دنیا کی ’سب سے کنٹرولڈ فضائی حدود‘ میں مسافر طیارے کی فوجی ہیلی کاپٹر سے ٹکر کا معمہ

بی بی سی اردو  |  Feb 01, 2025

Getty Images

ہوا بازی کی دنیا یہ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے کہ واشنگٹن میں مسافر طیارے اور فوجی ہیلی کاپٹر کے درمیان فضا میں ہونے والا مہلک تصادم کیسے ہوا۔ ایک ماہر کے مطابق یہ حادثہ ’دنیا کی سب سے زیادہ کنٹرول شدہ فضائی حدود‘ میں ہوا ہے، یعنی یہاں پرواز کرنے پر کڑی سختیاں ہیں۔

امریکی فوج کا بلیک ہاک ہیلی کاپٹر واشنگٹن نیشنل ایئرپورٹ پر اترنے سے چند سیکنڈ قبل امریکن ایئر لائنز کے طیارے سے ٹکرا گیا جس میں 64 افراد سوار تھے۔

دونوں جہاز بدھ کی رات یخ بستہ پوٹومیک دریا میں جا گرے۔ اگرچہ ہیلی کاپٹر کا بلیک بوکس برآمد کر لیا گیا ہے تاہم حادثے کی اصل وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی ہے۔

نیشنل ٹرانسپورٹیشن سیفٹی بورڈ (این ٹی ایس بی) کے مطابق حکام 30 دن کے اندر ابتدائی رپورٹ جاری کریں گے۔

بی بی سی کے امریکی نیوز پارٹنر سی بی ایس کے مطابق عملے نے جمعرات کے روز ملبے سے فلائٹ ڈیٹا ریکارڈرز برآمد کیے جنھیں بلیک بوکس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ آلات تفتیش کاروں کو اس بات کی نشاندہی کرنے میں مدد دے سکتے ہیں کہ حادثے کی وجہ کیا تھی۔

Getty Imagesمحدود فضائی علاقہ

ڈسٹرکٹ آف کولمبیا میں قومی سلامتی اور امریکی حکومت کے زیر استعمال عمارتوں کے تحفظ کے لیے ان کے اوپر فضائی حدود میں سخت پابندیاں عائد ہیں۔

کمرشل طیاروں کو پینٹاگون، وائٹ ہاؤس اور دیگر تاریخی مقامات پر پرواز کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

ہوائی جہازوں اور ریگن ہوائی اڈے سے متعلق متعدد قانونی معاملات کو سنبھالنے والے ایوی ایشن اٹارنی جم براچل نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے باوجود اس علاقے میں فضائی ٹریفک بہت زیادہ ہے۔

تجارتی ٹریفک کے ساتھ ساتھ نجی ہوا باز اور ہیلی کاپٹر بھی شہر کے ارد گرد پرواز کرتے ہیں جو اکثر حساس مقامات کے درمیان اعلی عہدیداروں اور سیاستدانوں کو لے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں اندر اور باہر بہت تنگ راستے ہیں اور بہت زیادہ بھیڑ اور اضافی ہوائی جہاز ہیں، لہذا سارے طیاروں ایک محدود جگہ میں آ رہے ہیں۔'

فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) اور این ٹی ایس بی کے طیارہ حادثے کے سابق تفتیش کار جیف گوزیٹی نے بی بی سی نیوز آر کو بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ حادثے سے قبل ہیلی کاپٹر کنٹرول ٹاور سے رابطے میں تھا۔

ایئر ٹریفک کنٹرولر نے امریکن ایئرلائنز کی ہیلی کاپٹر کی پرواز کی نشاندہی کی۔

گوزیٹی کا کہنا ہے کہ ’ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے بتایا کہ اسے طیارہ نظر آ رہا ہے اور وہ اس سے دور ہونے جا رہا تھا اور پھر حادثہ اس کے کچھ ہی دیر بعد پیش آیا، اس لیے اس بارے میں بہت سارے سوالات اٹھیں گے کہ ہیلی کاپٹر پائلٹ نے کیا دیکھا؟'

Getty Imagesہیلی کاپٹر زون

این ٹی ایس بی کے پانچ رکنی بورڈ میں شامل ٹوڈ انمان نے کہا کہ ہیلی کاپٹر اور ان کی پرواز کے لیے مخصوص زونز کی وجہ سے ڈی سی میں ایک 'منفرد ماحول' ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اگر آپ ڈی سی کو دیکھیں تو آپ کو بہت سے ہیلی کاپٹر اس علاقے میں اترتے دکھائی دیں گے لہٰذا اس حوالے سے یہاں ایک بہت اچھا طے شدہ نظام موجود ہے۔'

انمان امریکن ایئر لائنز کی پرواز سے ٹکرانے سے قبل ہیلی کاپٹر کی اونچائی کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کر سکے۔

جیٹ طیاروں اور ریگن ہوائی اڈے سے متعلق قانونی چارہ جوئی کے متعدد معاملات کو سنبھالنے والے بریچل نے بی بی سی کو بتایا کہ سوال یہ ہے کہ دو طیارے ایک ہی فضائی حدود میں کیسے پہنچے۔ ریگن (ایئر پورٹ) کی جو چیز واقعی منفرد ہے وہ وہاں دریا پر ایک ہیلی کاپٹر کا راستہ بھی ہے جو جہاز کے راستے آخری حصے سے گزرتا ہے اور یہ 200 فٹ یا اس سے نیچے ہے۔'

بریچل نے کہا کہ دونوں ہیلی کاپٹروں کے راستے اور ہوائی جہازوں کا راستہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آپ ممکنہ طور پر دو مختلف طیاروں کو ایک چھوٹی سی جگہ پر رکھ رہے ہیں جو بمشکل ایک دوسرے سے الگ ہوں۔ آپ کو یا تو تھوڑا نیچے جگہ ملتی ہے یا تھوڑا سا زیادہ اونچی ہے لیکن آپاسی جگہ پر رہیں گے۔'

Getty Imagesہوا بازی کا نظام

ایوی ایشن کنسلٹنٹ فلپ بٹر ورتھ ہیز کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ 'مختلف ایوی ایشن سسٹمز کے گٹھ جوڑ' میں پیش آیا، جن میں سویلین اور ملٹری سسٹم کے ساتھ ساتھ ہوائی اڈے سے متعلق مخصوص طریقہ کار بھی شامل ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ آپ یہاں تین یا چار ایوی ایشن سسٹم کی سرحد پر ہیں اور یہ ان سرحدوں پر ہے جہاں سب سے زیادہ حادثات ہوتے ہیں۔

تاہم برطانیہ میں مقیم ہوا بازی کے ماہر جان سٹرک لینڈ کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں کمرشل فضائی ٹریفک کی مقدار مکمل طور پر اس بات کی وضاحت نہیں کر سکتی کہ یہ مہلک حادثہ کیوں پیش آیا۔

وہ بتاتے ہیں کہ شہر کے مرکز کے قریب واشنگٹن نیشنل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی گیٹ وے، واشنگٹن ڈلس اور بالٹی مور ہوائی اڈہ بھی کچھ دور ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’سب کو الگ رکھنے کے لیے ٹریفک کے بہاؤ کا انتظام کرنا ہوگا۔ یہ لندن کی طرح ہے جہاں آپ کو ہیتھرو، سٹینسٹیڈ، گیٹوک اور لندن سٹی کے مابین ٹریفک کے بہاؤ کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ لہذا ڈی سی اس لحاظ سے لندن یا نیو یارک سے مختلف نہیں ہے۔۔۔ یہ بالکل غیر معمولی نہیں ہے۔'

بٹر ورتھ ہیز کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ دنیا کی سب سے زیادہ کنٹرول کی جانے والی فضائی حدود ہے۔ آپ کے پاس امریکی حکومت اور سویلین دونوں نظام ہیں۔ رونالڈ ریگن ہوائی اڈہ بھی حکومت کی ملکیت ہے۔ یہ اس طرح کے بہت کم بہت کم ہوائی اڈوں میں سے ایک ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ دنیا کی سب سے محفوظ فضائی حدود ہیں اور اس علاقے میں کام کرنے والے سکیورٹی اور سویلین سیفٹی اداروں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ سب سے محفوظ فضائی حدود ہونی چاہیں۔'

واشنگٹن میں طیارے اور ہیلی کاپٹر میں تصادم: ’مسافر طیارہ سب کچھ ٹھیک کر رہا تھا۔۔۔ ہیلی کاپٹر غلط وقت پر غلط جگہ پر موجود تھا‘فضا میں طیارے آپس میں تصادم سے کیسے بچتے ہیں اور یہ نظام کیسے کام کرتا ہے؟دفاعی ساز و سامان خریدنے پر اصرار اور تجارتی تعلقات میں برابری، ٹرمپ انتظامیہ انڈیا سے کیا چاہتی ہے؟’میں نے تو کلمہ پڑھ لیا تھا‘: ایک چھوٹا سا پرندہ ہوائی جہاز کو کیسے تباہ کر سکتا ہے؟فوٹیج میں طیارہ ریڈار سسٹم پر دکھائی دیا

امریکہ میں کمرشل طیارے کا آخری مہلک حادثہ فروری 2009 میں پیش آیا تھا۔

حکام اور ماہرین نے یکساں طور پر اس بات پر زور دیا ہے کہ ہر قسم کی پروازوں پر سخت حفاظتی پابندیوں کی وجہ سے اس قسم کا واقعہ ناقابل یقین حد تک نایاب ہے۔

بی بی سی کے امریکی نیوز پارٹنر سی بی ایس نیوز کی جانب سے ایئر ٹریفک کنٹرول ذرائع سے حاصل کی گئی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حادثےکا شکار ہونے والے دو طیارے ریڈار سسٹم پر واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔

بی بی سی نیوز کے آڈیو ذرائع سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہیلی کاپٹر ہوائی اڈے پر زمین پر ایئر ٹریفک کنٹرول کے ساتھ رابطے میں تھا۔

ہیلی کاپٹر سے پوچھا گیا کہ کیا اسے مسافر طیارہ نظر آ رہا ہے اور اسے اس کے پیچھے سے گزرنا ہے۔

اس کے بعد آنے والی آڈیو میں، کنٹرولرز کو احساس ہوتا ہے کہ تصادم ہوا ہے اور اسے ہوا میں موجود دیگر طیاروں کو پڑوسی ہوائی اڈوں کی طرف لے جاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

بٹر ورتھ ہیز کا کہنا ہے کہ اس طرح کا ہوائی تصادم تب ہوتا ہے جب بہت سی چیزیں غلط ہوتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ سویلین فضائی حدود میں پرواز کرنے کے لیے فوجی ہیلی کاپٹر میں ٹرانسپونڈر نصب کرنے کی ضرورت ہوگی جو آس پاس کے طیاروں کو اس کی پوزیشن کے بارے میں آگاہ کرے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں طیاروں کو ایک دوسرے کو دیکھنے کے قابل ہونا چاہیے تھا، اس کے علاوہ ایئر ٹریفک کنٹرول اور ہوائی جہاز کے تحفظ کے حفاظتی آلات سے ہدایات ملتی ہیں جو ایک دوسرے سے الگ کام کرتی ہیں۔ اس موقع پر آپ کے پاس یہ دو مختلف سسٹم موجود ہیں اور دونوں کو ان طیاروں کو الگ الگ رکھنے کے قابل ہونا چاہیے تھا۔'

بلیک ہاک ہیلی کاپٹر بی کمپنی 12 ویں ایوی ایشن بٹالین کا حصہ تھا۔ یہ ورجینیا کے ایک فوجی اڈے فورٹ بیلوار سے روانہ ہوا اور ایک تربیتی مشق میں حصہ لے رہا تھا۔

Getty Imagesہیلی کاپٹر کا عملہ ’کافی تجربہ کار‘ تھا

امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگ سیٹھ نے کہا ہے کہ ہیلی کاپٹر کا عملہ 'کافی تجربہ کار' تھا اور وہ سالانہ نائٹ فلائٹ ٹریننگ سیشن میں حصہ لے رہا تھا۔

سی این این سے بات کرتے ہوئے امریکی فضائیہ کے ریٹائرڈ کرنل سیڈرک لیٹن نے کہا کہ 'اس قسم کے فوجی طیاروں کا علاقے میں رات کے وقت تربیت حاصل کرنا معمول کی بات ہے، خاص طور پر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ پائلٹ اندھیرے میں پرواز کرنے کے لیے ضروری آلات استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔'

انھوں نے کہا کہ 'یونٹ کی ذمہ داریوں میں سے ایک اعلیٰ سطحی اہلکاروں کو دارالحکومت کے ارد گرد منتقل کرنا ہے۔ تاپم حادثے کے وقت کوئی بھی جہاز میں سوار نہیں تھا کیونکہ یہ ایک تربیتی پرواز تھی۔

انھوں نے مزید کہا کہ یونٹ کے پائلٹوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ڈی سی کی مصروف فضائی حدود اور 'اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے تربیت یافتہ اور پرواز کرنے میں مہارت رکھتے ہوں۔‘

بٹر ورتھ ہیز نے کہا کہ صرف تجربہ کار پائلٹ ہی فضائی حدود کے اس مصروف حصے میں تربیت حاصل کر سکتے ہیں۔

'چاہے وہ نئے نظام یا آلات کی تربیت ہو، ہمیں معلوم کرنا ہے کہ آیا پائلٹ نے ہیلی کاپٹر میں کون سا سسٹم آن کیا تھا اور کیا ان کے پاس تمام حفاظتی نظام موجود تھے یا کیا وہ کوئی نیا طریقہ کار یا نیا راستہ آزما رہے تھے۔'

طیارہ حادثے کی دردناک کہانی: ’اپنے ساتھیوں کا گوشت کھا کر زندہ رہے، ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا‘’میں نے تو کلمہ پڑھ لیا تھا‘: ایک چھوٹا سا پرندہ ہوائی جہاز کو کیسے تباہ کر سکتا ہے؟برازیل طیارہ حادثہ، تمام مسافر اور عملہ ہلاک: ’جب جہاز زمین سے ٹکرایا وہ لمحہ خوفناک تھا‘فضا میں طیارے آپس میں تصادم سے کیسے بچتے ہیں اور یہ نظام کیسے کام کرتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More