ناکافی اقدامات یا سمگلروں کے ساتھ تعاون، حکومت انسانی سمگلنگ روکنے میں ناکام کیوں؟

اردو نیوز  |  Jan 17, 2025

پاکستان کی وفاقی حکومت ایک طرف انسانی سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے تو دوسری جانب پاکستانی شہریوں کا غیر قانونی راستے سے بیرون ممالک جانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

گذشتہ ایک ماہ کے دوران غیر قانونی تارکین وطن کی یورپ جانے کی کوشش میں کشتی ڈوبنے کے دو واقعات پیش آ چکے ہیں جن میں 50 کے قریب پاکستانی شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

اس حوالے سے پاکستان کی وفاقی وزارت داخلہ نے آج جمعے کو سینیٹ اجلاس جمع کروائے گئے اپنے جواب میں بتایا ہے کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران مختلف کارروائیوں میں ایف آئی اے نے 182 انسانی سمگلروں کو گرفتار کیا ہے جبکہ انسانی سمگلروں سے تعاون کے الزام میں 38 ایف آئی اے ملازمین کو بھی نوکری سے برخاست کیا گیا ہے۔

ماہرین انسانی سمگلنگ کے وسیع مواقع موجود ہونے کے برعکس حکومتی اقدامات کو ناکافی قرار دے رہے ہیں۔ اُن کے خیال میں نوجوانوں کو غیر قانونی راستوں سے دوسرے ممالک جانے کے نتائج پر آگاہی فراہم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

انسانی سمگلنگ روکنے کے خلاف حکومتی اقدامات

پاکستان کی وفاقی حکومت نے 13 اور 14 دسمبر کی درمیانی شب یونان کے قریب غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کے بعد چیئرمین انسداد منی لانڈرنگ و انسداد دہشت گردی فنانسنگ اتھارٹی مشتاق سکھیرا کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی۔

یاد رہے اس سے قبل سال 2023 میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے پر بھی اُس وقت کی وفاقی حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، تاہم کمیٹی کی سفارشات پر عمل در آمد نہیں ہو سکا ہے۔

گذشتہ ماہ قائم کی گئی تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی میں چیئرمین انسداد منی لانڈرنگ و انسداد دہشت گردی فنا نسنگ اتھارٹی اور سابق آئی جی پولیس مشتاق احمد سکھیرا، ڈی جی انسداد منی لانڈرنگ و انسداد دہشت گردی فنانسنگ اتھارٹی احسان غنی اور ڈائریکٹر ایف آئی اے ملک سکندر حیات کو شامل کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے وزیراعظم نے تین رکنی کمیٹی کو ہدایت کی تھی کہ جون2023 میں قائم کی گئی انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جا ئے اور عملدرآ مد نہ کرنے والے افسروں کی ذمہ داری کا تعین کیا جا ئے۔

کمیٹی نے ابھی اپنی حتمی رپورٹ تو مرتب نہیں کی تاہم کمیٹی کی نشاندہی پر ایف آئی اے اور پولیس نے ملک بھر میں انسانی سمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے۔

بیرسٹر محمد ساجد مجید چوہدری کے خیال میں بارڈرز کی سو فیصد نگرانی ممکن نہیں (فوٹو: روئٹرز)وزارت داخلہ کے مطابق 14 دسمبر سے اب تک کی جانے والی مختلف کارروائیوں میں 182 انسانی سمگلر گرفتار کیے جا چکے ہیں، جن میں 16 سمگلر براہ راست یونان کشتی حادثہ میں ملوث تھے۔

مختلف کارروائیوں میں ایف آئی اے اور پولیس نے انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس سے 5 کروڑ سے زائد مالیت کی رقم اور جائیداد بھی ضبط کی ہے۔ وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ اس وقت اایف آئی اے کی جانب سے ملک بھر میں انسانی سمگلروں کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔

اُردو نیوز نے انسانی سمگلنگ کےخلاف کام کرنے والے ماہرین سے گفتگو کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ کیا انسانی سمگلنگ روکنے کے لیے حکومت کے اقدامات ناکافی ہیں؟ اور اس کی روک تھام کے لیے کیا حکمت عملی ترتیب دینی چاہیے؟

تارکین وطن پر کام کرنے والے قانون دان میجر (ر) بیرسٹر محمد ساجد مجید چوہدری کے خیال میں انسانی سمگلنگ کو روکنے کے لیے زمینی اور سمندری راستوں کو محفوظ بنانا ضروری ہے تاہم بارڈرز کی سو فیصد نگرانی ممکن نہیں۔

اُنہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’بطور سابق میجر میں سمجھتا ہوں کہ بری اور بحری دونوں سرحدوں کے راستے ٹولیوں کی شکل میں انسانی سمگلر باآسانی اپنا دھندہ چلا سکتے ہیں اور وہ چلا بھی رہے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ سرحدوں وسیع رقبے کی وجہ سے 24 گھنٹے مکمل نگرانی کرنا بہت مشکل کام ہے اور انسانی سمگلر اسی کمی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

ساجد مجید نے مراکش کشتی حادثے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں ایران بارڈر کے بند ہونے سے ترکیہ کے ذریعے یورپ داخلے کے امکانات کم ہونے پر اب سمگلر افریقی ممالک کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ارسلان ناصر نےکہا کہ حکومت کی جانب سے انسانی سمگلنگ روکنے کے اقدامات ناکافی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان سے وزٹ ویزہ پر یا غیر قانونی راستے افریقہ جا کر وہاں سے ڈنکی لگا کر یورپ جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ اُن کا کہنا تھا اس ضمن میں ایف آئی اے پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ افریقہ جانے والے پاکستانیوں سے پوچھ گچھ کریں کہ وہ کس مقصد کے لیے وہاں جا رہے ہیں۔

اُنہوں نے آخر میں اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ حکومتی اداروں کو غیر قانونی طور پر بیرون ممالک جانے والے نوجوانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ لوگوں کو یہ سمجھانا ہو گا آج کے جدید دور میں کوئی ملک اپنی حدود میں غیر قانونی طریقے سے داخلے کی اجازت نہیں دیتا۔

مراکش کشتی حادثے اور حکومتی اقدامات پر بات کرتے ہوئے امیگریشن کے ماہر ارسلان ناصر نے اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ حکومت کی جانب سے انسانی سمگلنگ روکنے کے اقدامات ناکافی ہیں کیونکہ ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ملوث ہوئے بغیر انسانی سمگلنگ ممکن نہیں ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو سب سے پہلے تو ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے تا کہ نوجوان کم از کم بیرون ملک جانے کے لیے غیر قانونی راستے کا انتخاب نہ کریں۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More