قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے لیے تیسرا اجلاس 16 جنوری کو طلب کر لیا ہے۔قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق مذاکراتی کمیٹیوں کا ان کیمرہ اجلاس 16 جنوری کی صبح 11 بج کر 30 منٹ پر پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوگا اور اس کی صدارت سپیکر ایاز صادق کریں گے۔یہ اجلاس پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کی خواہش پر عمران خان سے ملاقات اور ان کے خلاف 190 ملین پاؤنڈز کیس کا فیصلہ ایک مرتبہ پھر موخر ہونے کے بعد بلایا گیا ہے۔
دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ یہ اجلاس جو پچھلے کئی دنوں سے زیر التوا چلا آرہا تھا، پی ٹی آئی کی ایک نئی ڈیڈ لائن کے بعد بلایا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر 31 جنوری تک جوڈیشل کمیشن نہ بنا تو مذاکرات آگے نہیں چلیں گے۔
اس کے اگلے ہی روز احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ 17 جنوری تک موخر کر دیا۔اتوار کے روز عمران خان سے ملاقات کے بعد پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے رکن صاحبزادہ حامد رضا نے میڈیا کو بتایا تھا کہ تحریک انصاف حکومت کے ساتھ مذاکرات کی تیسری نشست میں ہر صورت پیشرفت چاپتی ہے اور معاملے کو آگے بڑھانے کے لیے دو مطالبات تحریری شکل میں فراہم کردے گی۔انہوں نے کہا کہ ’جوڈیشل کمیشن پہلا قدم ہے اور اسیران کی رہائی ہمارا مطالبہ ہے، حکومت کو جوڈیشل کمیشن بنانا چاہیے، ہمارا مطالبہ ایسا نہیں جو نہ مانا جا سکے، اب بال حکومت کی کورٹ میں ہے، ہم جتنی لچک دکھا سکتے تھے دکھا دی۔‘دوسری طرف حکومتی اراکین پی ٹی آئی پر مسلسل وقت ضائع کرنے کے الزامات لگاتے رہے ہیں اور وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے پیر کے روز قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران اپوزیشن کو مذاکرات میں غیر سنجیدہ قرار دے دیا۔انہوں نے سوال کیا کہ ’جو رویہ پی ٹی آئی اراکین نے اپنایا ہے کیا اس میں مذاکرات ہو سکتے ہیں؟‘حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے لیے تیسرا اجلاس 16 جنوری کو ہوگا۔ (فوٹو: ایکس)خواجہ آصف نے کہا کہ ’ان لوگوں (پی ٹی آئی) سے بلیک میل نہ ہوں، یہ مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں۔‘’رعایتیں مل سکتی ہیں رہائی نہیں‘غیر جانبدار مبصرین حکومت اور اپوزیشن دونوں کے رویے کو مذاکرات کے نتائج کے حوالے سے حوصلہ افزا نہیں سمجھتے، اور ان کے خیال میں اب تک کے حالات و واقعات کسی بڑے بریک تھرو کا اشارہ نہیں دیتے۔سینیئر تجزیہ کار ضیغم خان اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت مذاکرات پر پیشرفت کے متعلق ہچکچاہٹ کا شکار ہے جبکہ پی ٹی آئی کا رویہ حالات کے سازگار ہونے میں رکاوٹ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ خاص کر پی ٹی آئی کی طرف سے 9 مئی کے 19 ملزمان کی رہائی کا جشن منانے کی وجہ سے بھی معاملات خراب ہوئے ہیں۔’لگتا نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ابھی عمران خان کو رہا کرنے پر تیار ہے، ان کو کچھ رعایتیں تو مل سکتی ہیں۔ لیکن مکمل رہائی ابھی نظر نہیں آتی۔‘’اصل مذاکرات درپردہ ہونے کا امکان‘ضیغم خان نے کہا کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ اصل مذاکرات عمران خان کے کسی انتہائی بااعتماد ساتھی کے ساتھ درپردہ ہو رہے ہوں اور ان کے نتائج بعد میں سامنے آئیں۔ لیکن جب تک ان کے بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ملتی اس وقت تک کوئی حتمی رائے قائم نہیں ہو سکتی۔’تاہم 190 ملین پاؤنڈز کے مقدمے کے فیصلے کے بار بار ملتوی ہونے کے بارے میں ایک بات کہی جا سکتی ہے کہ ایسے مقدمات سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ یہ اسی وقت کیوں بنتے ہیں جب کوئی سیاسی جماعت زیرِعتاب ہوتی ہے؟‘’بے نظیر اور نواز شریف پر بھی ایسے ہی مقدمات بنے اور پھر سب نے دیکھا کہ ہائی کورٹ بھی اس وقت حیران ہو گئی جب نیب کا وکیل نواز شریف کا وکیل بن گیا۔‘احمد اعجاز کے مطابق دباؤ عمران خان سے زیادہ حکومت اور حکومتی حلقوں پر ہے۔ (فوٹو: ایکس) ضیغم خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سیاست کو ’آرٹ آف پوسیبلٹی‘ نہیں مانتی اور صرف سخت مطالبات پر یقین رکھتی ہے۔ ’اس سے تو یہی لگ رہا ہے کہ عمران خان کی فوری رہائی ممکن نہیں جیسا کہ پی ٹی آئی چاہتی ہے۔‘ ’دباؤ حکومت اور حکومتی حلقوں پر ہے‘ صحافی اور سیاسی تجزیہ کار احمد اعجاز کا کہنا ہے کہ مذاکرات کو اگلے سے اگلے راؤنڈ کی طرف دھکیلنا اور ایک اہم مقدمے کے فیصلے میں تاخیر عمران خان پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔’لیکن دوسری طرف عمران خان کے خلاف جتنے اقدامات ہوں گے یا عدالتی فیصلے آئیں گے تو ان کی مقبولیت مزید بڑھے گی اور سیاست چمکے گی۔‘احمد اعجاز کا مزید کہنا تھا کہ اگر عمران خان کو عدالتوں سے ریلیف ملتا ہے تو پھر بھی فائدہ ان کو ہوگا، تو درحقیقت حکومت پھنسی ہوئی ہے۔ چونکہ حکومت پھنسی ہوئی ہے تو میرا خیال ہے کہ تاخیری حربے حکومت کی طرف سے لیے جا رہے ہیں۔’دباؤ عمران خان سے زیادہ حکومت اور حکومتی حلقوں پر ہے۔‘