Reutersحماس نے اس ماہ کے شروع میں ایملی ڈاماری اور ڈورون سٹین بریچر کو حوالے کیا تھا
یہ سب ایک فون کال سے شروع ہوتا ہے۔
تفصیلات موصول ہونے کے بعد ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (آئی سی آر سی) کی ایک ٹیم غزہ میں یرغمالیوں کو اٹھانے کے لیے امدادی تنظیم کے لوگو والی گاڑیوں میں روانہ ہوتی ہے۔
اسرائیلی فوج اور طبی عملہ بھی کئی مختلف مقامات پر جمع ہے اور انھیں وطن واپس لانے کا انتظار کر رہا ہے۔
یرغمالیوں کی رہائی کا عمل کئی ماہ تک جاری رہنے والے کشیدہ مذاکرات کے بعد سامنے آیا جس کا مقصد 7 اکتوبر 2023کو شروع ہونے والی جنگ کو ختم کرنا تھا۔ اس حملے میں حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل میں تقریباً 1200 افراد کو ہلاک اور 251 کو اغوا کیا تھا۔
حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق اس کے بعد کے 15 ماہ میں غزہ میں 47 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے اور اسرائیلی بمباری میں مزید کئی افراد اپنے گھروں سے محروم ہو گئے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان 19 جنوری کو شروع ہونے والے جنگ بندی معاہدے کی شرائط کے تحت پہلے مرحلے کے دوران مجموعی طور پر 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا اور انھیں ان کے اہل خانہ کے حوالے کیا جائے گا۔
اس کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔
لیکن اگر کچھ بھی غلط ہو جائے تو اس سے یرغمالیوں کے قید میں ہی رہنے اور جنگ دوبارہ شروع ہونے کا خطرہ ہے۔
آئی سی آر سی کی ترجمان سارہ ڈیوس کا کہنا ہے کہ ’یہ کام آسان لگ سکتا ہے لیکن حقیقت میں یہ بہت پیچیدہ ہے اور اس میں ملوث افراد کو خطرات کو کم سے کم کرنے کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
حوالگی میں غیر جانبدار ثالث کے طور پر کام کرنے والی تنظیم آئی سی آر سی ماہرین کی ایک ٹیم کو اکھٹا کرتی ہے جن میں سے کچھ ماضی میں اسی طرح کے آپریشنز میں شامل رہے ہیں، تاہم یہ ان آپریشنز سے کہیں زیادہ مشکل ہے اور یہ ان کے لیے ایک امتحان ثابت ہوتا ہے۔
Getty Images19 جنوری کو غزہ شہر میں تین اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک ہجوم جمع ہوا اہم منصوبہ بندی
کچھ تفصیلات ایسی ہیں جن کے بارے میں تنظیم سرِ عامبات نہیں کر سکتی کیونکہ خدشہ ہے کہ ان کی وجہ سے اس آپریشن کی سلامتی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
ڈیوس کہتی ہیں کہ تبادلے کے عمل کو آسانی سے انجام دینے کو یقینی بنانے کے لیے منصوبہ بندی بہت ضروری ہے۔
انھوں نے غزہ میں مختلف مقامات تک جانے کے لیے متبادل راستوں کا نقشہ تیار کیا ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ ’محفوظ ترین راستہ کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتا ہے۔‘
انھیں سب سے زیادہ تشویش علاقے میں موجود ایسے بموں کے بارے میں ہے جو پھٹے نہیں ہیں۔ ان خدشات میں تباہ شدہ عمارتیں اور جذبات سے مغلوب لوگوں کی موجودگی سے پیدا ہونے والے خطرات شامل ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہماری ٹیمیں زیادہ سے زیادہ ممکنہ حالات کے لیے تیاری اور منصوبہ بندی کرتی ہیں۔ ہمارے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری دیکھ بھال میں سونپے گئے کسی بھی شخص کو بحفاظت ان کے گھروں کو واپس بھیج سکیں۔ لیکن ہر چیز کے لیے منصوبہ بندی کرنا ناممکن ہے۔'
ڈیوس کہتی ہیں کہ 'یہاں اور دنیا بھر کے دیگر مقامات پر ماضی کےتجربے سے ہم جانتے ہیں کہ لاجسٹکس اور حتمی تفصیلات کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتی ہیں، یہاں تک کہ آپریشنز کے دوران بھی۔ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔'
طبی عملہ اور ہتھیاروں کے ماہرین جو جنگ کی دھماکہ خیز باقیات کی نشاندہی کرنے میں تربیت یافتہ ہیں، ٹیموں کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔
کارروائیوں کے دوران آئی سی آر سی کے نمائندے اسرائیلی حکام اور حماس کے ساتھ ساتھ ثالثوں کے ساتھ بھی باقاعدگی سے رابطے میں رہتے ہیں۔
BBC
اس سے قبل حماس نے اپنے ٹیلی گرام چینلز پر رہائی پانے والے یرغمالیوں کے نام پیشگی جاری کیے تھے اور یہ نہیں بتایا تھا کہ یرغمالیوں کی حوالگی کہاں کی جائے گی۔
ان مقامات کی پہلی عوامی نشانی حماس کے عسکری ونگ کے مسلح اور نقاب پوش ارکان کی موجودگی ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں غزہ شہر میں پہلی ریلیز کے بارے میں ایک مقامی صحافی کا کہنا تھا کہ ’مجھے ایک شخص سے پتہ چلا کہ جنکشن پر کچھ ہو رہا ہے اور القسام کے جنگجو پریڈ کر رہے ہیں۔
’جنگجوؤں کے جمع ہونے کے ساتھ ہی ہجوم جمع ہونا شروع ہو گیا اور یہ خبر پھیلنے لگی کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت رہا کیے گئے پہلے تین یرغمالی وہاں نظر آئیں گے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جب لوگوں کو احساس ہوا کہ یہ وہ جگہ ہوگی جہاں وہ اسرائیلی یرغمالیوں کو حوالے کریں گے تو لوگوں نے (القسام اور حماس کے سینئر رہنماؤں کے لیے) نعرے لگانا شروع کر دیے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کتنے خوش تھے۔‘
وحدۃ الظل: غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت پر مامور حماس کا پراسرار دستہاسرائیلی فوجیوں کی رہائی کی تقریب: مسکراتی خواتین، گفٹ بیگز اور حماس کا اسرائیل کو ’خاموش پیغام‘’ہم اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے‘: ٹرمپ کا غزہ کو ’پاک کرنے‘ کا منصوبہ جسے مصر اور اردن مسترد کر چکے ہیںغزہ میں ’ناقابلِ شناخت‘ لاشوں کی ہڈیوں کی مدد سے تلاش کی کہانی: ’میری بیٹی کا جسم قبر سے کیسے باہر آیا اور کتوں نے اُسے کیسے کھا لیا‘Getty Imagesحماس کے جنگجوؤں نے 25 جنوری کو غزہ شہر میں چار اسرائیلی فوجیوں کو حوالے کیا
ایک صحافی بھی غزہ شہر کے ایک دوسرے مقام پر دوسری رہائی کے لیے موجود تھے، جسے وہ 'زیادہ منظم' قرار دیتے ہیں۔
جنگجوؤں نے ایک میز اور کرسیوں کے ساتھ ایک چھوٹا سا سٹیج قائم کیا اور یرغمالیوں کو ہجوم سے الگ کرنے کے لیےقطار میں کھڑے ہو گئے۔
یرغمالیوں کو علاقے میں لانے کے لیے سفید گاڑیوں کا استعمال کیا گیا جن کی کھڑکیاں سیاہ تھیں۔
حماس کے عسکری ونگ کی جانب سے شائع ہونے والی ایک ویڈیو میں نوجوان خواتین کو اپنے اغوا کاروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اور تحفے کے تھیلے دیتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
انھیں سٹیج پر لایا گیا اور آئی سی آر سی کی تحویل میں دینے سے پہلے پرجوش ہجوم کی طرف ہاتھ ہلایا گیا۔ حماس کے ترجمان عبداللطیف القنو نے بعد میں ایک بیان میں کہا کہ یہ مناظر اور تفصیلات ’مزاحمتی تخلیقی صلاحیتوں، بہادری اور فخر اور وقار کی کہانی بیان کرتی ہیں۔‘
ڈیوس کا کہنا ہے کہ حوالگی کے کچھ پہلو ایسے ہیں جو ’ہمارے کنٹرول سے باہر‘ ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’آئی سی آر سی کا عملہ ہمیشہ رہائی پانے والوں کے وقار کی حفاظت کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ لوگ یہ سمجھیں ک ہماری حدود کیا ہیں۔'
'ہماری ترجیح ہماری تحویل میں موجود افراد کی محفوظ اور کامیاب رہائی اور منتقلی ہے۔'
یرغمالیوں کو غزہ کے مضافات میں اسرائیلی دفاعی افواج کے حوالے کیا گیا۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز کی میڈیکل کور کے ڈپٹی چیف کرنل ڈاکٹر اوی بانوو کا کہنا ہے کہ ’ہم غزہ کے مضافات اور دیگر علاقوں میں یرغمالیوں کے استقبال کے لیے تیار ہیں۔ ہم ہمیشہ تیاری کرتے ہیں کیونکہ حماس ہمیں یہ نہیں بتاتی کہ وہ کس جگہ یا علاقے میں انھیں آزاد کرنےوالی ہے۔‘
ان کے استقبال کے لیے سرحد پار استقبالیہ پوائنٹس قائم کیے گئے ہیں۔ جائے وقوعہ پر فوجی اور طبی عملہ، سماجی کارکن اور یرغمالیوں کے اہل خانہ موجود ہیں۔
Getty Imagesجب انھیں ریڈ کراس ٹیم کے حوالے کیا گیا تھا
نومبر 2023 کی جنگ بندی کے دوران یرغمالیوں کی واپسی کی پہلی کارروائی میں شامل اسرائیلی فوج کے ایک سابق ڈاکٹر کو یاد ہے کہ وہ سرحد کے قریب ایک اڈے پر ایمبولینس کے پاس انتظار کر رہے تھے۔
وہ ان متعدد ٹیم ارکان میں سے ایک تھے جو یرغمالیوں میں کسی کو طبی ایمرجنسی کی صورت مدد دینے کے لیے تیار تھے اور ان کا کہنا ہے کہ واپس آنے والوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے بارے میں سخت ہدایات تھیں۔
وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’ہم سے کہا گیا تھا کہ اگر آپ انھیں وہاں سے نکالیں، ان سے سوال نہ پوچھیں، کچھ بھی نامناسب نہ کریں، صرف خاموش رہیں اور پھر اگر یرغمالی آپ سے کچھ پوچھتے ہیں یا کچھ چاہتے ہیں، تو یقینا آپ جواب دیں گے لیکن کم سے کم بات کرو۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ماحول جوش و خروش سے بھرا ہوا تھا۔ ’یہ ایک بہت اہم مشن تھا۔‘
کرنل ڈاکٹر بانوو کا کہنا ہے کہ واپسی کا آغاز یرغمالیوں اور طبی عملے کے درمیان تعارف سے ہوتا ہے۔
واپس آنے والے یرغمالیوں کو ایک ڈاکٹر، ایک نرس اور ایک سماجی کارکن دیا گیا ہے جو انھیں ہسپتال لے جانے کے لیے ’تمام راستے میں ان کے ساتھ‘ رہیں گے۔
اہل خانہ کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ یرغمالیوں کو دوبارہ ملنے سے پہلے طبی ٹیموں کے ساتھ’تھوڑا سا وقت‘ دیں تاکہ وہ ’سنبھل سکیں اور سمجھ سکیں کہ وہ دوبارہ محفوظ جگہ پر ہیں۔‘
Israeli Armyرہائی پانے والے یرغمالی، جن میں کرینہ ایریف کی تصویر بھی شامل ہے اپنے اہل خانہ کے ساتھ دوبارہ مل گئے یرغمالیوں کی خاندان کو حوالگی
کرنل ڈاکٹر بانوو کا کہنا ہے کہ ’ہم وٹامنز سے شروعات کرتے ہیں، کھانے پینے کے لیے کچھہلکا پھلکا دیتے ہیں اور پھر خاندانوں سے ملاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’گراؤنڈنگ‘ کے عمل کے ایک حصے کے طور پر رہائی پانے والے یرغمالیوں کو اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار دینے کی کوشش کی جاتی ہے، جس میں یہ سوالات بھی شامل ہوتے ہیں کہ ’کیا آپ اپنے والدین سے ملنے سے پہلے یا بعد میں غسل کرنا چاہیں گے؟‘
ان کا کہنا ہے کہ رہائی پانے والے پہلے سات یرغمالیوں میں سے زیادہ تر کو ’کسی نہ کسی طرح کے زخم‘ آئے تھے اور ساتھ ہی وہ غذائی قلت کا شکار تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’وہ جسمانی طور پر ٹھیک نہیں ہیں، ذہنی طور پر یہ ایک بہت پیچیدہ مسئلہ ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ آنے والے ہفتوں میں ہلاک ہونے والے یرغمالیوں کی لاشیں بھی پہنچ جائیں گی اور اسرائیل میں تدفین سے قبل انھیں فرانزک لیبارٹری منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
استقبالیہ مقام پر ابتدائی علاج کے بعد، زندہ بچ جانے والے یرغمالیوں کو ’خصوصی‘ ہیلی کاپٹر میں ملک کے کسی اور ہسپتال میں منتقل کیا جاتا ہے۔
کرنل ڈاکٹر بانوو کہتے ہیں ’ہم انھیں بتاتے ہیں، ہم ایک ہیلی کاپٹر پرگھر واپس جائیں گے۔ اور اگر آپ ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں تو ہم اس بارے میں بات کرنا شروع کریں گے جس سے آپ گزرے ہیں۔‘
اس کے بعد ان کی بحالی کا عمل شروع ہوتا ہے۔
حماس کا ’خفیہ یونٹ‘ اور وہ ’ایلیٹ اسرائیلی ہتھیار‘ جو یرغمالیوں کی رہائی کے دوران القسام بریگیڈ کے ہاتھوں میں نظر آیاوحدۃ الظل: غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی حفاظت پر مامور حماس کا پراسرار دستہ’ہم اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے‘: ٹرمپ کا غزہ کو ’پاک کرنے‘ کا منصوبہ جسے مصر اور اردن مسترد کر چکے ہیں’ہم اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے‘: ٹرمپ کا غزہ کو ’پاک کرنے‘ کا منصوبہ جسے مصر اور اردن مسترد کر چکے ہیںاسرائیلی فوجیوں کی رہائی کی تقریب: مسکراتی خواتین، گفٹ بیگز اور حماس کا اسرائیل کو ’خاموش پیغام‘