جب اُن پر چاقو سے حملہ کیا گیا تو انھیں لگا کہ وہ مرنے والے ہیں۔
سلمان رشدی پر یہ حملہ اگست 2022 میں امریکی ریاست نیویارک کے ایک تعلیمی ادارے میں اُس وقت ہوا تھا جب وہ سٹیج پر موجود تھے اور سامعین کو ایک لیکچر دینے کی تیاری کر رہے تھے۔ اس حملے میں سلمان رشدی کا ایک ہاتھ مفلوج ہوا، اُن کے جگر کو نقصان پہنچا اور وہ ایک آنکھ کی بینائی سے محروم ہو گئے تھے۔
ملزم ہادی ماطر استغاثہ کی جانب سے خود پر لگائے گئے الزامات سے انکار کرتے ہیں۔
اس مقدمے کی سماعت نیو یارک کی جس عدالت میں جاری ہے وہ اُس مقام سے کچھ ہی میل دور واقع ہے جہاں سلمان رشدی پر حملہ ہوا تھا۔
منگل کے روز استغاثہ کی جانب سے سلمان رشدی کو پہلے گواہ کے طور پر کٹہرے میں بلایا گیا اور انھیں حملے سے قبل اور اس کے فوراً بعد کے لمحات کو یاد کرنے کا کہا۔
77 سالہ مصنف نے جیوری کو بتایا کہ حملے کے روز وہ شاٹوکوا انسٹیٹیوٹ میں ایک لیکچر دینے آئے تھے اور سٹیج پر بیٹھے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ جب سامعین سے اُن کا تعارف کروایا گیا تو اسی لمحے انھوں نے دیکھا کہ اُن کے دائیں جانب سے ایک شخص اُن کی طرف دوڑتا ہوا آ رہا ہے۔
اُن کے مطابق حملہ آور نے گہرے رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا اور چہرے پر ماسک لگایا ہوا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے حملہ آور کی آنکھوں میں دیکھا تو انھیں جھٹکا لگا۔ سلمان رشدی کا کہنا ہے کہ اُس شخص کی آنکھوں میں گہرائی اور غصہ تھا۔
Reutersملزم ہادی ماطر خود پر لگائے گئے الزامات سے انکار کرتے ہیں
سلمان رشدی نے بتایا کہ پہلا وار انھیں اپنے دائیں جبڑے اور گردن پر محسوس ہوا۔ اُن کا کہنا ہے کہ پہلے پہل انھیں لگا کہ شاید انھیں مکا مارا گیا ہے مگر پھر انھیں اپنے کپڑوں پر خون گِرتا دکھائی دیا۔
’اُس وقت وہ مجھ پر لگاتار وار کر رہا تھا، (چاقو) گھونپ رہا تھا اور کاٹ رہا تھا۔‘ اُن کا کہنا ہے کہ یہ سب محض چند سیکنڈز میں ہوا۔
برطانوی مصنف نے عدالت کو مزید بتایا کہ اُن پر کُل 15 وار کیے گئے جن سے ان کی آنکھ، گال، گردن، سینے، جسم کے اُوپری اور ران پر زخم آئے۔
انھوں نے بتایا کہ آنکھ پر لگنے والا چاقو کا وار سب سے تکلیف دہ تھا۔
ایک موقع پر انھوں نے اپنا چشمہ اُتارا، جس کے ایک رنگین شیشے سے اُن کی زخمی آنکھ چھپی ہوئی تھی، تاکہ لوگوں کو زخم کی نوعیت کا اندازہ ہو سکے۔
انھوں نے جیوری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں، بس یہی بچا ہے۔‘ انھوں نے بتایا کہ اس زخمی آنکھ سے انھیں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
سلمان رشدی کی ’سیٹانک ورسز‘ پر عدالتی فیصلے کے بعد انڈیا میں اس متنازع کتاب پر پابندی ختم ہو گئی؟برسوں روپوش رہنے والے مصنف سلمان رشدی کون ہیں؟کیا تہران ایئرپورٹ پر ہونے والی ایک ’حادثاتی ملاقات‘ سلمان رُشدی کے خلاف ایرانی فتوے کی وجہ بنی؟’مسلمانوں کا وہ فرقہ‘ جو نماز روزے کے بجائے محنت کو جنت کی کلید کہتا ہے مگر ناقد انھیں ’اسلام سے بھٹکا ہوا گروہ‘ کیوں قرار دیتے ہیں
سلمان رشدی جب اپنا بیان قلمبند کروا رہے تھے تو اس دوران ملزم ہادی ماطر کا سر بیشتر ٹائم نیچے جھکا رہا اور دونوں نے ایک دوسرے سے آنکھیں نہیں ملائیں۔
سلمان رشدی جب خود پر ہونے والے حملے کی تفصیلات بتا رہے تھے تو دوسری صف میں بیٹھیں ان کی اہلیہ روتی نظر آئیں۔
سلمان رشدی نے سنہ 1981 میں اپنے ناول ’مڈ نائٹ چلڈرن‘ سے شہرت حاصل کی۔ اس ناول کی صرف برطانیہ میں دس لاکھ سے زیادہ کاپیاں فروخت ہوئی تھیں۔
تاہم اپنی چوتھی کتاب ’دی سٹینک ورسز‘ (شیطانی آیات) کی اشاعت کے بعد سے سلمان رشدی اپنی حفاظت کو لے کر کافی فکر مند ہیں۔
اس کتاب میں مذہب اسلام پر شدید تنقید کی گئی تھی اور اس میں درج تفصیلات کو گستاخانہ تصور کرتے ہوئے پاکستان سمیت بہت سے مسلم اکثریتی ممالک میں اس پر پابندی لگا دی تھی۔
ایران کے اُس وقت کے رہنما آیت اللہ روح اللہ خمینی نے سنہ 1989 میں سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا تھا اور ان کے سر پر 30 لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کیا تھا۔ یہ فتویٰ کبھی منسوخ نہیں ہوا۔ سلمان رشدی کی اس متنازع کتاب کے باعث مسلم دنیا میں فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
نتیجتاِ ابتدا میں تقریباً ایک دہائی تک سلمان رشدی کو روپوش رہنا پڑا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے کے باعث وہ مسلح محافظ کے پہرے میں رہتے رہے۔
Getty Imagesسلمان رشدی کی کتاب 'دی سٹینک ورسز' (شیطانی آیات) میں مذہب اسلام پر شدید تنقید کی گئی تھی اور اس میں درج تفصیلات کو گستاخانہ تصور کرتے ہوئے پاکستان سمیت بہت سے مسلم اکثریتی ممالک میں اس پر پابندی لگا دی گئی تھی
حالیہ حملے سے محض دو ہفتے قبل سلمان رشدی نے ایک جرمن جریدے کو بتایا تھا کہ اب وہ نسبتاً نارمل زندگی گزارنے لگے ہیں کیونکہ ان کو لاحق خطرات اب کافی کم ہو چکے ہیں۔
لیکن نیو یارک میں ہونے والے اس حملے نے ان کے اس تاثر کو بالکل ختم کر دیا۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ اس حملے کے فوراً بعد ’مجھے صاف محسوس ہوا کہ جیسے میں مر رہا ہوں۔‘
سلمان رشدی نے اُن لمحات کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں لگا جیسے وہ ’خون کے تالاب‘ میں پڑے ہوں۔
انھوں نے بتایا کہ آس پاس موجود لوگوں نے حملہ آور پر قابو پا لیا تھا۔ ’صرف اسی وجہ سے میں بچ گیا۔‘
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ حملے کے بعد انھیں ایئر ایمبولنس میں ایک ٹراما سینٹر منتقل کیا گیا جہاں وہ اگلے 17 دنوں تک زیرِ علاج رہے۔
ملزم ماطر کو جائے وقوعہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
دوران سماعت ملزم کے وکیل لن شیفر نے سلمان رشدی پر جرح کرتے ہوئے پوچھا کہ اُن پر ہونے والے حملے کی نوعیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا وہ اپنی یادداشت پر بھروسہ کر سکتے ہیں کہ اس روز کیا ہوا تھا۔
سلمان رشدی نے کہا کہ ایسے حادثات سے لوگوں کی یادداشت پر اثر ضرور پڑتا ہے لیکن انھیں اس بات کا یقین ہے کہ انھیں 15 زخم آئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی کو انھیں بتانے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ وہ اپنے زخم دیکھ سکتے تھے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حملے سے قبل کبھی ان کی ملزم سے ملاقات ہوئی تھی، تو سلمان رشدی کا کہنا تھا کہ وہ پہلے کبھی اس سے نہیں ملے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حملہ آور نے ان سے کچھ کہا بھی نہیں۔
آنے والے دنوں میں مزید گواہ عدالت کے سامنے پیش ہوں گے جن میں موقع پر پہنچنے والے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے علاوہ وہ سرجن بھی شامل ہیں جنھوں نے سلمان رشدی کا علاج کیا تھا۔
درگاہ حضرت بل سے ’موئے مقدس‘ کی چوری اور بازیابی کے لیے آئی بی کا ’خفیہ آپریشن‘، جو 61 برس بعد بھی ایک معمہ ہےڈاکٹر شاہنواز کا قتل: ’میرے بیٹے کی لاش باقی نسلوں کے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کی جائے‘توہینِ مذہب کا جھوٹا الزام کون روکے گا؟اجمیر درگاہ سخت گیر ہندوؤں کے نشانے پرسنبھل کی مسجد کے نیچے مندر کا دعویٰ: ’کہیں یہ ہماری 500 برس پرانی جامع مسجد پر قبضہ تو نہیں کر رہے‘سندھ: ’ہر گھر سے ممتاز قادری نکلے گا‘