EPA
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنیچر کے روز غزہ کو ’پاک کرنے‘ کا ایک منصوبہ پیش کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مصر اور اردن سمیت عرب ممالک مزید فلسطینیوں کو پناہ دیں تاکہ جنگ سے متاثرہ علاقوں میں امن قائم کیا جاسکے۔
ٹرمپ نے غزہ کو ’تباہ شدہ علاقے‘ کے طور پر بیان کرتے ہوئے سنیچر کو صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم پورے خطے کو صاف کرنے کے لیے 15 لاکھ افراد کی بات کر رہے ہیں۔ یہ قدم عارضی یا طویل مدتی ہو سکتا ہے۔‘
حماس کے شعبہ خارجہ تعلقات کے سربراہ باسم نعیم نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی عوام نے صرف اپنی سرزمین کے لیے 15 ماہ تک موت اور تباہی برداشت کی ہے۔ انھوں نے ٹرمپ کی تجویز مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ تعمیر نو کی آڑ میں ایسی کسی تجویز کو منظور نہیں کریں گے۔
نعیم نے مزید کہا کہ ’ہمارے لوگ غزہ کی پہلے سے بہتر تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بشرط یہ کہ اس علاقے کا محاصرہ ختم کر دیا جائے۔‘
جبکہ فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک نے ٹرمپ کے حالیہ بیانات کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور ایک بیان میں مصر اور اردن سمیت تمام ملکوں سے ’ٹرمپ کے منصوبے‘ کو کو مسترد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’ثابت قدمی اور مزاحمت کے ساتھ یہ منصوبہ ناکام ہو جائے گا کیونکہ اس سے پہلے کے کئی منصوبے ناکام ہو چکے ہیں۔‘
اس نے کہا کہ یہ منصوبہ فلسطینیوں کے حق اور وجود کے منافی ہے جبکہ اس سے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا تسلسل قائم ہوگا۔
دریں اثنا ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے امریکہ سے جو ’بڑی تعداد میں اشیا‘ کی درخواست کی تھی وہ فی الحال فراہم کی جا رہی ہیں۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ آیا ان کی حکومت اسرائیل کے لیے 907 کلو گرام وزنی بموں کی کھیپ جاری کرے گی۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا ’اسرائیل نے بہت سی چیزوں کی درخواست کی اور ان کے لیے ادائیگی کی۔ لیکن سابق صدر جو بائیڈن نے انھیں نہیں بھیجا۔ اب ان اشیا کی ترسیل کی جا رہی ہے۔‘
اسرائیلی فوجیوں کی رہائی کی تقریب: مسکراتی خواتین، گفٹ بیگز اور حماس کا اسرائیل کو ’خاموش پیغام‘غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے اعلان سے 10 منٹ قبل مذاکرات کو ناکامی سے بچانے کی اندرونی کہانیاسرائیلی یرغمالی خواتین کی رہائی کے مناظر 15 ماہ کی جنگ کے بعد حماس کے بارے میں کیا بتاتے ہیں؟غزہ میں ’ناقابلِ شناخت‘ لاشوں کی ہڈیوں کی مدد سے تلاش کی کہانی: ’میری بیٹی کا جسم قبر سے کیسے باہر آیا اور کتوں نے اُسے کیسے کھا لیا‘
گذشتہ سال سابق ڈیموکریٹک صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے اسرائیل کو ان بموں کی فراہمی ایک ایسے وقت میں معطل کر دی تھی جب اسرائیلی فوج جنوبی غزہ کی پٹی میں رفح پر بڑے پیمانے پر حملے کا منصوبہ بنا رہی تھی۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بمباری اور جنگ کی وجہ سے 14 لاکھ فلسطینیوں نے پناہ لی تھی۔
بائیڈن نے خبردار کیا تھا کہ اس طرح کے علاقوں میں اس قسم کے بم کا استعمال ایک ’بڑے انسانی المیے‘ کا سبب بنے گا۔
ایگزیوس پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں اسرائیلی قومی سلامتی کے صحافی بارک راویڈ نے لکھا کہ ٹرمپ نے محکمہ دفاع کو 2000 پاؤنڈ وزنی بم اسرائیل بھیجنے پر عائد پابندی ہٹانے کا حکم دیا۔
اس قسم کے بڑے، فضا سے گرائے جانے والے بم انتہائی تباہ کن ہوتے ہیں اور عام طور پر انھیں فوجی تنصیبات، کمانڈ سینٹرز اور انفراسٹرکچر جیسے اہداف کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران ٹرمپ نے اکثر اس بات پر فخر کیا کہ اسرائیل کا ’وائٹ ہاؤس میں اس سے بہتر دوست کبھی نہیں تھا۔‘ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بھی ٹرمپ کے لیے اکثر ایسے جملے دہرا چکے ہیں۔
Reutersجنگ بندی معاہدے میں رکاوٹیں: اسرائیل نے ہزاروں فلسطینیوں کو شمالی غزہ جانے سے روک دیا
غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اتوار کو دوسرے ہفتے میں داخل ہو گئی ہے۔ حماس کے زیر حراست چار اسرائیلیوں اور اسرائیلی جیلوں سے تقریباً 200 فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہوئی ہے۔
تاہم جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کی کوششوں کو نئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ اسرائیل نے مغوی شہری اربیل یہود کی رہائی سے متعلق تنازع کی وجہ سے لاکھوں فلسطینیوں کی تباہ شدہ شمالی غزہ میں واپسی پر اعتراض کیا تھا۔
اسرائیل نے یہ شرط عائد کی جنوبی اور شمالی غزہ کو الگ کرنے والی راہداری کھلوانے کے لیے اس یرغمالی کو رہا کیا جائے۔ اس نے حوالہ دیا کہ جنگ بندی معاہدے کے تحت شہریوں کو پہلے رہا کیا جائے گا جس میں حماس ناکام ہوا ہے۔
حماس کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ یہود زندہ اور صحت مند ہیں اور انھیں اگلے ہفتے رہا کر دیا جائے گا۔
سنیچر کی شام افراتفری سے بھرپور مناظر دیکھنے کو ملے ایسا اس وجہ سے ہوا کہ یرغمالیوں کی رہائی مکمل ہونے کے بعد فلسطینیوں کو اس بات کی امید تھی کہ وہ شمال میں اپنے گھروں کی جانب لوٹ سکیں گے۔ تاہم اسی سب کے دوران انھیں یہ معلوم ہوا کہ ایسا مُمکن نہیں ہے کیونکہ اسرائیلی افواج نے شمال کی جانب جانے والی اہم راہداری کو بند کر رکھا ہے اور کسی کو بھی وہاں سے گُزرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔
وسطی غزہ میں الرشید روڈ پر جب لوگ گھروں کی واپسی کے لیے جمع ہوئے تو مبینہ طور پر گولیاں چلائی گئیں۔
اسی حوالے سے بی بی سی ویریفائی نے ایک ایسی ویڈیو کی تصدیق کی ہے کہ جس میں الرشید روڈ پر لوگوں کو گھبراہٹ کا شکار دیکھا جا سکتا ہے اور اسی دوران وہاں چار گولیوں کے چلنے کی آواز بھی آتی ہے۔
ایک اور واقعے میں خبر رساں ادارے روئٹرز نے حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت اور فلسطینی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایک شخص ہلاک اور دیگر زخمی ہوئے ہیں۔
تاہم اس حوالے سے اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کی جانب سے ایک بیان سامنے آیا ہے کہ جس میں اُن کا کہنا ہے کہ وسطی غزہ میں فوجیوں نے درجنوں مشتبہ افراد کی نشاندہی کے بعد فائرنگ کی جو فورسز کے لیے خطرہ ہیں۔
بیان میں مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’حالیہ چند گھنٹوں میں سامنے آنے والی اطلاعات کے برعکس، علاقے میں فائرنگ کے تمام واقعات لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے کی گئی نہ کہ نقصان پہنچانے کے مقصد سے۔‘
اس سے قبل ہفتے کے روز محمد عماد الدین ان ہزاروں افراد میں سے ایک تھے جو شمالی غزہ واپس جانے کے منتظر تھے۔
EPAسنیچر کے روز رہا ہونے والی چار خواتین اسرائیلی فوجی
انھوں نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ ’میں جانتا ہوں کہ میرا گھر تباہ ہو چُکا ہوگا، لیکن میں اس کی باقیات اور ملبے پر ایک خیمہ لگاؤں گا۔ میں صرف واپس جانا چاہتا ہوں۔‘
’میں اپنا کام دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہوں۔ میری غزہ میں ایک حجام کی دکان ہے اور میں حجام ہوں۔ میں یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اپنے سیلون کو پہنچنے والے نقصان کا کیا کروں اور اس کی مرمت کیسے کی جائے جس کے بعد میں اپنا کاروبار دوبارہ شروع کر سکوں۔ میں بہت سے لوگوں کا مقروض ہو گیا ہوں اور میں اپنے بچوں کے لئے عام ضروریاتِ زندگی کی چیزیں بھی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان یہ تنازعہ ختم ہو اور ہمیں شمال میں اپنے گھروں میں واپس جانے کی اجازت دی جائے۔ ہم نے اپنے پیاروں کو 15 ماہ سے زیادہ عرصے سے نہیں دیکھا ہے۔‘
جنگ بندی کے معاہدے کی شرائط کے تحت فلسطینیوں کو اسرائیل کے زیرِ کنٹرول سات کلومیٹرنیزرم کوریڈور کے شمال میں سفر کرنے کی اجازت دی جانی تھی جس کی وجہ سے شمالی غزہ کا باقی علاقوں سے رابطہ ختم ہو کر رہ گیا ہے۔
لبنیٰ نصر اپنی دو بیٹیوں اور بیٹے کو گدھا گاڑی پر لے کر اپنے گھر لوٹنے اور اپنے شوہر سلطان سے ملنے کی امید کر رہی تھیں، جنھیں انھوں نے قریب 11 ماہ سے نہیں دیکھا۔
سنیچر کی سہ پہر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’میں یہاں رہوں گی جہاں تک ممکن ہو اسرائیلی چوکی کے قریب رہوں گی۔ مہینوں سے میری بیٹیاں اپنے والد سے ملنے کی مُنتظر ہیں۔ میں غزہ لوٹنے والے پہلے لوگوں میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔‘
اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے والے قطری اور مصری ثالثوں نے لاکھوں فلسطینیوں کو شمال کی طرف واپس جانے کی اجازت دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور اس معاملے میں پیش رفت بھی ہوئی ہے۔
بی بی سی کے مطابق اسرائیل نے ثالثوں سے حماس سے اس بات کا ثبوت مانگا تھا کہ یہود زندہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ سنیچر کی شام تک مصریوں اس بات کا ثبوت فراہم کر دیا گیا ھا۔
دریں اثنا غزہ کے بہت سے باشندے کسی ایسی پیش رفت کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے کہ جس میں انھیں یہ خبر ملے کے انھیں اپنے آبائی علاقوں میں جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔
بہت سے لوگوں کے لیے واپسی کی امید اس حقیقت سے کہیں زیادہ ہے جو ان کا انتظار کر رہی ہے یعنی کھنڈرات اور ہر جانب پھیلی تباہی۔
اس کے باوجود ان کی زندگیوں کو دوبارہ حاصل کرنے، اپنے گھروں کی تعمیر نو اور اپنے کنبوں کے ساتھ دوبارہ ملنے کا خواب ان کی روحوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
دیواروں پر گولیوں کے سوراخ اور حماس کا نام، جنین کیمپ کیا ہے اور یہاں اسرائیلی فوج کارروائی کیوں کر رہی ہے؟ اسرائیلی یرغمالی خواتین کی رہائی کے مناظر 15 ماہ کی جنگ کے بعد حماس کے بارے میں کیا بتاتے ہیں؟غزہ میں جنگ بندی معاہدے کے اعلان سے 10 منٹ قبل مذاکرات کو ناکامی سے بچانے کی اندرونی کہانیغزہ میں ’ناقابلِ شناخت‘ لاشوں کی ہڈیوں کی مدد سے تلاش کی کہانی: ’میری بیٹی کا جسم قبر سے کیسے باہر آیا اور کتوں نے اُسے کیسے کھا لیا‘حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدہ جس سے ہلاکتیں تو رک سکتی ہیں لیکن تنازع نہیںاسرائیلی فوجیوں کی رہائی کی تقریب: مسکراتی خواتین، گفٹ بیگز اور حماس کا اسرائیل کو ’خاموش پیغام‘