Getty Imagesمیری این ٹرمپ 1999 میں اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل اپنی بیٹی الزبتھ، بیٹے ڈونلڈ اور ان کی اس وقت کی گرل فرینڈ، میلانیا کے ساتھ
میری این میک لیوڈ 11 مئی 1930 کو نیویارک میں اترتے وقت اپنے ساتھ صرف 50 امریکی ڈالر (جو اب قریب 950 ڈالر بنتے ہیں) لے کر آئیں۔
دو بار امریکہ کے صدر بننے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی والدہ اپنے آبائی ملک سکاٹ لینڈ سے قانونی طور پر امریکہ میں داخل ہوئیں۔
پہلے یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ وہ بطور ایک سیاح امریکہ آئیں اور پھر بلڈر فریڈ ٹرمپ سے شادی کر کے واپس لوٹیں جو جرمن تارکین وطن کے بیٹے اور نیویارک کے سب سے زیادہ اہل بیچلرز میں سے ایک تھے۔ لیکن کسٹم دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ابتدا سے امریکہ میں سکونت اختیار کرنے کے ارادے سے گئی تھیں۔
ان کا نام اس وقت کے امیگریشن ریکارڈز میں ظاہر ہوتا ہے جسے ایلس آئی لینڈ فاؤنڈیشن نے ڈیجیٹائز کیا تھا۔ اس کے پاس پانچ کروڑ دس لاکھ سے زیادہ مسافروں کا ڈیٹا محفوظ ہے جو 1892 اور 1957 کے درمیان نیویارک کے مذکورہ جزیرے اور بندرگاہ کے ذریعے امریکہ پہنچے تھے۔
ان دستاویزات کے مطابق میک لیوڈ دو مئی 1930 کو گلاسگو کی بندرگاہ سے امریکہ کے لیے روانہ ہوئیں جہاں وہ نو دن بعد ٹرانسلوینیا جہاز پر سوار ہوئیں۔
نیویارک کے ایلس آئی لینڈ پر واقع نیشنل امیگریشن میوزیم کے مورخ بیری مورینو نے کشتی کے مسافروں کے ریکارڈ کا تجزیہ کرنے کے بعد بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’وہ مستقل رہائش کے لیے تارکین وطن کا ویزا لے کر آئیں تھیں۔'
اس کا ویزہ گلاسگو میں 17 فروری 1930 کو سفر سے صرف تین ماہ قبل جاری کیا گیا تھا۔
کسٹم دستاویز میں کہا گیا ہے کہ میک لیوڈ کا واپس اپنے آبائی ملک جاانے کا ارادہ نہیں تھا، بلکہ ان کا ارادہ مستقل طور پر امریکہ میں رہنے اور شہریت حاصل کرنے کا تھا۔
Fundación Estatua de la Libertad-Isla Ellisٹرمپ کی والدہ کا نام امیگریشن ریکارڈز میں اس وقت سے ظاہر ہوتا ہے جب سے سٹیچو آف لبرٹی فاؤنڈیشن - ایلس آئی لینڈ کے ذریعے ڈیجیٹلائز کیا گیا تھا
کتاب دی ٹرمپز کی مصنفہ گویندا بلیئر نے بی بی سی منڈو کو بتایا اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹرمپ کی والدہ امیگریشن کے مقاصد کے تحت امریکہ آئی تھیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق ان کے پانچ بچوں میں سے ٹرمپ چوتھے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ یہ بات کہی کہ ان کی والدہ نے ابتدا میں اس ملک کا سفر ایک سیاح کے طور پر کیا تھا نہ کہ وہاں رہنے کے ارادے سے۔
کچھ لوگوں کے لیے یہ ایک اہم امتیاز ہے کیونکہ ٹرمپ اکثر غیر قانونی اور یہاں تک کہ قانونی امیگریشن کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں۔
دوسری بار صدر بننے کے بعد ٹرمپ نے پہلے روز ہی میکسیکو کے ساتھ جنوبی سرحد پر ’ایمرجنسی کی حالت‘ کا اعلان کرنے کے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے اور پیدائشی طور پر خود بخود امریکی شہریت حاصل کرنے کے حق کو محدود کیا۔ یہ ایسی چیز ہے جس کو آئین کے ذریعے تحفظ حاصل تھا۔
گھریلو خاتون
سکاٹ لینڈ کے شمال میں لیوس جزیرے کے ایک قصبے ٹونگ سے تعلق رکھنے والی ٹرمپ کی والدہ بھی 18 سال کی عمر میں اپنی تین بہنوں کے نقش قدم پر چلیں جو پہلے سے ہی امریکہ میں تھیں: کرسٹینا، میری جان اور کیتھرین۔
جہاں تک ان کے کاروبار یا پیشے کا تعلق ہے، کسٹم دستاویز میک لیوڈ کو 'گھریلو خاتون' کے طور پر ریکارڈ کرتی ہے۔
مورینو نے وضاحت کی کہ 'گھریلو‘ کا مطلب کئی چیزیں ہو سکتی ہیں: ’ایک شخص جو گھر پر کام کرتا ہے، کوئی ایسا شخص جو خاندانی گھر میں کام کرتا ہے، دوسروں کے لیے کھانا پکاتا ہے اور صفائی کرتا ہے یا کوئی ایسا شخص جو گھر کی خدمت میں بطور ملازمہ کام کرتا ہے۔‘
اس میں میک لیوڈ بھی کم از کم اپنی بہن میری جان کے راستے پر چلتی نظر آئیں جنھوں نے گھریلو خدمت میں کام کیا تھا۔ پھر ان کی ملاقات اپنے مستقبل کے شوہر وکٹر پاؤلی سے ہوئی۔
انھوں نے ’گھریلو‘ کی اپنی تعریف کا جو بھی مطلب دیا، سچ یہ ہے کہ میک لیوڈ نے اسے ستمبر 1934 میں دوبارہ استعمال کیا جب وہ سکاٹ لینڈ سے دوسری بار نیویارک کی بندرگاہ میں داخل ہوئیں۔
اس دوسرے سفر کی کسٹم دستاویز اس بار کیمرونیا جہاز پر سوار امریکہ کے علاقے میں ان کے پہلے برسوں کے قیامکے دیگر پہلوؤں کو ظاہر کرتی ہیں۔
سب سے پہلے وہ مئی 1930 میں اپنی آمد سے جون 1934 تک بلا تعطل ملک میں رہیں اور نیویارک کو اپنی مستقل رہائش گاہ قرار دیا۔
مورینو نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ سکاٹ لینڈ کا سفر کرنے سے پہلے میکلوڈ نے امریکہ میں دوبارہ داخل ہونے کے لیے ایک پرمٹ پر حاصل کرنے کی کوشش کی جس سے ان کے دوسرے داخلے کے دوران کسٹم کے طریقہ کار کو آسان بنایا جاتا۔
Getty Imagesمیری این 1930 کی دہائی کے اوائل میں امریکہ جاتے ہوئےٹرمپ کا ’پیدائش پر شہریت‘ کا قانون ختم کرنے کا اعلان: کیا پناہ گزینوں کے بچوں کو امریکی شہری نہیں مانا جائے گا؟اپنے پوتے پوتیوں میں چھپ کر ٹافیاں اور سوڈا بانٹنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کا خاندانڈونلڈ ٹرمپ: ’رنگین مزاج ارب پتی‘ شخصیت سے ’امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کی مہم‘ تکقاتلانہ حملے، مقدمات اور ’سیاسی انتقام‘: ڈونلڈ ٹرمپ کی حیران کن سیاسی واپسی کیسے ممکن ہوئی؟غریب گھرانے سے تعلق
ٹرمپ پر کتاب کے مصنف مائیکل ڈی اینٹونیو نے بی بی سی ورلڈ کو بتایا کہ ’وہ ایک بہت غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ جس قصبے سے وہ آئی تھی وہاں سے ایک بڑی نقل مکانی ہوئی تھی کیونکہ پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر قصبے کے زیادہ تر مرد اس وقت مر گئے تھے جب انھیں واپس لانے والا جہاز ڈوب گیا تھا۔'
انھوں نے مزید کہا کہ 'یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا۔ بہت سی خواتین نے نقل مکانی کرنے کا فیصلہ کیا، جب انھوں نے دیکھا کہ ان کے پاس شادی کے لیے کوئی نہیں ہے۔ وہ کینیڈا اور امریکہ چلی گئیں۔'
ڈی انتونیو نے نقل مکانی کی معاشی وجوہات کا بھی ذکر کیا کیونکہ آئل آف لیوس کے بہت سے کسانوں کو ان زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا تھا اور انھیں قصبے میں منتقل ہونا پڑا تھا۔
انھوں نے کہا کہ 'وہ بہت غریب تھے کیونکہ وہ اپنی فصلیں خود نہیں اُگا سکتے تھے۔'
ٹرانسلوینیا پر سوار میک لیوڈ کے سفر سے متعلق دستاویزات کے مطابق مورینو کا خیال ہے کہ اس وقت اس کی مالی صورتحال مکمل طور پر غیر یقینی نہیں تھی۔
مؤرخ نے بی بی سی منڈو کو بتایاکہ 'ان کے پاس اتنی رقم تھی کہ وہ دوسری عورت کے ساتھ مشترکہ کیبن میں سفر کرنے اور تھرڈ کلاس سے بچنے کے لیے پیسے دے سکتی تھیں۔ ظاہر ہے، ان کے پاس کچھ پیسے تھے، وہ غریب نہیں تھی، لیکن وہ ایک تارکین وطن کے طور پر آئی تھی۔'
جینالوجسٹ بل لاسن، جنھوں نے 19ویں صدی کے اوائل میں میری این میک لیوڈ کے شجرہِ نصب کا سراغ لگایا، ان کا کہنا ہے کہ ان کے والد میلکم اپنے بعد کے سالوں میں ایک پوسٹ آفس اور چھوٹا سٹور چلاتے تھے اور مالی طور پر یہ خاندان اوسط درجے سے قدرے بہتر ہوتا۔
لاسن کے بقول 'وہ ایک بہت بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں جس میں نو بہن بھائی تھے' اور یہ کہ جزیرے پر 'نوجوانوں کے لیے زیادہ امکانات نہیں تھے۔'
'آج کل آپ امریکہ جانے کے بارے میں سوچ سکتے ہیں، لیکن اس وقت زیادہ تر لوگ کینیڈا چلے گئے۔ امریکہ میں زندگی گزارنا بہت آسان تھا اور وہاں بہت سے لوگوں کے رشتہ دار تھے۔
امیگریشن فیس
اپنی ویب سائٹ پر لبرٹی ایلس آئی لینڈ کے مطابق، 19ویں صدی کی آخری دہائیوں اور 20ویں صدی کی پہلی دہائیوں کے دوران نیویارک کے راستے امریکہ آنے والے تارکین وطن کی اولادیں ملک کی تقریباً نصف آبادی کے برابر ہیں۔
تاہم اگرچہ امریکہ تاریخی طور پر امیگریشن کے لیے کھلا رہا ہے، جب میک لیوڈ نے اپنے آبائی علاقے سکاٹ لینڈ سے نقل مکانی کی تو غیر ملکیوں کے داخلے پر کچھ پابندیاں تھیں۔
مورینو کا کہنا ہے کہ 'اس وقت ہر ملک سے محدود تعداد میں تارکین وطن کو داخلہ دینے کے لیے کوٹہ مقرر کیا گیا تھا۔ 1921 اور 1955 کے درمیان برطانیہ سے آنے والے تارکین وطن کا ایک محدود کوٹہ تھا۔ ایک سکاٹش کے طور پر وہ یہاں آ گئیں۔'
مؤرخ بتاتے ہیں کہ میک لیوڈ کو بھی امیگریشن کی اجازت حاصل کرنے کے لیے ویزا کے لیے درخواست دینا پڑی۔
PA Mediaڈونالڈ ٹرمپ نے 2008 میں سکاٹش جزیرے لیوس کے ٹونگ میں اس گھر کا دورہ کیا جہاں ان کی والدہ بڑی ہوئی تھیں
جہاز کے مسافروں کی کنٹرول شیٹس میں جسے مینی فیسٹس کہتے ہیں، ہر ایک کا تمام ڈیٹا ریکارڈ کیا جاتا تھا، بشمول ان کی ذاتی خصوصیات (آنکھوں کا رنگ، بال، نسل وغیرہ)۔
ہر مسافر کو اس سوال کا جواب دینا تھا کہ آیا ان کے پاس کم از کم 50 امریکی ڈالر تھے اور ثابت کرنا تھا کہ ان کے پاس ہیں۔
یہ وہی رقم تھی جو میک لیوڈ اپنے ہر دو سفر پر اپنے ساتھ لائی تھیں۔
مورینو نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، 'اگر آپ کے پاس 50 ڈالر سے کم تھے تو اس بارے میں شکوک و شبہات تھے کہ آیا آپ اس وقت تک امریکہ میں زندہ رہ سکتے ہیں جب تک آپ کو ملازمت نہیں مل جاتی یا آپ کسی خاندان کا فرد نہیں بن جاتے۔'
ذہین اور پرجوش
ٹرمپ کی والدہ 1942 میں امریکی شہری بن گئیں۔
اپنی کتاب 'دی آرٹ آف دی ڈیل' میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کا ذکر ایک 'ایک انتہائی روایتی گھریلو خاتون کے طور پر کیا ہے جو ’اپنے سے باہر کی دنیا سے پوری طرح واقف تھی۔'
میگنیٹ نے ایک منظر بیان کیا جس میں اس کی والدہ ٹیلی ویژن پر ملکہ الزبتھ دوم کی تاجپوشی دیکھنے میں مگن ہیں۔
انھوں نے لکھا، 'میں شاہی آن بان اور گلیمر، شان و شوکت اور حالات سے پوری طرح متاثر ہو گئی تھی۔'
ڈی ایتونیو کے خیال میں میک لیوڈ زندہ دل، ذہین اور پرجوش خاتون تھیں۔
Getty Imagesمیری این ٹرمپ کے پانچ بچے تھے اور وہ نیو یارک کے کوئنز میں ایک پوش علاقے میں رہتی تھیں
'ٹرمپ نے مجھے اس کے بارے میں یہی بتایا کہ وہ اپنے والد کی طرح بہت مسابقتی اور پرجوش تھیں۔ صرف یہ ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ وہ اس کا اظہار اسی طرح کر سکتی ہیں کیونکہ وہ ایک عورت تھیں۔ اس وقت خواتین کے لیے کیریئر بنانا اور آج کی طرح پرعزم ہونا مشکل تھا۔'
بظاہر میک لیوڈ نے خیراتی سرگرمیوں میں حصہ لیا جو دنیا میں ان کا ایک تاثر چھوڑتے۔
اگست 2000 میں 88 سال کی عمر میں ان کی موت کے بعد نیویارک ٹائمز نے ایک مرثیہ شائع کیا جس میں انھیں ایک 'انسان دوست'فرد کے طور پر بیان کیا گیا تھا۔
اس کے متن میں لکھا گیا 'این ٹرمپ جمیکا کے خواتین کے معاون ہسپتال (نیویارک میں) اور جمیکا ڈے کیئر سنٹر کی اہم حامی تھیں۔'
ٹرمپ خاندان نے دیگر تنظیموں کے علاوہ سالویشن آرمی اور بوائے سکاؤٹس آف امریکہ میں بھی تعاون کیا۔
'جمیکا میڈیکل سنٹر کے ایک پویلین میں ان کا نام ہے اور نیشنل کڈنی فاؤنڈیشن آف نیو یارک/نیو جرسی کو عمارتیں بھی عطیہ کی گئی ہیں۔‘
قاتلانہ حملے، مقدمات اور ’سیاسی انتقام‘: ڈونلڈ ٹرمپ کی حیران کن سیاسی واپسی کیسے ممکن ہوئی؟اپنے پوتے پوتیوں میں چھپ کر ٹافیاں اور سوڈا بانٹنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کا خاندانایوانکا ٹرمپ اور ان کے خاوند کروڑوں کے مالکڈونلڈ ٹرمپ: ’رنگین مزاج ارب پتی‘ شخصیت سے ’امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کی مہم‘ تک