دکانوں پر ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ مشین لازمی قرار، ایف بی آر کو کتنا فائدہ ہوگا؟

اردو نیوز  |  Jan 31, 2025

اسلام آباد کے رہائشی حیدر علی (فرضی نام) نے اپنی ہمشیرہ کی شادی کی تیاریوں کے سلسلے میں راولپنڈی کے ایک بڑے شاپنگ مال سے اڑھائی لاکھ روپے کی خریداری کی۔اُنہوں نے مختلف دکانوں سے ملبوسات خریدے اور فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کی تصدیق شدہ پوائنٹ آف سیل کی رسیدیں حاصل کیں۔

وہ اپنی فیملی کے ساتھ خریداری مکمل کرنے کے بعد گھر پہنچے اور ایف بی آر کی ٹیکس آسان ایپ پر ریٹیلرز کی جانب سے دی گئی پوائنٹ آف سیل رسیدیں سکین کرنے لگے تاکہ پوائنٹ آف سیل کے تحت خریداری کرنے والے شہریوں کے لیے انعامی رقم کی قرعہ اندازی میں رجسٹر ہو سکیں۔اُنہوں نے جب مختلف رسیدوں کو ایف بی آر کے ایپ میں سکین کیا تو 10 میں سے 9 رسیدیں جعلی نکلیں کیونکہ ٹیکس آسان ایپ ان رسیدوں کے کیو آر کوڈ کو سکین نہیں کر سکا اور انہیں جعلی قرار دیا۔پاکستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے کے مرکزی ادارے ایف بی آر نے ریٹیلرز کے پوائنٹ آف سیل سے منسلک ہونے کو ضروری قرار تو دے رکھا ہے، تاہم اب بھی اکثر ریٹیلرز یا تو پی او ایس سے منسلک نہیں ہیں یا پھر وہ جعلی پی او ایس کی رسید بنا کر گاہکوں کو دے رہے ہیں۔اس تناظر میں ایف بی آر نے پوائنٹ آف سیل سے منسلک ریٹیلرز کے لیے بڑے پیمانے پر تبدیلیاں متعارف کروائی ہیں اور سیلز ٹیکس رولز 2006 میں ترمیم کے لیے ایس آر او 69 (ایل) 2025 جاری کیا گیا ہے۔ اس ایس آر او کے تحت تمام ریٹیلرز کو ایف بی آر کے کمپیوٹر سسٹم سے منسلک کیا جائے گا اور اُن کی تمام ٹرانزیکشنز کی نگرانی کی جائے گی۔ٹیکس ماہرین کے مطابق ایف بی آر کا یہ اقدام تاجروں اور صارفین کے درمیان ہونے والے لین دین کو ڈاکیومنٹ کرنے کے لیے ہے تاکہ وہ اُس حساب سے ٹیکس اکٹھا کر سکیں۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ ایف بی آر تاجروں کا اعتماد بڑھا کر اُن سے ٹیکس کا حصول ممکن بنا سکتا ہے ڈرا دھمکا کر نہیں۔

حکام کا کہنا ہے کہ ’پوائنٹ آف سیل پر ٹرانزیکشنز کی سی سی ٹی وی سے نگرانی بھی کی جائے گی‘ (فائلہ فوٹو: اے ایف پی)

ایف بی آر کے سیلز ٹیکس رولز کی ترامیم میں مزید کیا ہے؟بدھ کو فیڈرل بورڈ آف ریوینیو کی جانب سے جاری کردہ سیلز ٹیکس رولز 2006 میں ترمیم کے نوٹیفکیشن کے مطابق تمام ریٹیلرز ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ سمیت ہر قسم کی آن لائن ٹرانزیکشنز کو قبول کریں گے۔ایف بی آر کی جانب سے رجسٹرڈ ریٹیلرز کا ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ سمیت ہر قسم کی ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ مرتب کیا جائے گا اور پوائنٹ آف سیل پر ٹرانزیکشنز کی سی سی ٹی وی سے نگرانی بھی کی جائے گی۔ایف بی آر نے تاجروں کو پابند کیا ہے کہ وہ  ای انوائسنگ ہارڈ ویئر اور سوفٹ ویئر کو ایف بی آر کے سسٹم سے منسلک کریں۔سیلز ٹیکس میں ترامیم کے نوٹیفیکشن کے مطابق پوائنٹ آف سیل کا یومیہ، ہفتہ وار اور ماہانہ ڈیٹا مرتب کیا جائے گا۔ریکارڈ میں کسی بھی تبدیلی، ترمیم یا منسوخی کی مانیٹرنگ کی جائے گی۔نوٹیفیکیشن میں مزید بتایا گیا ہے کہ ریٹیلرز کے سسٹم میں کسی قسم کے فراڈ یا گڑبڑ کی صورت میں الیکٹرانک انوائس سوفٹ ویئر ایف بی آر کو الرٹ جاری کرے گا۔ ایف بی آر کے مطابق ’ریٹیلرز کی جانب سے ٹرانزیکشنز کا ایک ماہ تک ریکارڈ محفوظ کرنا ضروری ہوگا اور یہ معلومات طلب کرنے پر متعلقہ ٹیکس کمشنر کو فراہم کرنا ہوں گی۔‘

ماہرین کہتے ہیں کہ ’ایف بی آر کروڑوں تاجروں کو زبردستی اس نظام کے ساتھ منسک نہیں کروا سکتا‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

سابق وزیر مملکت اور ماہر معیشت ہارون شریف نے ایف بی آر کی جانب سے سیلز ٹیکس میں متعارف کروائی جانے والی ترامیم پر تبصرہ کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے لین دین کو دستاویزی شکل تو دی جا سکتی ہے، تاہم ایف بی آر کروڑوں تاجروں کو زبردستی اس نظام کے ساتھ منسک نہیں کروا سکتا۔اُنہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت کو تاجروں اور ٹیکس دینے والے طبقے کا اپنے اوپر اعتماد بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کسی ایسے اقدام کا خیرمقدم کریں اور ایف بی آر کے نظام میں شامل ہونے سے نہ گھبرائیں۔‘ہارون شریف نے ریٹیلرز کی جانب سے جعلی پوائنٹ آف سیلز کی رسیدیں فراہم کرنے کے معاملے پر بتایا کہ چونکہ تاجر ایف بی آر کے ریکارڈ میں آنے سے ڈرتے ہیں اس لیے کسی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر سے پوائنٹ آف سیل کی جعلی رسیدیں بنوا کر اپنے فائدے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔اس حوالے سے آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اجمل بلوچ نے اُردو نیوز کو بتایا کہ تاجروں کو ایف بی آر پر اعتماد نہیں ہے۔’ایف بی آر کے افسران ڈرا دھمکا کر پیسے لیتے ہیں۔پاکستان میں ہر تاجر پوائنٹ آف سیل کے نظام کو سمجھتا نہیں ہے اس لیے ایف بی آر کروڑوں تاجروں کو اس نظام میں شامل ہونے کا پابند نہیں بنا سکتا۔‘اُنہوں نے تجویز دی ہے کہ ’ایف بی آر تاجروں کی آمدنی پر ٹیکس لگانے کے بجائے فِکسڈ ٹیکس نظام لائے جو کروڑوں تاجر دینے کے لیے تیار ہوں گے۔‘

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More