Getty Images
’ملزم دُھند اور تاریکی کا فائدہ اٹھا کر کانسٹیبل کو دھکا دے کر گاڑی سے چھلانگ مار کر اُترا اور ہتھکڑی سمیت فرار ہو گیا۔ پولیس نے ملزم کا پیچھا کیا اور اسی دوران ایک مقام پر دو سے تین افراد کے شور، گالی گلوچ اور پھر فائرنگ کی آوازیں آئیں۔‘
’پولیس اہلکاروں کے للکارنے پر نامعلوم افراد فرار ہو گئے، تاہم اس مقام سے ایک شخص شدید زخمی حالت میں ملا جس کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکا۔ مرنے والے کی شناخت زہرہ کیس کے ملزم کی حیثیت سے ہوئی ہے۔‘
یہ سرائے عالمگیر میں چار سالہ بچی زہرہ کے ریپ اور قتل میں ملوث ملزم کی ہلاکت کے حوالے سے درج پولیس ایف آئی آر کا متن ہے۔ زہرہ کیس کا ملزم 16 جنوری 2025 کی رات پراسرار حالات میں ہلاک ہو گیا تھا۔
تاہم اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں پولیس کی حراست سے ایک ایسا ملزم بظاہر فرار ہونے میں کامیاب ہوتا ہے اور بعدازاں مارا جاتا ہے جس کے بارے میں پولیس کو ’سائنسی بنیادوں پر کی گئی تفتیش کے بعد ناقابل تردید شواہد‘ مل چکے ہوتے ہیں۔
ایسے واقعات کے بعد پولیس کی جانب سے عموماً یہ روایتی بیان جاری کیا جاتا ہے جس میں دعویٰ ہوتا ہے کہ ملزم کو برآمدگی کے لیے لے جایا جا رہا تھا جب ’ملزمان کے مسلح ساتھیوں نے پولیس پارٹی پر حملہ کر دیا اور اس دوران ہونے والی فائرنگ سے ملزم ہلاک ہو گیا۔‘
عموماً اس طرح کے واقعات میں ایف آئی آر میں مقام، تاریخ اور ملزم کا نام بدلنے کا علاوہ باقی عبارت لگ بھگ ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔
اسلام آباد میں ایف نائن پارک میں خواتین کے ساتھ مبینہ ریپ کے ملزمان ہوں یا پھر اسلام آباد کے بینکوں میں ڈکیتی کرنے والا ملزم، یہ صرف چند ایسے حالیہ واقعات ہیں جن میں پولیس کے مطابق ان کے پاس ’ناقابل تردید شواہد‘ بھی موجود ہوتے ہیں تاہم پراسرار حالات میں زیر حراست ملزم ہلاک ہو جاتا ہے۔
Getty Images’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف صوبہ پنجاب میں سنہ 2019 سے لے کر سنہ 2024 کے درمیان پولیس مقابلوں میں کم از کم 550 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور ہلاک ہونے والوں میں سے اکثریت ان افراد کی تھی جو سنگین جرائم میں ملوث تھے۔
ان مقابلوں میں ہلاکتوں کے علاوہ بہت سے افراد زخمی بھی ہوئے۔
صوبہ سندھ میں اسی عرصے کے دوران پولیس مقابلوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے۔
پنجاب میں پولیس مقابلوں کی روایت پرانی ہے اور بہت سے پولیس افسر ماضی میں ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ کے نام سے مشہور بھی رہے ہیں جن میں انسپیکڑ عابد باکسر بھی شامل ہیں۔
17 جولائی 2020 کو شائع ہونے والی بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق عابد باکسر لاہور پولیس کے ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ سکواڈ‘ کے نام سے مشہور گروپ میں شامل تھے جس میں اس وقت کے ڈی ایس پی عاشق مارتھ، ڈی ایس پی رانا فاروق، ڈی ایس پی طارق کمبوہ، انسپیکٹر سعید نوید اور انسپیکٹر عمر ورک بھی شامل تھے۔
رپورٹ کے مطابق یہ پولیس افسران اور اہلکار سنہ 1999 تک بہت سے ایسے پولیس مقابلوں میں شامل رہے جن میں جرائم پیشہ عناصر کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوئی۔
ایک اندازے کے مطابق صرف شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے پہلے دور (1997-99) کے دوران ایک ہزار کے قریب جرائم پیشہ افراد ایسے پولیس مقابلوں میں مارے گئے جن کے حقیقی ہونے پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لاہور میں کئی بڑے جرائم پیشہ گروپ سرگرم تھے۔
سنہ 1993 سے 1996 تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہنے والے میاں منظور وٹو نے صحافی شاہد اسلم کو بتایا تھا کہ اپنے دورِ اقتدار میں ’غنڈہ عناصر سے نمٹنے کے لیے میں نے پولیس کو زیادہ اختیارات دیے جس کے بعد جرائم پیشہ افراد کے خلاف ایکشن لیا گیا۔‘
ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ حالیہ پولیس مقابلوں میں ملزمان کی پراسرار ہلاکت کی وجوہات کیا ہے اور اس رجحان کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہوتے ہیں؟
یہ جاننے کے لیے بی بی سی اردو نے متعدد پولیس افسران سے بات چیت کی جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پولیس مقابلے کی منصوبہ بندی کیسے ہوتی ہے اور ٹھوس شواہد کے باوجود ملزمان کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے گریز کیوں کیا جاتا ہے؟
Getty Imagesایک اندازے کے مطابق صرف شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے پہلے دور (1997-99) کے دوران ایک ہزار کے قریب جرائم پیشہ افراد ایسے پولیس مقابلوں میں مارے گئے جن کے حقیقی ہونے پر سوال اٹھتے رہے ہیںپولیس مقابلے کی منصوبہ بندی
پنجاب پولیس کے ایک سابق اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ عمومی طور پر ایسے سنگین واقعات جیسا کہ کمسن بچوں یا خواتین کے ساتھ ریپ، جس کے خلاف سوشل میڈیا پر بھی آوازیں اٹھ رہی ہوں، ایسے واقعات میں ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا منصوبہ بنایا جاتا ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ عمومی طور پر اس نوعیت کا ٹاسک کسی پی ایس پی افسر کو نہیں بلکہ رینکر پولیس افسر کو سونپا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ پی ایس پی ان افسران کو کہا جاتا ہے جو سول سروس کا امتحان پاس کرنے کے بعد براہ راست اے ایس پی کے عہدے پر تعینات ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ جب یہ فیصلہ ہو جاتا ہے اور مبینہ پولیس مقابلے کی ٹھان لی جاتی ہے تو پھر کسی اور معاملے کو نہیں دیکھا جاتا چاہے وہ ملزمان کے خلاف ناقابل تردید شواہد ہی موجودگی ہی کیوں نہ ہو۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ جتنے کیسز کے بارے میں وہ جانتے ہیں ان میں ڈی ایس پی رینک کے افسر کو مبینہ پولیس مقابلے کا ٹاسک دیا جاتا ہے جبکہ متعلقہ تھانے کا ایس ایچ او جہاں پر یہ مقدمہ درج ہوتا ہے اور اس مقدمے کے تفتیشی کو اعتماد میں لے کر منصوبہ بنایا جاتا ہے۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ اس حوالے سے متعلقہ اعلیٰ پولیس افسران بھی ’آن بورڈ‘ ہوتے ہیں۔
سابق پولیس اہلکار کا دعویٰ ہے کہ وہ سروس کے دوران خود بھی متعدد پولیس مقابلوں میں شامل رہے ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ عمومی طور پر ان کے سامنے ہونے والے پولیس مقابلوں کے لیے زیادہ تر رات کی تاریکی یا پھر علی الصبح کا چناؤ کیا گیا اور یہ ایسے علاقوں میں ہوئے جہاں عوام کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر تھی۔
انھوں نے کہا کہ ان کی سروس کے دوران جتنے بھی پولیس مقابلے ہوئے، ان میں سے کسی ایک مقدمے کا بھی کوئی ایسا گواہ سامنے نہیں آیا جس نے یہ واقعات رونما ہوتے ہوئے دیکھے ہوں۔
Getty Images’غیر سرکاری اسلحہ، کوڈ ورڈ اور ہاف فرائی‘
ایک اور سابق پولیس اہلکار نے دعویٰ کیا ایسے مبینہ پولیس مقابلے میں جن میں ایک یا دو افراد کو ’ٹھکانے‘ لگانا ہو تو اس میں سرکاری اسلحہ استعمال نہیں ہوتا بلکہ پرائیویٹ اسلحے کے ساتھ یہ کام کیا جاتا ہے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ عمومی طور پر زیر حراست ملزمان کا عبوری چالان کسی عدالت میں پیش نہ ہونے سے قبل ہی یہ کام کر لیا جاتا ہے۔
ایک اور سابق پولیس اہلکار کے مطابق جب کسی کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہوتی تھی تو ’کوڈ ورڈ‘استعمال کیے جاتے ہیں۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ بعض علاقوں میں پولیس اہلکار آپس میں یہ باتیں کرتے تھے کہ ’آج رات کو مٹن کڑاہی کھانی ہے اور پھر اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ مٹن نہیں تو پھر چکن سے ہی گزارا کرو۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’مٹن کڑاہی‘ کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ پولیس مقابلے میں ’ملزم کا پتا صاف کرنا ہے‘ جبکہ ’چکن کڑاہی‘ کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ملزم کو جان سے نہیں مارنا بلکہ اس کے جسم کے ایسے حصے کو ٹارگٹ کرنا ہے جس سے وہ تمام عمر کے لیے معذور ہو جائے۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ اسی طرح پنجاب اور سندھ کے مختلف علاقوں میں پولیس مقابلوں کی منصوبہ بندی کے لیے ’ہاف فرائی اور فل فرائی‘ جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے۔ فل فرائی کا مطلب ملزم کا خاتمہ جبکہ ہاف فرائی کا مطلب ملزم کو زخمی کرنا ہے۔
کمزور پراسیکیوشن
فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل بشارت اللہ خان کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکار ہی پراسیکوشن میں تعینات ہوتے ہیں اور سنگین نوعیت کے مقدمات کا چالان بھی انھوں نے بنانا ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ کمزور پراسیکوشن کی وجہ سے سنگین جرائم میں ملوث افراد کے عدالتوں سے رہائی ملنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اس لیے مبینہ طور پر ’پولیس مقابلے‘ پر انحصار کیا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ خاص طور پر ایسے واقعات جن کے رونما ہونے کے بعد معاشرے میں نفرت پھیلتی ہو، اُن کو پولیس ترجیح دیتی ہے اور پولیس کی حراست میں ہی ان کو ٹھکانے لگانے کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے ایک واقعہ سنایا کہ وہ راولپنڈی کی عدالت میں کسی مقدمے کی پیروی کے لیے گئے تو اس دوران ایک پولیس ہیڈ کانسٹیبل دو ملزموں کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کر رہا تھا کہ اسی عرصے کے دوران نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں پولیس ہیڈ کانسٹیبل ہلاک ہو گیا اور بعدازاں ملزمان فرار ہو گئے تاہم پولیس نے ناکہ بندی کر کے اس واقعے میں ملوث دو ملزمان کو حراست میں لے لیا۔
انھوں نے کہا کہ اس واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزمان کی شناخت ہو رہی تھی جو کہ ملزمان کا پولیس اہلکار کے قتل میں ملوث ہونے کا ناقابل تردید ثبوت تھا۔
راجہ بشارت اللہ کے مطابق اس واقعے کے کچھ گھنٹوں کے بعد ٹی وی پر یہ خبر چل رہی تھی کہ پولیس اہلکار کے قتل میں ملوث دو ملزمان پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گئے اور پھر اس واقعہ سے متعلق ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس کی عبارت وہی تھی کہ ملزمان کو چھڑانے کے لیے ملزمان کے ساتھیوں نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دونوں ملزمان موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ فائرنگ کرنے والے افراد رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہو گئے۔
انھوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پولیس مقابلوں میں ہلاک ہونے والوں کے ورثا عمومی طور پر قانونی جنگ نہیں لڑنا چاہتے جس کی وجہ سے پولیس اہلکاروں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
مبینہ ماورائے عدالت قتل کا تدارک کیسے ممکن ہے؟
فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل طاہر نقاش کا کہنا تھا کہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے شخص کے ورثا قانونی جنگ لڑنے کا ارداہ کریں تو ایسے پولیس اہلکاروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکتا ہے جو کہ ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں ملوث ہیں۔
انھوں نے اسلام آباد میںایک مبینہ پولیس مقابلے کا ذکر کیا جس میں پولیس اہلکاروں نے اُسامہ ستینامی نوجوان، جو کہ ایک کالج کا طالب علم تھا، کو ہلاک کر دیا جس کے بعد اسلام آباد پولیس کی جانب سے پریس ریلیز بھی جاری کی گئی کہ فائرنگ کے تبادلے میں ایک ڈاکو ہلاک ہو گیا تاہم جب اسامہ کے ورثا نے باضابطہ طور پر مقدمہ کی پیروی کی تو نہ صرف پولیس کو اپنی پریس ریلیز واپس لینی پڑی بلکہ ان پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ بھی درج ہوا اور اس مقدمے میں پولیس اہلکاروں کو متعلقہ عدالت سے سزائیں بھی سنائی گئیں۔
انھوں نے کہا کہ ضابطہ فوجداری میں یہ بات واضح لکھی ہوئی ہے کہ اگر کوئی شخص پولیس کی تحویل میں مارا جاتا ہے تو وہ متعلقہ مجسٹریٹ کو درحواست دیکر اس معاملے کی تحققیقات کروا سکتا ہے لیکن یہ طریقہ کار بہت طویل ہے اور اس میں انصاف کے تقاضے پورے ہونا بھی مشکل ہے۔
طاہر نقاش کا کہنا تھا کہ ضابطہ فوجداری کی قوانین میں خامیوں کی وجہ سے پولیس اہلکار ایسے واقعات میں ملوث ہونے کے باوجود بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگر کسی پولیس مقابلے میں کسی شخص کی ہلاکت پر لوگ احتجاج کریں تو افسران متعلقہ پولیس اہلکاروں کو کچھ عرصے کے لیے معطل کر دیتے ہیں اور کچھ عرصے بعد جب لوگ بھول جاتے ہیں تو دوبارہ اسے نوکری پر بحال کر دیا جاتا ہے۔
چار سالہ زہرہ کا ریپ اور قتل: ملزم کی گرفتاری، ’ہتھکڑی سمیت فرار‘ اور پھر ’پراسرار ہلاکت‘’بعض اوقات انکاؤنٹر لازمی ہو جاتے ہیں۔۔۔‘: سسٹم کی وہ خامیاں جو پاکستان میں مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کی وجہ بنتی ہیںچوہدری اسلم: ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ کہلائے جانے والے پولیس افسر ہیرو تھے یا ولن؟ایف نائن ریپ کیس: مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ملزمان کے ورثا کا تحقیقات کرانے کا مطالبہشواہد کے باوجود مبینہ انکاؤنٹر کیوں؟
اسلام آباد پولیس کے سابق سربراہ طاہر عالم خان اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پاکستان میں مبینہ پولیس مقابلوں کا رجحان موجود ہے۔
تاہم اس رجحان کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انھوں نے چند وجوہات بیان کی ہیں۔
طاہر عالم خان نے دو وجوہات کا ذکر کیا۔ ان کے مطابق پہلی وجہ یہ ہے کہ مستقبل میں ایسے واقعات روکنے کے لیے جرائم پیشہ عناصر کے دلوں میں خوف پیدا کرنا جبکہ دوسری وجہ یہ ہے کہ ’ملک میں کریمنل جسٹس سسٹم اتنا کمزور ہے کہ اگر ایک عدالت سے ملزم کو سزا ہو جاتی ہے تو اکثر مقدمات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ بڑی عدالتوں سے وہ مجرمان ضمانت پر باہر آ جاتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پولیس کا کام چونکہ جرم کا قلع قمع کرنا ہوتا ہے اس لیے وہ شارٹ کٹ استعمال کرتے ہوئے پولیس مقابلہ کر دیتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ بہت زیادہ ہوتا ہے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ عدالتیں سنگین نوعیت کے مقدمات کو نمٹانے کی بجائے سیاسی نوعیت کے مقدمات کو سننے کو ترجیح دیتی ہیں جس کی وجہ سے اہم نوعیت کے سنگین مقدمات نہیں نمٹائے جاتے۔‘
انھوں نے کہا کہ سنگین مقدمات میں بھی عدالتوں کی طرف سے بروقت فیصلے نہ کرنے پر مدعی بھی تھک جاتے ہیں اور ان کا پولیس اور جسٹس سسٹم سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
طاہر عالم خان کا کہنا تھا کہ ’پولیس کو دیا گیا اقبالی بیان یا ملزم کا پولی گراف ٹیسٹ عدالت میں کمزور شہادتوں کے زمرے میں آتا ہے جبکہ بعض مقدمات میں تو سی سی ٹی وی فوٹیج کو بھی کمزور شہادت کے طور پر لیا گیا ہے۔ یہ تمام عناصر پولیس مقابلے کے رجحان کو جنم لینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پولیس کا اپنا تفتیش کا نظام بھی نقائص کا شکار ہے۔
انھوں نے کہا کہ کریمنل جسٹس سسٹم میں مقدمات کی تفتیش بھی ایک اہم جزو ہے اور ان کی نظر میں پولیس کا یہ ایک کمزور پہلو ہے۔
AFPسابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار
اسلام آباد پولیس کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ ’اگر پولیس کسی بھی ملزم کا انکاؤنٹر کرتی ہے تو پہلے اس ملزم کا فیملی بیک گراونڈ دیکھتی ہے اور اگر پولیس یہ سمجھے کہ ملزم کے خلاف مقدمے کی پیروی کرنے والی کوئی نہیں ہے یا ان کی مالی حثیت کمزور ہے تو پولیس ایسے ملزم کو ٹھکانے لگانے میں زیادہ وقت نہیں لگاتی۔‘
انھوں نے کہا کہ کسی سنگین جرم میں ملوث ملزم اگر بااثر ہو اور پولیس کے پاس باقابل تردید شواہد ہی کیوں نہ موجود ہوں تو ایسے ملزم کو پولیس مقابلے میں نہیں مارا جاتا۔
نور مقدم کے مقدمے کا ذکر کرتے ہوئے طاہر عالم خان کا کہنا تھا کہ اگرچہ ملزم کے خلاف ناقابل تردید شواہد بھی موجود تھے لیکن ملزم بااثر ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی مالی حثیت بھی مستحکم تھی اس لیے اس کو 'پار لگانے' کا نہیں سوچا گیا جبکہ اس کی جگہ اگر کوئی عام ملزم ہوتا تو اسے کب کا ٹھکانے لگا دیا ہوتا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ جب کہیں کوئی پولیس مقابلہ ہوتا ہے تو ڈسٹرکٹ پولیس افسر کے علاوہ ریجنل پولیس افسر کے بھی علم میں یہ معاملہ ہوتا ہے۔
طاہر عالم خان کا کہنا تھا کہ اگر کسی پولیس مقابلے کی جوڈیشل انکوائری ہو جائے اور پولیس مقابلہ جعلی ثابت ہو جائے تو پھر ان پولیس اہلکاروں کو جانوں کے لالے پڑ جاتے ہیں جو ایسے مقابلوں میں شامل ہوتے ہیں اور انھوں نے متعدد پولیس اہلکاروں کو جیلوں میں بھی جاتے ہوئے دیکھا ہے تاہم ان کے مطابق ایسی مثالیں بہت کم ہیں۔
یاد رہے کہ ایک ایسا مقدمہ کراچی میں پولیس کے ہاتھوں نقیب اللہ محسود کا بھی تھا جس میںکراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار سمیت 18 پولیس اہلکاروں کو ثبوتوں کی عدم دستیابی کی بنیاد پر قتل کے الزام سے بری کر دیا تھا۔
سنہ دو ہزار اٹھارہ میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نقیب اللہ کو تین ساتھیوں سمیت پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور اس کا تعلق شدت پسند تنظیم داعش اور لشکر جھنگوی سے ظاہر کیا تھا۔
طاہر عالم نے کہا کہ ہر پولیس مقابلے کی جوڈیشل انکوائری نہیں ہوتی۔ ’صرف ان پولیس مقابلوں کی جوڈیشل انکوائری ہوتی ہے جس میں ہلاک ہونے والے ملزمان کے ورثا مجسٹریٹ کو درخواست دیں اور یا پھر پولیس مقابلہ کے بارے میں میڈیا پر بہت زیادہ بات ہو رہی ہو۔‘
جبری گمشدگیوں کے مقدمات کی پیروی کرنے والی وکیل ایمان مزاری کا کہنا ہے کہ ثبوت ہونے کے باوجود کسی بھی ملزم کو پولیس مقابلے میں ہلاک کر دینا دراصل نظام کی کمزوری کی عکاسی کرتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پولیس مقابلے دراصل قانون میں دیے گئے طریقہ کار کے ہی خلاف ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی دہشت گرد بھی ہے تو اس کے بھی کچھ بنیادی حقوق ہوتے ہیں اور اس کو بھی پاکستان کا آئین اپنے اپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں دو خواتین کے ساتھ ہونے والے ریپ کے مقدمات کو پولیس مقابلے میں ہلاکت کے خلاف جب انھوں نے پریس کانفرنس کی تو پڑھے لکھے لوگوں کے علاوہ صحافیوں نے بھی اس پولیس مقابلے کی حمایت کی تھی۔
ایمان مزاری کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں پولیس مقابلوں کے مروجہ طریقہ کار کو تسلیم کر لیا گیا ہے اور لوگ اس غیر قانونی عمل کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے اس کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جن میں سے اکثریت پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان جعلی پولیسمقابلوں کو روکنے کے لیے نہ تو پارلیمنٹ میں کوئی قانون سازی ہوئی اور نہ ہی پاکستان کی سپریم کورٹ نے ایسے غیر قانونی اقدام کے خلاف کوئی ازخود نوٹس لیا ہے۔
چار سالہ زہرہ کا ریپ اور قتل: ملزم کی گرفتاری، ’ہتھکڑی سمیت فرار‘ اور پھر ’پراسرار ہلاکت‘’بعض اوقات انکاؤنٹر لازمی ہو جاتے ہیں۔۔۔‘: سسٹم کی وہ خامیاں جو پاکستان میں مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کی وجہ بنتی ہیںکراچی میں مبینہ پولیس مقابلے کا معمہ: برقعہ پوش ’ڈاکو‘ اور بچوں کو ٹیوشن دینے والی ’سہولت کار‘پنجاب میں پولیس مقابلے: ’میرے شوہر کی کمائی ڈیڑھ لاکھ تھی، اسے ڈکیتی کا ملزم قرار دے کر مار دیا‘ایف نائن ریپ کیس: مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ملزمان کے ورثا کا تحقیقات کرانے کا مطالبہچوہدری اسلم: ’انکاؤنٹر سپیشلسٹ‘ کہلائے جانے والے پولیس افسر ہیرو تھے یا ولن؟