14 سالہ پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کا قتل ’باپ نے مارنے سے پہلے لاہور کی سیر کرائی‘

اردو نیوز  |  Feb 02, 2025

کوئٹہ پولیس نے کہا ہے کہ قتل ہونے والی 14 سالہ پاکستانی نژاد امریکی لڑکی کو اس کا والد گھمانے پھرانے کے بہانے پاکستان لایا تھا اور ایک ہفتے تک لاہور کی سیر بھی کرائی۔ اس کے بعد کوئٹہ لا کر اپنے سالے (لڑکی کے ماموں) کے ساتھ مل کر اپنی بیٹی کو قتل کیا۔

14سالہ حرا کو 27 جنوری کو کوئٹہ کے پولیس تھانہ گوالمنڈی کی حدود میں بلوچی سٹریٹ میں گھر کے سامنے گولیاں مار کر قتل کیا گیا تھا۔

کیس کی تفتیش کرنے والے پولیس کے ذیلی ادارے سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ (ایس سی آئی ڈبلیو) کے سربراہ ایس ایس پی ذوہیب محسن کا کہنا ہے کہ لڑکی کے قتل میں استعمال ہونے والا اسلحہ ٹی ٹی پستول، موٹر سائیکل اور مقتولہ کا موبائل فون برآمد کرلیا گیا ہے۔

ان کے مطابق ’موبائل فون کو فرانزک تجزیے کے لیے لیبارٹری بجھوا دیا گیا ہے۔ ہم اس کا موبائل فون کھلوانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ اس میں موجود مواد کا تجزیہ کرسکیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ قتل میں ملوث مقتولہ کے والد انوار الحق راجپوت اور ماموں طیب علی کا عدالت نے نو روزہ جوڈیشل ریمانڈ دے دیا ہے۔ تفتیش میں دونوں ملزمان نے اعتراف جرم کرلیا ہے اور بتایا ہے کہ انہوں نے حرا کو اس کے پوشاک، رہن سہن اور سماجی روابط کی وجہ سے قتل کیا۔

ایس ایس پی کے مطابق والد کا کہنا ہے کہ بیٹی رات کو دیر سے گھر سے نکلتی تھی اور پوچھنے پر کچھ نہیں بتاتی تھی۔ سمجھانے کی کئی بار کوشش کی مگر چیزیں درست نہ ہوئیں تو یہ انتہائی قدم اٹھانے کافیصلہ کیا۔

اس سے پہلے گوالمنڈی پولیس تھانہ کے ایس ایچ او بابر بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ والد نے دوران تفتیش کہا کہ انہیں بیٹی کے کردار، ٹک ٹاک اور انٹرنیٹ پر ناپسندیدہ ویڈیوز ڈالنے پر اعتراض تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم انوار الحق نے ابتدائی طور پر پولیس کو گمراہ کرنے کے لیے جھوٹا بیان دیا کہ ان کی بیٹی کو گھر کے سامنے نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے زخمی کیا اور ہسپتال لے جاتے ہوئے وہ دم توڑ گئی۔ ملزم نے اپنی بیٹی کا مقدمہ بھی خود پولیس میں درج کرایا۔

سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے ایس ایس پی زوہیب محسن نے بتایا کہ ’واقعے کی اطلاع ملتے ہی ایس سی آئی ڈبلیو نے کرائم سین اور ہومیسائیڈ یونٹ کو انویسٹی گیشن افسر کے ہمراہ موقع پر روانہ کیا۔ موقع سے اور ڈیجیٹل شواہد اکٹھے کیے۔ سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی ڈھونڈیں لیکن ہمیں ایسا کچھ نہیں ملا جس کا دعویٰ اس کا والد کررہا تھا۔‘

ایس ایس پی نے بتایا کہ ’ہم قتل کے محرکات کا پتہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں شک ہوا کہ معاملہ گھر کے اندر ہے جس پر ہم نے اہل خانہ سے تفتیش شروع کی۔ مقتولہ کے باپ کو شامل تفتیش کیا گیا تو ہمیں لگا کہ خاندان کے دیگر افراد بھی ملوث ہوسکتے ہیں، جس پر کیس کو مزید آگے لے جاتے ہوئے ماموں سے بھی پوچھ گچھ کی گئی۔ دوران تفتیش دونوں ملزمان نے اعتراف جرم کرلیا۔ پولیس نے وہ پستول برآمد کرلی جس سے لڑکی کو دو گولیاں ماری گئیں۔ ان میں سے ایک گولی لڑکی کے سینے اور دوسری بازو میں لگی۔‘

ایس ایس پی کے مطابق ’انور الحق 28 سال قبل کوئٹہ سے امریکہ منتقل ہوا تھا اور  وہاں اوبر ٹیکسی چلاتا تھا۔ انہوں نے گریجویشن کر رکھی ہے۔ حرا ان کی تین بیٹیوں میں دوسرے نمبر پر تھی۔ ان کی باقی دو بیٹیاں اور اہلیہ اب بھی امریکہ میں ہیں۔ ہم ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ان سے تفتیش میں مدد حاصل کرسکیں، لیکن اب تک ان سے بات نہیں ہوسکی۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ہم قتل کے محرکات کا پتہ لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ والدہ اور بہنوں سے رابطہ ہونے پر ہی ہمیں حقائق پتہ چل سکیں گے کہ امریکہ میں ایسا کیا ہوا تھا جس کی بنا پر والد نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔‘

ایس ایس پی کے مطابق ابتدائی طور پر یہ معلوم ہوا ہے کہ ملزم بیٹی کو اپنے سالے کے گھر لے جانے کے بہانے گھر سے باہر نکالا اور پھر کسی بہانے سے اندر گیا اس کے بعد لڑکی پر گولیاں چلائی گئیں۔

 سیریس کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لڑکی پر گولیاں ان کے ماموں نے چلائیں۔ پستول بھی وہی لے کر آیا تھا۔ اس بات کی تفتیش کی جارہی ہے کہ والد کو بیٹی کے قتل پر کوئٹہ میں مقیم اس کے سالے نے اُکسایا یا انہوں نے خود یہ قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

تفتیشی افسر کے مطابق والد نے بیٹی کے قتل کے تیسرے دن ہی واپس امریکہ فرار ہونے کا منصوبہ بنایا تھا مگر اس سے پہلے ہی پکڑا گیا۔

ایس ایس پی ایس سی آئی ڈبلیو نے بتایا کہ ’کیس سے متعلق سوشل میڈیا پر بہت سی غلط باتیں بھی پھیلائی جارہی ہیں (فوٹو: کوئٹہ پولیس)ایس ایس پی ایس سی آئی ڈبلیو نے بتایا کہ ’کیس سے متعلق سوشل میڈیا پر بہت سی غلط باتیں بھی پھیلائی جارہی ہیں۔ توہین مذہب کی باتیں بھی کی جارہی ہیں مگر ہمیں اب تک تفتیش میں ایسی کوئی چیز نہیں ملی۔ ہم اس پر مزید بھی تفتیش کررہے ہیں اس میں ہماری مدد گھر کے باقی افراد کرسکتے ہیں، لیکن ان کے امریکہ میں ہونے کی وجہ سے ہمیں تفتیش میں مشکل پیش آرہی ہے۔‘

ذوہیب محسن کے مطابق انہوں نے والد سے پوچھا کہ وہ امریکہ سے اکیلی بیٹی کو ہی کیوں  لے کر آئے تو انہوں نے  بتایا کہ وہ اپنے  خاندان کے پاکستان میں رہ جانے والے باقی ماندہ افراد کو امریکہ لے کر جانا چاہتے تھے۔ باپ کے بقول وہ حرا کو اس لیے آبائی ملک لے کر آئے تھے کہ اس نے اب تک پاکستان نہیں دیکھا تھا۔ بیٹی نے خود پاکستان دکھانے کی خواہش کی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ انوار الحق اپنی بیٹی حرا کے ہمراہ 15 جنوری کو کوئٹہ آئے تھے ایک ہفتہ لاہور میں رہے۔ وہاں والد نے انہیں گھمایا پھرایا اس کے بعد انہیں 22 جنوری کو کوئٹہ لائے اوراس کے پانچ دنوں بعد اس کا قتل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری پوری ٹیم اس کیس پر کام کررہی ہے۔ شاید کیس میں کوئی اور پہلو بھی سامنے آئے اگر ایسا ہوا تو تفتیش کو مزید وسعت دی جائےگی۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More