وزیراعظم شہباز شریف نے جمعرات کے روز پاکستان تحریک انصاف کو ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی دعوت دی ہے۔وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ہاؤس کمیٹی میں پی ٹی آئی کے مطالبات پر بات چیت کی جا سکتی ہے۔ ’یہ آئیں، بیٹھیں، ہاؤس کمیٹی کی میٹنگ کے لیے ہم تیار ہیں۔ 2018 کے الیکشن کی جو کمیٹی بنی وہ بھی اپنا کام مکمل کرے، اسی طرح فروری 2024 کے الیکشن کے لیے ہاؤس کمیٹی بنی وہ پوری طرح حقائق سامنے لے کر آئے۔ 2014 کے دھرنے کا بھی ہاؤس کمیٹی احاطہ کرے۔‘انہوں نے کہا کہ ’میں نیک نیتی اور صدق دل سے تیار ہوں کہ مذاکرات آگے بڑھیں، تاکہ ملک آگے چلے۔ یہ ملک مزید کسی نقصان متحمل نہیں ہو سکتا۔‘وزیراعظم شہباز شریف نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے پی ٹی آئی کی مذاکراتی پیشکش کو قبول کرتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دی، جس کے بعد سپیکر کے توسط سے بات چیت کا آغاز ہوا۔ان کے مطابق ’تحریک انصاف نے اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کیے جن کا جواب حکومتی کمیٹی کو بھی تحریری طور پر دینا تھا، تاہم جب 28 تاریخ کو طے شدہ ملاقات کا وقت آیا تو پی ٹی آئی نے اس سے انکار کر دیا اور مذاکرات سے پیچھے ہٹ گئی۔‘وزیراعظم نے کہا کہ مناسب طریقہ یہی تھا کہ تحریری مطالبات کا جواب تحریری طور پر ہی دیا جائے۔انہوں نے 2018ء کے انتخابات کے بعد پارلیمنٹ میں اپوزیشن کے احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’اس وقت پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے ہاؤس کمیٹی تشکیل دینے کی پیشکش کی تھی اور اپوزیشن سے اس میں اپنے ارکان نامزد کرنے کو کہا تھا۔‘شہباز شریف نے بتایا کہ انہوں نے اس پیشکش کو قبول کیا، کمیٹی بنی، اور اس کے چند اجلاس بھی ہوئے لیکن کوئی جوڈیشل کمیشن نہیں بنایا گیا تھا بلکہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی کے سپرد ہی رہا۔‘وزیراعظم نے مزید کہا کہ اب بھی وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایک کمیٹی تشکیل دی جائے جو 2018ء اور فروری 2024ء کے انتخابات کے معاملات کا جائزہ لے اور حقائق سامنے لائے۔وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے یہ دعوت مزاکرات کے عمل میں تعطل کے دو روز بعد دی گئی ہے۔قبل ازیں منگل کے روز مذاکرات کے طے شدہ راؤنڈ میں پی ٹی آئی کے وفد نے شرکت نہیں کی تھی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا، تاہم سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے مشاورتی اجلاس میں پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکراتی سیشن میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کے بعد کی صورتحال پر غور کیا گیا تھا۔
اجلاس کے دوران سپیکر قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی کے سینیئر رہنماؤں اسد قیصر اور عمر ایوب سے دوبارہ ٹیلیفونک رابطہ کیا اور مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی۔
سپیکر نے کہا کہ تمام مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے ممکن ہے اور یہ وقت ہے کہ فریقین مل بیٹھ کر معاملات طے کریں۔ تاہم، پی ٹی آئی نے مشاورت کے بعد مذاکراتی عمل میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا اور واضح کیا کہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے بغیر مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔
جس کے بعد حکومتی کمیٹی مذاکراتی اجلاس کے لیے کمیٹی روم میں آئی اور سپیکر کی سربراہی میں باضابطہ اجلاس ہوا۔ تاہم اپوزیشن کے نہ آنے کی وجہ سے اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی کی سربراہی سردار ایاز صادق نے کی۔ (فائل فوٹو)اجلاس کے بعد سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ مذاکرات ہی مسائل کے حل کا واحد راستہ ہیں، لیکن پی ٹی آئی کی عدم شرکت کی وجہ سے کمیٹی کا اجلاس جاری رکھنا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی کمیٹی برقرار رہے گی اور پی ٹی آئی کے مذاکرات میں شرکت کا انتظار کیا جائے گا۔ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے بھی مذاکراتی عمل میں رکاوٹ پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت نے مثبت نیت کے ساتھ تیاری کی تھی اور پی ٹی آئی کے مطالبات کا تحریری جواب تیار کر لیا تھا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا کہ مذاکرات کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، اور پی ٹی آئی کو میز پر آنا ہوگا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ عمر ایوب نے سپیکر ایاز صادق کو آگاہ کیا تھا کہ حکومت تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے اور جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے بغیر بات چیت بے معنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی مذاکراتی عمل کو سنجیدہ نہیں سمجھتی اور اس معاملے پر پارٹی کی سینیئر قیادت مزید مشاورت کے بعد فیصلہ کرے گی۔