عالمی بینک کی جانب سے پاکستان کے لیے ’10 برسوں میں 20 ارب ڈالر کے وعدے‘ کی حقیقت کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jan 16, 2025

Getty Images

عالمی بینک نے پاکستان کے ساتھ 10 سالہ ’کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک‘ (سی پی ایف) کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے اس کے ذریعے پاکستان میں ’شراکتی اور پائیدار ترقی کے عمل میں معاونت‘ فراہم کی جائے گی۔

عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ اس بیان کے بعد پاکستان کے وزیر اعظمشہباز شریف نے اس پروگرام کے تحت ورلڈ بینک کی جانب سے پاکستان کو 20 ارب ڈالر دینے کے وعدے کا خیرمقدم کیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری اپنے ایک بیان میں وزیراعظم نے کہا ’ہم عالمی بینک کی جانب سے 10 سالہ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کے تحت 20 ارب ڈالر کے وعدے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔‘

بی بی سی نے ماہرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ دس سالہ سی پی ایف کے تحت 20 ارب ڈالر کے وعدے کی حقیقت کی ہے اور کیا ایک بین الاقوامی ادارے کی جانب سے اس فنڈنگ کا وعدہ کیا ایک غیرمعمولی اعلان ہے؟

’10 برسوں میں 20 ارب کا وعدہ‘Getty Images

مالیاتی امور کے سینیئر صحافی خلیق کیانی کا کہنا ہے کہ جب عالمی بینک اور پاکستان کے درمیان اس فریم ورک پر کام ہو رہا تھا تو وہ پاکستان میں عالمی بینک کے نمائندوں کی جانب سے صحافیوں کے لیے کی گئی بیک گراونڈ گفت و شنید کا حصہ رہے ہیں۔

اُن کے مطابق 10 برسوں میں 20 ارب دینے کا وعدہ ’کوئی حیرت کی بات نہیں‘ کیونکہ اگر اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو عالمی بینک کی جانب سے پاکستان میں گذشتہ کئی برسوں سے اوسطاً ڈیڑھ سے دو ارب ڈالر سالانہ کی فنانسنگ آتی رہی ہے۔

’اگر 20 ارب ڈالر کو دیکھا جائے تو یہ رقم بھی سالانہ دو ارب ڈالر ہی بنتی ہے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں، اب صرف ہوا یہ ہے دس سالہ سی پی ایف پروگرام کے تحت اس رقم کو 20 ارب ڈالر کی مجموعی رقم بنا کر پیش کیا گیا ہے۔‘

عالمی بینک کی ویب سائٹ پر پاکستان میں سماجی اور معاشی شعبوں کے لیے اعلان کردہ پروگراموں کو جائزہ جائے لیا تو اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ سنہ 2024 میں ورلڈ بینک کی جانب سے 1.8 ارب ڈالر کی رقم منظوری دی گئی جو مختلف سماجی و معاشی شعبوں پر سنہ 2027 سے سنہ 2029 تک خرچ ہونی ہے

اسی طرح سنہ 2023 میں مختلف منصوبوں کے لیے پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر سے زائد کی مالی معاونت کی منظوری دی گئی۔ سنہ 2022 میں مختلف منصوبوں کےلیے عالمی بینک کی جانب سے دی جانے والی منظوری 2.8 ارب ڈالر ہے جس میں سندھ میں سیلاب کے بعد بحالی نو کے منصوبوں کے 50 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم بھی شامل تھی۔

خلیق کیانی کے مطابق ’عالمی بینک کی جانب سے جو مالی پیکج آتا ہے وہ کوئی مالی امداد نہیں ہوتی بلکہ وہ قرض ہوتا ہے جسے پاکستان کو سود سمیت واپس کرنا ہوتا ہے۔‘ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ بعض اوقات فنڈ کا بہت قلیل سا حصہ گرانٹ کی صورت میں بھی کبھی کبھار مل جاتا ہے۔

10 سال میں 20 ارب کا وعدہ کتنی اہمیت کا حامل ہے؟

پاکستان میں پلاننگ کمیشن کے سابقہ ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر ندیم الحق بھی اس معاملے میں خلیق کیانی کی رائے سے متفق ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ عالمی بینک سے گرانٹ کا وعدہ کوئی حیران کن بات نہیں ہے کیونکہ عالمی بینک پہلے ہی ہر سال پاکستان کو ڈیڑھ، دو ارب ڈالر دیتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکومت کیا اعلان کر رہی ہے کیونکہ حکومتیں ایسے اعلان کرتی رہتی ہیں۔ جیسا کہ سی پیک کے بارے میں کہا گیا تھا کہ یہ گیم چینجر پراجیکٹ ہے لیکن کیا واقعی یہ گیم چینجر منصوبہ ثابت ہوا؟‘

اُڑان پاکستان: معاشی بحالی کا 10 سالہ منصوبہ ’گیم چینجر‘ یا ’غیر حقیقی‘؟’ڈبل پینشن‘ کیا ہے اور پاکستانی حکومت نے اس پر پابندی کیوں لگائی؟کیا ڈیڑھ لاکھ سرکاری نوکریاں ختم کرنے سے حکومت پر معاشی بوجھ کم ہوگا؟کیا سعودی ایئر لائن ’فلائی آ ڈیل‘ کے پاکستان آنے سے ٹکٹ سستے ہو جائیں گے؟

ماہر معیشت شاہد محمود کے مطابق ’ورلڈ بینک کا کام ہی مختلف ممالک کو قرض دینا ہے اور وہ خوشی خوشی قرض دیتا ہے۔‘

انھوں نے کہا اگر اس وقت بھی دیکھا جائے تو عالمی بینک اور اس کے ذیلی اداروں میں پاکستان کے سماجی اور معاشی شعبوں میں قرضے کا پورٹ فولیو 17 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ’ویسے بھی ابھی تک یہ وعدہ ہے، اصل میں کتنی رقم ملے گی یہ آنے والے برسوں ہی میں پتا چلے گا۔‘

دس سالہ ’سی پی ایف‘ کے تحت رقم کن شعبوں میں ملے گی؟Getty Images

وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے ’ایکس‘ پر دیے گئے بیان کے مطابق اس فریم ورک کے تحت بچوں کی غذائیت، معیاری تعلیم، کلین انرجی، ماحولیات، جامع ترقی اور نجی سرمایہ کاری جیسے چھ شعبوں پر توجہ دی گئی ہے۔

اس ضمن میں عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق پاکستان میں چھ شعبوں کو چنا گیا ہے ان میں سماجی، معاشی اور توانائی کے شعبے شامل ہیں۔

عالمی بینک کے مطابق اس پروگرام کے تحت پاکستان میں بچوں میں غذائیت کے ذریعے اُن کی جسمانی نشو و نما میں ہونے والی کمی کو دور کیا جائے گا ۔

اِسی طرح ’غربت کے خاتمے کے لیے کام کیا جائے گا، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلاب اور دوسری قدرتی آفات اور ان کے زرعی شعبے پر منفی اثرات کے تدارک کے لیے کام کیا جائے گا۔‘

عالمی بینک کے مطابق شفاف اور پائیدار انرجی کے شعبے پر بھی فوکس کیا جائے گا۔ اسی طرح حکومتی اخراجات کی بہتر منیجمنٹ، پائیدار شرح نمو اور بیرونی تجارتی توازن میں بہتری کے لیے پیداواری اور شراکتی نجی سرمایہ کاری کو بڑھانے کے شعبوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

20 ارب ڈالر کے وعدے سے ملک کے سماجی و معاشی شعبوں پر اثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے شاہد محمودکہتے ہیں کہ شاید یہ رقم ملنے سے بھی اس شعبوں پر کوئی خاص فرق نہ پڑ سکے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان میں عالمی بینک اور دوسرے مالیاتی اداروں کی جانب سے گذشتہ 20 برسوں میں صرف تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے 12 ارب ڈالر کی معاونت دستیاب ہوئی۔ ’لیکن کیا پاکستان کا تعلیم و صحت کا شعبہ ترقی کر پایا۔۔۔ اس کا جواب نفی میں ہے۔‘

انھوں نے کہا ’صرف قرضہ لینا کامیابی نہیں ہے بلکہ اس کا بہترین استعمال سب سے اہم ہے جو بدقسمتی سے پاکستان میں نہیں ہو سکا۔‘

یاد رہے کہ پاکستان انسیٹیوٹ آف ڈویلمپنٹ آف اکنامکس کی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کے قیام سے لے کر سنہ 2023 تک 200 ارب ڈالر کی غیر ملکی مالی معاونت کے وعدے کیے گئے، جس میں سے 155 ارب ڈالر پاکستان آئے۔

شاہد محمود کے مطابق ’اگر اتنی بڑی رقم کو دیکھا جائے تو جو رقم آئی اس سے زیادہ ملک کو واپس کرنا پڑا لیکن اس کا استعمال اس طرح نہیں کیا گیا جسے پیداواری استعمال کہا جا سکتا یا ایسا استعمال جو ان شعبوں میں بہتری لا سکتا۔‘

ایف بی آر کا ایک ہزار سے زائد نئی گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ جو ’زیادہ ٹیکس کے لیے ضروری ہیں‘کیا ڈیڑھ لاکھ سرکاری نوکریاں ختم کرنے سے حکومت پر معاشی بوجھ کم ہوگا؟’ڈبل پینشن‘ کیا ہے اور پاکستانی حکومت نے اس پر پابندی کیوں لگائی؟اُڑان پاکستان: معاشی بحالی کا 10 سالہ منصوبہ ’گیم چینجر‘ یا ’غیر حقیقی‘؟کیا سٹارلنک پاکستان میں انٹرنیٹ کے مسائل کا حل ثابت ہو سکتی ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More