اجنبیوں سے بیوی کا ریپ کروانے والے شخص کی بیٹی: ’والد کے لیپ ٹاپ میں اپنی نازیبہ تصاویر دیکھیں تو میری زندگی ایک بار پھر بکھر گئی‘

بی بی سی اردو  |  Jan 12, 2025

BBC

انتباہ: اس کہانی میں موجود تفصیلات بعض قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں۔

یہ نومبر 2020 کے رات ساڑھے دس بجے کی بات ہے جب کیرولین ڈیرین کو اپنی والدہ جزیل پیلیکوٹ کی ایک فون کال موصول ہوئی اور جس نے ان کی زندگی تبدیل کر دی۔

’والدہ نے مجھے بتایا کہ ان پر آج انکشاف ہوا ہے کہ ان کے شوہر ڈومینیک پچھلے 10 سال سے انھیں نشہ آور دوا دے رہے تھے اور اس دوران مختلف مردوں کو ان کا ریپ کرنے کے لیے بلا رہے تھے۔ یہ سنتے ہی میری زندگی کا رخ بدل گیا۔‘

کیرولین نے اپنی ان تکلیف دہ یادوں کو بی بی سی ریڈیو فور کے پروگرام میں خصوصی انٹرویو کے دوران دہرایا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے یہ سن کر میں روئی، چلائی، یہاں تک کے ان کو خوب برا بھلا کہا۔ یہ میرے لیے کسی زلزلے یا سونامی سے کم نہیں تھا۔‘

ڈومینیک پیلیکوٹ کو ساڑھے تین سال تک چلنے والے اس تاریخی مقدمے کی سماعت کے بعد دسمبر 2024 میں 20 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اس کے علاوہ جزیل کی بے ہوشی میں ان کے شوہر نے جن 50 مردوں سے ان کا ریپ کروایا تھا، ان کو بھی سزائیں سنائی گئی ہیں۔

جزیل کی 46 سالہ بیٹی کیرولین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد کو ’جیل میں ہی مر جانا چاہیے۔‘

پہلی بار ڈومینیک سے پولیس نے اس وقت تفتیش کی جب ستمبر 2020 میں ایک سکیورٹی گارڈ نے انھیں خفیہ طریقے سے ایک شاپنگ سینٹر میں تین خواتین کے سکرٹ کے نیچے سے ویڈیو بناتے ہوئے دیکھا۔

اس کے بعد دوران تفتیش ریٹائرڈ اور عمر رسیدہ پیلیکوٹ کے لیپ ٹاپ اور فون سے اپنی بیوی جزیل کی بے ہوشی کے عالم میں فلمائی گئی ان کی ہزاروں ویڈیوز اور تصاویر ملیں جس میں انھیں اجنبی لوگ ریپ کر رہے تھے۔

اس مقدمے سے نہ صرف ریپ اور صنفی تشدد کے مسائل سامنے آئے بلکہ کیمیکل یا ادویات کے ذریعے کیے جانے والے جنسی حملوں کو بھی سامنے لایا گیا جس پر عام طور پر کم ہی بات ہوتی ہے۔

کیرولین ڈیرین نے اب اپنی زندگی کو جنسی جرائم کے خلاف وقف کر دیا ہے۔ عام طور پر یہ ایک کم رپورٹ ہونےوالا مسئلہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ زیادہ تر متاثرین کو یا تو یاد نہیں ہوتا یا وہ نشے کے باعث اس حوالے سے لاعلم ہوتے ہیں۔

Reutersجزیل نےاس مقدمے کو عوام اور میڈیا کے سامنے لانےکا فیصلہ کیا

جب جزیل کی فون کال کے بعد حالات کھل کر کیرولین کے سامنے آئے تو انھوں نے اپنے بھائیوں کو بھی اعتماد میں لیا جس کے بعد وہ اپنے بھائی فلورین اور ڈیوڈ کے ساتھ اپنے والدین کےگھر جنوبی فرانس چلی گئیں تاکہ ان کی والدہ کو حقیقت تسلیم کرنے میں مدد مل سکے۔

کیرولین کا کہنا ہے کہ ان کی والدہ کے شوہر 20 سے 30 سالوں کے عرصے میں ان کے ساتھ ایک جانور کا سا سلوک کر رہے تھے۔

کچھ ہی دن بعد کیرولین نے پولیس کو طلب کیا اور ان کی زندگی پھر سے بکھر گئی۔

انھیں اپنے والد کے لیپ ٹاپ پر ملنے والی دو تصاویر دکھائی گئیں۔ ان میں ایک بے ہوش عورت کو ایک بستر پر صرف ٹی شرٹ اورزیر جامہ میں لیٹے دکھایا گیا تھا۔

شروع میں وہ عورت کو پہچان نہیں سکیں۔ ’میں نے اپنے اندر لاتعلقی سی محسوس کی۔ شروع میں اپنے آپ کو پہچاننے میں مجھے مشکل ہوئی۔

’پھر پولیس افسر نے کہا کہ دیکھیں آپ کے گال پر وہی بھورا نشان ہے۔ یہ آپ ہی ہیں۔ میں نے وہ دونوں تصاویر مختلف انداز سے دیکھنا شروع کیں۔ میں اپنی بائیں کروٹ لیٹی ہوئی تھی، بالکل اپنی ماں کی طرح، جیسا کہ ان کی تمام تصاویر میں تھا۔‘

کیرولین کو یقین ہے کہ ان کے والد نے ان کے ساتھ بھی جنسی استحصال کیا تھا۔ یہ ایسی بات ہے جس کی ان کے والدنے ہمیشہ تردید کی ہے اور ان تصاویر کے لیے مختلف اور متضاد وضاحتیں پیش کی ہیں۔

بیوی کا ریپ کروانے کا مقدمہ، شوہر کو 20 برس قید کی سزا: ’کیس منظرِعام پر لانے پر کوئی پچھتاوا نہیں‘، جزیل پیلیکوٹاپنی بیوی کا اجنبیوں سے مبینہ ریپ کروانے والا شوہر: ’میری والدہ اس شخص کی دیکھ بھال کر رہی تھیں جس نے اُن کا ریپ کروایا‘بیوی کے ریپ کا مقدمہ، 50 ملزمان کی پیشی: ’ہم روزانہ سیکس کرتے تھے، میرے ساتھی کو اس کی ضرورت کیوں پڑی‘اجنبیوں سے اپنی بیوی کا مبینہ ریپ کروانے والا شوہر: ’تم تنہا مرو گے،‘ عدالت میں بیٹی کا ملزم والد سے تلخ مکالمہ’میں انھیں دوبارہ کبھی اپنا والد نہیں کہوں گی‘

انھوں نے کہا کہ ’مجھے معلوم ہے کہ انھوں نے مجھے نشہ دیا ہے شاید جنسی استحصال کے لیے۔ لیکن میرے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔‘

اپنی والدہ کے کیس کے برعکس کیرولین کے بارے میں جو کچھ بھی ان کے والد ڈومینیک پیلیکوٹ نے کیا ہو، اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔

’اور کتنے متاثرین کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ لیکن ان کی بات پر یقین نہیں کیا جاتا کیونکہ ان کے پاس ثبوت نہیں ہوتے۔ انھیں سنا نہیں جاتا نہ ہی انھیں کسی سے مدد ملتی ہے۔‘

اپنے والد کے جرائم سامنے آنے کے بعد کیرولین نے ایک کتاب لکھی جس میں ان کے خاندان کو پہنچنے والے صدمات کا ذکر ہے، کتاب کا نام ہے (I'll Never Call Him Dad Again)۔

یہ کتاب ڈرگز کے ذریعے جنسی استحصال کے مسئلے کا بھی بخوبی احاطہ کرتی ہے جس میں عام طور پر گھروں میں استعمال کی جانے والی دوائیں ہی کام میں لائی جاتی ہیں۔

’درد کش، نیند لانے والی یہ سب دوائیں ہمیں اندر سے ہی مل جاتی ہیں اور یہ ایسا کیمیکل سبمیشن (نشہ آور ادویات کے ذریعے جنسی استحصال) کے تقریباً نصف متاثرین کے ساتھ ہوتا ہے کہ ان کا مجرم ان کے قریب ہی ہوتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ جاننے کے بعد کہ انھیں 200 سے زیادہ بار مختلف لوگوں نے ریپ کا نشانہ بنایا، ان کی والدہ جزیل کو یہ یقین کرنے میں دشواری ہوئی کہ ان کے شوہر ان کی بیٹی کا جنسی استحصال کرنے میں بھی ملوث رہے ہوں گے۔‘

کیرولین نے کہا کہ ’ایک ماں کے لیے یہ سب کچھ ایک ساتھ قبول کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘

اس کے باوجود جب جزیل نےاس مقدمے کو عوام اور میڈیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا تاکہ جو کچھ ان کے شوہر اور درجنوں مردوں نے ان کے ساتھ کیا وہ دنیا کے سامنے لایا جا سکے تو اس وقت تک ماں اور بیٹی متفق تھیں۔

’میں جانتی تھی کہ ہم نے بہت کچھ برداشت کیا، لیکن ہمیں اس سے وقار اور ہمت کے ساتھ برداشت کر کے نکلنا ہو گا۔‘

اب کیرولین اس مشکل میں ہیں کہ وہ اس حقیقت کے ساتھ کیسے زندگی گزاریں کہ وہ ایک اذیت دینے والے شخص کی بیٹی ہیں۔ اس مشکل کو وہ ’ایک خوفناک بوجھ‘ کا نام دیتی ہیں۔

وہ اب اپنے بچپن کو اس آدمی کے ساتھ یاد کرنے سے قاصر ہیں جسے وہ اپنا باپ کہتی رہیں۔ ان کے مطابق صرف کبھی کبھار وہ عادتاً اس شخص کو اپنا والد کہہ کر پکارتی ہیں۔

’جب میں ماضی میں جھانکتی ہوں تو مجھے وہ باپ یاد نہیں آتا جسے میں سمجھتی تھی کہ وہ میرے سب کچھ ہیں۔ میں ان میں صرف اس مجرم کو دیکھتی ہوں وہ جنسی مجرم جو وہ اصل میں ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن میرے اندرڈومینیک پیلیکوٹ کا ڈی این اے ہے تاہم میں ان سے مکمل طور پر مختلف ہوں۔‘

کیرولین مزید کہتی ہیں کہ وہ نہیں جانتیں تھیں کہ ان کے والد ایک ’درندے‘ ہیں۔

’انھیں بخوبی علم تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور وہ بیمار نہیں ہیں۔ وہ ایک خطرناک شخص ہیں۔ ان کو رہا نہیں ہونا چاہیے، بالکل بھی نہیں۔‘

72 سالہ ڈومینک پیلیکوٹ کو ضمانت کا اہل ہونے میں کئی سال لگیں گے، لہٰذا یہ ممکن ہے کہ وہ دوبارہ کبھی اپنے خاندان کو نہ دیکھیں۔

دوسری جانب پیلیکوٹ کا خاندان خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کیرولین کے مطابق، جزیل مقدمے سے تھک چکی تھیں لیکن رفتہ رفتہ وہ ٹھیک ہو رہی ہیں۔ اب وہ پہلے سے بہتر ہیں۔‘

جہاں تک کیرولین کا تعلق ہے اب ان کی زندگی کا مقصد کیمیکل سبمیشن کے بارے میں شعور بیدار کرنا اور بچوں کو جنسی زیادتی کے بارے میں بہتر تعلیم دینا ہے۔

ان کو اپنے بھائی اور اپنے 10 سالہ بیٹے سے ہمت اور حوصلہ ملتا ہے جن کا ذکر کرتے ہوئے وہ نہ صرف مسکراتی ہیں بلکہ ان کی آواز میں بھی محبت و طمانیت ہوتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ نومبر 2020 کی سرد رات کے جن واقعات نے ان کی زندگی کو تہہ و بالا کر دیا تھا اب وہ اپنے مقصد اور لگن سے آگے بڑھنے والی عورت میں بدل گئی ہیں۔

اجنبیوں سے اپنی بیوی کا مبینہ ریپ کروانے والا شوہر: ’تم تنہا مرو گے،‘ عدالت میں بیٹی کا ملزم والد سے تلخ مکالمہاجنبیوں سے اپنی بیوی کا ریپ کروانے والا 71 سالہ شخص: وہ مقدمہ جس نے فرانس کو ہلا کر رکھ دیابیوی کے ریپ کا مقدمہ، 50 ملزمان کی پیشی: ’ہم روزانہ سیکس کرتے تھے، میرے ساتھی کو اس کی ضرورت کیوں پڑی‘بیوی کا ریپ کروانے کا مقدمہ، شوہر کو 20 برس قید کی سزا: ’کیس منظرِعام پر لانے پر کوئی پچھتاوا نہیں‘، جزیل پیلیکوٹ’میں ویڈیوز دیکھنے کے لیے تیار ہوں‘: وہ لمحہ جب جزیل چشمہ اُتار کر اپنے شوہر اور ریپ کے 50 ملزمان کے خلاف عدالت آئیں’وہ سیکس حادثہ تھا‘: ارب پتی تاجر کا بیٹا جو اپنی دوست کے ریپ اور قتل کیس میں 15 سال سے روپوش ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More