Getty Imagesان مگرمچھوں کو آج بھی تحفظ حاصل ہے لیکن ان کی نسل کو اب خاتمے کا خطرہ نہیں
آسٹریلوی شہر ڈارون کے ساحل پر صبح صادق کے وقت سورج کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں اور مگر مچھوں کو پکڑنے کے ذمہ دار حکومتی اہلکار کیلی ایون ہاتھ میں ایک پھندا پکڑے اپنا توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ ایک ایسا مقام ہے جہاں آپ کی چھوٹی سی غلطی آپ کو موت کے منھ میں لے جا سکتی ہے اور یہ یہ کوئی آسان موت نہیں بلکہ اس کے بڑے بڑے جبڑے ہیں اور دانت ایسے کہ پلک جھپکتے ہی انسان کے دو ٹکڑے ہو جائیں۔
اس بھیانک موت کے سوداگر کا نام مگرمچھ ہے۔
ڈارون ہاربر پر گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں اور کشتی کا انجن بھی بند کر دیا گیا، جس نے ایک عجیب سے خاموشی کو جنم دیا لیکن یہاں ایک آواز اب بھی آ رہی ہے اور یہ آواز پانی میں ہلچل کی ہے۔
کیلی اس وقت ایک غصیلے مگرمچھ کے جبڑوں میں پھندا ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ مگرمچھوں کے سامنے آپ ایک فیصد خطرہ بھی مول نہیں لے سکتے۔‘
ہم اس وقت آسٹریلیا کی ناردن ٹیریٹری (این ٹی)، جہاں ایک اندازے کے مطابق کھارے پانی کے ایک لاکھ جنگلی مگرمچھ ہیں، میں موجود ہیں۔ اس علاقے سے زیادہ مگرمچھ دنیا کے کسی اور خطے میں نہیں پائے جاتے۔
ناردن ٹیریٹری کا دارالحکومت ڈارون ہے جو ایک چھوٹا سا شہر ہے لیکن اس کے اطراف میں متعدد ساحل اور سمندری جنگلات موجود ہیں۔ یہاں آ کر سب سے پہلی چیز جو آپ کو سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے: جہاں پانی ہو گا وہیں مگرمچھ بھی ہوں گے۔
کھارے پانی کے مگرمچھ جنھیں مقامی لوگ ’سالٹیز‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں تقریباً 50 برس پہلے بالکل ناپید ہوگئے تھے۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد ان مگرمچھوں کی کھال کے کاروبار کے سبب ان کی تعداد صرف تین ہزار رہ گئی تھی لیکن پھر حکومت نے سنہ 1971 میں ان مگرمچھوں کے شکار پر پابندی عائد کر دی اور ان کی تعداد ایک بار پھر تیزی سے بڑھنے لگی۔
ان مگرمچھوں کو آج بھی تحفظ حاصل ہے لیکن ان کی نسل کو اب خاتمے کا خطرہ نہیں۔
ان مگرمچھوں کی تعداد اتنی تیزی سے بڑھی ہے کہ اب آسٹریلوی حکومت نئی پریشانی کا شکار ہو گئی ہے: اتنے سارے مگرمچھوں کی موجودگی میں مقامی افراد کی حفاظت کیسے ممکن بنائی جائے؟
مگرمچھوں پر تحقیق کرنے والے پروفیسر گراہم ویب کہتے ہیں کہ ’سب سے بُری بات یہ ہوگی کہ مقامی افراد ان مگرمچھوں کے خلاف ہو جائیں۔ پھر کوئی سیاستدان آ کر کہے گا کہ ہم ان مگرمچھوں کا مسئلہ حل کر دیں گے۔‘
شکاریوں کے ساتھ زندگی گزارنا کیسا؟
ناردن ٹیریٹری کا گرم موسم اور ساحلی علاقہ اس جگہ کو ان خون آشام مگرمچھوں کے لیے ایک بہترین پناہ گاہ بناتا ہے۔ ان مگرمچھوں کو زندہ رہنے کے لیے گرم موسم درکار ہوتا ہے۔
کھارے پانی کے مگرمچھ ناردرن کوئینزلینڈ، ویسٹرن آسٹریلیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں بھی پائے جاتے ہیں۔
مگرمچھوں کی زیادہ تر اقسام بےضرر ہوتی ہیں لیکن کھارے پانی کے مگرمچھ اپنی جگہ پر کسی اور کا وجود برداشت نہیں کرتے اور انتہائی جارحانہ مزاج رکھتے ہیں۔
آسٹریلیا میں مگرمچھوں سے جُڑے جان لیوا واقعات کم ہی ہوتے ہیں۔ گذشتہ برس ایک 12 سالہ لڑکی ان مگرمچھوں کا شکار بن گئی تھی اور یہ سنہ 2018 کے بعد ایسا پہلا واقعہ تھا۔
مگر مچھ کے حملے میں بچ جانے والا شخص:’اس کی آنکھ کا اوپری حصہ میرے دانتوں میں آ گیا اور اس نے مجھے چھوڑ دیا‘ 13 فٹ لمبے مگرمچھ کے منھ میں خاتون کی لاش: ’ایسے تو کسی کو بھی نہیں مرنا چاہیے‘مگرمچھ کا جبڑا کھول کر اپنا سر نکالنے والا شخص: ’میں سمجھا کہ شارک نے حملہ کیا ہے‘کوسٹاریکا کے چڑیا گھر میں مگرمچھ نے خود کو ہی حاملہ کر لیا
یہ سال کا وہ حصہ ہے جب کیلی ایون اور ان کے ساتھی سب سے زیادہ مصروف ہوتے ہیں کیونکہ اس موسم میں مادہ مگر مچھ انڈے دیتی ہیں اور تب مگرمچھ بھی کافی متحرک رہتے ہیں۔
کیلی کی ٹیم ان دنوں متعدد مرتبہ پانی میں اُترتی ہے تاکہ ڈارون شہر کے اطراف میں مگرمچھوں پر نظر رکھی جا سکے۔
یہ علاقہ مچھلی کے شکاریوں اور تیراکی کا شوق رکھنے والوں کی توجہ کا ہمیشہ سے مرکز رہا ہے۔ اس علاقے میں جن مگرمچھوں کو پکڑا جاتا ہے انھیں اکثر ہی موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے کیونکہ اگر انھیں کسی اور علاقے میں چھوڑا جائے تو وہ یہاں واپس آ جاتے ہیں۔
کیلی پہلے پولیس میں ملازمت کیا کرتے تھے لیکن اب وہ گذشتہ دو برس سے مگرمچھوں کو پکڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارا کام لوگوں کی حفاظت کرنا ہے۔‘
’ہم ہر مگرمچھ کو نہیں پکڑیں گے لیکن ہم جتنے بھی پکڑ پائیں گے اس سے لوگوں اور مگرمچھوں کا آمنا سامنا ہونے میں کمی آئے گی۔‘
عوام کو محفوظ رکھنے کے لیے یہاں حکومت تعلیم پر بھی توجہ دے رہی ہے۔
ناردرن ٹیریٹری کی حکومت نے سکولوں میں ایک نیا پروگرام متعارف کروایا ہے جس کا مقصد لوگوں کو یہ سکھانا ہے کہ مگرمچھوں کی پناہ گاہوں کے قریب ذمہ دارانہ برتاؤ کیسے کیا جاتا ہے۔
BBCکیلی کی ٹیم ان دنوں متعدد مرتبہ پانی میں اُترتی ہے تاکہ ڈارون شہر کے اطراف میں مگرمچھوں پر نظر رکھی جا سکے
یہ تعلیمی پروگرام اتنا کامیاب ہوا کہ اب فلوریڈا اور فلپائن کی حکومتیں بھی ایسے ہی پروگرام شروع کرنے پر غور کر رہی ہیں تاکہ لوگ مگرمچھوں کی موجودگی میں بھی باحفاظت زندگیاں گزار سکیں۔
نتاشہ ہوفمین بھی ناردرن ٹیریٹری میں مگرمچھوں کو پکڑنے کا کام کرتی ہیں اور وہ سکولوں میں تعلیمی پروگرام بھی چلا رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم مگرمچھوں کے ملک میں رہ رہے ہیں تو اس لیے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہم پانی میں کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں اور ہمیں کسی خطرے کی صورتحال میں کیسا ردِ عمل دینا چاہیے۔‘
’اگر آپ کسی کشتی میں بیٹھے مچھلی پکڑ رہے ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ مگرمچھ بھی یہاں موجود ہیں۔ یہ حملہ کرنے والے شکاری ہیں، وہ تاک میں بیٹھے رہتے ہیں اور انتظار کرتے ہیں۔ جیسے ہی انھیں کوئی موقع ملتا ہے وہ اپنے کھانے کی طرف دوڑتے ہیں۔‘
گذشتہ برس حکومت نے ایک 10 سالہ پروگرام کی منظوری دی تھی تاکہ مگرمچھوں کی تعداد کو متوازن رکھا جا سکے۔ اس پروگرام کے تحت سرکاری اہلکاروں کو سالانہ 300 سے 1200 مگرمچھوں کو مارنے کی اجازت دی گئی تھی۔
جب بھی اس علاقے میں مگرمچھوں کے سبب کوئی موت ہوتی ہے تو ایک نئی بحث جنم لے لیتی ہے کہ کیا ان جانوروں کو انسانی آبادی کے اتنا قریب ہونا چاہیے؟
BBCعوام کو محفوظ رکھنے کے لیے یہاں حکومت تعلیم پر بھی توجہ دے رہی ہے
گذشتہ برس 12 سالہ لڑکی کی موت کے بعد ناردرن ٹیرٹیری کے اس وقت کے سربراہ نے کہا تھا کہ وہ اس علاقے میں مگرمچھوں کی تعداد انسانوں کی تعداد تک پہنچنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
ابھی اس علاقے میں انسانوں کی کُل آبادی تقریباً ڈھائی لاکھ ہے۔
کوئینزلینڈ میں بھی مگرمچھوں کی بڑی تعداد موجود ہے لیکن یہ اتنی نہیں جتنی ناردرن ٹیریٹری میں ہے لیکن پھر بھی وہاں مگرمچھوں کے حملے میں زیادہ لوگ ہلاک ہوتے ہیں کیونکہ وہاں سیاحوں کی تعداد زیادہ ہے اور اسی سبب انتخابات کے وقت بحث و مباحثوں میں مگرمچھوں کا ذکر بھی آتا ہے۔
مگرمچھ یہاں کاروبار کا حصہ کیسے بنے؟
مگرمچھوں کی یہاں موجودگی تنازعات کا باعث ضرور ہے لیکن یہی خون خوار جانور سیاحوں کی توجہ کا بھی مرکز ہیں۔ فیشن کمپنیاں بھی ان جانوروں میں خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں کیونکہ وہ ان کی کھال سے چمڑا تیار کرتی ہیں۔
یہاں آنے والے سیاح دریائے ایڈیلیڈ بھی جا سکتے ہیں جہاں مگرمچھوں کو باقاعدہ ہوا میں اچھلتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں کھارے پانی کے مگرمچھوں کی طرف گوشت پھینکا جاتا ہے اور وہ اُچھل اُچھل کر تماشائیوں کے سامنے اپنے کھانے کا انتظام کر رہے ہوتے ہیں۔
یہاں اس تماشے کے منتظم ایلکس ووکی ولیمز نے مجھے مذاق میں کہا کہ ’مجھے آپ کو ویسے تو یہ بتانا ہے کہ کشتی میں اپنی لائف جیکٹ پہن لیں لیکن یہاں ایک بات ایسی بھی ہے جو مجھے آپ کو نہیں بتانی چاہیے اور یہ کہ اس لائف جیکٹ کا یہاں کوئی فائدہ نہیں۔‘
ولیمز بچپن سے ہی مگرمچھوں میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس خون خوار جانور کے ساتھ مل کر بھی روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان مگرمچھوں کے سبب ’گذشتہ دس برس میں سیاحوں کی تعداد بے پناہ بڑھی۔‘
جب مگرمچھوں کے شکار پر پابندی عائد کی گئی تھی اسی وقت اس جانور کی نشوونما پر بھی خصوصی توجہ دی گئی تھی جس کے سبب یہاں معاشی ترقی دیکھنے میں آئی تھی۔
ایک اندازے کے مطابق ناردرن ٹیریٹری میں قائم متعدد فارمز میں بھی تقریباً ڈھائی لاکھ مگرمچھ موجود ہیں۔
Getty Imagesسیاح دریائے ایڈیلیڈ بھی جا سکتے ہیں جہاں مگرمچھوں کو باقاعدہ ہوا میں اچھلتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے
لوئی ویٹون اور ایغمیز جیسے بڑے فیشن برانڈز بِرکن 35 ہینڈبیگ پانچ لاکھ ڈالر تک میں بھی فروخت کرتے ہیں اور انھوں نے بھی مگرمچھوں کی فارمنگ میں خطیر سرمایہ لگایا ہوا ہے۔
مِک برنز مگرمچھ کی فارمنگ کے شعبے سے منسلک ہیں اور وہ بڑی بڑی فیشن کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’لوگوں میں مگرمچھوں کے لیے برداشت پیدا ہو اسی لیے یہاں کاروباری مواقع فوراً پیدا کیے گئے لیکن ہمیں اس کاروبار کا حصہ بننے کے لیے لائسنس کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
مِک کا دفتر ڈارون کے کاروباری علاقے میں واقع ہے۔ ان کے دفتر کے فرش پر ایک بڑے سے مگرمچھ کی کھال بچھی ہوئی تھی اور ان کے کانفرنس روم کی دیوار پر بھی ایک ایسی ہی کھال سجی ہوئی تھی۔
مِک ڈارون کے مشرق میں واقع ایک فارمنگ سینٹر سے بھی منسلک ہیں جہاں وہ حکومتی اہلکاروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اور مگرمچھوں کے انڈے جمع کرتے ہیں تاکہ انھیں بڑا کر کے ان کی کھال بیچی جا سکے۔
Aboriginal Swamp Rangers Aboriginal Corporationاٹو بلمانیا کیمپیون ایک فارمنگ سینٹر کے مالک ہیں اور مِک کے پارٹنر بھی ہیں
اٹو بلمانیا کیمپیون ایک فارمنگ سینٹر کے مالک ہیں اور مِک کے پارٹنر بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میرے والد، تمام آباؤ اجداد مگرمچھ پکڑا کرتے تھے اور ان کی کھال کے بدلے چائے کی پتی، آٹا اور چینی لے لیتے تھے لیکن اس وقت اس کاروبار میں پیسہ نہیں تھے۔‘
’اب ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے اپنے لوگ ان مگرمچھوں کی دیکھ بھال کیسے کرتے ہیں۔‘
ڈارون میں مقیم ہر شخص کے پاس مگرمچھوں سے متعلق کوئی کہانی ضرور ہوتی ہے۔
پروفیسر ویب کہتے ہیں کہ ’اگر آپ ڈارون کے نزدیک واقع دریائے ایڈیلیڈ میں تیراکی کرنے جاتے ہیں تو 100 فیصد امکانات ہیں کہ آپ مارے جا سکتے ہیں۔‘
’یہاں بس یہ سوال ہے کہ آپ کی موت پانچ منٹ میں واقع ہوتی ہے یا 10 منٹ میں۔ میرا نہیں خیال کہ آپ وہاں 15 منٹ بھی زندہ رہ سکتے ہیں، آپ کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا جائے گا۔‘
اس وقت وہ اپنے پاؤں پر موجود دانتوں کے نشان بھی دکھا رہے تھے کیونکہ تقریباً 40 برس پہلے ان کا سامنا ایک مادہ مگرمچھ سے ہوا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ یہاں زندگی مگرمچھوں کی موجودگی میں ایسے ہی جاری رہے گی۔
’ہم نے وہ کر دکھایا، جو صرف چند ہی لوگ کر سکتے ہیں۔ ہم نے ایک خون خوار جانور کو ایسے سنبھالا کہ لوگ بھی انھیں برداشت کر لیتے ہیں۔‘
’آپ سڈنی، لندن یا نیو یارک کے لوگوں کو ایسے خون خوار جانور کے ساتھ زندگی گزارنے پر راضی کرنے کی کوشش کر کے دیکھ لیں۔ وہ راضی نہیں ہوں گے۔‘
مگر مچھ کے حملے میں بچ جانے والا شخص:’اس کی آنکھ کا اوپری حصہ میرے دانتوں میں آ گیا اور اس نے مجھے چھوڑ دیا‘ 13 فٹ لمبے مگرمچھ کے منھ میں خاتون کی لاش: ’ایسے تو کسی کو بھی نہیں مرنا چاہیے‘مگرمچھ کا جبڑا کھول کر اپنا سر نکالنے والا شخص: ’میں سمجھا کہ شارک نے حملہ کیا ہے‘کوسٹاریکا کے چڑیا گھر میں مگرمچھ نے خود کو ہی حاملہ کر لیاوہ گھڑی جس نے سمندر میں پھنسے شخص کی جان بچائی: ’شارک مچھلی نے مجھے سونگھ کر چھوڑ دیا‘