’دنیا سمجھتی ہے کہ ہمارے پیروں کے نیچے سونا، چاندی اور تانبا ہے جبکہ ہمارے پیروں کے نیچے نہ سڑک ہے، نہ پیٹ میں خوراک ہے اور نہ ہی ہمارے پاس صحت اور تعلیم کی سہولت ہے۔‘
یہ الفاظ دالبندین کے رہائشینصراللہ بلوچ کے ہیں جو بلوچ یکہجتی کمیٹی کے دالبندین میں منعقدہ احتجاجی جلسے میں شریک تھے۔
بلوچستان میں انسانی حقوق اور وسائل کے تحفظ کے لیے سرگرم تنطیم بلوچ یکہجتی کمیٹی نے دالبندین میں سنیچر کو احتجاجی جلسے کا انعقاد کیا تھا جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
اس سے قبل گوادر میں تنظیم کے دھرنے کے دوران پرتشدد واقعات ہوئے تھے جس کے بعد منتظمین کی جانب سے اگلے احتجاج کے لیے دالبندین کا انتخاب کیا گیا تھا۔
بلوچستان میں اکثر وسائل اور ساحل کا نعرہ لگایا جاتا رہا ہے، اس نعرے میں ساحل کا مطلب گوادر جبکہ وسائل کا مطلب ریکوڈک اور سیندک کو مانا جاتا ہے جو کہ چاغی میں واقع ہیں۔
دالبندین ضلع چاغی کا ہیڈکوارٹر ہے اور اسی ضلع میں سونے اور تانبے کی دو بڑی کانیں موجود ہیں، جن میں سے ایک برسوں سے چین اور دوسری حال ہی میں کینیڈا کی کمپنی کے حوالے کی گئی ہے۔
بلوچ یکہجتی کمیٹی کی سربراہ ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے احتجاج کے لیے دالبندین کا انتخاب اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ علاقہ اس خطے میں آتا ہے جہاں سیاسی سرگرمیاں خاصی محدود رہی ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ ’یہاں پر جتنے سیاست اور پارلیمنٹ سے جڑے ہوئے لوگ ہیں انھوں نے لوگوں کو مختلف طریقوں سے تقسیم کیا ہے۔
’اس کے علاوہ یہ علاقہ عرصہ دراز سے معاشی استحصال کا سامنا کرتا آ رہا ہے، سرحد سے منسلک ہونے کی وجہ سے لوگوں کی جبری گمشدگیوں کے ساتھ جبری بے دخلی کا بہت بڑا مسئلہ در پیش ہے اس وجہ سے ہم نے یہاں کا انتخاب کیا گیا۔‘
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے مقامی افراد کے معاشی استحصال کے حوالے سے لگائے گئے الزامات کے جواب میں بلوچستان حکومت کے ایک ترجمان نے اعتراف کیا کہ ماضی میں کچھ ایسے معاہدے ہوئے تھے جن میں روزگار اور سکالرشپس پر توجہ نہیں دی گئی تھی تاہم حال ہی میں ہونے والے معاہدوں میں کمپنیوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ مقامی افراد کو روزگار اور سکالرشپس فراہم کریں گی۔
Getty Imagesضلع چاغی رقبے کے لحاظ سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا بھی سب سے بڑا ضلع ہےچاغی کہاں واقع ہے؟
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے ساڑھے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر چاغی کا ضلعی ہیڈکوارٹر دالبندین واقع ہے۔
یہاں آر سی ڈی شاہراہ آتی ہے جو ایران کی حدود میں بھی داخل ہوتی ہے، اس شاہراہ کے ایک طرف افغانستان اور دوسری جانب ایران کی سرحد واقع ہے۔
ضلع چاغی رقبے کے لحاظ سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا بھی سب سے بڑا ضلع ہے۔
یہ ضلع پہاڑی و میدانی علاقوں اور صحراؤں پر مشتمل ہے، پاکستان نے ایٹمی تجربہ کرنے کے لیے بھی اسی علاقے کا انتخاب کیا تھا جس کے بعد چاغی دنیا بھر میں خبروں کی سرخیوں کا مرکز بن گیا تھا۔
سنہ 2023 کی مردم شماری کے مطابق ضلع چاغی کی آبادی پونے تین لاکھ کے قریب ہے اور اس کے بڑے شہروں میں دالبندین، نوکنڈی اور تافتان شامل ہیں۔
نیو گوادر ایئرپورٹ: چین اور عمان کی سرمایہ کاری سے تعمیر کردہ پاکستان کے سب سے بڑے ہوائی اڈے میں خاص کیا ہےکوئٹہ سے قرآن کے 120 قدیم اور ہاتھ سے لکھے نسخوں کی چوری: ’چور اُس وقت آئے جب بجلی نہ ہونے کے سبب اندھیرا تھا‘زہری پر ’مسلح گروہ کا قبضہ‘ اور جبری گمشدگیوں کا الزام: بلوچستان کے قصبے میں 8 جنوری کے دن کیا ہوا تھا؟بلوچستان میں تعمیراتی سائٹ سے اغوا ہونے والے تین کشمیری مزدوروں میں سے ایک قتل: ’ہمیں لگا فوج کا تحفظ ہو گا تو خطرہ نہیں ہو گا‘قحط سالی، غذائی قلت کا شکار بچے اور بھوک
یونیسیف کے 2023 کے سروے کے مطابق ضلع میں 31 فیصد بچوں کو دائمی غذائی قلت کا سامنا ہے۔ اسی سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ 57 فیصد گھرانے ایسے ہیں جنھیں شدید بھوک کا سامنا ہے۔
ضلع چاغی کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں موسمِ گرما میں درجۂ حرت 50 سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے۔ یہاں بارانی زمینیں ہیں یعنی کھیتی باڑی کا دارومدار بارشوں پر ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو اکثر قحط سالی کا سامنا رہتا ہے۔
پاکستان کے محکمۂ موسمیات کی جانب سے حال ہی میں ایک وارننگ بھی جاری کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کم بارشوں کی وجہ سے چاغی میں قحط سالی کا خدشہ ہے۔
اس ضلع میں شرح خواندگی صرف 27 فیصد ہے۔ حکومت بلوچستان کے محکمۂ تعلیم کے سروے میں بتایا گیا ہے کہ ضلع چاغی میں بچوں کی اکثریت ہوٹلوں، ورکشاپس، ٹیلرنگ، بڑھئیوں اور ویلڈروں کی دکانوں پر کام کرتی ہے یا پھل اور سبزیاں فروخت کرتی ہے۔
سروے میں بتایا گیا ہے کہ سکول کی دستیابی میں مسائل، پانی اور بیت الخلا جیسی سہولیات کے فقدان کا تعلیمی اداروں میں ہونے والی اینرولمنٹ پر منفی اثر پڑتا ہے۔
انجمن تاجران دالبندین کے سابق صدر حاجی آغا محمد حسنی کہتے ہیں کہ جب وہ ضلعی کمیٹی کے رکن تھے تو اس وقت ضلع میں 90 کے قریب سکول بند تھے جس کی وجہ اساتذہ کی عدم دستیابی تھی۔
Getty Imagesبلوچستان میں انسانی حقوق اور وسائل کے تحفظ کے لیے سرگرم تنطیم بلوچ یکہجتی کمیٹی نے دالبندین میں احتجاجی جلسے کا انعقاد کیا ہےسرحدی کاروبار پر انحصار
انجمن تاجران دالبندین کے سابق صدر حاجی آغا محمد حسنی کہتے ہیں کہ ’ہمارا سارا کاروبار سرحدی تجارت سے وابستہ ہے۔ سرحد پر باڑ لگنے کے بعد تقریباً تین، چار ماہ سے کاروبار بند ہے، یہاں چھ سے سات ہزار زمباد گاڑیاں چلتی تھیں۔ اب کاروبار بہت کم ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید بہت کم ہو گئی ہے۔‘
یاد رہے کہ زمباد گاڑیوں کے ذریعے ایران سے تیل اور دیگر اشیا پاکستان لائی جاتی تھیں اس بندش کے خلاف مقامی لوگ کئی بار احتجاج بھی کر چکے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج میں بھی ایک اہم نکتہ یہ تھا۔
زراعت اور صنعت کی عدم موجودگی میں سرکاری ملازمتوں کے بعد روزگار کا سب سے بڑا وسیلا یہاں موجود کانیں ہیں جس سے مقامی لوگ امیدیں لگائے رکھتے ہیں۔
سیندک میں 25 برسوں سے سونا اور تانبا نکالتی کمپنی
سیندک کو چین کی سرکاری کمپنی ایم سی سی نومبر 2001 سے چلا رہی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اس کو دیے گئے ٹھیکے میں یکم اکتوبر 2002 کو 10 سال کی توسیع کی تھی، جس کے بعد سے اس کی معیاد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔
سنہ 2022 میں عمران خان کی حکومت میں اس مدت میں مزید 15 سال کا اضافہ کیا گیا تھا، جس کے بعد 2037 تک چینی کمپنی کے پاس سیندک کی کان لیز پر رہے گی۔
کمپنی کا دعویٰ ہے کہ سیندک منصوبے سے وابستہ 1800 ملازمین میں سے 1500 کا تعلق چاغی سے ہے۔ کمپنی کا مؤقف جاننے اور دیگر تفصیلات کے لیے بی بی سی نے کمپنی کو ای میل کی تاہم تاحال کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
سنہ 2021 میں وفاق نے بلوچستان حکومت کو سیندک گولڈ، کاپر پراجیکٹ کے تحت 305 ملین روپے بطور منافع ادا کیے تھے۔
اس بارے میں پٹرولیم ڈویژن کے ترجمان کا دعویٰ تھا کہ سیندک گولڈ، کاپر پراجیکٹ کے ذریعے ہزاروں مقامی افراد کو روزگار فراہم کیا گیا ہے، اس کے علاوہ سیندک کمپنی نے مقامی آبادی کو صاف پینے کا پانی اور بجلی بھی مہیا کی ہے۔
ریکوڈک
ریکوڈک سے سونا اور تانبا نکالنے کے لیے حکومت پاکستان نے دوبارہ کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ سے معاہدہ کیا ہے۔ کمپنی کی ویب سائٹ پر دستیاب رپورٹ کے مطابق یہاں ریکوڈک میں تعمیراتی کام کے دوران 10 ہزار ملازمتیں پیدا ہوں گی اور جب یہ منصوبہ باقاعدہ شروع ہو جائے گا اس وقت مزید چھ ہزار ملازتیں پیدا ہونے کی توقع ہے۔
بی بی سی کی جانب سے بیرک گولڈ کمپنی کے حکام کو ای میل کر کے تفصیلات کی درخواست کی گئی، تاہم کمپنی نے کوئی جواب نہیں دیا۔
تاہم ان کی ویب سائٹ پر موجود رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کمپنی نے پہلے ہی مقامی افرادی قوت اور مہارت کو بڑھانے کے لیے تربیتی مواقع فراہم کرنا شروع کر دیے ہیں تاکہ وہ پراجیکٹ میں براہ راست اور بالواسطہ ملازمت کے مواقعوں تک بہتر رسائی حاصل کر سکیں۔
سیندک کے مقابلے میں ریکوڈک کا معاہدہ مکمل طورپر خفیہ نہیں ہے، اس کی کچھ شقیں عام لوگوں کے علم میں ہیں۔ مثال کے طور پر پراجیکٹ کے 50 فیصد شیئر بالواسطہ طور پر بیرک گولڈ کے پاس ہیں اور 50 فیصد پاکستان اور بلوچستان حکومت کے پاس۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ 2023 میں کمپنی کا کل ٹیکس اور رائلٹی کا حصہ 2.6 ارب ڈالرز تھا اور مزید 218 ملین ڈالرز ریاست پاکستان کو منافع کے طور پر ادا کیے گئے ہیں۔
ملکیت صوبے کی مگر فیصلہ وفاق کا
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں 2010 میں آغازِ حقوق بلوچستان پیکج میں سیندک منصوبے کو صوبے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور طے پایا کہ وفاق کے شیئرز میں سے تیس فیصد آمدنی بلوچستان کو دی جائے گی لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد معدنیات پر صوبے کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔ صحافی اور تجزیہ کار انور ساجدی کہتے ہیں کہ 'بلوچستان میں ایسا نہیں ہوا۔ وفاقی حکومت غیر ملکی کمپنیوں سے بلوچستان حکومت کی جگہ ڈیل کرتی ہے، اس کی وجہ صوبائی حکومت کی کمزوری یا پھر اہلیت کا فقدان ہے۔'
بلوچستان اسمبلی میں بی این پی کے رکنِ اسمبلی ثنا بلوچ نے سیندک معاہدے کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے 2019 میں اس مقدمے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جو ابھی تک سامنے نہیں آ سکا ہے۔
انھوں نے سیندک پراجیکٹ پر اختیارات سے متعلق قرارداد بلوچستان اسمبلی میں بھی پیش کی تھی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ سیندک پراجیکٹ پر اختیارات کے حوالے سے صوبے میں محرومی کا احساس اور بے چینی ہے، یہ صوبے کا اہم اثاثہ ہے اور 18ویں ترمیم کے بعد سیندک منصوبے کا انتظامی امور کا کنٹرول صوبائی حکومت کا حق ہے۔
Getty Imagesدالبندین ضلع چاغی کا ہیڈکوراٹر ہے اور اسی ضلع میں سونے اور تانبے کی دو بڑی کانیں موجود ہیں
2022 میں وفاقی وزیر توانائی حماد اظہر نے بتایا تھا کہ چینی کمپنی کے ساتھ نئے معاہدے میں حکومت پاکستان کا منافعے میں حصہ 50 فیصد سے بڑھا کر 53 فیصد کردیا گیا ہے جبکہ بلوچستان حکومت کی رائلٹی اور سماجی ترقی (کارپوریٹ سوشل رسپانسبلٹی) کی مد میں حصہ 5 فیصد سے بڑھا کر 6.5 فیصد کردیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا بلوچستان حکومت کی رضامندی سے کیا گیا ہے۔
ریکوڈک منصوبہ ابتدائی برسوں میں تاخیر اور تنازع کا شکار رہا ہے۔
حکومت پاکستان نے سب سے پہلے 1993 میں آسٹریلوی کمپنی بی ایچ پی کے ساتھ ریکوڈک کا معاہدہ کیا تھا، تاہم سنہ 2000 میں بی ایچ پی نے یہ پراجیکٹ ٹیتھیان کاپر کمپنیکے حوالے کر دیا جو کہ چلّی کی اینٹوفاگاسٹا اور بیرک گولڈ کارپوریشن کا مشترکہ منصوبہ تھا۔
ٹیتھیان کاپر کمپنی نے 2006 میں ایکسپلوریشن پرمٹ کو کان کنی کے لائسنس میں تبدیل کرنے کے لیے یہاں 400 ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی تھی۔ تاہم 2011 میں بلوچستان حکومت نے اس کی درخواست کو مسترد کر دیا اور 2013 میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے کان کنی کے لائسنس کے خلاف فیصلہ دیا۔
ٹیتھیان کاپر کمپنی نے معاہدے کی منسوخی کے خلاف انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹ میں بین الاقوامی ثالثی کے لیے مقدمہ دائر کیا۔ بین الاقوامی ثالث نے اس دعوے کو قبول کیا کہ کمپنی کو معاہدے کی معطلی کے سبب نقصان ہوا ہے اور پاکستان کی حکومت پر 5.8 ارب ڈالر کا ہرجانہ عائد کر دیا۔
طویل مذاکرات کے بعد حکومت پاکستان اور ٹیتھیان کاپر کمپنی عدالت سے باہر تصفیے پر راضی ہوئے اور نئے شرائط کے ساتھ معاہدہ کیا گیا۔ کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق متوقع ابتدائی پراجیکٹ کی میعاد 38 سال ہے۔
Getty Imagesریکوڈک سے سونا اور تانبا نکالنے کے لیے حکومت پاکستان نے دوبارہ کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ سے معاہدہ کیا ہے
حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کا یہ واضح موقف ہے کہ قدرتی وسائل کے شعبے میں جو بلوچستان کا حق بنتا ہے وہ اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گی۔
'معدنیات میں جو صوبوں کا حصہ ہے وہ آئین میں واضح ہے جس سے قوم پرست جماعتیں بھی اتفاق کرتی ہیں۔'
ملازمتیں دہاڑی دار مزدور تک محدود
کمپنیوں کے دعوؤں کے باوجود مقامی لوگوں کو شکوہ ہے کہ انھیں روزگار نہیں مل رہا ہے۔ انجمن تاجران دالبندین کے سابق صدر حاجی آغا محمد حسنی کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں کی قسمت میں دہاڑی کی مزدوری اور سکیورٹی گارڈ کی ملازمتیں ہی ہیں، باقی بڑے عہدوں پر غیر مقامی لوگوں کو تعینات کیا جاتا ہے۔
نوجوان نصراللہ بلوچ کہتے ہیں کہ ان کے ضلعی ہیڈ کواٹر میں ایک ہی کالج ہے اور اس میں بھی اساتذہ نہیں ہیں۔
'سہولیات اور تعلیم کا معیار خراب ہونے کے سبب یہاں اچھے ڈاکٹر یا انجینیئر نہیں ہیں۔ اسی طرح یہاں ٹیکنیکل تعلیم کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہےاور اس کو وجہ بنا کر سیندک اور ریکوڈک جیسے ادارے کہتے ہیں کہ آپ کے پاس مطلوبہ تعلیم نہیں ہے۔ اب نوجوانوں کو تیکنیکل تعلیم دینا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے نا۔'
انجمن تاجران دالبندین کے سابق صدر حاجی آغا محمد حسنی کہتے ہیں کہ یہ کمپنیاں مقامی طور پر خریداری تک نہیں کرتی ہیں۔
'ان کا سارا سامان بشمول خورد و نوش کی اشیا کراچی سے آتی ہیں۔ تو پھر کس طرح سے یہ یہاں کی معشیت میں حصہ ڈالیں گی؟'
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما ماہ رنگ بلوچ کا بھی دعویٰ ہے کہ جو کمپنی یہاں سرمایہ کاری کر رہی ہیں اس نے مقامی سطح پر کوئی روزگار فراہم نہیں کیا ہے۔
'ہم بین الاقوامی برادری کو باور کروانا چاہتے ہیں کہ یہ جو وسائل کی لوٹ مار ہے اس میں بلوچوں کی مرضی و منشا شامل نہیں ہے۔‘
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند کہتے ہیں کہ ماضی میں کچھ ایسے معاہدے ہوئے تھے جن میں روزگار اور سکالرشپس پر توجہ نہیں دی گئی تھی۔
تاہم ان کے مطابق ’حال ہی میں جو معاہدے ہوئے ہیں چاہے وہ بیرک گولڈ سے ہو، پی پی ایل سے ہو یا او جی ڈی سی ایل سے۔ ان میں یہ شرط شامل ہے کہ مقامی لوگوں کو روزگار دیا جاے گا اور نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے سکالرشپس دی جائیں گی تاکہ وہ تعلیم حاصل کر کے ان کمپنیوں میں اچھے منصب پر بھی فائز ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ سرفراز بگٹی کی حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ جس جگہ پر منصوبہ لگے گا اس کا سی ایس آر فنڈ اسی علاقے میں خرچ ہو گا جس سے علاقے میں بھی ترقی ہو گی۔
سیندک کا سونا بلوچوں کی زندگی بدلنے میں مددگار کیوں نہیں؟اٹک میں 700 ارب روپے مالیت سونے کا دعویٰ: کیا پاکستان میں سونے کے بڑے ذخائر موجود ہیں؟ریکوڈک منصوبے کا آغاز 14 اگست سے: ’بلوچستان کو فوائد کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑے گا‘ریکوڈک: آئی ایم ایف کے قرض جتنے جرمانے کا ذمہ دار کون؟ریکوڈک منصوبہ: ایک اور ’ڈیل‘ کا الزام، ’معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں گورنر راج لگنے کا خطرہ تھا‘