’نایاب معدنیات کا خزانہ‘ اور ٹرمپ کی دھمکی: امریکہ کے نئے صدر گرین لینڈ کو پانے کے لیے عسکری طاقت استعمال کر سکتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Jan 14, 2025

Getty Imagesڈنمارک کی وزیر اعظم میٹ فریڈرکسن نے امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کو مسترد کر دیا ہے۔

حالیہ دنوں میں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آرکٹک میں ڈنمارک کے ایک خودمختار علاقے اور دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ کو امریکہ کا حصہ بنانے میں نئی ​​دلچسپی ظاہر کی ہے۔

انھوں نے سب سے پہلے بطور صدر اپنی پہلی مدت کے دوران 2019 میں گرین لینڈ خریدنے کا ارادہ ظاہر کیا لیکن اب انھوں نے ایک قدم آگے بڑھایا ہے اور گرین لینڈ پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے امریکہ کی اقتصادی طاقت یا فوجی استعمال کرنے کے امکان کو مسترد نہیں کیا۔

ڈینش اور یورپی حکام نے ٹرمپ کی خواہشات کا جواب یہ کہہ کر دیا ہے کہ ’گرین لینڈ برائے فروخت نہیں ہے اور اس کی علاقائی سالمیت کا تحفظ ضروری ہے۔‘

گرین لینڈ کے وزیر اعظم میوٹ ایگیڈ نے گزشتہ ماہ واضح طور پر کہا تھا کہ گرین لینڈ اس کے لوگوں کا ہے اور یہ برائے فروخت نہیں ہے۔

نایاب معدنیات اور چین

واضح رہے کہ ٹرمپ نے سات جنوری کو ایک پریس کانفرنس کے دوران یہ تک کہا تھا کہ وہ گرین لینڈ کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے عسکری طاقت کے استعمال پر بھی غور کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ گرین لینڈ کی ضرورت معاشی وجوہات کی وجہ سے ہے۔

ٹرمپ کی جانب سے اس موضوع کو بار بار توجہ دینا ظاہر کرتا ہے کہ ان کے لیے اس معاملے کی اہمیت کافی بڑھ چکی ہے۔ لیکن آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ ماہرین کا ماننا ہے کہ اصل وجہ وہ معدنیات کا خزانہ ہے جو گرین لینڈ میں موجود ہے۔

تاریخی اعتبار سےامریکی حکام اس خطے کو سٹریٹیجک اہمیت کی وجہ سے توجہ دیتے آئے ہیں۔ روس سے قربت کی وجہ سے سرد جنگ کے دوران اسے یورپ اور شمالی امریکہ کے سمندری تجارتی راستے کو محفوظ بنانے کے لیے اہم سمجھا گیا۔ امریکی فوج نے دہائیوں تک یہاں ایک اڈہ قائم رکھا جسے بیلسٹک میزائلوں پر نظر رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔

تاہم 2023 میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں جیولوجیکل سروے آف ڈینمارک اور گرین لینڈ نے تخمینہ پیش کیا کہ جزیرے پر 38 معدنیات بڑی مقدار میں موجود ہیں جن میں کاپر، گریفائیٹ، نیوبیئم، ٹائٹینیئم، روڈیئم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نایاب معدنیات جیسا کہ نیوڈیمیئم اور پریسیوڈائمیئم جو الیکٹرک گاڑیوں کی موٹر اور ونڈ ٹربائن بنانے میں کام آتی ہیں بھی پائی گئی ہیں۔

مشیگن یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈم سائمن نے بی بی سی نیوز برازیل کو بتایا ہے کہ ’گرین لینڈ میں دنیا کی سب سے نایاب معدنیات کا عالمی طور پر 25 فیصد حصہ موجود ہو سکتا ہے۔‘ اگر یہ دعوی درست ہے تو مقدار کے حساب سے یہ پندرہ لاکھ ٹن بنتا ہے۔

یاد رہے کہ توانائی کی بدلتی ہوئی عالمی ضرورت کے بیچ نایاب معدنیات کا حصول اہم ہو چکا ہے جبکہ انھیں موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی ضروری سمجھا جا رہا ہے۔ بڑی عالمی طاقتیں دنیا بھر میں ایسی معدنیات کی بڑی کانوں کا کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں اور ایسے میں تنازعات بھی جنم لے رہے ہیں۔

چین اس وقت ان معدنیات کی مارکیٹ کا سب سے بڑا کھلاڑی ہے جو ایک تہائی حصے پر کنٹرول رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے چین کے سیاسی اور معاشی اثرو رسوخ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ گرین لینڈ میں اس وقت دو کمپنیاں نایاب معدنیات پانے پر کام کر رہی ہیں جن میں سے ایک کے پیچھے چینی سرکاری کمپنی کی سرمایہ کاری ہے۔

Getty Imagesصورتحال کیا رخ اختیار سکتی ہے؟

سو یہ غیر معمولی صورتحال کیا رخ اختیار کر سکتی ہے جس میں نیٹو کے دو اہم اتحادی آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے کہ جس کا 80 فیصد رقبہ برف سے ڈھکا ہوا ہے لیکن یہاں معدنی وسائل اتنی وافر مقدار میں موجود ہیں کہ جن پر سب کی نظر ہے۔

یہ حالات اس گرین لینڈ کی 56 ہزار آبادی کی آزادی کی امنگ کو کیسے متاثر کر سکتے ہیں جو 300 سال سے ڈنمارک کے زیر تسلط ہے۔ آئیے ہم گرین لینڈ کے مستقبل کے حوالے سے چار امکانات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

ٹرمپ کی دلچسپی ختم ہو جائے اور کچھ نہ ہو

امریکی صدر کی خواہش اور گرین لینڈ سے متعلق حالیہ صورتحال میں کچھ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات محض دکھاوا ہو سکتے ہیں اور اُن کی جانب سے ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ڈنمارک کو اس بات کی ترغیب دی جائے کہ وہ روس اور چین کی جانب سے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی خواہش سے لاحق خطرے کے پیش نظر گرین لینڈ کی سکیورٹی میں اضافہ کرے۔

گذشتہ مہینے ڈنمارک نے آرکٹک کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کے نئے فوجی پیکج کا اعلان کیا۔ اس اعلان کی تیاری نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات سے پہلے کی گئی تھی تاہم ٹرمپ کے بیانات کے چند گھنٹے بعد کیے جانے والے اس اعلان کو ڈنمارک کی وزیر دفاع نے ’قسمت کا کھیل‘ قرار دیا۔

ڈنمارک کے پولیٹکن اخبار کی چیف پولیٹیکل نامہ نگار ایلزبتھ سوین کا کہنا ہے کہ ’ٹرمپ نے جو کہا اس میں اہم بات یہ تھی کہ ڈنمارک کو آرکٹک میں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوں گی ورنہ اسے امریکہ کو ایسا کرنے کی اجازت دینی ہو گی۔‘

قیمتی معدنیات یا سٹریٹجک اہمیت: نومنتخب صدر ٹرمپ کا گرین لینڈ خریدنے کی خواہش کا اظہار، یہ جزیرہ امریکہ کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟امریکہ کا ’یو ٹرن‘: پہلے ڈنمارک کی سرزنش پھر تعریفتائیوان پر امریکہ اور چین کے درمیان ’چوتھا بڑا بحران‘ کیسے پیدا ہوا؟ریموٹ کنٹرول گن کے 13 راؤنڈ: انڈرکور ایرانی سائنسدان جنھیں موساد نے 8 ماہ کے خفیہ آپریشن کے بعد قتل کیا

رائل ڈینش ڈیفنس کالج کے ایسوسی ایٹ پروفیسر مارک جیکبسن کا خیال ہے کہ یہ ٹرمپ کا ’امریکی صدارت سنبھالنے سے پہلے ایک موقف اپنانے کا معاملہ ہے جبکہ گرین لینڈ اس موقع کو آزادی کی طرف ایک اہم قدم کے طور پر استعمال کرے گا تاکہ مزید بین الاقوامی توجہ حاصل کی جا سکے۔‘

لہٰذا اگر ٹرمپ اب گرین لینڈ میں دلچسپی کھو بھی دیتے ہیں جسے پروفیسر جیکبسن سب سے زیادہ امکان کے طور پر دیکھتے ہیں تو بھی انھوں (ٹرمپ) نے یقینی طور پر اس مسئلے کو اجاگر کیا ہے۔

تاہم گرین لینڈ کی آزادی کئی برسوں سے ایجنڈے پر ہے اور کچھ کا کہنا ہے کہ یہ بحث مخالف سمت میں جا سکتی ہے۔

سوین کہتی ہیں کہ ’میں نے گزشتہ چند دنوں میں دیکھا ہے کہ گرین لینڈ کے وزیر اعظم اپنے بیانات میں زیادہ پرسکون ہو گئے ہیں۔ گویا وہ گرین لینڈ کی آزادی پر رضامند ہو رہے ہیں لیکن ایسا فوری طور پر ممکن نہیں۔‘

Getty Imagesڈونلڈ ٹرمپ کے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے حال ہی میں گرین لینڈ کا دورہ کیا۔گرین لینڈ آزادی کے حق میں ووٹ دے اور امریکہ سے قریبی تعلقات کی خواہش کا اظہار کرے

گرین لینڈ میں اتفاق رائے ہے کہ وہ بالآخر آزادی حاصل کر لے گا اور یہ بھی کہ اگر گرین لینڈ اپنی آزادی کے حق میں ووٹ دیتا ہے تو ڈنمارک اسے قبول کرے گا اور اس کی توثیق بھی کرے گا۔

تاہم اس بات کا امکان بھی نہیں ہے کہ گرین لینڈ عوام کے لیے صحت کی خدمات اور فلاحی سکیموں کے حوالے سے ڈنمارک سے ملنے والی سبسڈی کے مسلسل حصول کی ضمانت تک آزادی کے حق میں ووٹ دے۔

ڈنمارک کے انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل سٹڈیز کے سینیئر محقق الریک گڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگرچہ گرین لینڈ کے وزیراعظم ناراض ہو سکتے ہیں لیکن اگر وہ حقیقت میں ریفرنڈم کا اعلان کرتے ہیں تو انھیں گرین لینڈ کی معیشت کو بچانے کے لیے ایک مُشکل وقت کا سامنا کرنا پڑے گا اور فلاحی سکیموں کے حوالے سے ٹھوس بیانیے کی ضرورت ہوگی۔‘

اس مسئلے پر ایک ممکنہ حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ جزیرہ الحاق کی جانب بڑھے۔ جیسا کہ اس سے قبل امریکہ نے بحرالکاہل کے ممالک مارشل آئی لینڈز، مائیکرونیشیا اور پالاؤ کے ساتھ کیا ہے۔

ڈنمارک نے اس سے قبل گرین لینڈ اور فیرو جزائر دونوں کے لیے ایسے الحاق اور ان کی حیثیت کی اس تبدیلی کی مخالفت کی تھی لیکن ڈاکٹر گیڈ کے مطابق ڈنمارک کی موجودہ وزیر اعظم میٹ فریڈرکسن یقینی اور مکمل طور پر اس کے خلاف نہیں ہیں۔

Getty Images1951 میں ہونے والے ایک معاہدے نے گرین لینڈ پر ڈنمارک کی خودمختاری قائم کی، لیکن امریکہ کو معاہدے میں وہ سب کچھ دیا گیا جو وہ چاہتا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’گرین لینڈ سے متعلق ڈنمارک کی سوچ اور نظریہ 20 سال پہلے کی نسبت بہت مختلف ہے۔ ڈنمارک اب اپنی ذمہ داری سمجھنے لگا ہے اور ان پر توجہ دینے کی بھی کوشش کر رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حالیہ بات چیت فریڈریکسن کو یہ کہنے پر آمادہ کر سکتی ہے کہ ڈنمارک کو آرکٹک میں رکھنا بہتر ہے سو گرین لینڈ کے ساتھ کچھ تعلق برقرار رکھا جانا چاہیے، چاہے وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو۔‘

لیکن اگر گرین لینڈ ڈنمارک سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے تو حالیہ برسوں میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ وہ امریکہ سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتا۔ دوسری عالمی جنگ میں اس جزیرے پر قبضہ کرنے کے بعد امریکیوں نے در حقیقت اس جزیرے کو کبھی چھوڑا ہی نہیں اور امریکہ اس جزیرے کو اپنی سلامتی اور مستقبل کے لیے اہم سمجھتا ہے۔

سنہ 1951 کے معاہدے نے اصل میں گرین لینڈ پر ڈنمارک کی خودمختاری قائم کی تاہم درحقیقت اس معاہدے کی مدد سے امریکہ وہ سب حاصل کرنے میں کامیاب ہوا کہ جو وہ چاہتا تھا۔

ڈاکٹر گیڈ کہ مطابق ’گرین لینڈ کے حکام امریکہ کے کردار کے بارے میں گذشتہ دو امریکی صدور کی انتظامیہ سے رابطے میں تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’وہ جانتے ہیں کہ امریکہ اس جزیرے سے کبھی نہیں جائے گا۔‘

ٹرمپ معاشی دباؤ بڑھا دیںGetty Imagesاگر ٹرمپ اپنی اقتصادی پالیسیوں پر عمل درآمد کرتے ہیں تو اس کے بہت سے ممالک پر وسیع اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ امریکہ کے نو منتخب صدر ٹرمپ کی اقتصادی بیان بازی شاید ڈنمارک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے کیونکہ امریکہ ڈنمارک اور یہاں تک کہ یورپی یونین کی اشیا پر محصولات میں نمایاں اضافہ کر رہا ہے جس کی وجہ سے ڈنمارک کو گرین لینڈ کے معاملے میں کچھ رعایتیں دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

پروفیسر جیکبسن کا کہنا ہے کہ ’ڈنمارک کی حکومت کو دیگر حالت کی وجہ سے اس جزیرے پر توجہ دینے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے تو ایسے میں یہ کہا جا سکتا ہے ڈنمارک کی اس جزیرے پر توجہ میں دیگر عوامل بھی کارفرما ہیں۔‘

ٹرمپ تمام امریکی درآمدات پر 10 فیصد کا براہ راست ٹیرف لگانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ دیگر چیزوں کے علاوہ اس سے یورپی ممالک کی ترقی میں بہت سی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ لہذا ڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک کی کچھ کمپنیاں اب امریکہ میں پیداواری مراکز قائم کرنے پر غور کر رہی ہیں۔

بین الاقوامی قانونی فرم ’پلزبری‘ کے بینجمن کوٹ نے ویب سائٹ ’مارکیٹ واچ‘ کو بتایا کہ ٹیرف میں اضافے کے ممکنہ اختیارات میں سنہ 1977 کے انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ (آئی ای ای پی اے) کو استعمال کرنا شامل ہے۔

یہ ممکنہ طور پر دوا سازی کی صنعت کو متاثر کر سکتا ہے جو ڈنمارک کی بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے۔ امریکہ زیادہ تر مصنوعات جیسے ہیئرنگ ایڈز اور انسولین ڈنمارک سے خریدتا ہے۔ اس کے علاوہ ذیابیطس کی دوا ’اوزیمپک‘ بھی ڈنمارک کی کمپنی ’نوو نورڈسک‘ تیار کرتی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے نتیجے میں دواؤں کی قیمتوں میں اضافہ امریکی عوام کو پسند نہیں آئے گا۔

گرین لینڈ میں امریکی دراندازیGetty Imagesامریکہ گرین لینڈ میں کئی طریقوں سے موجود ہے اور یہاں امریکی فوجیوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔

یہ بعید از قیاس معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ ایسا کرے گا لیکن ٹرمپ کا فوجی کارروائی سے انکار نہ کرنے کی وجہ سے یہ بھی ایک آپشن ہو سکتا ہے۔

بنیادی طور پر امریکہ کے لیے گرین لینڈ پر کنٹرول حاصل کرنا مشکل نہیں ہوگا کیونکہ گرین لینڈ میں اس کے پہلے ہی فوجی اڈے اور بڑی تعداد میں فوجی موجود ہیں۔

پروفیسر جیکبسن کا کہنا ہے کہ ’گرین لینڈ پر امریکہ کا پہلے سے ہی ڈی فیکٹو کنٹرول ہے۔ ٹرمپ کے بیانات ان معلومات پر مبنی معلوم ہوتے ہیں جن کا مطلب وہ سمجھ نہیں سکے۔‘

جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ گرین لینڈ میں امریکی فوجی کارروائی ایک بین الاقوامی مسئلے کو جنم دے گی۔

سوین کے مطابق ’اگر ٹرمپ گرین لینڈ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو نیٹو کے آرٹیکل 5 کے مطابق وہ نیٹو پر حملہ کریں گے۔ لیکن اگر کوئی نیٹو ملک نیٹو کے کسی رکن ملک پر حملہ کرتا ہے تو ’نیٹو‘ کا وجود باقی نہیں رہے گا۔‘

ڈاکٹر گیڈ کا کہنا ہے کہ ’ٹرمپ کی تقریر سے ایسا لگتا ہے جیسے چینی صدر شی جن پنگ تائیوان یا روسی صدر ولادیمیر پوٹن یوکرین کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ اس سرزمین کو حاصل کرنا ہمارے لیے درست ہے۔ اگر ہم واقعی ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں تو یہ مغربی ممالک کے پورے اتحاد کے لیے ایک بری علامت ہے۔‘

قیمتی معدنیات یا سٹریٹجک اہمیت: نومنتخب صدر ٹرمپ کا گرین لینڈ خریدنے کی خواہش کا اظہار، یہ جزیرہ امریکہ کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟امریکہ کا ’یو ٹرن‘: پہلے ڈنمارک کی سرزنش پھر تعریفتائیوان پر امریکہ اور چین کے درمیان ’چوتھا بڑا بحران‘ کیسے پیدا ہوا؟زیر سمندر پہاڑی سلسلہ جسے تین ملک فتح کرنا چاہتے ہیںڈنمارک کے نئے بادشاہ: ’پارٹی پرنس‘ جنھوں نے امریکی یونیورسٹی میں نام بدل کر داخلہ لیادنیا کے پہلے توانائی کے مصنوعی جزیرے کی تعمیر کی منظوری
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More