وہ گاؤں جو اسرائیل نے 200 مرتبہ تباہ کیا مگر آج بھی آباد ہے

بی بی سی اردو  |  Jan 31, 2025

HAZEM BADER/AFP via Getty Images

'یہ صورتحال بہت المناک ہے، جینا مشکل ہے کیونکہ یہاں پانی ہے نہ بجلی، انفراسٹرکچر ہے نہ تعلیم اور نہ ہی صحت کی سہولیات۔‘

آپ کو شاید لگ رہا ہو گا کہ یہ کسی غزہ کے باشندے کے الفاظ ہیں کیونکہ وہاں تقریباً 15 ماہ تک جنگ جاری رہی لیکن یہاں بات غزہ کی نہیں ہو رہی بلکہ اسرائیل کے صحرائے نقب میں واقعے گاؤں العراقیب کی ہو رہی ہے جہاں تقریباً نصب صدی سے یہ ہی حالات ہیں۔

اس علاقے کی صورتحال بتانے والے شخص کا نام عزیز سیاح ہے اور وہ اس گاؤں کے مقبول رہنما شیخ سیاح التوری کے صاحبزادے ہیں۔

آج العراقیب میں 22 خاندان آباد ہیں اور یہاں کی کُل آبادی 87 افراد پر مشتمل ہے۔

عزیز کہتے ہیں کہ اس علاقے کے لوگ یا تو ’گاڑیوں میں رہتے ہیں‘ یا پھر انھوں نے ’لکڑیوں، کپڑے اور نائیلون کی رسیوں‘ کی مدد سے اپنی رہائش کے لیے ٹینٹ نما گھر بنائے ہوئے ہیں۔

تاہم آج سے تقریباً ایک دہائی قبل اس گاؤں کی آبادی زیادہ ہوا کرتی تھی۔ عرب اور یہودی شہریوں کی جانب سے بنائی گئی ایک تنظیم نقب کوایگزسٹینس فورم فور سِول ایکوئٹِی کے مطابق جولائی 2010 میں جب اسرائیلی حکام نے یہاں گھر مسمار کیے تھے تو ایک اندازے کے مطابق یہاں کی آبادی 400 افراد پر مشتمل تھی۔

نقب کوایگزسٹینس فورم فور سِول ایکوئٹِی کا کہنا ہے کہ اس گاؤں کو ’توڑ پھوڑ، گرفتاریوں اور مقامی افراد کے خلاف ہتھیاروں کے استعمال‘ جیسے خطرات کا سامنا ہے۔

عزیز سیاح کہتے ہیں کہ صحرائے نقب میں العراقیب ’پہلا ایسا گاؤں ہے جس کے تمام گھر مسمار کر دیے گئے تھے‘ اور یہ ایک ’تجزبہ‘ تھا تاکہ مقامی آبادی کا ردِ عمل جانچا جا سکے اور پھر ایسے ہی اقدامات ایسی دیگر آبادیوں میں بھی کیے جا سکیں جنھیں اسرائیل تسلیم نہیں کرتا۔

ان کا دعویٰ ہے کہ آج بھی ’گاؤں کے افراد کو ہراسانی، ظلم اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو گرفتاریوں کا سامنا ہے۔‘

’میں نے اپنی بیٹی کا نام عراقیب رکھا‘HAZEM BADER/AFP via Getty Images

العراقیب صحرائے نقب کے شمالی علاقے میں وقع ہے اور اسے سرکاری طور پر ضلع بئر سبعکا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

تاریخ دان ڈاکٹر ابراہیم ابو جابر نے سنہ 2018 میں اپنی کتاب ’العرقیب: تاریخ، زمین اور لوگ‘ میں لکھا کہ یہ گاؤں غربِ اردن میں کوہِ ہیبرون اور غزہ کی پٹی کے درمیان واقع ہے۔

عزیز سیاح کہتے ہیں کہ یہ علاقہ تعزویراتی اعتبار سے بہت اہم ہے اور یہاں بہت سے ایسے یہودی قصبے ہیں جو العراقیب کو غربِ اردن اور غزہسے جُدا کرتے ہیں۔

گذشتہ دہائی میں العراقیب میں گھروں کو مسمار اور مقامی افراد کے املاک کو ضبط کیا جاتا رہا ہے جس کے سبب یہ علاقہ دنیا بھر میں خبروں کی زینت بنا رہا۔

جب عزیز سیاح کی اہلیہ کو علاقہ میں ایک اور آپریشن کے حوالے سے معلوم ہوا تو انھوں نے اپنی ایک بیٹی کا نام عراقیب ہی رکھ دیا۔

ان کی 47 سالہ اہلیہ کا کہنا ہے کہ ’میں نے علاقے کے حال اور تاریخ کو یاد رکھنے کے لیے اپنی بیٹی کا نام ہی عراقیب رکھ دیا۔‘

العراقیب درحقیقت کس کی ملکیت ہے؟

فلسطینی تاریخ دان ابو جابر کے مطابق العراقیب کا علاقہ متعدد عرب قبائل کی ملکیت ہے جنھیں یہ علاقہ ’شاید ہزاروں برس قبل‘ وراثت میں ملا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ گاؤں عثمانیہ دور میں قائم کیا گیا تھا۔

ایک اور فلسطینی تاریخ دان سلمان ابو ستا اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ کچھ عرصے بعد سلطنت عثمانیہ نے شام اور مصر کا بھی کنٹرول سنبھال لیا تھا اور اس کے بعد العراقیب میں بھی زمینوں پر ٹیکس عائد کیا گیا تھا۔

اسرائیل نے بئر سبع کی عدالت میں دعویٰ کیا تھا کہ ’یہ وہ صحرا ہے جس کا کوئی مالک نہیں‘ تاہم ابو ستا کہتے ہیں کہ اسرائیل کے وجود میں آنے سے 400 برس قبل جاری کی گئی سلطنت عثمانیہ کی ایک دستاویز سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہاں کے لوگ اپنی زمینوں پر ٹیکس ادا کیا کرتے تھے۔

ابو ستا کی تحقیق کے مطابق ان زمینوں میں ’خربت الجیٹھانی‘ کا علاقہ بھی شامل تھا جسے برطانیہ کے زیرِ انتظام فلسطین میں بنی عقبہ کی زمین کہا جاتا تھا اور یہاں 16وِیں صدی میں 43 خاندان آباد تھے۔

فلسطینی تاریخ دان ابو جابر نے اپنی کتاب میں لکھا کہ العراقیب کا علاقہ ایک لاکھ مربع کلومیٹر تک پھیلا ہوا تھا۔

ابو جابر کا آبائی تعلق بھی العراقیب گاؤں سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں موجود زمینیں ان قبائل میں باپ سے ان کے بیٹوں کو وراثت میں ملی تھیں اور ان کے مالکان کے پاس ’سرکاری دستاویزات‘ ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ زمینیں 1948 میں اسرائیل کے قیام سے پہلے بھی موجود تھیں۔

تاہم ابو جابر کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام نے بہت سے ’تعصب زدہ قوانین متعارف کروائے اور ان زمینوں کو ضبط کر لیا۔‘

بی بی سی نے ان حوالے سے اسرائیلی کی وزارتِ انصاف سے رابطہ بھی کیا لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

تاہم اسرائیلی تاریخ دان موردیچائی نسان کہتے ہیں کہ اسرائیلی قوانین اور پالیسی عرب شہریوں کے اپنے علاقوں میں ’واپسی کے حقوق‘ کو تسلیم نہیں کرتے۔

اسرائیلی محقق مزید کہتے ہیں کہ عرب 77 برس تک ’ہم پر جنگ مسلط کرنے کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔‘

برطانوی مینڈیٹ

اپنی تحقیق میں فلسطینی تاریخ دان سلمان ابو ستا لکھتے ہیں کہ اس گاؤں میں زمینوں کی سب سے زیادہ چوری برطانوی مینڈیٹ کے زمانے میں ہوئی جب 1921 میں ایک سروے کے ذریعے صحرائے نقب میں زمینوں کی ملکیت کی جانچ کی گئی تھی۔

ابو ستا کے مطابق اس سروے کے دوران زیادہ تر زمینوں کو بے مالک قرار دے دیا گیا۔

تاہم ابو ستا نے اپنی کتاب میں ایک انگریزی دستاویز بھی چھاپا جو اس وقت برطانیہ کی سیکریٹری آف سٹیٹ فور کالونیز ونسٹن چرچل نے 1921 میں جاری کیا تھا اور ضلع بئر سبع کے لوگوں کے روایتی حقوق کو تسلیم کیا تھا۔

اس دستاویز کا جو عربی ترجمہ ابو ستا نے کیا، وہ کچھ اس طرح سے ہے: ’دا سیکریٹری آف سٹیٹ فور کالونیز نے بئر سبع ہائی کمشنر کے سامنے کیے گئے وعدے پر زور دیا کہ یہاں کی قبائل کے روایات میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔‘

ابو ستا کی تحقیق میں 1940 کی ایک زمین کی منتقلی کا نقشہ بھی موجود ہے جس کے مطابق یہودیوں کے عرب زمین کی ملکیت حاصل کرنے پر پابندی عائد تھی۔

اس نقشے کے مطابق ایریا اے کو عرب زمین قرار دیا گیا تھا اور یہاں یہودیوں کو زمینیں رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان علاقوں میں بئر سبع کا علاقہ بھی شامل تھا اور العراقیب گاؤں بھی اس علاقے کا حصہ ہے۔

فلسطینی تاریخ دان دعویٰ کرتے ہیں کہ سنہ 1948 میں صیہونیوں نے یہاں حملہ کر دیا اور اس زمین کو ریاست کی ملکیت قرار دے دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ دوسری جانب برطانوی مینڈیٹ نے اس سے قبل کبھی اس زمین کو سرکاری ملکیت نہیں قرار دیا تھا۔

ابو ستا کہتے ہیں کہ ’اگر اسرائیل کے دعوے کے مطابق وہ بنجر زمین تھی تو پھر برطانیہ نے اسے سرکاری زمین کیوں نہیں قرار دیا تھا۔‘

’العراقیب میں قتلِ عام‘

عینی شاہدین کی گواہیوں کا استعمال کرتے ہوئے فلسطینی مصنفین اور تاریخ دان لکھتے ہیں کہ اس گاؤں میں تناؤ 1948 کے ’نکبہ‘ کے وقت شروع ہوا اور یہاں کے لوگوں کو کھیتی باڑی کرنے اور اپنی بھیڑوں کو چرانے سے روک دیا گیا تھا۔

ان کے مطابق اس دوران ’قتلِ عام‘ ہوا تھا جس میں 14 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ڈاکٹر ابراہیم ابو جابر کے مطابق موسیٰ العیار نامی ایک اسرائیلی فوجی کمانڈر مسلح افراد کے ہمراہ صرائے نقب میں گھوم رہا تھا جب انھیں 14 افراد پر مشتمل لوگوں کا ایک گروہ نظر آیا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ان آبادکاروں نے ان افراد کو ایک فوجی ٹرک میں بٹھایا اور ایک فلطسینی پناہ گزین کے خالی مکان میں لے گئے اور ان 14 افراد کو وہاں قتل کر دیا گیا۔

فلسطینی تاریخ دان کے مطابق تمام افراد کو پہلے چاقو سے قتل کیا گیا تھا اور بعد میں گولیاں ماری گئیں۔

عزیز سیاح کہتے ہیں کہ اسرائیلی ریاست نے کبھی اس قتلِ عام کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی مرنے والوں کے خاندانوں سے مفاہمت کی کوشش کی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس قتلِ عام کے ذمہ دار کی بھی شناخت کر لی گئی تھی اس کے باوجود بھی تاریخ دانوں نے اس پر توجہ نہیں دی کیونکہ اس وقت یہ علاقہ یروشلم اور غربِ اردن سے دور تھا۔‘

مروان البرغوثی: دہائیوں سے جیل میں قید ’فلسطینی نیلسن منڈیلا‘ کی رہائی کی بازگشت اور ’اسرائیلی توقعات‘اسرائیلی یرغمالی خواتین کی رہائی کے مناظر 15 ماہ کی جنگ کے بعد حماس کے بارے میں کیا بتاتے ہیں؟اسرائیلی فوجیوں کی رہائی کی تقریب: مسکراتی خواتین، گفٹ بیگز اور حماس کا اسرائیل کو ’خاموش پیغام‘وحدۃ الظل: غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت پر مامور حماس کا پراسرار دستہقانونی تنازع

ڈاکٹر ابراہیم ابو جابر کہتے ہیں کہ اسرائیلی حکام نے سنہ 1951 میں فوجی حکومت کے دوران العراقیب کے رہائشیوں کو اس جھانسے میں پھنسایا کہ وہ مہینوں پر محیط عسکری ٹریننگ کے اختتام کے بعد اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے۔

ان کے مطابق اس کے بعد اس علاقے کے رہائشی ایک سے زائد مرتبہ اپنے گھروں کو واپس آئے لیکن انھیں ایک مرتبہ پھر نقل مکانی پر مجبور کیا گیا۔

سنہ 1952 اور 1953 کے درمیان اسرائیلی حکام نے العراقیب کی زمین کو بطور ریاستی پراپرٹی رجسٹر کر لیا اور بعد میں اسے لینڈ ایکویزیشن لا قرار دے دیا گیا۔

اسی برس اسرائیل حکام نے العراقیب کی زمین ایک یہودی کمپنی کو کھیتی باڑی کے لیے دے دی۔

عزیز سیاح اسرائیلی حکام پر زمین کے ’فراڈ‘ کا الزام لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ گاؤں کے رہائشیوں نے اپنے خاندانوں کو بتایا تھا کہ انھیں چھ سے سات مہینوں کے لیے اپنی جگہ سے ایک کلومیٹر شمال میں منتقل ہونے کا کہا گیا اور پھر اسی دوران ’فوجی دورِ حکمرانی میں نئے قوانین جاری کر دیے گئے۔‘

عزیز سیاح کہتے ہیں کہ ’اس وقت جس زمین پر اس کا مالک موجود نہیں تھا اسے بے نامی قرار دیا گیا اور پھر اسے حکومتی ملکیت میں لے لیا گیا۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ کوئی نیا قانون متعارف کروایا گیا ہے جس کے تحت خالی زمین ریاستی ملکیت تصور کی جائے گی۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ جب مقامی افراد نے اپنے علاقے میں واپسی کی کوشش کی تو انھیں فوجی گورنر نے کہا کہ انھیں اس زمین کا ’کرایہ‘ ادا کرنا پڑے گا۔

’العراقیب کے لوگوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایسا کرنا یہ ماننے کے مترادف ہوگا کہ یہ زمین ہماری نہیں۔‘

بی بی سی نے العراقیب کی قانونی حیثیت جاننے کے لیے اسرائیل کی وزارتِ انصاف سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

دوسری جانب اسرائیلی تاریخ دان موردیچائی نسان کہتے ہیں کہ العراقیب کا معاملہ ’پیچیدہ نہیں‘ اور اس علاقے کے لوگ ’اسرائیل کو بدنام کرنے کے لیے‘ اس کہانی کا استعمال کرتے ہیں۔

’انھوں نے پرندوں سمیت سب کو تباہ کر دیا‘

العراقیب کے لوگ 1990 کی دہائی میں اپنے گاؤں واپس آ گئے تھے لیکن اسرائیلی حکومت اس گاؤں سمیت متعدد علاقوں کی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتی اور اسی لیے یہاں بجلی اور پانی تک فراہم نہیں کیا جاتا۔

تاہم العراقیب کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اس ’غیرمنصفانہ‘ عمل کے باوجود وہ یہاں برسوں سے رہ رہے ہیں اور تعلیم اور صحت کی سہولیات راحت شہر میں حاصل کرتے ہیں جو ان کے علاقے سے 10 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔

عزیز سیاح کہتے ہیں کہ العراقیب میں بجلی پیدا کرنے کے لیے جنریٹروں کا استعمال کیا جاتا تھا اور پیٹرول پر ہونے والا خرچہ یہاں رہائش پزیر خاندان مل کر اُٹھاتے تھے۔

ان کے مطابق یہاں ہر بچے کے پاس اپنا لیپ ٹاپ بھی تھا لیکن پھر اچانک 27 جولائی 2010 کو پورے گاؤں کو مسمار کر دیا گیا اور تمام چیزیں ضبط کر لی گئیں۔

ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ کے مطابق العراقیب کے لوگوں کو پولیس نے زبردستی گھروں سے نکالا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق علاقے میں ’46 گھر مسمار کیے گئے تھے، ہزاروں زیتون کے اور دیگر درخت اکھاڑ دیے گئے تھے، جنریٹرز، ریفریجریٹرز اور گاڑیوں کو قبضے میں لے لیا گیا تھا۔‘

عزیز سیاح اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنا گھر، اپنی ڈائریاں، ذاتی دستاویزات، کچن کے برتن، ٹی وی، ریفریجریٹر اور سب کچھ کھو دیا۔ یہ تمام سامان ماں، باپ اور چھ بچوں کا اثاثہ تھے اور اب لوگ یہ چیزیں دوبارہ نہیں خرید سکتے۔‘

عزیز کی اہلیہ اس واقعے کو ’نسل کشی‘ قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اسرائیلی حکام نے سب کچھ تباہ کر دیا، گھر، درخت اور یہاں تک کے پرندوں کو بھی۔‘

دوسری جانب اسرائیلی تاریخ دان موردیچائی نسان دعویٰ کرتے ہیں کہ تقریباً 200 مرتبہ العراقیب سے عربوں کو اس لیے نکالا گیا کیونکہ انھوں نے ’ناجائز تعمیرات‘ کر رکھی تھیں۔

جب عدالت نے گاؤں والوں کو ہی حکومت کو پانچ لاکھ ڈالر جرمانہ دینے کو کہاGetty Images

صباح نے کہا کہ اسرائیلی حکام العراقیب کے باقی ماندہ باشندوں کو ان کے آباؤ اجداد کے دور میں لے گئے جہاں ’خیمے میں اب باپ، بیٹا، بیٹی اور پوتا سب ہی موجود ہوتے ہیں‘ اور وسائل کی کمی کی وجہ سے یہاں پرائیویسی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

صباح کے مطابق گیس اور دیگر اشیا یہاں انھیں مفت فراہم کر دی جاتی ہیں لیکن العراقیب میں لوگ جس چیز کو ترستے ہیں وہ ذہنی سکون ہے جس کے بغیر زندگی بے مزہ ہے۔

صباح کے مطابق وہ لوگ جو یہ آپریشن کرتے ہیں وہ اپنی چھاتی پر کیمرے لٹکائے رکھتے ہیں جن میں تمام تفصیلات ریکارڈ کی جاتی ہیں اور گاؤں کے لوگوں کو اس دوران ٹینٹس اور گھروں میں کسی بھی چیز کو ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں ہوتی حالانکہ ان میں صرف سامان رکھنے کی اشیا، پلیٹیں اور دیگر عام اشیا موجود ہوتی ہیں۔

عزیز السیاح نے مکان گرانے کے احکامات کو ’پیچیدہ‘ قرار دیا۔ جو شخص یہ احکامات دیتا ہے وہ اسرائیلی لینڈز اتھارٹی میں انسپکٹر ہے جبکہ جو شخص مکان منہدم کرتا ہے وہ کنٹریکٹر ہوتا ہے جسے اسرائیلی پولیس کے یونٹ ’یوآو‘ کی جانب سے تحفظ دیا جاتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مئی 2024 میں رپورٹ کیا تھا کہ النقب میں زبردستی لوگوں کو نکالنے اور ان کے گھروں کو منہدم کرنے کے لیے اسرائیلی پولیس یونٹ ’یوآو‘ کو 'قانون نافذ کروانے اور بغیر لائسنس کے گھروں کی تعمیر روکنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔

ادارے نے النقب میں متعدد گاؤں سے لوگوں کو ’شہری تعمیر و ترقی کے پردے میں‘ گھروں سے نکالنے کے عمل کو اسرائیل حکام کا ’بدو قبائل کو وہاں سے ہٹانے، ان کے حقوق پامال کرنے اور انھوں کم سے کم جگہ پر رہنے پر مجبور کرنے کا ایک طریقہ قرار دیا۔‘

عزیز السیاح کہتے ہیں کہ ’جس وجہ سے صورتحال مزید خراب ہوئی وہ یہ تھی کہ عدالت نے فیصلہ کیا کہ گھروں کو منہدم کرنے کے پہلے آٹھ آپریشنز کی مد میں العراقب کے لوگوں کو اسرائیلی حکومت کو لگ بھگ پانچ ملین ڈالر دینے ہوں گے۔

سنہ 2018 میں عدالت نے عزز السیاح کے والد شیخ سیاح مادیغم الطوری کو 10 ماہ قید کی سزا سنائی اور 11 ہزار ڈالر جرمانہ کیا۔

ایک اور مقدمے میں عزیز السیاح اور ان کی اہلیہ کو العراقب گاؤں میں رہنے سے روک دیا گیا تاہم اس کے باوجود وہ یہاں قبرستان اور کنوئیں تک آتے رہے اور وہاں ہونے والی خلاف ورزیوں کو بھی مانیٹر کرتے رہے۔

Getty Imagesاسرائیل کو العراقب سے کیا ڈر ہے؟

عزیز السیاح نے قانونی کوششوں کے ناکام ہونے کے بعد، اسرائیلی عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اسرائیل میں قوانین موجود ہیں لیکن ایسا کوئی قانون نہیں جو عربوں کے ساتھ زمین کی ملکیت کے حوالے سے انصاف کرتا ہو۔‘

عزیز نے ایک کہانی سنائی کہ ان کے بقول العراقیب کی طرح النقب کے غیر تسلیم شدہ گاؤں ’زرنوقہ‘ میں پیش آئی جہاں ایک یہودی نے، ریاست اسرائیل کے قیام سے پہلے، ایک بدو سے زمین کا ایک ٹکڑا خریدا۔ اسرائیلی حکام نے اس کی زمین کی ملکیت کو تو تسلیم کر لیا لیکن انھوں نے باقی بدو قبائل کی اس گاؤں میں باقی زمینوں کے دستاویزات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’یہاں اسرائیلی عدالتوں میں عرب اقلیت کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ عدلیہ کو بھی ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے ایک سے زیادہ بار فائلوں کو کھولنے کی کوشش کی لیکن ریاست ان فائلوں کو ہمارے خلاف استعمال کر رہی ہے، جن میں سے تازہ ترین زمین کی ملکیت کی فائلز ہیں، اس پر آج تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔‘

بی بی سی نے ان الزامات پر مؤقف جاننے کے لیے اسرائیلی وزارت انصاف سے رابطہ کیا تھا تاہم تاحال کوئی جواب نہیں ملا۔

انسانی حقوق کے قوانین کے ایک اسرائیلی ماہر مائیکل اسفارڈ نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سچ پوچھیں تو میرے خیال میں عدالتی حکام نے ہمیں ان پر اعتماد کرنے کی کوئی وجہ نہیں دی۔‘

العراقیب کمیونٹی کے وکیل، سفارڈ نے بی بی سی کو مزید کہا کہ اسرائیل کی جانب سے العراقیب کو تسلیم کرنے سے انکار کی سیاسی وجہ یہ ہے کہ حکام کو خدشہ ہے کہ العراقیب اپنی زمینوں پر دوبارہ دعویٰ کرنے کے لیے ’بہت سے دوسرے باشندوں کے لیے متاثر کن مثال‘ قائم کرے گا۔

انھوں نے کہا کہ اسرائیل یہ زمینیں ’یہودی برادریوں کی ترقی‘ کے لیے اپنے کنٹرول میں لینا چاہتا ہے اور عرب بدوؤں کو زمین کے بڑے رقبے کی ملکیت کے بجائے ’چھوٹے، گھنے علاقے‘ میں قید کرنا چاہتا ہے۔

موردچائی نسان نے العراقیب کے مکینوں کی اپنی زمینوں پر قائم رہنے پر تنقید کی اور ان کا موازنہ الجلیل کے گاؤں کفر بیریم کے رہائشیوں سے کیا جو 1948 کے دوران بے گھر ہونے والے مشہور گاؤں میں سے ایک ہے۔

اسرائیلی محقق کا کہنا تھا کہ اس گاؤں کے رہائشی مسیحی برادری کے مارونی فرقے سے تعلق رکھتے تھے اور ان افراد کو 1948 کی جنگ میں اسرائیلی فوج کے حکم سے وہاں سے جانے پر مجبور کیا گیا تھا۔

ان کے مطابق ’ان کی یہودیوں سے کوئی دشمنی نہیں تھی‘ اور اگرچہ اسرائیلی عدالت نے ان کی اپنے گھروں کو واپس جانے کا حق منظور کر لیا تھا لیکن اسرائیلی حکومت نے اس کی اجازت نہیں دی۔

نسان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس سے بڑے پیمانے پر عربوں کی دیہات میں واپسی کی ایک خطرناک مثال قائم ہو گی جو کہ 1948 سے پہلے یہاں موجود تھے۔‘

اسرائیلی مورخ نے مزید کہا کہ مارونیوں نے اس کے بعد سے حکومت کے خلاف کوئی مظاہرہ یا حملہ نہیں کیا، بلکہ وہ پڑوسی شہر جیش میں مقیم رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ریاست کا احترام کرتے ہیں اور اس کی قانونی حیثیت کو پوری طرح تسلیم کرتے ہیں لیکن العراقیب ایک مختلف معاملہ ہے۔‘

عزیز سیاح نے کہا کہ العراقیب کے باشندے اسرائیل کی ریاست کے شہری ہیں لیکن یہ ریاست ہمیں ایک ایسے شہری کے طور پر نہیں دیکھتی جس کے حقوق ہیں۔ انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ’ہم اپنے آپ دستیاب ذرائع سے اس کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے۔ پرامن ذرائع۔‘

صبر اور چیلنجGetty Images

صباح کا کہنا ہے کہ ان سے چھ بار پوچھ گچھ کی گئی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اس دوران انھوں نے مجھے ٹارچر رومز سے ڈرایا‘ تاہم وہ کہتی ہیں کہ وہ تھکاوٹ محسوس کرنے کے باوجود ’ہتھیار نہیں ڈالیں گی۔‘

ان کے شوہر عزیز سیاح الطوری نے اس امید کا اظہار کیا کہ العراقیب گاؤں کو تسلیم کر لیا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہخاص طور پر جب النقب میں حال ہی میں درجنوں دیہات کو ’ہر چھ گاؤں کی علاقائی کونسل‘ کے تحت تسلیم کیا جا چکا ہے۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’یہ پہچان نامکمل ہے‘ کیونکہ ’ان دیہات میں مکانات بنانے یا ان کے لیے لائسنس جاری کرنے کی اجازت نہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ العراقیب کا مسئلہ ایک قسم کے چیلنج میں بدل گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’1948 سے 2010 تک العراقیب گاؤں کے علاوہ کوئی بھی گاؤں مکمل طور پر مسمار نہیں کیا گیا اور لوگ وسائل کی کمی کے باوجود صبر کرنا چاہتے اور چیلنج کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔‘

ان کی اہلیہ جو اب چھ بچوں کی ماں ہیں، کہتی ہیں کہ اگرچہ ان کی دو بیٹیاں شادی شدہ ہیں لیکن وہ پھر بھی العراقیب آتی ہیں کیونکہ یہاں ان کے بچپن کی یادیں موجود ہیں۔

صباح نے اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کے تحفظ اور امن کے ساتھ رہنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد ’جنھوں نے زمانہ قدیم سے اس زمین کو خریدنے کے لیے بہت جدوجہد کی اور بہت قربانیاں دیں‘ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دیں گی۔

اسرائیلی قانون دان سفارڈ کا کہنا ہے کہ ’بین الاقوامی قانون وہ واحد معیار ہے جو العراقیب جیسی مقامی برادریوں کو وہ وقار اور حقوق فراہم کرتا ہے جس کے وہ حقدار ہیں۔‘

عزیز سیاح الطوری نے کہا کہ ’ہمیں پورا یقین ہے کہ العراقیب کو جلد تسلیم کر لیا جائے گا اور اگر اسرائیلی ریاست ہمیں تسلیم نہیں کرتی تو ہم خود ہی تسلیم کر لیں گے۔‘

وحدۃ الظل: غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت پر مامور حماس کا پراسرار دستہ’ہم اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے‘: ٹرمپ کا غزہ کو ’پاک کرنے‘ کا منصوبہ جسے مصر اور اردن مسترد کر چکے ہیںاسرائیلی فوجیوں کی رہائی کی تقریب: مسکراتی خواتین، گفٹ بیگز اور حماس کا اسرائیل کو ’خاموش پیغام‘غزہ میں ’ناقابلِ شناخت‘ لاشوں کی ہڈیوں کی مدد سے تلاش کی کہانی: ’میری بیٹی کا جسم قبر سے کیسے باہر آیا اور کتوں نے اُسے کیسے کھا لیا‘اسرائیلی یرغمالی خواتین کی رہائی کے مناظر 15 ماہ کی جنگ کے بعد حماس کے بارے میں کیا بتاتے ہیں؟مروان البرغوثی: دہائیوں سے جیل میں قید ’فلسطینی نیلسن منڈیلا‘ کی رہائی کی بازگشت اور ’اسرائیلی توقعات‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More