صدر مملکت آصف علی زرداری نے بدھ کو ’دی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (ترمیمی) بل 2025‘ پر دستخط کر دیے جس کے بعد یہ بل ایکٹ آف پارلیمنٹ بن گیا ہے۔
متنازع پیکا (ترمیمی) بل 2025‘ کو صحافیوں، وکلا، سول سوسائٹی اور اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت کے باجود قومی اسمبلی اور سینیٹ نے پاس کر دیا تھا۔
ایوان صدر کی جانب سے بدھ کو جاری اعلامیے کے مطابق صدر مملکت نے صدر مملکت آصف علی زرداری نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (ترمیمی) بل 2025 کی توثیق کردی ہے۔
اعلایے میں مزید کہا گیا ہے کہ صدر مملکت نے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025 کی بھی منظوری دے دی۔
صدر مملکت نے نیشنل کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن ( ترمیمی) بل 2025 کی بھی توثیق کر دی۔
پاکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا سینیٹ نے منگل کو الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے لیے پیکا ترمیمی بل 2025 کی منظوری دی تھی جس کے خلاف صحافتی اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔
گذشتہ ہفتے پاکستان کی قومی اسمبلی نے اس بل کو منظور کیا تھا۔ اس بل کی پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظوری کے وقت نہ صرف اپوزیشن جماعتوں بلکہ صحافیوں نے بھی احتجاج کیا تھا اور حکومت سے اس متنازع بل کو واپس لینے کی درخواست کی تھی۔
اپوزیشن اور صحافیوں کی مخالفت کے باوجود حکومت کی جانب سے اس بل کو پارلیمان سے منظور کروانے کے خلاف منگل کو پاکستان بھر میں صحافتی تنظیموں نے یوم احتجاج منایا تھا اور اس کے خلاف ریلیاں نکالی تھیں۔
متنازع پیکا ترمیمی ایکٹ میں کیا ہے؟
صدر مملکت کے دستخط سے بدھ کو باضابطہ قانون کی شکل اختیار کرنے والے متنازع قانون کا نام ’دی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (ترمیمی) بل 2025‘ رکھا گیا ہے جس کے تحت فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے ایک نئی تحقیقاتی ایجنسی تشکیل دی جائے گی۔
اس قانون میں کہا گیا ہے کہ ’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ قائم کی جائے گی اور یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن یا رجسٹریشن کی منسوخی اور معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی۔
سینیٹ نے بدھ کو الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے لیے پیکا ترمیمی بل 2025 کی منظوری دی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
قانون کے مطابق یہ اتھارٹی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو بھی یقینی بنائے گی۔
پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہو گی۔
اس ترمیمی بِل کے ذریعے پیکا ایکٹ میں ایک نئی شق، سیکشن 26 (اے) کو شامل کیا گیا ہے جو آن لائن فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف سزا سے متعلق ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی جان بوجھ کر (فیک نیوز) پھیلاتا ہے جو عوام اور معاشرے میں ڈر، گھبراہٹ یا خرابی کا باعث بنے اس شخص کو تین سال تک قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں سے متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں ’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔ اس اتھارٹی کے کل 9 ارکان ہوں گے جبکہ سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے اور چیئرمین پیمرا بر بنائے عہدہ (بطور ایکس آفیشو) اس اتھارٹی کا حصہ ہوں گے۔
متنازع پیکا ایکٹ کے خلاف صحافیوں نے ملک گیر احتجاج کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اس بِل کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اتھارٹی سے رجسٹر کروانا لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو عارضی یا مستقل طور پر بند بھی کیا جا سکے گا۔
یہ اتھارٹی ’نظریہ پاکستان کے برخلاف اور شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی۔‘
اس ترمیمی ایکٹ کے مطابق اتھارٹی پاکستان کی مسلح افواج، پارلیمان یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی۔
پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف کیے گئے مواد کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیں کیا جا سکے گا۔
اس قانون کے مطابق پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات بھی سوشل میڈیا پر شیئر نہیں کیے جا سکیں گے۔