Getty Images
شام میں عبوری حکومت کے سربراہ احمد الشرع کی اہلیہ لطیفہ سمیر الدروبی کا نام پہلی بار گذشتہ ہفتے کے اوائل میں اس وقت سامنے آیا جب انھیں اپنے شوہر کے ہمراہ سعودی عرب اور ترکی کے دو سرکاری دوروں کے دوران دیکھا گیا۔
لطیفہ سمیر الدروبی کی ان سرکاری دوروں میں موجودگی میڈیا کی دلچسپی کا باعث بنی کیونکہ اس سے قبل وہ عوامی حلقوں میں نہیں جانی جاتی تھیں۔
العربیہ چینل کو دیے گئے انٹرویو میں احمد الشرع نے بتایا تھا کہ ماضی میں وہ جن حالات سے گزرے ہیں اُن کی وجہ سے وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ پہاڑوں میں رہنے کے علاوہ متعدد رہائش گاہیں بھی تبدیل کرتے رہے ہیں۔
شامی نژاد امریکی ڈاکٹر اور سیاسی کارکن ریم البزم نے الشرق ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ ’لطیفہ الشرع کی اکلوتی اہلیہ ہیں، اور وہ اس سے بہت پیار کرتے ہیں۔‘
پہلی بار عوامکے سامنےGetty Imagesلطیفہ ترک صدر کی اہلیہ کے ہمراہ
لطیفہ الدروبی کی پہلی عوامی جھلک نے میڈیا کی توجہ اُس وقت حاصل کی جب وہ گذشتہ ہفتے سعودی عرب کے دورے کے دوران انھیں احمد الشرع کے پہلو میں دیکھا گیا۔
الشرع اور لطیفہ نے عمرہ ادا کیا اور اس دوران لی گئی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں اور لوگ لطیفہ کے بارے میں سوالات کرتے نظر آئے۔
سعودی عرب کے دورے کے بعد الشرع اپنی اہلیہ کے ہمراہ ترکی کے دورے پر روانہ ہوئے، جہاں لطیفہ الدروبی نے ترک صدر کی اہلیہ ایمن اردوغان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر لی گئی تصویر ترک صدر کی اہلیہ کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بھی پوسٹ کی گئی۔
ایمن اردوغان نے لکھا کہ انھوں نے لطیفہ الدروبی کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں خواتین کو بااختیار بنانے، سماجی یکجہتی اور تعلیم سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا۔
لطیفہ الدروبی: خاندانی پس منظر اور تعلیم
شام کی خاتون اول کے بارے میں ابھی تک زیادہ تفصیلات میسر نہیں ہیتاہم بعض اخبارات اور ذرائع ابلاغ نے اُن کے خاندان اور زندگی کے بارے میں کچھ تفصیلات شائع کرنا شروع کر دی ہیں۔
سعودی اخبار ’عکاز‘ کی خبر کے مطابق لطیفہ سمیر الدروبی کا تعلق شام کے قصبے ’القریطین‘ سے ہے اور وہ تین بیٹوں کی ماں ہیں۔
اخبار نے ’غیر سرکاری ذرائع‘ کے حوالے سے بتایا کہ لطیفہ نے عربی زبان اور لٹریچر میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ہے۔
اُن کے خاندان میں معروف مذہبی شخصیات شامل ہیں جیسے شیخ عبدالغفار الدروبی۔ شیخ عبدالغفار الدروبی شام کے ایک معروف قاری تھے جن کی سنہ 2009 میں جدہ میں وفات ہوئی تھی۔
مشرق وسطیٰ کے امور کا تجزیہ کرنے والے معروف ترین امریکی میڈیا اداروں میں سے ایک ’المانیٹر‘ کے مطابق ’شام میں الدروبی خاندان کی جڑیں عثمانی دور تک پھیلی ہوئی ہیں، جب اُن کے آباؤ اجداد میں سے ایک علاء الدین الدروبی نے سلطنت عثمانیہ کے سفیر کی حیثیت سے شام میں خدمات انجام دیں اور بعدازں وہ سنہ 1920 میں شام کے دوسرے وزیر اعظم بنے۔ لیکن وزیراعظم بننے کے صرف 26 دن بعد انھیں قتل کر دیا گیا تھا۔‘
یوکرین کی خاتون اول اولینا زیلنسکا کون ہیں؟میلانیا ٹرمپ: ’معمہ‘ سمجھی جانے والی خاتون اوّل اور سابقہ ماڈل جو نظروں سے اوجھل رہتی ہیںپاکستان کی خاتونِ اوّل اب کون ہوں گی؟علینہ کبائیوا: روسی صدر پوتن کی ’قریبی دوست‘ سمجھی جانے والی خاتون ایک بار پھر منظرِ عام پر
لطیفہ الدروبی کے پہلی بار منظر عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اُن کے حوالے سے بحث جاری ہے۔ اُن کا نام کچھ ویب سائٹس پر سب سے زیادہ سرچ کیے جانے والے الفاظ میں سے ایک ہے۔
صارف زیاد کلثوم ان کی تصاویر پوسٹ کرتے ہوئے لکپا کہ ’دو تصاویر اور ایک ویڈیو کلپ نے شام کے نازک معاشرے کو لطیفہ کے بارے میں کہانیاں سنانے پر مجبور کیا ہے۔ شام میں اُن کے اخلاق اور ثقافت کے بارے میں بات کی جا رہی ہے حالانکہ انھوں نے ابھی تک ایک لفظ بھی نہیںبولا۔‘
اس کے جواب میں خولا برغوث نے لطیفہ کی ظاہری شکل و صورت پر جاری بحث کے بارے میں لکھا کہ ’ہم خواتین کے حقوق پر یقین رکھتے ہیں اور اس لیے ان کا لباس ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ انھیں حق حاصل ہے کہ وہ وہی پہنیں جو ان کے مطابق ہو لیکن کیا وہ نقاب پہنے نظر آتیں؟‘
’عثمانی پس منظر‘
کچھ ترک اخبارات نے الشرع کی اہلیہ کے ’عثمانی پس منظر‘ کے بارے میں بات کی ہے۔ اخبار ’ترکی گزیٹکی‘ کے مطابق لطیفہ الدروبی (جنھیں میڈیا میں لطیفہ الشرع بھی کہا جاتا ہے) ایک شامی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور ’عثمانی دور کے بیوروکریٹ علاؤ الدین کی پڑپوتی ہیں۔‘
اخبار کے مطابق لطیفہ الدروبی سنہ 1984 میں پیدا ہوئی تھیں اور اُن کا تعلق الدروبی خاندان سے ہے جو حمص کے دیہی علاقوں میں القریطین کے قصبے میں رہتا ہے۔ اخبار کے مطابق اُن کے خاندان کا سیاست سے تعلق عثمانی دور سے ہے۔
ان کے پردادا علاء الدین الدروبی عثمانی انتظامیہ میں متعدد عہدوں پر فائز رہے۔ وہ سنہ 1870 کی دہائی میں حمص میں ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اور اُن کے والد کئی مدتوں تک شہر کے میئر رہے۔
انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم طرابلس اور بیروت میں مکمل کی، پھر استنبول کے رائل سکول میں داخلہ لیا، جسے اب استنبول یونیورسٹی میں فیکلٹی آف میڈیسن کے نام سے جانا جاتا ہے، جہاں انھوں نے ایک ساتھ طب اور سیاست کی تعلیم حاصل کی۔
اخبار، جو اپنے قدامت پسند رجحان اور حکومتی پالیسیوں کی حمایت کے لیے جانا جاتا ہے، مزید لکھتا ہے کہ علاء الدین الدروبی سلطنت عثمانیہ کے سب سے سینیئر عہدیداروں میں سے ایک بن گئے، انھوں نے وزارت داخلہ میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا، پھر ریاست شام میں ایک ٹرینی کے طور پر کام کیا۔ بعد میں وہ کوسوو اور بصرہ کے گورنر سمیت اہم عہدوں پر فائز ہوئے اور بلقان اور یمن میں سفیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
عثمانیوں کے شام سے دستبردار ہونے کے بعد (پہلی عالمی جنگ میں ان کی شکست کے بعد) علاء الدین الدروبی دمشق واپس آئے، جہاں انھوں نے 1920 کی دہائی میں شاہ فیصل اول سے بیعت کا اعلان کیا۔
فیصل نے انھیں وزیر داخلہ مقرر کیا ، اور بعد میں وہ فرانسیسی مینڈیٹ کے دوران شام کے دوسرے وزیر اعظم بن گئے لیکن وہ صرف ایک ماہ تک اس عہدے پر رہے کیونکہ انھیں 21 اگست 1920 کو قتل کردیا گیا تھا۔
’اندھی محبت مجھے شام لے گئی‘: دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ساتھ جانے والی خواتین جو اپنا ماضی بھلانا چاہتی ہیںبشار الاسد کے بعد روس ’شامیوں کے دل جیتنے‘ کے لیے نئی حکومت کو کیا پیشکش کر سکتا ہے؟دمشق کی جانب باغیوں کی پیش قدمی کے دوران بشار الاسد ملک سے کیسے نکلے؟بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ: شام میں اب کون کس علاقے کو کنٹرول کر رہا ہے؟