ٹوائلٹ میں بستر اور مہنگائی: ’تارکین وطن کی جنت‘ سمجھے جانے والے ملک میں امیگریشن کیسے وزیرِاعظم کے استعفے کا باعث بنی

بی بی سی اردو  |  Jan 08, 2025

Getty Images

امیگریشن مغربی ممالک میں تقسیم کا باعث بننے والا ایک مسئلہ رہا ہے تاہم کینیڈا کی جانب سے اسے زیادہ تر نظر انداز کیا جاتا رہا لیکن اب ایسا نہیں۔

کچھ افراد کے نزدیک مظاہروں اور مختلف پریشر گروپس کے دباؤ سمیت گھروں کی کمی اور بڑھتے کراؤں نے جسٹن ٹروڈو کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا لیکن کیا ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد اس حوالے سے مزید تقسیم کا باعث بن سکتی ہے؟

پہلی نظر میں آپ کو کینیڈا کے ضلع اونٹاریو کے شہر بریمپٹن کے ایک کمرے کی قیمت مناسب لگے گی۔ یہ سچ ہے کہ اس میں جگہ بہت کم ہے لیکن دارالحکومت ٹورونٹو کے برعکس اس نواحی علاقے میں اگر 550 کینیڈین ڈالر ماہانہ کرایہ مانگا جا رہا ہے جہاں ایک بیڈروم فلیٹ کا اوسط ماہانہ کرایہ 2261 کینیڈین ڈالرز ہے تو یہ یقیناً ایک مناسب آفر ہے۔

تاہم اگر اسے مزید غور سے دیکھیں تو ایک چھوٹے باتھ روم کو مزید سلیپنگ کوارٹرز میں تبدیل کیا گیا۔ میٹرس کو سنک کے ساتھ جوڑنا پڑتا ہے، ٹوائلٹ بھی قریب ہی موجود ہوتا ہے۔

اس کمرے کا اشتہار، جسے فیس بک مارکیٹ پلیس پر پوسٹ کیا گیا، پر سینکڑوں افراد نے تبصرے کیے ہیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ریڈ اٹ پر ایک صارف نے لکھا ’مایوس کن‘۔ ایک اور صارف نے لکھا: ’20 برس کے نوجوانوں یہ تم اپنے مستقبل کی طرف دیکھ رہے ہو۔‘

تاہم اس طرح کے اشتہار بھی موجود ہیں۔ بریمپٹن میں ایک کرائے کے کمرے کی تصویر میں بیڈ کو سیڑھیوں کے ساتھ بظاہر کپڑے دھونے کی جگہ پر رکھا گیا ہے۔ ضلع اونٹاریو میں سکاربورو میں ایک ڈبل بیڈ کچن کے ایک کونے پر پڑا دیکھا جا سکتا ہے۔

جہاں کینیڈا میں جگہ بہت زیادہ ہے وہیں یہاں زیادہ گھر موجود نہیں اور پراپرٹی کنسلٹنسی اربنیشن کے مطابق گذشتہ تین سال کے دوران ملک بھر میں کرایوں میں 20 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔

BBC

حکومتی واچ ڈاگ کی دسمبر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 24 لاکھ کینیڈین خاندان ایسے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں جو یا تو بہت چھوٹے ہیں، انھیں مرمت کی سخت ضرورت ہے یا ان کے کرائے بہت زیادہ ہیں۔

رہائش کے یہ مسائل ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب کینیڈا میں رہنے والوں کو مہنگائی نے پریشان کیا ہوا ہے اور ان مسائل کے باعث ملک میں جس مسئلہ کے بارے میں زیادہ بات ہونے لگی ہے وہ امیگریشن ہے۔

یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کینیڈا میں رہنے والوں کی اکثریت جو ایک عرصے تک ملک میں آنے والے نئے افراد کو خوش آمدید کہہ رہی تھی، اب یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ ان کے شہر ان کی آمد کو کیسے برداشت کریں گے۔

مغربی ممالک میں ایک عرصے سے سیاست امیگریشن جیسے تقسیم کرنے والے مسائل پر مباحثوں کے گرد گھومتی رہی ہے لیکن کینیڈا نے اس مسئلے کو حالیہ عرصے سے پہلے نظرانداز کیا تھا، شاید اپنے جغرافیے کے باعث تاہم اب اس حوالے سے رویوں میں تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔

ڈیٹا اور ریسرچ فرم اینویرانکس کے ایک سروے کے مطابق سنہ 2022 میں 27 فیصد کینیڈین سمجھتے تھے کہ ملک میں بہت زیادہ غیر ملکی تارکین وطن آ رہے ہیں۔ سنہ 2024 میں یہ نمبر بڑھ کر 58 فیصد تک جا پہنچا۔

اس حوالے مظاہرے بھی ہونا شروع ہوئے ہیں جن میں اوٹاوا، وینکوور اور کیلگری سمیت ملک کے دیگر حصوں میں امیگریشن کی مخالفت کی گئی۔

سافٹ ویئر انجینیئر پیٹر کریٹزر جو سنہ 2024 میں بننے والے مظاہرین کے گروپ کاسٹ آف لونگ کینیڈا کے بانی بھی ہیں کہتے ہیں کہ ’یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس کے بارے میں کوئی بھی بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا لیکن اب اس حوالے سے برف تیزی سے پگھلی ہے۔‘

Getty Images

بریمپٹن میں باتھ روم کرائے پر دینے جیسی کہانیوں نے اس حوالے سے بحث کو مزید بڑھاوا دیا۔ پیٹر کہتے ہیں کہ ’لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب ہماری آنکھوں دیکھی کہانیاں ہیں لیکن یہ شواہد آپ کو بار بار دیکھتے کو ملتے ہیں۔ آپ یہ کہانیاں بار بار دیکھتے ہیں۔‘

اینویرانکس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھ نیومین کہتے ہیں کہ ’لوگوں کو اس بارے میں خدشات ہیں کہ امیگریشن کے نظام کو کس طرح سنبھالا جا رہا ہے اور ہمارے خیال میں یہ پہلا موقع ہے جب لوگ واقعی نظام کی مینجمنٹ کے بارے میں سوچتے ہیں۔‘

ایک عرصے تک کینیڈین سیاست کے ’گولڈن بوائے‘ سمجھے جانے والے جسٹن ٹروڈو کو الیکشن کے سال میں استعفیٰ دینا پڑا، ایک ایسے موقع پر جب امیگریشن کے اعدادوشمار کے حوالے سے عدم اطمینان پایا جاتا ہے۔

ان کے استعفے سے پہلے ان کے حمایتیوں کی تعداد مختلف سرویز کے مطابق صرف 22 فیصد رہ گئی تھی، جو ان کے دورِ حکومت کے پہلے سال میں 65 فیصد تھی۔

حالانکہ امیگریشن ان اعداد و شمار میں کمی اور ان کے استعفے کی بنیادی وجہ نہیں، ان کے مطابق انھیں ’اندرونی لڑائیاں لڑنی پڑیں‘ لیکن ان پر مہنگائی اور ہاؤسنگ کے حوالے سے بڑھتے اضطراب کے حوالے سے بہت دیر سے ردِ عمل دینے کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور یہ دونوں ہی مسائل کچھ حد تک امیگریشن کی وجہ سے ہیں۔

اونٹاریو کے شہر کنگسٹن میں کوئینز یونیورسٹی میں پولیٹیکل سٹڈیز کے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ پروفیسر جوناتھن روز کہتے ہیں کہ ’امیگریشن ان کے استعفے کی فوری وجہ نہ بھی ہو لیکن یہ اس فیصلہ پر اثر انداز ضرور ہوا۔‘

’ٹروڈو کی انتظامیہ میں کینڈین حکومت نے عالمی وبا کے بعد ملک میں آبادی میں اضافے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ غیر ملکی طلبہ، عارضی ورکرز، ہنر مند افراد کی تعداد میں اضافے سے ملک کی معیشت چل پڑے گی۔‘

ملک کی آبادی جو 10 سال پہلے تک تین کروڑ 50 لاکھ تھی، اب چار کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ امیگریشن اس اضافے کی اہم ترین وجہ ہے۔ کینیڈا کے ادارہ برائے شماریات کے مطابق 2024 میں آبادی میں اضافے کا 90 فیصد حصہ امیگریشن کی وجہ سے تھا۔

مجموعی اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ پناہ گزینوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ سنہ 2013 میں کینیڈا میں پناہ کے لیے درخواست دینے والوں کی تعداد 10365 تھی تاہم 2023 تک یہ تعداد 143770 ہو چکی تھی۔

پروفیسر روز کے مطابق ووٹرز کی امیگریشن سے متعلق حکومتی پالیسیوں پر عدم اطمینان ٹروڈو کے مستعفی ہونے کی ’وجہ سے زیادہ علامت‘ تھی۔

’اس سے ان کی رائے عامہ سے متعلق صورتحال بھانپنے میں ناکامی کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔‘

تاحال یہ واضح نہیں کہ ان کی اپنی لبرل پارٹی میں سے کون اب ان کی جگہ لے گا لیکن آنے والے انتخابات سے قبل اس وقت تک رائے عامہ کے سروے کنزرویٹو جماعت کی حمایت میں دکھائی دیتے ہیں جن کے سربراہ پیئر پوئلوورے کا ماننا ہے کہ ملک میں نئے آنے والوں کی تعداد یہاں تعمیر کیے گئے گھروں سے کم ہونی چاہیے۔

پروفیسر روز کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی نومبر میں صدارتی انتخاب میں کامیابی کے بعد سے پوئلوورے ’امیگریشن کے بارے میں بہت زیادہ بات کر رہے ہیں۔ اس حد تک کہ اب یہ ووٹرز کے ذہنوں پر ثبت ہو چکی ہے۔‘

یقیناً ٹرمپ کا دوسرا دورِ حکومت کینیڈا میں اس مسئلے پر جلتی پر تیل کا کام کرے گا، نیا وزیرِ اعظم جو بھی ہو۔

ٹرمپ کی کامیابی کی ایک وجہ یہ وعدہ تھا کہ وہ ایسے تارکین وطن کو ملک بدر کریں گے جن کے پاس ضروری دستاویزات موجود نہیں اور انھوں نے فتح کے بعد سے کہا ہے کہ وہ ایک قومی ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے فوج کو بھی اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔

انھوں نے کینیڈین مصنوعات پر 25 فیصد ٹیرف لگانے کے منصوبے کا اعلان بھی کیا، اگر کینیڈا کی جانب سے سرحد پر سکیورٹی کو سخت نہیں کیا جاتا۔

ڈرونز کیمرے اور بارڈر کی حفاظت

کینیڈا اور امریکہ دنیا کی طویل ترین سرحد شیئر کرتے ہیں جن پر فوجیں تعینات نہیں۔ لگ بھگ نو ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر زیادہ تر جنگلات موجود ہیں۔

امریکہ کی جنوبی سرحدوں کے برعکس اس سرحد پر دیواریں نہیں بنائی گئیں۔ یہ ایک طویل عرصے سے کینیڈا اور امریکہ کی قربت کی نشانی سمجھا جاتا رہا ہے۔

ٹرمپ جب سنہ 2017 میں پہلی مرتبہ صدر بنے تو کینیڈا میں پناہ لینے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے کو ملا اور ہزاروں افراد پیدل ہی یہ سفر کرنے پر مجبور ہوئے۔

کینیڈا کی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2016 میں 24 ہزار پناہ کی درخواستوں سے یہ اعداد و شمار 2018 میں 56 ہزار تک جا پہنچے۔ تقریباً تمام افراد ریاست نیویارک سے کینیڈا کے صوبے کیوبیک میں داخل ہوئے۔

سنہ 2023 میں کینیڈا اور امریکہ نے ایک ایسے سرحدی معاہدے پر اتفاق کیا تھا جس کے تحت پناہ گزینوں دونوں ممالک کے درمیان آمدورفت کو محدود کیا گیا تھا۔

اس معاہدے کے تحت سرحد پار کرنے کے 14 روز کے اندر حکام کو رپورٹ کرنے پر کوئی بھی شخص اس ملک میں پناہ کے لیے درخواست دے سکے گا جہاں وہ پہلے داخل ہوا۔ اس معاہدے کا مقصد اس بات پر زور دینا بھی تھا کہ دونوں ممالک پناہ گزینوں کے لیے محفوظ تصور کیے جاتے ہیں۔

Reuters

اس مرتبہ کینیڈا کی نیشنل پولیس فورس دی رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس (آر سی ایم پی) کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری سے پہلے ہی مزید افراد کے کینیڈا میں داخل ہونے کی کوششوں کے پیشِ نظر اقدامات کر لیے گئے ہیں۔

اس حوالے سے نئی ٹیکنالوجی جس میں ڈرونز، نائٹ ویژن گلاسز اور جنگلات میں چھپے نگرانی کرنے والے کیمرے بھی شامل ہیں۔

آر سی ایم پی کے ترجمان چارلس پوئرر نے نومبر میں خبردار کیا تھا کہ ’سب سے بری صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ لوگ سرحد کے ہر علاقے سے داخل ہوں۔ مثال کے طور پر اگر پہلے 100 لوگ سرحد میں داخل ہو رہے ہیں تو پھر یہ مشکل ہو جائے گا کیونکہ ہمارے افسران کو گرفتاریوں کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔‘

اب حکومت کی جانب سے مزید ایک اعشاریہ تین ارب کینیڈین ڈالر اس سرحدی سکیورٹی کے منصوبے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

Getty Images’ہمیں اپنا مستقبل واپس چاہیے‘

ہر کوئی ہاؤسنگ کے بحران کی وجہ امیگریشن میں حالیہ اضافے کو قرار نہیں دے رہا۔ ٹورونٹو کی میئر اولیویا چاؤ کہتی ہیں کہ ’موجود صورتحال تک پہنچنے میں ہمیں 30 سال لگے‘ کیونکہ سیاستدان سستے گھر بنانے میں ناکام رہے۔

ملک میں نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ نیومین کے مطابق ’کینیڈا کی 50 فیصد آبادی پہلی یا دوسری نسل کے تارکین وطن پر مبنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو وہ کسی دوسرے ملک سے یہاں پہنچے یا ان کے والدین میں سے دونوں یا کوئی ایک کسی دوسرے ملک سے آیا۔ ٹورونٹو اور وینکوور میں یہ تعداد 80 فیصد سے زیادہ ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کینیڈا کو ایک ایسے ملک سے بہت مختلف ملک بناتا ہے جہاں آبادی کا بڑا حصہ مقامی افراد پر مبنی ہو۔‘

وہ ایک ایسے سروے کی نگرانی کرتے رہے ہیں جس میں نئے آنے والوں کے حوالے سے رویوں کا معائنہ کیا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کینیڈین افراد سے پوچھیں کہ کینیڈا کے بارے میں سب سے اہم اور مختلف بات کیا ہے یا اس ملک کو کون سی بات منفرد بناتی ہے؟ تو ان کا پہلا جواب ہو گا کہ یہاں مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں یا یہاں کی آبادی متنوع ہے۔‘

جسٹن ٹروڈو کا استعفیٰ: کینیڈا کی سیاست میں اب آگے کیا ہو گا؟کینیڈا کے امیگریشن ویزے محدود کرنے پر پاکستانی فکرمند: ’میں تو بہت پُرامید تھا لیکن اب سمجھ نہیں آ رہی کیا کروں‘کینیڈا کا ’سٹارٹ اپ ویزا پروگرام‘ کیا ہے اور اس کے لیے کن شرائط کا خیال رکھنا ضروری ہے؟کینیڈا کو ’آبادی کے جال‘ کا سامنا: امیگریشن کے خواہشمندوں پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟

تاہم ان کا کہنا ہے کہ عوامی رائے میں تبدیلی اور امیگریشن کے بارے میں خدشات میں اضافہ ’ڈرامائی‘ ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اب نہ صرف بڑے پیمانے پر لوگوں کو خدشات لاحق ہیں بلکہ بہتر انداز میں بحث بھی ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے زیادہ سوالات بھی پوچھے جا رہے ہیں کہ نظام کیسے کام کر رہا ہے؟ اور یہ کام کیوں نہیں کر رہا۔‘

ٹورونٹو میں ایک مظاہرے کے دوران مجمعے میں لوگوں کی جانب سے اٹھائے گئے پلے کارڈز پر یہ عبارتیں درج تھی کہ ’ہمیں ہمارا مستقبل واپس چاہیے‘ اور ’بڑے پیمانے پر امیگریشن کو ختم کرو۔‘

کراٹزر جن کے گروپ نے ایسے مظاہروں میں حصہ لیا، کہتے ہیں کہ ’ہمیں امیگریشن پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں امیگریشن کو معطل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کی تنخواہیں کراؤں سے زیادہ ہو سکیں۔‘

نئے آنے والوں کے حوالے سے الزامات سوشل میڈیا پر بھی پھیلائے جا رہے ہیں۔ گذشتہ موسمِ سرما میں نتاشہ وائٹ جو اپنے آپ کو اونٹاریو میں واساگا بیچ کی رہائشی بتاتی ہیں، نے ٹک ٹاک پر دعویٰ کیا کہ کچھ نئے آنے والے ساحل پر رفعِ حاجت کے لیے گڑھے کھود رہے ہیں۔

اس پوسٹ کو لاکھوں لوگوں نے دیکھا اور غیر ملکیوں کے خلاف نفرت دیکھنے کو ملی اور اکثر افراد نے کہا کہ نئے آنے والوں کو ’گھر واپس‘ چلے جانا چاہیے۔

ٹینٹ سٹی اور بے گھر افراد کے لیے پناہ گاہیں

ہم نے ایسے افراد کے بھی انٹرویوز کیے جو کینیڈا میں پناہ لینے کے خواہاں افراد کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سرحدی سکیورٹی میں اضافے کے حوالے سے خدشات کے باعث پناہ لینے والے زیادہ خوفزدہ محسوس کر رہے ہیں۔

مانٹریال میں ایک پناہ گزین مرکز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عبداللہ داؤد کا ماننا ہے کہ وہ جن پناہ لینے والوں کے ساتھ کام کرتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ نومبر کے بعد تارکین وطن کے اعداد و شمار کے حوالے سے ساری توجہ ان پر ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ یقیناً زیادہ مضطرب ہیں۔ میرے خیال میں جب وہ یہاں آتے ہیں تو یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں خوش آمدید کہا جائے گا؟ کیا میں صحیح جگہ پر ہوں بھی یا نہیں؟‘

جو افراد کینیڈا میں بطور پناہ گزین رہنا چاہتے ہیں انھیں سرکاری امیگریشن سروسز تک رسائی اس وقت تک نہیں ملتی جب تک یہ فیصلہ نہ ہو جائے کہ انھیں واقعی پناہ چاہیے یا نہیں۔ اس مرحلے میں ایک وقت تھا کہ صرف دو ہفتے لگتے تھے لیکن اب اس میں تین سال تک بھی لگ سکتے ہیں۔

Getty Images

ٹورنٹو میں ٹینٹوں کے شہر اور فوڈ بینک بن چکے ہیں تاکہ نئے آنے والوں کو خوش آمدید کہا جا سکے۔ شہر میں بے گھر افراد کی پناہ گاہوں میں عموماً جگہ نہیں ہوتی۔ گذشتہ موسمِ سرما میں پناہ گزین افراد کی موت سڑک پر سونے کی وجہ سے ٹھنڈ کے باعث ہو گئی تھی۔

ٹورونٹو کی میئر اولیویا چاؤ جو خود بھی ایک تارکین وطن ہیں اور ہانگ کانگ سے 13 سال کی عمر میں کینیڈا منتقل ہوئی تھیں، کا کہنا ہے کہ ’لوگ یہ دیکھ رہے ہیں کہ دو سے تین نوکریاں کرنے کے باوجود ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ کرایہ دیے سکیں، یا اپنے بچوں کو کھانا دے سکیں۔‘

’میں سمجھ سکتی ہوں کہ ایسی تکلیف دہ زندگی گزارنا کتنا مشکل ہے جس میں کچھ بھی آپ کی استطاعت میں نہ ہو اور پھر یہ خوف بھی کہ آپ کو کسی بھی وقت نکال دیا جائے گا لیکن اس کا الزام امیگریشن کے نظام پر عائد کرنا ناانصافی ہو گی۔‘

ٹروڈو: ’ہم توازن برقرار رکھنے میں ناکام رہے‘

مایوسیوں میں اضافے کے پیشِ نظر ٹروڈو نے اکتوبر میں ایک بڑی تبدیلی کا اعلان کیا۔ انھوں نے تین سال میں امیگریشن کے اہداف میں 20 فیصد کمی کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ ’کورونا کی عالمی وبا کے بعد ہم ورکرز کی ضروریات کو پورا کرنے اور آبادی میں اضافے کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ وہ تمام مقامی حکومتوں کو اس حوالے سے انتظامات کرنے کا وقت دینا چاہتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو رہنے میں مدد کی جا سکے تاہم ان کے مستعفی ہونے کے بعد سوال یہ ہے کہ کیا یہ کافی ہے؟ اور کیا ٹرمپ کی صدارت اور سرحد کے اس طرف بڑھتے ہوئے تارکین وطن مخالف جذبات کینیڈا میں بھی پھیلنے کا خطرہ ہے؟

عبداللہ کا اس حوالے سے مختلف نظریہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے میرے خیال میں ٹرمپ کی جیت کا کینیڈا کی سیاست پر اثر پڑا۔ میرے خیال میں بہت سارے سیاست دان اسے خوف پھیلانے کے طریقے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔‘

تاہم دیگر ماہرین کا ماننا ہے کہ اس سے زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔

اولیویا چو کہتی ہیں کہ ’کینیڈین اس سے کہیں زیادہ بہتر ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ پناہ گزینوں کی پے در پے لہروں نے ٹورنٹو اور کینیڈا بنانے میں مدد کی۔‘

اگلے انتخابات سے قبل آبادی میں اضافے کے بارے میں بحث کرنے والے سیاست دان اس حقیقت سے آگاہ ہوں گے کہ کینیڈا کی نصف آبادی خود پہلی اور دوسری نسل کے تارکین وطن ہیں۔

پروفیسر جوناتھن روز کہتے ہیں کہ ’اگر کنزرویٹو اگلے الیکشن جیت جاتے ہیں تو ہم امیگریشن میں کمی کی توقع کر سکتے ہیں‘ لیکن انھوں نے مزید کہا کہ کنزرویٹو جماعت کے سربراہ کو اس حوالے سے ’محتاط انداز اپنانا پڑے گا۔‘

پروفیسر روز کہتے ہیں کہ ’چونکہ ٹورنٹو اور وینکوور میں تارکین وطن کی بھاری تعداد کسی بھی انتخابی فتح کے لیے اہم ہوں گے اس لیے کوئی امیدوار یہ نہیں چاہے گا کہ اسے امیگریشن مخالف کے طور پر دیکھا جائے اور شاید وہ معاشی اور ہاؤسنگ پالیسیوں میں تبدیلی کے حوالے سے زیادہ بات کرے۔‘

اور وہاں بڑی تعداد میں ایسے کینیڈین بھی موجود ہیں جن میں کاروباری رہنما اور ماہرین تعلیم بھی شامل ہیں، جن کا ماننا ہے کہ ملک کو کینیڈا کی گرتی ہوئی شرح پیدائش کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مضبوط گروتھ پالیسی کو جاری رکھنا چاہیے۔

سنچری انیشی ایٹو کی لیزا لالینڈ نے مزید کہا کہ ’مجھے کینیڈا کے لوگوں سے بہت زیادہ امیدیں ہیں۔‘ وہ ایسی پالیسیوں کی وکالت کرتی ہیں جن کے مطابق سنہ 2100 تک کینیڈا کی آبادی 10 کروڑ تک بڑھ جائے گی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرا خیال ہے کہ ہم استطاعت اور اخراجات کے حوالے سے زیادہ پریشان ہیں، امیگریشن کے حوالے سے نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری ثقافت کے لیے بہت ضروری ہیں۔‘

جسٹن ٹروڈو کا استعفیٰ: کینیڈا کی سیاست میں اب آگے کیا ہو گا؟18 سال کی شادی کے بعد کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور اہلیہ سوفی کا علیحدگی کا اعلانخالصتان تحریک: جب ایئر انڈیا کا طیارہ 329 مسافروں سمیت فضا میں تباہ کر دیا گیاکینیڈا کے امیگریشن ویزے محدود کرنے پر پاکستانی فکرمند: ’میں تو بہت پُرامید تھا لیکن اب سمجھ نہیں آ رہی کیا کروں‘کینیڈا کو ’آبادی کے جال‘ کا سامنا: امیگریشن کے خواہشمندوں پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟کینیڈا کا ’سٹارٹ اپ ویزا پروگرام‘ کیا ہے اور اس کے لیے کن شرائط کا خیال رکھنا ضروری ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More