Getty Images
شام کے دارالحکومت دمشق سے چھ میل شمال مشرق میں واقع دوما شہر کے ایک اہم باغی کمانڈر احمد طحہٰ کا کہنا ہے کہ ’روس نے شام میں ناقابل بیان جرم کیے ہیں۔‘
انھوں نے یہ بات اس وقت کہی جب وہ ملبے کا ڈھیر بن چکی بیشتر رہائشی عمارتوں سے بھری ایک سنسان سڑک پر ہمیں شہر کا دورہ کرا رہے تھے۔
کبھی یہ ایک خوشحال جگہ تھی اور دوما کو دمشق کے لیے ’بریڈ باسکٹ‘ پکارا جاتا تھا۔ لیکن شام کی 14 سالہ خانہ جنگی کے دوران شدید لڑائی کے بعد اب اس کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔
تمام رہائشی علاقے اور سکول بھی ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ زیادہ تر تباہی یہاں روسی فضائی حملوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔
جنگ سے پہلے طحہٰ ایک عام شہری تھے اور وہ ایک ٹھیکیدار اور تاجر کے طور پر کام کرتے تھے۔ لیکن سنہ 2011 میں شامی حکومت کی جانب سے دوما میں ہونے والے پرامن احتجاج کو بے دردی سے دبائے جانے کے بعد انھوں نے ہتھیار اٹھا لیے اور بعد میں وہ شہر میں مسلح حزب اختلاف کے رہنماؤں میں سے ایک بن کر ابھرے۔
جب اسلامی اتحاد کے تحت کام کرنے والی اسلامی فوج نے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا تو طحہٰ نے اس کی قیادت کو بھی قبول کرنے سے انکار کر دیا اور وہ حکومت اور مسلح گروپ دونوں کے مخالف رہے۔
BBCکہا جاتا ہے کہ احمد طحہ پر چار بار قاتلانہ حملے ہوئے جبکہ ان کے بیٹے کی جان چلی گئی
سنہ 2018 میں شامی فوج کے پانچ سال تک جاری رہنے والے ظالمانہ محاصرے کے بعد باغی بالآخر ادلب کے لیے نقل مکانی کے محفوظ راستے کے بدلے ہتھیار ڈالنے پر راضی ہوگئے تھے۔ اس معاہدے پر عمل در آمد کے لیے روسی ملٹری پولیس کو دوما میں تعینات کیا گیا تھا۔ اس وقت تک شہر کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ تباہ ہو چکا تھا اور رہائشیوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا تھا۔
چھ سال بعد ایک بار پھر سے طحہٰ دوما میں اپنے گھر واپس آئے ہیں۔ اسلام پسند گروپ ہیت تحریر الشام اور اس کے رہنما احمد الشارع کی قیادت میں مسلح حزب اختلاف کی جانب سے دسمبر میں کی گئی پیش قدمی سے ان کی واپسی ممکن ہوئی۔
جب وہ ہمیں اپنی خستہ حال مرسڈیز میں شہر کا دورہ کرا رہے تھے تو یہ واضح نظر آ رہا تھا کہ دوما میں زندگی کی رمق واپس آنا شروع ہو گئی ہے۔
جامع مسجد کے اطراف کی گلیوں میں پھل اور سبزی منڈی کی دکانوں اور سٹالز پر خرید و فروخت کرنے والوں کی چہل پہل تھی۔
جب ہم خریداروں کے ہجوم سے گزرتے تھے تو مقامی لوگ ہمیں کسی چیز کے بارے میں پوچھنے یا احمد طحہٰ کو سلام کرنے کے لیے روکتے رہے۔
طحہٰ نے شام سے باقی تمام روسی افواج کی روانگی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم روس، حکومت اور اس کے دیگر اتحادیوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود اپنے وطن واپس آ گئے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے لیے روس ایک دشمن ہے۔‘
BBCشام میں زندگی معمول پر آتی نظر آتی ہے
دمشق کی سڑکوں پر ہم کئی ایسے شامی باشندوں سے ملے جو روس کے بارے میں طحہٰ جیسے ہی خیالات رکھتے ہیں۔
بشار الاسد کے زوال کے دس دن بعد اب تک شہر میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔ ہر طرف تین ستاروں والا پرچم لہرا رہا ہے جو سنہ 1930 کی دہائی میں فرانس سے آزادی کی جدوجہد کی علامت تھا۔
اب قدیم اموی مسجد میں جمعہ کی نماز کے لیے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ یہ مذہبی اہمیت کا حامل دن اسد حکومت کے خاتمے کا ہفتہ وار جشن بن گیا ہے۔ اس وسیع کھلے اور آٹھویں صدی کی طرز پر بنے چوک میں لوگوں کا ہجوم ہے دمشق کے مرد اور عورتیں اور ملک بھر سے آنے والے دوسرے شامی اور غیر ملکی آزادانہ طور پر گھل مل رہے ہیں۔
وسطی شام کے شہر حماۃ سے تعلق رکھنے والے ابو ہشام سے ہماری ملاقات ہوئی۔ وہ جشن میں شرکت کے لیے اپنے دوستوں کے ساتھ دارالحکومت دمشق آئے تھے۔
انھوں نے ہمیں بتایا: ’روسی اس ملک میں آئے اور انھوں نے ظالموں، جابروں اور حملہ آوروں کی مدد کی۔‘
حتیٰ کہ شام کی مسیحی برادریوں کے رہنما بھی کہتے ہیں کہ انھوں نے ماسکو کی بہت کم مدد دیکھی حالانکہ روس نے ان کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا۔
شامی باغیوں کی ’ناقابل یقین‘ پیش قدمی جس نے بشار الاسد سمیت روس کو بھی مشکل میں ڈال دیادمشق کی جانب باغیوں کی پیش قدمی کے دوران بشار الاسد ملک سے کیسے نکلے؟بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ: شام میں اب کون کس علاقے کو کنٹرول کر رہا ہے؟بشار الاسد اور ان کی فیملی شام سے ماسکو پہنچ چکے ہیں جہاں انھیں پناہ دی جائے گی: روسی سرکاری میڈیاBBCمسیحی سرپرست اگنیٹیس افرام نے بی بی سی سے بات کی
ہم نے شامی آرتھوڈوکس چرچ کے سرپرست اگنیٹیس افرام دوم سے بات چیت کی۔ انھوں نے دمشق کے قدیم عیسائی حصے باب توما کے قلب میں واقع سینٹ جارج کیتھیڈرل سے متصل ایک کمپلیکس میں ہمارا استقبال کیا۔ کشادہ اور سادہ نو کلاسیکی عمارت کے اوپر ایک صلیب بنی ہے جس کے ساتھ بیس ریلیف ہے جس میں سینٹ جارج کو ایک عفریت کو مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
شام کے مسیحی سرپرست نے کہا: 'ہمیں روس یا بیرونی دنیا میں کسی دوسرے فریق سے تحفظ نہیں ملا۔' انھوں نے مزید کہا: 'روسی یہاں اپنے مفادات اور مقاصد کے حصول کے لیے آئے تھے۔'
باب توما کے آس پاس ہر جگہ کرسمس کی سجاوٹ نظر آتی ہے لیکن یہاں تیاریاں زیادہ تر یورپی شہروں کے مقابلے کم نظر آتی ہیں۔ کیتھولک سکاؤٹ پھولوں کی ٹائیاں پہنے عطیات جمع کر رہے ہیں۔
سامر اپنی مشہور روٹی بیچ رہا تھے جو اس علاقے میں ہونے والی تقریب (دعائیہ) میں بھی استعمال ہوتی ہے جبکہ گرجا گھروں کو کرسمس کے درختوں سے سجایا گیا ہے۔
لا کیپیٹل میں صرف مسیحی گاہک ہی نہیں ہوتے۔ یہاں آپ پردہ نشین نوجوان خواتین کو ایک آئینے کے سامنے 'ہیپی برتھ ڈے' کے روشن نشان کے سامنے سیلفی لیتے ہوئے بھی دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن تہوار کے اس روشن ماحول میں گہرے زخم چھپے ہیں۔
BBCشہر کی زیادہ تر عمارتین کھنڈر میں تبدیل ہو چکی ہیں اور اس کا ذمہ دار روس کو سمجھا جاتا ہے
سنہ 2011 میں خانہ جنگی کے آغاز میں شام میں مسیحیوں کی تعداد 15 لاکھ بتائی گئی تھی۔ اب مسیحی تنظیموں کا تخمینہ ہے کہ ان کی تعداد صرف 300,000 بچی ہے جو ملک میں ان کی تعداد میں واضح کمی کو ظاہر کرتی ہے۔
یہ روسی مداخلت کے باوجود سامنے آیا، جس کا مقصد شام میں اقلیتوں کی حفاظت کرنا تھا۔ اس کی وجہ سے باب توما میں بہت سے لوگ فریب اور دھوکہ دہی کا احساس رکھتے ہیں۔
ایک شخص نے کہا: 'جب (روسی) پہلی بار آئے تو انھوں نے کہا کہ 'ہم یہاں آپ کی مدد کے لیے آئے ہیں'۔ لیکن انھوں نے ہماری مدد کرنے کے بجائے شام کی تباہی میں اضافہ کیا۔'
تو روس کے لیے اس سب کا کیا مطلب ہے؟ اور شام سے متصل بحیرہ روم کے ساحل پر طرطوس کے بحری اڈے اور حمیمیم ایئر بیس کا مستقبل کیا ہے جسے ماسکو نے شام سے49 سال کی لیز پر لیا ہے؟
دوما سے تعلق رکھنے والے شامی باغی رہنما احمد طحہ نے ہمیں بتایا کہروس کے تئیں تلخی محسوس کرنے کے باوجود وہ یہ چاہتے ہیں کہ شام کے نئے عبوری رہنما ماسکو کے ساتھ ملک کے مستقبل کے تعلقات کے بارے میں حکمت عملی کے بارے میں غور و فکر کریں۔
BBCکرسمس کے موقعے پر کیتھولک رضاکار عوام میں مٹھائیاں تقسیم کر رہے تھے
18 دسمبر کو بی بی سی کے ساتھ اپنے پہلے انٹرویو میں شام کے نئے رہنما احمد الشارع نے روس کے ساتھ تعلقات کو 'سٹریٹجک' قرار دیا۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اس جملے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا: 'یہ بات قابل غور ہے کہ شام کی نئی حکومت کے سربراہ احمد الشارع نے حال ہی میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے روس کے ساتھ شام کے تعلقات کو سٹریٹجک قرار دیا۔ ہم اس پر ان سے متفق ہیں۔ ہمارا شامی دوستوں کے ساتھ بہت کچھ مشترک ہے۔'
شام کے عسکری امور کے تجزیہ کار ترکی الحسن شامی فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر جنرل ہیں اور روس کے ساتھ تعلقات پر ایک طویل عرصے سے تبصرہ کرتے آ رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ روس اور شام کے درمیان عملی تعلقات کے حق میں ہیں۔
دمشق کے رہائشی علاقے میں ان کے اپارٹمنٹ کی دیواروں پر کتابوں کی الماریوں میں کتابیں سجی ہوئی ہیں جس سے یہ واضح ہے کہ ان کا نقطہ نظر تاریخ سے متاثر ہے نہ کہ موجودہ خبروں کے ایجنڈے سے۔
BBCشام کی نوجوان نسل دیر پا امن کی متمنی ہے
ترکی الحسن نے ہمیں وضاحت کی کہ ماسکو کے ساتھ شامی فوجی تعاون اسد حکومت سے پہلے سے ہیں۔ انھوں نے کہا 'اس (تعاون) کے قیام کے بعد سے ہی شامی فوج کو مشرقی بلاک کے ہتھیاروں سے لیس کیا گیا ہے، خاص طور پر سوویت یونین کی جانب سے اور اب اسے روس کے ذریعے مسلح کیا جا رہا ہے۔'
یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ آج شامی فوج کے زیر استعمال تقریباً تمام آلات اور ہتھیاروں کے نظام سوویت یونین یا روس کے تیار کردہ ہیں۔
1956 اور 1991 کے درمیان شام کو ماسکو سے تقریباً 5,000 ٹینک، 1,200 لڑاکا طیارے، 70 بحری جہاز اور بہت سے دوسرے جنگی نظام اور ہتھیار ملے اور روسی اندازوں کے مطابق ان کی کل مالیت 26 بلین ڈالر سے زیادہ تھی۔
سوویت یونین کے ٹوٹنے کے وقت نصف سے زیادہ رقم ادا نہیں کی گئی تھی لیکن سنہ 2005 میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے اس قرض کا 73 فیصد معاف کر دیا اور روس نے دمشق کو ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھی۔
BBCعسکری امور کے ماہر ترکی الحسن
ترکی الحسن نے کہا کہ نئے شام میں فوج کی تعمیر نو کے لیے یا تو مکمل طور پر دوبارہ ہتھیار بنانے یا پھر روسی سپلائیز پر مسلسل انحصار کی ضرورت ہو گی اور اس کے لیے دونوں ممالک کے درمیان کسی نہ کسی قسم کے تعلقات کی ضرورت پڑے گی۔
شام میں روس کے دو فوجی اڈے ہیں جو افریقہ بھر میں ماسکو کی مسلسل موجودگی کی کلید ہیں۔ اگرچہ شامیوں کو امید ہے کہ کشیدگی ختم ہو جائے گی لیکن کچھ کا خیال ہے کہ روس کی مسلسل موجودگی ان کے ملک میں امن برقرار رکھنے میں مدد دے سکتی ہے۔
مسیحی سرپرست پیٹریارک اگنیٹیئس افرام دوئم نے بی بی سی کو بتایا: 'ہم اپنی ریاست اور اپنی فوج کی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے یہاں روسیوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔'
شام کے عسکری ماہر کا کہنا تھا کہ روس نئی حکومت کو کیا پیشکش کر سکتا ہے اور نئی حکومت سیاسی اور فوجی تعاون کے حوالے سے کیا کر سکتی ہے، ان سوالات کے جواب دونوں ممالک کے درمیان مستقبل کے تعلقات کا تعین کریں گے۔
بشار الاسد اور ان کی فیملی شام سے ماسکو پہنچ چکے ہیں جہاں انھیں پناہ دی جائے گی: روسی سرکاری میڈیابیرونی مفادات، تیل کے کنویں اور آمرانہ حکومت: شام میں خانہ جنگی کا خاتمہ کیوں مشکل ہے؟روسی اڈہ، ڈرون حملے اور فرار: بشار الاسد شام سے ماسکو کیسے پہنچےشامی باغیوں کی ’ناقابل یقین‘ پیش قدمی جس نے بشار الاسد سمیت روس کو بھی مشکل میں ڈال دیادمشق کی جانب باغیوں کی پیش قدمی کے دوران بشار الاسد ملک سے کیسے نکلے؟بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ: شام میں اب کون کس علاقے کو کنٹرول کر رہا ہے؟