اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور اینکرز ایسوسی ایشن کی پیکا ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پر عدالتی معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس امین منہاس نے پیکا ایکٹ کے خلاف پی ایف یو جے اور اینکرز کی درخواست پر سماعت کی جس دوران صحافتی تنظیموں کے عہدیدار اور وکیل عمران شفیق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔
متنازعہ پیکا ایکٹ، سندھ ہائی کورٹ کا وفاقی حکومت کو نوٹس
عمران شفیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ پیکا کا قانون اتنی جلد بازی میں بنایا گیا کہ شقوں کے نمبر بھی درست درج نہیں، قانون میں غلطیاں ہیں ، درخواست دہندہ کی 2 تعریفیں کر دی گئیں جو ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر ریاست علی آزاد نے کہا کہ یہ قانون آرٹیکل 19 اور 19 اے کی خلاف ورزی میں بنایا گیا۔
قومی کمیشن برائے وقار نسواں کا پیکا ایکٹ 2025 پر تحفظات کا اظہار
جسٹس انعام منہاس نے سوال کیا، آپ کیا کہتے ہیں فیک نیوز کی پبلیکیشن رکنی چاہیے یا نہیں؟ فیک نیوز کا مسئلہ تو ہے۔ ریاست علی آزاد نے جواب دیا کہ صحافی کو لوگ فائل دکھاتے ہیں کہ یہ دیکھ لیں کرپشن ہو رہی ہے اور خبر دے دیں، صحافی اپنی خبر کا سورس کبھی نہیں بتاتا، پیکا پر عمل ہو گیا تو پھر صحافی صرف موسم کا حال ہی بتا سکیں گے۔
جسٹس بابر ستار کا خط، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے اقدامات غیرقانونی قرار
درخواست گزار کے وکلاء نے عدالت سے ایکٹ پر عملدرآمد روکنے کی بار بار استدعا کی اس پر عدالت نے کہا کہ اگر کوئی مسئلہ ہو تو بتائیں ہم یہیں بیٹھے ہیں، آپ ضرورت محسوس کریں تو متفرق درخواست دائر کر سکتے ہیں بعد ازاں عدالت نے معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔