متنازع پیکا بل میں کیا ہے؟ صحافیوں کا ملک گیر احتجاج، ترامیم واپس لینے کا مطالبہ

اردو نیوز  |  Jan 29, 2025

پاکستان کی پارلیمان سے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے لیے متنازع الیکٹرانک کرائمز ترمیمی بل 2025 (پیکا) کی منظوری کے خلاف صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔منگل کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کی کال پر مختلف صحافتی تنظیموں نے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کیا جس میں پیکا ترمیمی بل کے خلاف نعرے بازی کی گئی ہے اور حکومت سے ان ترامیم پر نظرثانی کا مطالبہ کیا گیا۔

صحافتی تنظیمیں پیکا ایکٹ 2016 میں ترمیمی بل 2025 کو آزادی صحافت پر ایک حملہ قرار دے رہی ہیں۔ اُن کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت پیکا ترمیمی بل پر ہمارے تحفظات دُور کرے۔اس حوالے صدر پی ایف یو جے افضل بٹ کا کہنا ہے کہ پیکا ایکٹ کے خلاف ایک بڑی تحریک چلائیں گے۔ اگر حکومت نے ہمارے تحفظات دور نہ کیے تو ملک بھر کے صحافی پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کریں گے۔آج کہاں کہاں احتجاج ہوا؟منتازع پیکا ترمیمی بل کے خلاف منگل کو سب سے پہلے ایوان بالا (سینیٹ) میں پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن (پی آر اے) نے احتجاج ریکارڈ کروایا۔ پی آر اے کی جانب  سے  پیکا ترمیمی بل کی منظوری کے دوران پریس گیلری سے واک آؤٹ اور اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا۔یاد رہے کہ پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن گذشتہ ہفتے پیکا ترمیمی بل کے قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد سے مسلسل سراپا احتجاج ہے جس کی جانب سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی پریس گیلریوں سے متعدد بار واک آؤٹ کیا جا چکا ہے۔اسلام آباد میں صحافیوں کی احتجاجی ریلیراولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس (آر آئی یو جے) کی جانب سے پیکا ترمیمی بل کے خلاف نیشنل پریس کلب اسلام آباد سے ڈی چوک تک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ریلی کی قیادت صدر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) افضل بٹ نے کی۔ ریلی کا آغاز نیشنل پریس کلب سے ہوا جو ڈی چوک پہنچ کر احتتام پذیر ہوئی۔ شرکا نے حکومت سے پیکا ترامیم واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ اس دوران ڈی چوک پر پولیس اور صحافیوں کے درمیان دھکم پیل بھی ہوئی۔

لاہور میں صحافیوں کا احتجاجپیکا ترمیمی بل کے خلاف لاہور میں بھی صحافیوں نے احتجاج کیا۔لاہور پریس کلب کے باہر جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے پیکا ایکٹ کو کالا قانون قرار دیا۔

کراچی میں پیکا ترمیمی بل کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر صحافیوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا (فوٹو: اے ایف پی)

لاہور پریس کلب کے باہر ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں پی ٹی آئی، جماعت اسلامی، ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (وائی ڈے اے) اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے شرکت کی۔کراچی میں صحافیوں کا احتجاجکراچی میں پیکا ترمیمی بل کے خلاف کراچی پریس کلب کے باہر صحافی برادری کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں صحافیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے سینیئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ ’پیکا آرڈیننس آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے۔ صحافیوں نے ماضی میں بھی اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے اور اب بھی اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘کوئٹہ میں پیکا ترمیمی بل کے خلاف احتجاجملک بھر کی طرح کوئٹہ میں بھی پیکا ترمیمی بل کے خلاف پی ایف یو جے کی کال پر بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ احتجاجی مظاہرے کی قیادت بلوچستان یونین آفس جرنلسٹس کے صدر خلیل احمد اور پریس کلب کوئٹہ کے صدر عبدالخالق رند نے کی۔

صحافیوں نے وفاقی حکومت کی جانب سے پارلیمان سے منظورشدہ پیکا ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے انہیں ہر فورم پر چیلنج کرنے کا اعلان کیا۔ پریس فریڈم موومنٹ کا آغاز کر رہے ہیں: صدر پی ایف یو جےاسلام آباد میں پیکا ترمیمی بل کے خلاف  صحافیوں کے احتجاجی مظاہرے سے خطاب میں صدر پی ایف یو جے افضل بٹ نے کہا کہ ’پی ایف یو جے فیک نیوز کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ ہم نے ہر دور کے آمر کے خلاف مزاحمت کی ہے۔‘

صدر پی ایف یو جے افضل بٹ کا کہنا تھا کہ ’آج سے ملک بھر میں پریس فریڈم موومنٹ کا آغاز ہو گیا ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اُن کا کہنا تھا کہ ’آج سے ملک بھر میں پریس فریڈم موومنٹ کا آغاز ہو گیا ہے اس تحریک میں سول سوسائٹی بھی ہمارا ساتھ دے گی جبکہ تمام سیاسی جماعتوں کو بھی اس تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دیں گے۔‘افضل بٹ نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ’اگر ہم چاہتے تو اس رکاوٹ کو عبور کر کے پارلیمنٹ ہاؤس کی طرف جا سکتے تھے۔ اس کے بعد شروع ہونے والی پی ایف یو جے کی تحریک پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے گی جس میں پورے ملک سے قافلے شرکت کریں گے۔‘اُنہوں نے آخر میں حکومت سے مطالبہ کیا وہ پیکا ترمیمی بل پر نظرثانی کرتے ہوئے صحافیوں کے تحفظات دور کرے۔

متنازع پیکا بِل میں کیا ہے؟منگل کو سینیٹ سے منظور ہونے والے بِل کو ’دی پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (ترمیمی) بل 2025‘ کا نام دیا گیا ہے جس میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے ایک نئی تحقیقاتی ایجنسی تشکیل دی جائے گی۔’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ قائم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن یا رجسٹریشن کی منسوخی اور معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’اتھارٹی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو بھی یقینی بنائے گی۔‘

لاہور میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی نے احتجاجی مظاہرے میں صحافیوں سے اظہار یکجہتی کیا (فوٹو: اے ایف پی)

بل کے مطابق پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہو گی۔اس بِل کے ذریعے پیکا ایکٹ میں ایک نئی شق، سیکشن 26 (اے) کو شامل کیا گیا ہے جو آن لائن فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف سزا سے متعلق ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی جان بوجھ کر (فیک نیوز) پھیلاتا ہے جو عوام اور معاشرے میں ڈر، گھبراہٹ یا خرابی کا باعث بنے اس شخص کو تین سال تک قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں سے متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں ’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔ اس اتھارٹی کے کل 9 ارکان ہوں گے جبکہ سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے اور چیئرمین پیمرا بر بنائے عہدہ (بطور ایکس آفیشو) اس اتھارٹی کا حصہ ہوں گے۔اس بِل کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اتھارٹی سے رجسٹر کروانا لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو عارضی یا مستقل طور پر بند بھی کیا جا سکے گا۔یہ اتھارٹی ’نظریہ پاکستان کے برخلاف اور شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی۔‘اس ترمیمی ایکٹ کے مطابق اتھارٹی پاکستان کی مسلح افواج، پارلیمان یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گ۔پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف کیے گئے مواد کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیں کیا جا سکے گا۔ترمیمی بل کے مطابق پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات بھی سوشل میڈیا پر شیئر نہیں کیے جا سکیں گے۔ 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More