انڈیا کے مرکزی تحقیقاتی ادارے (سی بی آئی) نے 19 سال بعد ایک قتل کیس کے دو ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے۔
اس معاملے میں مقتولہ کی والدہ 19 سال سے تنہا قانونی جنگ لڑ رہی تھیں۔ مقتولہ کی والدہ کا کہنا تھا کہ میں صرف یہ خبر سننے کے لیے اپنی زندگی گزار رہی تھی اور خدا نے میری دعا سن لی۔
10 فروری 2006 کو شانتھاما کسی کام سے پنچائیت دفتر گئی تھیں۔ جب وہ گھر واپس آئیں تو ان کی 24 سالہ بیٹی رنجانی اور ان کی 17 دن کی جڑواں بچیوں کو گلا دبا کر بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔
اپنی بیٹی اور نواسیوں کو اس حالت میں دیکھ کر شانتھاما صدمے میں چلی گئیں اور بے ہوش ہو گئیں۔ اس کے بعد پڑوسی آئے اور پولیس کو بلایا۔
شانتھاما کی عمر 67 سال ہے اور وہ ایک طویل عرصے سے قاتلوں کو سزا دلانے کے لیے قانونی جنگ لڑ رہی ہیں۔
اگرچہ واقعے کے فوری بعد ملزمان کی شناخت نہیں ہو سکی لیکن آخر کار 19 سال کی جدوجہد کے بعد شانتھاما کو ملزم کی گرفتاری کی خبر ملی۔
کیرالہ پولیس اے آئی ٹیکنالوجی کی مدد سے ملزم تک پہنچ گئی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) ٹیکنالوجی نے طویل عرصے سے ملک کے مختلف حصوں میں فرار اور روپوش ملزمان کو پکڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پولیس کے مطابق ملزم دیول کمار متوفی رنجانی کا جاننے والا ہے اور ان کی جڑواں بچیوں کا باپ ہے جبکہ دوسرا ملزم اس کا دوست ہے۔
قتل کے واقعے کے بعد ملزمان نے اپنی شناخت تبدیل کی اور مختلف ناموں سے پڈوچیری میں رہنے لگے۔ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے خاندان ہیں۔
’میری جدوجہد کا نتیجہ‘
شانتھاما آج تک اپنی بیٹی اور نواسیوں کے قتل کے صدمے سے پوری طرح باہر نہیں آ سکیں۔ وہ کہتی ہیں یہ میری دعاؤں اور جدوجہد کا صلہ ہے۔ ’مجھے خوشی ہے کہ میری بیٹی کے قاتل پکڑے گئے ہیں۔ میں برسوں سے انصاف کے لیے لڑ رہی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ مجھ میں اکیلے لڑنے کی ہمت کہاں سے آئی۔ مجھے عدلیہ پر بھروسہ ہے اور امید ہے کہ دونوں کو سخت سزا دی جائے گی۔‘
شانتھاما ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ چھوٹی عمر میں اپنے شوہر سے الگ ہو گئی تھی اور اکیلی رہ رہی تھیں۔ شانتھاما کے شوہر اپنی بیٹی کی آخری رسومات کے دوران آئے۔
دمہ اور تھائرائیڈ جیسے صحت کے مسائل سے دوچار ہونے کے باوجود شانتھاما اپنی قانونی جنگ میں ڈٹی رہیں، حالانکہ شانتھما اس بات سے پریشان تھیں کہ قانونی جنگ میں ان کی حمایت کے لیے کوئی آگے نہیں آیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ان 19 سال میں انھوں نے کبھی قانونی جنگ سے پیچھے ہٹنے کا نہیں سوچا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے معلوم تھا کہ یہ دن آئے گا، مجھے امید تھی کہ قاتل ایک دن مل جائیں گے لیکن جب بھی مجھے مایوسی ہوئی کہ کیس میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی تو میں نے اپنے آپ کو تسلی دی کہ سب ٹھیک ہے۔‘
شانتھاما ملزمان کو ایک بار دیکھنا چاہتی ہیں جنھوں نے ان کی بیٹی کو قتل کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں ان سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ انھوں نے میری بیٹی اور اس کی بچیوں کو کیوں مارا۔‘
کیرالہ کانگریس کے سینیئر لیڈر جیوتھی کمار سمکل نے کہا ہے کہ شانتھاما کے عزم نے کیس کو انجام تک پہنچایا۔
جیوتھی کمار نے کہا کہ ’شانتھاما کی حمایت کے لیے کوئی بھی آگے نہیں آیا حالانکہ برسوں تک قتل کے مجرموں کو پکڑا نہیں جا سکا لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔‘
قتل کے روزکیا ہوا تھا؟
10 فروری 2006 کی سہ پہر اس وقت کے سرکل انسپکٹر شاہنواز کو فون آیا۔ شاہنواز نے اس وقت کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’مقامی لوگوں نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ آنچل گاؤں میں کرائے کے مکان میں رہنے والی رنجانی اور اس کے جڑواں بچوں کو قتل کر دیا گیا۔‘
شاہنواز فوراً اپنی ٹیم کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے۔ انھیں آج بھی یاد ہے کہ اس وقت شانتھاما زور زور سے رو رہی تھیں۔
اس نے قتل کے شبہ اور اسرار کو یاد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دیول کمار اور راجیش نے منصوبہ بند طریقے سے قتل کیا ہے۔
شاہنواز نے کہا کہ ’قتل کے وقت دیول کمار کولم میں نہیں تھا، وہ پٹھان کوٹ آرمی کیمپ میں تھا، دونوں نے مل کر منصوبہ بنایا تھا تاکہ کوئی شک پیدا نہ ہو۔ قتل کو اس کے دوست راجیش نے انجام دیا تھا۔‘
شاہنواز نے کہا کہ دیول کمار رنجانی کے ساتھ تعلقات میں تھا اور پھر شادی سے انکار کر دیا۔
وہی ان جڑواں بچیوں کا باپ تھا لیکن جب اس نے بچوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تو رنجانی نے ریاستی کمیشن برائے خواتین میں شکایت درج کرائی۔ شاہنواز کے مطابق رنجانی اور بچوں کو قتل کرنے کی وجہ یہی تھی۔
رنجانی کی ڈیلیوری پر راجیش نے اپنا نام انیل کمار بتا کر رنجانی سے اپنا تعارف کرایا۔ اس نے رنجانی کو بتایا کہ اس کی بیوی بھی ڈیلیوری کے لیے ہسپتال میں داخل ہے۔
قتل سے چند ہفتے قبل دیول کمار اور راجیش نے ایک پرانی موٹر سائیکل خریدی تھی۔ اس کی آر سی (رجسٹریشن سرٹیفکیٹ) موقع پر مل گیا۔
انسپکٹر شاہنواز نے بتایا کہ ’ہمارے پاس صرف یہی ایک سراغ تھا، موٹر سائیکل کے مالک کی طرف سے دیے گئے سراغ کی بنیاد پر ہمیں پتا چلا کہ دیول کمار اور راجیش نے ہی قتل کیا۔‘
ملزمان کیوں نہیں پکڑے گئے؟
مقامی لوگوں کے مطابق قتل کرنے کے بعد ایک شخص موٹر سائیکل پر بھاگا۔ پولیس نے اس شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ یہ شخص (راجیش) اے ٹی ایم سے پیسے نکالنے کے لیے راستے میں رک گیا۔ اس وقت پولیس اہلکار نے اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ بھاگ گیا۔
انسپکٹر شاہنواز کا کہنا ہے کہ ’جب ہم نے بعد میں بینک ٹرانزیکشنز کے بارے میں تفتیش کی تو ہمیں پتہ چلا کہ اس اکاؤنٹ اور پٹھان کوٹ میں ایک بینک اکاؤنٹ کے درمیان لین دین ہوا تھا۔ ہمیں معلوم ہوا کہ وہ فوج میں کام کرتا تھا اور راجیش کا دیول کمار کے ساتھ قریبی تعلق تھا۔ اسی بینک اکاؤنٹ سے ہی ہمیں راجیش کی تصویر ملی۔‘
انسپکٹر شاہنواز نے کہا کہ ہم نے ان دونوں کو پکڑنے کے لیے بہت کوششیں کیں۔ ہم نے مہاراشٹر، ہماچل پردیش، پنجاب، ہریانہ جیسی کئی ریاستوں میں تلاشی لی۔ وہ بھاگتے رہے اور کئی جگہ چھپتے رہے۔ ہم نے فوج کو معاملے سے آگاہ کیا۔ اطلاع دی اور فوج نے دونوں کو ڈیوٹی سے برطرف کر دیا۔‘
اس کیس کی تحقیقات 2010 میں کیرالہ میں سی بی آئی کو سونپ دی گئیں۔ اس کیس میں 2013 میں چارج شیٹ داخل کی گئی تھی لیکن تاحال ملزمان کی شناخت نہیں ہو سکی۔
شاہنواز بعد میں آئی پی ایس کے عہدے پر فائز ہوئے اور 2022 میں کیرالہ پولیس انٹیلیجنس کے ایس پی کے طور پر ریٹائر ہوئے۔
ان سفاکانہ قتل کے مجرموں کو پکڑنے میں ناکامی نے شاہنواز کو بہت مایوس کیا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمیں معلوم تھا کہ قاتل کون ہیں لیکن ہم انھیں پکڑ کر متاثرین کو انصاف نہیں دلوا سکے۔‘
جب شاہنواز محکمہ انٹیلیجنس میں تھے تو کیرالہ پولیس نے ان زیر التوا مقدمات کی دوبارہ تفتیش کرنے کا فیصلہ کیا جن میں ملزمان مفرور تھے۔
اس کے بعد شاہنواز نے اعلیٰ افسران کو کیس کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور ٹیکنالوجی کی مدد سے دیول کمار اور راجیش کی تلاش شروع کر دی۔
ایک صدی پرانا قتل جس نے تاجِ برطانیہ کو ہلا کر رکھ دیا ارب پتی کی بیوی ہونے کی غلط فہمی میں اغوا اور قتل ہونے والی خاتون کی تلاش کا معمہ: ’ہم دن میں ہزار بار مر رہے تھے‘کراچی ’ہائی سوسائٹی‘ کا سکینڈل جو ایک پراسرار موت پر ختم ہوالاہور میں قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے والے عامر سرفراز تانبا جن پر انڈین ’جاسوس‘ کے قتل کا الزام لگااے آئی ٹیکنالوجی کی مدد
کیرالہ پولیس نے اے آئی ٹیکنالوجی کی مدد سے اس معاملے میں ملزمان کو پکڑنا شروع کیا۔
کیرالہ میں لا اینڈ آرڈر کے اے ڈی جی پی منوج ابراہم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم زیر التوا مقدمات میں مفرور مجرموں کو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہمارے پاس اب بھی دیول کمار کی پرانی تصویر تھی، جو اس کیس میں ملزم تھا۔‘
دیول کمار کو پکڑنے کے لیے کیرالہ پولیس نے خصوصی طور پر ڈیزائن کردہ اے آئی سافٹ ویئر کا استعمال کیا۔ اس کے ذریعے انھوں نے دیول کمار کی پرانی تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے مزید تصاویر بنائیں اور ان کا موازنہ انٹرنیٹ پر موجود لاکھوں تصاویر سے کیا۔ اس طرح انھوں نے دیول کمار کو پہچانا۔
منوج ابراہم کے مطابق ٹیکنالوجی نے دیول کمار کے چہرے کے تاثرات اور اس کے بالوں میں فرق کو پہچان لیا۔
دیول کمار کی ایک تصویر فیس بک پر موجود ایک تصویر سے مماثل رکھتی ہے۔ پولیس نے اس فیس بک اکاؤنٹ کا موبائل نمبر ٹریس کیا اور اسے چیک کیا تو پتہ چلا کہ دیول کمار پڈوچیری میں ہیں۔
اس کے بعد سی بی آئی چنئی برانچ کو اطلاع دی گئی۔ دیول کمار کو گرفتار کرنے کے بعد سی بی آئی نے ان کے ذریعے راجیش کو بھی گرفتار کیا۔
ملزمان نے شناخت بدل کر مختلف نام رکھ لیے
دیول کمار اور راجیش نے اپنی شناخت بدل دی اور وشنو اور پراوین کمار کے نام رکھ لیے۔ ان کی شادی بھی ہوئی اور وہ انٹیریئر ڈیزائن انڈسٹری میں کام کر رہے تھے۔
اے ڈی جی پی منوج ابراہم نے کہ کہ ’نہ تو ان کے خاندان کے افراد اور نہ ہی ان کے پڑوسیوں نے ان پر پہلے کبھی شک کیا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں اے آئی ٹیکنالوجی کی مدد سے مجرموں کو پکڑنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
اے ڈی جی پی منوج کا ماننا ہے کہ ’اے آئی ٹیکنالوجی کی مدد سے مجرموں کی شناخت آسان اور موثر ہے۔ مستقبل میں، امن و امان سے متعلق تمام معاملات میں اے آئی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
گرفتار دیول کمار اور راجیش فی الحال سی بی آئی کی حراست میں ہیں۔ عدالت نے انھیں 18 جنوری تک سی بی آئی کی تحویل میں رکھنے کا حکم دیا ہے۔
اسی طرح ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے مرنے والے جڑواں بچوں کے نمونے محفوظ کرنے کے عدالتی احکامات پہلے ہی موجود تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اب جبکہ ملزم گرفتار ہے تو اس کا ڈی این اے ٹیسٹ بھی کرایا جائے گا۔
اے سی والے کمرے میں لاش کا معمہ: دبئی سے خریدی گئی شرٹ جس سے قاتل کا سراغ ملابینکاک میں مشہور سیاستدان کا قتل جس میں ایک ہمسایہ ملک بھی ملوث ہو سکتا ہےمرینا کوپیل: پیر کا خون آلود نشان، انگوٹھی میں پھنسا بال اور سیکس ورکر کا قتل جو 30 برس تک معمہ بنا رہالاہور میں قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے والے عامر سرفراز تانبا جن پر انڈین ’جاسوس‘ کے قتل کا الزام لگارفیع خاور ننھا، جن کی موت 37 سال بعد بھی ایک معمہ ہے