قاسم سلیمانی: مزاحمت کے ایرانی اتحاد کے معمار جن کی ہلاکت نے ’اسرائیل کے آتشیں گھیراؤ‘ کو ہلا کر رکھ دیا

بی بی سی اردو  |  Jan 03, 2025

Getty Images

پانچ سال قبل تین جنوری کو ٹرمپ ہی کی صدارت کے دوران قاسم سلیمانی کو امریکی فوج نے بغداد میں ہلاک کر دیا تھا۔ قاسم سلیمانی ایران کی قدس فورس کے کمانڈر تھے جو پاسداران انقلاب کی وہ شاخ ہے جو غیر ملکی سرزمین پر کاروائیاں کرتی ہے۔ قاسم سلیمانی خطے میں ایرانی اثرورسوخ اور عسکری حکمت عملی کی بنیاد رکھنے والوں میں شامل تھے۔

تین جنوری 2020 کو امریکی ڈرون سے ان کو نشانہ بنائے جانے سے تین ماہ قبل قاسم سلیمانی نے پاسداران انقلاب کے کمانڈرز سے ایک خفیہ خطاب میں مزاحمت کے اتحاد میں وسعت کی بات کی تھی ’جو معیاری بھی ہو۔‘

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے قاسم سلیمانی اپنی موت کی توقع رکھتے تھے اور قدس فورس کی سربراہی کی دو دہائیوں پر ایک رپورٹ پیش کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اس خطاب میں کہا تھا کہ ’پاسداران انقلاب نے معیار اور مقدار کے حساب سے مزاحمت تیار کی ہے، جنوبی لبنان میں دو ہزار سکوائر کلومیٹر کے علاقے سے پانچ لاکھ سکوائر کلومیٹر تک وسعت دی ہے۔‘

قاسم سلیمانی نے کہا تھا کہ ’مزاحمت کے بیچ زمینی رابطہ قائم ہوا، یعنی ایران کو عراق، عراق کو شام، اور شام کو لبنان سے جوڑ دیا گیا۔ آج آپ تہران سے اپنی گاڑی میں روانہ ہو کر بیروت کے جنوبی مضافات تک پہنچ سکتے ہیں۔‘

مزاحمت کے اس اتحاد کو قاسم سلیمانی کی اہم کامیابی کے طور پر دیکھا گیا لیکن گزشتہ ایک سال میں اس اتحاد کو شدید دھچکہ پہنچا ہے۔

وہ خیال جو مشرق وسطی کو بدل سکتا تھا

خطے میں ایرانی اثرورسوخ میں وسعت 1980 کے اوائل میں شروع ہوئی جب تہران نے لبنان میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف حزب اللہ کے قیام میں مدد فراہم کی۔

بعد ازاں خطے میں عدم استحکام کی وجہ سے امریکہ نے 2003 میں عراق پر حملہ کیا اور 2011 میں عرب دنیا میں عدم استحکام کے بعد دولت اسلامیہ جیسے انتہا پسند گروہ سامنے آئے تو ایران کو اپنا اثرورسوخ بڑھانے کا موقع مل گیا۔

BBCقاسم سلیمانی نے کہا تھا کہ ’آج آپ تہران سے اپنی گاڑی میں روانہ ہو کر بیروت کے جنوبی مضافات تک پہنچ سکتے ہیں‘

شام میں پاسداران انقلاب کو بھیجنا، اور عراق سمیت لبنان میں عسکری گروہوں کی وجہ سے ایران کی سرحد سے لبنان تک ایک زمینی اور علاقائی رابطہ قائم ہو گیا جو اسرائیل کی سرحد تک پہنچتا تھا۔

ڈینیئل سوبلمین یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ 2003 میں عراق پر امریکی حملے سے قبل ایسا علاقائی اتحاد ممکن نہیں تھا۔ ان کے مطابق ’عراق جنگ نے ایران کو اس قابل بنایا کہ وہ نکتوں کو جوڑ سکے، عراق، شام اور وہاں سے لبنان تک راستہ بنا سکے۔‘

’یہ بہت اہم تھا کیوں کہ لبنان میں حزب اللہ خطے میں ایران کا سب سے اہم اتحادی تھا۔‘

دوسری جانب یمن میں خانہ جنگی کی وجہ سے متعدد شہر ان باغیوں کے قبضے میں چلے گئے جو ایران کے قریب تھے۔

’اسرائیل کا آتشیں گھیراؤ‘

حالیہ برسوں کے دوران مزاحمت کا اتحاد شیعہ اور چند سنی گروہوں کے درمیان تحاد کی علامت بھی بن گیا، جیسا کہ حماس اور اسلامی جہاد، جس کا مقصد مشرق وسطی میں مغربی اور اسرائیلی اثرورسوخ کو روکنا تھا۔

یہ اتحاد جس میں حزب اللہ، عراقی کے عسکری گروہ، یمن کے حوثی باغی، شام میں بشار الاسد کی حکومت شامل تھے ایران کے ہاتھ میں ایک طاقتور ہتھیار بن گیا۔ اس اتحاد کی غیر موجودگی میں ممکن ہے کہ بشار الاسد کی حکومت بہت پہلے ہی گر جاتی۔

یوں اس اتحاد نے اسرائیل کے گرد ’آتشیں گھیراؤ‘ قائم کر لیا۔ ادھر امریکہ کی عراق اور افغانستان میں جنگوں نے تہران کی پوزیشن اور مزاحمت کے اتحاد کو مذید مضبوط کیا۔

ٹرمپ کی پہلی صدارت کے دوران امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کا کہنا ہے کہ ’ایران نے کامیابی سے اتحاد کو وسعت دیتے ہوئے اپنی عسکری طاقت بھی بڑھائی۔‘ ان کے مطابق ’ایران نے مزاحمت کے اتحاد کو قائم کرتے ہوئے، جسے قاسم سلیمانی اسرائیل کے گرد رنگ آف فائر کی حکمت عملی کا نام دیتے تھے، بہت سنجیدہ کام تھا۔‘

’انھوں نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جس کا آغاز لبنان میں حزب اللہ سے ہوا۔ ایران کا جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام بھی دیکھیں تو انھوں نے کافی اہم کامیابیاں حاصل کیں۔‘

اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا سراغ کیسے لگایا اور انھیں کیسے نشانہ بنایا گیا؟اسرائیل اور ایران میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟شارٹ رینج پروجیکٹائل اور سات کلوگرام کا وارہیڈ: ’چوتھی منزل پر پہنچے تو اسماعیل ہنیہ کے کمرے کی دیواریں اور چھت گر چکی تھی‘ایرانی اثرورسوخ کا زوال

پانچ سال قبل ٹرمپ نے قاسم سلیمانی کے قتل کا حکم دیا اور یوں ایرانی مزاحمت کے اتحاد کے زوال کی بنیاد ڈل گئی۔ اب جب ٹرمپ ایک بار پھر وائٹ ہاؤس میں لوٹ رہے ہیں تو ایران دو دہائیوں میں خطے میں سب سے کمزور حالت میں ہے۔

ٹرمپ نے اپنے گزشتہ صدارتی دور میں ایران پر کافی دباؤ ڈالا جس میں سخت پابندیوں کی بحالی سمیت جوہری معاہدے سے دستبرداری بھی شامل تھی۔ گزشتہ سات سال میں ان پابندیوں نے ایران پر معاشی دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔ قاسم سلیمانی کی موت اور اس دباؤ کی وجہ سے ہی ایران کا کردار کمزور ہوا۔

تاہم سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد اور زیادہ مسائل پیدا ہوئے۔ حماس کے رہنماوں کی ہلاکت اور غزہ میں حماس کی عسکری طاقت میں کمی کے ساتھ ساتھ بیروت میں حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ سمیت متعدد کمانڈرز کی ہلاکت نے اسرائیل کے خلاف ایرانی صلاحیتوں کو چوٹ پہنچائی ہے۔

ڈاکٹر ڈینیئل سوبلمین کے مطابق ’حزب اللہ کی عسکری مشینری کو چوٹ پہنچنے سے، جو ایران کا سب سے طاقتور بازو تھا، خطے میں طویل المدتی اعتبار سے اسرائیل کا پلڑا بھاری ہو گیا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’بہت سال تک حزب اللہ نے خود کو مزاحمت کے اتحاد کے سب سے طاقتور رکن کے طور پر قائم کر لیا تھا۔ اب ہم ایک ایسی صورت حال دیکھ رہے ہیں جس میں اس اتحاد کے باقی رہنے کی بحث ہو رہی ہے جو حیران کن ہے۔‘

ان کے مطابق ’مزاحمت کے اتحاد نے طاقت کا پلڑا ایران کے حق میں کر دیا تھا لیکن اب صورت حال یکسر بدل چکی ہے۔‘

دوسری جانب شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے، جسے ’مزاحمت کے خیمے کا اہم ستون‘ قرار دیا جاتا تھا، نے اس ایرانی اتحاد کو ناقابل یقین چوٹ پہنچائی ہے۔ جان بولٹن کہتے ہیں کہ ’بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ، جس کی کسی کو توقع نہیں تھی، ایران کے لیے بہت بڑی چوٹ ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔‘

ان کے مطابق ’حزب اللہ کو بھی اس سے نقصان ہوا کیوں کہ اب میزائل، اسلحہ اور دیگر سامان، جو ایران سے پہنچتا تھا، نہیں پہنچ سکے گا۔ تو حزب اللہ، جو اسرائیل کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا کر رہی ہے، اب رسد کے مسائل کا بھی شکار ہے۔‘

مزاحمت کے اتحاد کا مستقبلGetty Imagesوہ مقام جہاں اسرائیلی حملے میں حسن نصر اللہ کو ہلاک کیا گیا

ایرانی اتحاد کے بہت سے رہنما نہیں رہے اور زمینی رابطے بھی ٹوٹ چکے ہیں۔ ایسے میں ایران کو مشکل صورت حال کا سامنا ہے۔

عراق میں چند عسکری گروہوں کے علاوہ اس وقت یمنی حوثی باغی ہی خطے میں باقی بچے ہیں لیکن وہ بھی امریکہ اور اسرائیل کے حملوں کی زد میں ہیں۔

ایران کی جانب سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور لاکھوں افراد کا خون بہنے کے باوجود خطے میں ایک زمانے میں طاقتور سمجھا جانے والا اتحاد اب غیر معمولی مشکلات کی زد میں ہے۔

ٹرمپ کی واپسی سے ایسا لگتا ہے کہ اگر ایران اور امریکہ کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوا تو شاید وائٹ ہاؤس اپنی توجہ چین اور عراق کی جانب کر دے گا تاکہ ایران کو تیل سے حاصل ہونے والا منافع بھی نہ مل سکے۔

مشرق وسطی کی صورت حال پر ایران کے رہبر اعلی آیت علی خامنہ ای نے دسمبر میں کہا تھا کہ ’مزاحمت پر جتنا دباؤ ڈلے گا، یہ اتنا پرعزم ہو گا۔‘

انھوں نے کہا تھا کہ ’مزاحمت کا اتحاد پہلے سے زیادہ پھیلے گا۔‘ ان کا بیان اس بات کا عندیہ ہے کہ ایران اس اتحاد کو ازسرنو بحال کرنے اور اپنے کھوئے ہوئے رابطے دوبارہ قائم کرنے میں سنجیدہ ہے۔

اسرائیلی فوج کے سابق انٹیلیجنس افسر ابراہیم لیون کے مطابق ’مزاحمت کے اتحاد میں بدلے کا عزم عروج پر ہے۔‘ ان کے مطابق ’شام کھو دینے کے باوجود ایران رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا، شاید موجودہ رہنما سے رابطہ قائم کر کے، شام کی زمین کو استعمال کرنے کی اجازت حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔‘

ڈاکٹر سوبلمین کا ماننا ہے کہ مشرق وسطی میں حالیہ صورت حال سیاسی جدت کے لیے اہم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’شاید اسرائیل اور فلسطین کا تنازع حل کرنے کا ایک موقع ہے۔‘

’سیاست دانوں کو چاہیے اس وقت کو استعمال کریں، جنگ کے نتائج کا جائزہ لیں اور خطے میں بہتر مستقبل کے لیے متبادل راستوں پر غور کریں۔‘

ایرانیوں کے ہیرو، امریکہ اور اسرائیل کے لیے ولن: جنرل قاسم سلیمانی کون تھے؟اسرائیل نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کا سراغ کیسے لگایا اور انھیں کیسے نشانہ بنایا گیا؟اسرائیل اور ایران میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟’400 سیکنڈ میں تل ابیب‘: عالمی پابندیوں کے باوجود ایران نے ’اسرائیل تک پہنچنے والے‘ ہائپرسونک میزائل کیسے بنائے؟اسرائیلی وفد کا دوحہ میں رات ’طیارے میں گزارنے کا خیال‘ اور وہ فون کال جس نے ایران کا ’متوقع حملہ‘ رکوا دیاشارٹ رینج پروجیکٹائل اور سات کلوگرام کا وارہیڈ: ’چوتھی منزل پر پہنچے تو اسماعیل ہنیہ کے کمرے کی دیواریں اور چھت گر چکی تھی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More