لگ بھگ پانچ کروڑ تارکین وطن کے بغیر امریکہ کیسا نظر آئے گا؟

بی بی سی اردو  |  Jan 23, 2025

Getty Images

وائٹ ہاؤس میں اپنے پہلے ہی روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکین وطن سے متعلق بات کرتے ہوئے امریکہ میں اُن کی موجودگی کو ’حملہ‘ قرار دیا ہے۔

انھوں نے امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر قومی ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے امریکی فوج کو اسے (سرحد) ’سیل‘ کرنے کا حکم دیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ وہ ’پیدائش پر شہریت‘ کے قانون کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس قانون کے تحت امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والے ہر بچے کو وہاں کا شہری مانا جاتا ہے۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ غیر قانونی تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کا اعلان بھی کر چکے ہیں۔

لیکن دنیا کی سب سے بڑی غیر ملکی آبادی والے ملک امریکہ میں امیگریشن کیا کردار ادا کرتی ہے اور اگر وہاں تارکین وطن نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟

آبادیGetty Images

فرض کیجیے کہ تارکین وطن کو امریکہ سے مکمل طور پر بیدخل کر دیا جاتا ہے تو امریکہ کی آبادی میں نمایاں کمی واقع ہو گی اور یہ واضح طور پر سکڑ جائے گی۔

سنہ 2023 میں امریکہ میں تارکین وطن (یعنی وہ افراد جن کی پیدائش کا ملک امریکہ نہیں ہے) کی آبادی لگ بھگ چار کروڑ 80 لاکھ کی ریکارڈ سطح سے زیادہ تھی، جو امریکہ کی مجموعی آبادی کا 14.3 فیصد ہے۔ ان میں سے ایک کروڑ 60 لاکھ تارکین وطن کا تعلق میکسیکو سے ہے۔ اس کے بعد انڈیا کا نمبر آتا ہے جس کے امریکہ میں تارکین وطن افراد کی تعداد 28 لاکھ جبکہ چین 25 لاکھ کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔

اگرچہ امریکہ میں اس وقت تارکین وطن افراد کی تعداد ریکارڈ سطح پر ہے لیکن شرح پیدائش میں کمی کی وجہ سے امریکہ میں مجموعی طور پر آبادی میں اضافہ سست روی کا شکار ہے۔

سنہ 2010 اور سنہ 2020 کے درمیان امریکہ میں شرح پیدائش سنہ 1930 کی دہائی کے بعد سے سب سے کم رہی ہے۔

Getty Imagesامریکہ میں زرعی مزدوروں کی ایک بڑی تعداد تارکین وطن پر مشتمل ہے

اس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے دوسرے ممالک کی طرح امریکہ کو بھی عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں اضافے جیسے چیلنجز کا سامنا ہے جس کی وجہ سے صحت اور دیکھ بھال کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور کام کرنے کے قابل افراد یعنی کم عُمر لوگوں کی کمی شامل ہے۔

کانگریس کی پیش گوئیوں کے مطابق سنہ 2040 میں امریکہ میں شرح اموات شرح پیدائش سے زیادہ ہو گی اور ایسی صورتحال میں آبادی میں اضافے کا واحد ذریعہ امیگریشن ہی ہو گا (یعنی دوسرے ممالک سے لوگ آ کر یہاں بسیں اور آبادی کا تناسب برقرار رکھیں)۔

نتیجتاً کچھ ماہرینِ اقتصادیات اور امیگریشن کے حامی گروپوں کا کہنا ہے کہ معیشت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے امیگریشن کو بڑھانے کی اجازت دی جانی چاہیے، خاص طور پر امریکہ کے دیہی علاقوں میں۔

معاشی اثراتGetty Images

بوسٹن یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر طارق حسن کہتے ہیں کہ ’اگر آپ تارکین وطن کو مکمل طور پر امریکہ سے نکال دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم فی کس جی ڈی پی میں 5 سے 10 فیصد کمی کی بات کر رہے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ فی کس دولت میں کمی آئے گی اور کم لوگوں کی وجہ سے مجموعی جی ڈی پی بہت کم ہو جائے گی۔‘

طارق حسن نے مزید کہا کہ ’اُن کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ امیگریشن کی وجہ سے معاشرے میں جدت میں اضافہ ہوتا ہے جو پیداواری صلاحیت کے فروغ کا باعث بنتا ہے، لہذا یہ کسی ایک شعبے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ امریکی معیشت کی مجموعی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔‘

تارکین وطن کا کام کرنے کی عمر میں ہونا بھی اہم ہوتا ہے۔ ایک سرکاری ادارے بیورو آف لیبر سٹیٹسٹکس کے مطابق اگرچہ تارکین وطن امریکی آبادی کا تقریباً 14 فیصد ہیں لیکن وہ افرادی قوت کا تقریباً 19 فیصد بنتے ہیں۔

کانگریس کی پیش گوئیوں کے مطابق سنہ 2022 اور سنہ 2034 کے درمیان امریکہ پہنچنے والے 16 سال اور اس سے زیادہ عمر کے تقریباً 91 فیصد تارکین وطن کی عمر 55 سال سے کم ہونے کی توقع ہے۔

ٹرمپ کا ’پیدائش پر شہریت‘ کا قانون ختم کرنے کا اعلان: کیا پناہ گزینوں کے بچوں کو امریکی شہری نہیں مانا جائے گا؟ٹرمپ 2.0 کے عالمی معیشت پر ممکنہ اثرات: گاڑیوں سمیت چینی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہچائنا فیکٹر، عمران خان اور اتحادی انڈیا کی موجودگی: ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پاکستان کے لیے کیسا ہو گا؟درجنوں نئے صدارتی آرڈرز کی بوچھاڑ اور سابق صدر بائیڈن کے 78 حکمناموں کی منسوخی: ٹرمپ نے صدارت کے پہلے روز کیا کچھ کیا؟

امریکہ میں چند معاشی شعبوں جیسا کہ زراعت کا انحصار خاص طور پر تارکین وطن مزدوروں پر ہے۔

امریکی محکمہ افرادی قوت کے ایک سروے کے مطابق امریکہ میں زرعی مزدوروں میں سے 70 فیصد تارکین وطن ہیں، یہ اور بات ہے کہ اُن میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ جن کے پاس ضروری دستاویزات بھی نہیں ہیں۔

امیگریشن کی حمایت کرنے والے گروپ امریکن امیگریشن کونسل (اے آئی سی) کے ریسرچ ڈائریکٹر نان وو کا کہنا ہے کہ تارکینِ وطن کو ملک بدر کرنے کی وجہ سے ’بہت سے فارم مالکان کو فصلیں اُگانے، پھلوں اور سبزیوں کی کاشت اور کٹائی اور انھیں مارکیٹ تک پہنچانے کے عمل میں شدید مُشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

امیگریشن یا تارکینِ وطن پر تنقید کرنے والوں کی جانب سے عام طور پر پیش کی جانے والی ایک دلیل یہ ہوتی ہے کہ کم تنخواہ پر کام کرنے کے لیے تیار ہو جانے والے غیر ملکی مزدورں کی آمد سےمقامی آبادی اور لوگوں کے لیے ایک تو روزگار کے مواقع کم پڑ جاتا ہے ہیں اور دوسرا اُن کی ماہانہ اجرت میں بھی کمی ہوتی ہے۔

لیکن یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی جانب سے سنہ 2014 میں امیگریشن کے معاشی اثرات پر کیے گئے 27 مطالعات کے جائزے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ مقامی طور پر پیدا ہونے والے روزگار کے مواقع اور اجرتوں پر امیگریشن کا اوسط اثر بنیادی طور پر صفر تھا۔

ایسٹرن الینوائے یونیورسٹی کے ایک حالیہ مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ تارکین وطن کی تعداد میں اضافے کا اجرت میں اضافے پر ’مثبت لیکن اعداد و شمار کے لحاظ سے غیر معمولی‘ اثر پڑ سکتا ہے۔

ٹیکسGetty Images

لیکن ٹیکس کی ادائیگی اور اس سے ہونے والی آمدنی پر اثرات کے بارے میں کیا خیال ہے؟

اے آئی سی کے تجزیے کے مطابق سنہ 2022 میں تارکین وطن گھرانوں نے تقریباً 580 ارب ڈالر کی ادائیگی کی جو امریکہ میں جمع ہونے والے مجموعی ٹیکس کا چھٹا حصہ ہے۔

تنظیم سے تعلق رکھنے والی مس وو کہتی ہیں کہ یہ صرف قانونی طور پر آنے والے تارکین وطن ہی نہیں ہیں جو ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

پیو ریسرچ سینٹر تھنک ٹینک کے تجزیے کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن امریکہ میں بسنے والے کل تارکین وطن آبادی کا تقریباً 23 فیصد ہیں (تقریباً ایک کروڑ 10 لاکھ جن میں سے 40 لاکھ کا تعلق میکسیکو سے ہے۔)

انسٹیٹیوٹ آن ٹیکسیشن اینڈ اکنامک پالیسی کی ایک تحقیق کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن نے سنہ 2022 میں وفاقی، ریاستی اور مقامی ٹیکسوں کی مد میں تقریباً 100 ارب ڈالر ادا کیے۔

تاہم تھنک ٹینک اکنامک پالیسی انسٹیٹیوٹ میں امیگریشن لا اینڈ پالیسی ریسرچ کے ڈائریکٹر ڈینیئل کوسٹا کا کہنا ہے کہ اگرچہ امیگریشن کے معاشی اثرات قومی سطح پر مثبت ہوسکتے ہیں لیکن کچھ ریاستوں میں خاص طور پر مختصر مدت میں یہ منفی بھی ہو سکتے ہیں۔

ایک حالیہ مطالعے میں انھوں نے اور اُن کی ٹیم نے کم اجرت حاصل کرنے والے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد کی مثال دی لیکن فوائد کے اہل ہونے کی وجہ سے ’مختصر مدت میں مالی توازن کو مختصر مدت میں منفی اثرات کی طرف جھکا دیا گیا۔‘

اسی وجہ سے وہ اور اُن کی ٹیم وفاقی سے ریاستی سطح پر فنڈز کی زیادہ سے زیادہ تقسیم کی دلیل دیتے ہیں جس سے امیگریشن کی اعلی سطح والے علاقوں کو اس سے پیدا ہونے والے کسی بھی چیلنج کا جواب دینے کے لیے زیادہ رقم ملے گی۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والے معروف امیگریشن ماہر اور ماہر معاشیات پروفیسر جیووانی پیری کا کہنا ہے کہ تارکین وطن کی جانب سے کمیونٹیز پر دباؤ ویسا ہی ہو سکتا ہے جیسا امریکہ میں پیدا ہونے والے افراد کی آبادی میں اضافے کے بعد ہوتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر تعمیرات کو ایڈجسٹ نہیں کیا گیا تو اس سے خدمات اور رہائش پر بھی دباؤ پڑے گا۔ یہ صرف اتنا ہے کہ تارکین وطن کو تنہا کرنا آسان ہے۔‘

جدت اور انٹرپرینیورشپ یا نیا کاروبارGetty Images

اگر امریکہ کی حالیہ تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تارکین وطن یا اُن کے بچوں کی ایک بڑی تعداد آگے چل کر معروف کاروباری افراد بنی ہے۔

آمدنی کے لحاظ سے 500 سب سے بڑی امریکی کمپنیوں کی سالانہ فہرست ’فارچیون 500‘ کا تقریباً 45 فیصد تارکین وطن یا اُن کے بچوں کی طرف سے قائم کیا گیا تھا اور تارکین وطن نے 55 فیصد امریکی سٹارٹ اپس قائم کیے ہیں جن کی مالیت ایک ارب ڈالر یا اس سے زیادہ ہے۔

تارکین وطن نے عالمی تکنیکی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے، اور ان میں سے بہت سے ابتدائی طور پر بین الاقوامی طالبعلموں کے طور پر امریکہ آئے تھے۔

ایسوسی ایشن آف انٹرنیشنل ایجوکیٹرز کے مطابق سنہ 2022 سے سنہ 2023 کے تعلیمی سال میں دس لاکھ سے زائد بین الاقوامی طالب علموں نے امریکی معیشت میں 40 ارب ڈالر کا حصہ ڈالا اور ٹیوشن اور رہائش کے اخراجات کے ذریعے 3 لاکھ 68 ہزار سے زائد ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے۔

رائے عامہGetty Images

امریکی معیشت میں تارکین وطن کے کردار کے باوجود جولائی 2024 کے گیلپ سروے میں یہ سامنے آیا ہے کہ 55 فیصد امریکی امیگریشن میں کمی دیکھنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے امریکی معاشرے میں ایک وسیع تر سیاسی اتفاق رائے ہے کہ نقل مکانی پر کنٹرول کو سخت کیا جانا چاہیے خاص طور پرمیکسیکو سے۔

پروفیسر پیری کے مطابق کچھ سیاستدان اور میڈیا ادارے امیگریشن کو 'سرحد پر افراتفری‘ کے مترادف قرار دیتے ہیں اور امیگریشن کے وسیع تر اثرات کے بجائے غیر قانونی داخلے کی کہانیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

معیشت میں تارکین وطن کے کردار اور آبادیاتی تنزلی پر بات کرنے کے بجائے وہ کہتے ہیں کہ ’لوگ اکثر امیگریشن کے بارے میں جنوبی سرحد سے تارکینِ وطن کی آمد کو ’سیلاب‘ کے طور پر دیکھتے ہیں، اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ حد سے زیادہ اور نقصان دہ ہے۔‘

بوسٹن یونیورسٹی کے طارق حسن کے مطابق ’گذشتہ دو دہائیوں میں امیگریشن خاص طور پر زیادہ رہی ہے جس کی وجہ سے نئے آنے والوں کو ضم کرنے کی سماجی صلاحیت پر دباؤ پڑ سکتا ہے۔‘

’اور اگرچہ امیگریشن معاشی، سماجی اور ثقافتی شعبوں پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے لیکن ایسے پہلو بھی ہو سکتے ہیں جن سے لوگ مطمئن نہیں۔‘

چائنا فیکٹر، عمران خان اور اتحادی انڈیا کی موجودگی: ڈونلڈ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پاکستان کے لیے کیسا ہو گا؟ٹرمپ 2.0 کے عالمی معیشت پر ممکنہ اثرات: گاڑیوں سمیت چینی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہدو ’ڈیجیٹل سکے‘ جن سے ٹرمپ اور میلانیا کی دولت میں راتوں رات اربوں ڈالر کا اضافہ ہواڈونلڈ ٹرمپ: ’رنگین مزاج ارب پتی‘ شخصیت سے ’امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کی مہم‘ تکدرجنوں نئے صدارتی آرڈرز کی بوچھاڑ اور سابق صدر بائیڈن کے 78 حکمناموں کی منسوخی: ٹرمپ نے صدارت کے پہلے روز کیا کچھ کیا؟ٹرمپ کا ’پیدائش پر شہریت‘ کا قانون ختم کرنے کا اعلان: کیا پناہ گزینوں کے بچوں کو امریکی شہری نہیں مانا جائے گا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More